ادویت ۔ (سنسکرت:अद्वैत वेदान्त) یعنی وحدت وجود۔ یہ خاص قسم کا تصور بہت ہی قدیم ہے۔ اگرچہ اس کی آخری شکل میں یہ زیادہ تر شنکر آچاریہ کا مرہون منت ہے۔[1][2][3] نظری پہلو کے لحاظ سے اس کی اہم ترین خصوصیات یہ ہیں:

  1. اساسی اور آخری حقیقت کے طور پر نرگن برہم کا تصور۔
  2. نتیجہ کے طور پر مایا کے نظریے میں اعتقاد۔
  3. جیو اور برہم کا بالکل ایک اور یکساں ہونا
  4. نجات کا تصور جو برہم میں جیو کے جذب ہو جانے پر مشتمل ہے اور عملی پہلو کے لحاظ سے اس میں مکمل ترک کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس مفہوم میں کہ گیان اور صرف گیان ہی نجات کا ذریعہ ہے۔

تفصیل ترمیم

اس نظریہ کا قدیم ترین موجود اور محفوظ باضابطہ پیش کش گوڑپاد کی "کاریکا" سے دستیاب ہوا ہے جس میں مانڈوکیہ اپنیشد کی تعلیم کا خلاصہ پایا جاتا ہے[4] لیکن درحقیقت اس نے ادویت کی تعلیم کا قابل تعریف خلاصہ پیش کر کے ایک بڑے کام کی تکمیل کی ہے۔ شنکر نے ادویت کے نظریے کو سمجھنے کے لیے اور اس کی قدر معلوم کرنے کے لیے "برہم سوتر" اور چند اہم ترین اپنیشد اور بھگود گیتا پر شرحیں لکھی ہیں۔ خصوصاً چھاندوگیہ اپنیشد اور برہد آرن یک اپنیشد کی شرحوں میں کئی ایک مسائل پر بحث کی گئی ہے جو برہم سوتر کی شرح میں موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک تصنیف "اپدیش سہسری" ہے جو اگرچہ کچھ مختصر و جامع ہے لیکن ادویت کے خیالات کا ایک عالیشان بیان کرتی ہے۔ شنکر کے بعد مختلف مفکرین نے اس نظریہ کی تفصیلات میں جا کر اس کی حمایت کی اور اس میں اضافہ بھی کیا جس کی وجہ سے اس کے پیروؤں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ ادویت کے نظام کی تشریح میں لکھے گئے بہت سے رسالوں میں سے ہم سریشور کی "منیش کرمیہ سدھی" کا ذکر کر سکتے ہیں جو اس سے قبل میماسا کا پیرو تھا۔ ایک اور خاص قدرومنزلت کی تصنیف "اشٹ سدھی" مصنفہ ویمکت آتمن ہے۔ اس میں خاص طور پر مایا کے نظریے کے متعلق ذکر کیا گیا ہے۔ ایک اور مقبول رسالہ "پنج دشی" مصنفہ ودیار منیہ ہے۔ سدانند کی تصنیف "ویدانت سار" ادویت فلسفہ کا آسان تعارف ہے۔ اس نظام پر خالص بحث کے متعلق جو تصانیف لکھی گئی ہیں ان میں سری ہرش کا "کھنڈ کھنڈ کھادیہ" قابل ذکر ہے۔ مدھوسدن سرسوتی کی "ادویت سدھی" اور اس کی شرح "لگھوچندریکا" مصنفہ برہمانند کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ اس کا مطالعہ صحیح ویدانتی علم کے لیے نہایت ضروری ہے۔

کسی غلطی کے بغیر ہمیں اگر ادویت کے آخری اساس تک پہنچنا ہے تو سگن برہم کے نصب العین میں ظاہر ہونے والی ظاہری شائستگی میں معمولی تجربہ کے تناقضات اور بے ضابطگیوں کو سب سے پہلے درست کرنا ہوگا۔

دوسرے الفاظ میں جیو کی جہالت یا اودیا کو مایا کے کے طور پ عالمگیر بنائے بغیر ہم عالم خارجی کو محض ایک ذاتی مظہر بنا ڈالیں گے۔ کیونکہ اس وقت ہمارے لیے انفرادی شعور کے علاوہ کچھ اور فرض کرنے کے لیے کوئی اور وجہ باقی نہ رہے گی۔ لہذا ادویت کا حامی جو سگن برہم کی تنقید کرتا ہے اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف اس تصور کے لیے ناکافی ہے جو فلسفہ کے منزل مقصود کے لیے کام آ سکے۔ لیکن اس کی قدرومنزلت تجربی حلقہ کی حد تک محدود ہے۔ یہ خیال عام طور پہ ادویت کے مسئلہ سے بالکل موافقت رکھتا ہے کہ عملی افادیت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مابعد الطبیعیاتی صداقت پر مبنی ہو۔ یہی امتیاز ہے جو ادویت میں دو مدارج کی تعلیم کا باعث بنا ہے۔ اعلیٰ تر نرگن برہم کی تعلیم اور ادنٰی تر سگن برہم کی تعلیم۔ ادویت میں نجات کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے جس کو نئے طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اپنی ذات کی اصلی ماہیئت ہے۔ اس لیے معمولی مفہوم میں مشکل سے ہی اس کے حاصل کرنے کے ذرائع کے متعلق کچھ کہا جا سکتا ہے۔ یہ اس باطنی سیرت کو محقق کرتا ہے جو کبھی اپنی ذاتی کہی جاتی تھی۔ مگر فی الحال فراموش کر دی گئی ہے۔ یہاں عام مثال ایک شہزادہ کی دی جاتی ہے جو بچپن سے ہی ایک شکاری کے گھر پرورش پاتا ہے اور بعد میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رگوں میں شاہی خون دوڑ رہا ہے۔ اس کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے کو محسوس کرے یا متحقق کرے کہ وہ شہزادہ ہے۔ اسی طرح ادویت کی نجات کی صورت میں اس رکاوٹ کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو حقیقت کو ہم سے پوشیدہ رکھتی ہے۔ تجربی حیات چونکہ بالکل اگیان کا نتیجہ ہے۔ اس لیے رکاوٹ اگیان بھی ہے اور وہ صرف اس کے متضاد گیان سے ہی ہٹائی جا سکتی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو گیان اس کو عمل میں لا سکتا ہے اس کو بلاواسطہ وجدانی (ساکشات کار) ہونا چاہیے اور برہم کے ساتھ اس کا تعلق بالکل ایک ہونا چاہیے۔ اس کی فراموشی سے ہی دنیا پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقیاتی کمال اور مذہبی اعمال اس میں بلاواسطہ مدد نہیں دے سکتے۔ ارادہ کی سعی اور محبت کی پاکیزگی بے شک ضروری ہیں لیکن یہ صرف گیان کے لیے ممد و معاون ہیں۔ جب ایک مرتبہ گیان طلوع ہو جاتا ہے تو وہ اپنے اپ اگیان کو مٹا دیتا ہے اور اسی وقت اپنی تمام باطنی شان و شوکت میں روح کا انکشاف ہی موکش کہلاتا ہے۔ اگر علم ہی قید سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے تو گیان حاصل ہوتے ہی نجات مل جانی چاہیے۔ چنانچہ جیون مکتی کا تصور عالم خارجی کے ایسے خیال اور اس نجات کا منطقی نتیجہ ہے اور انسانی وجود میں کسی نفسی یا کسے دوسرے سازوسامان کی ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو اس وقت اور یہاں اس کے حصول کو ناممکن بنا سکے۔ لیکن اگر اس کے ذہن نشیں کرائے ہوئے علم کو سچی آزادی دلانا ہے تو ہمیں اپنے زندہ تجربہ سے اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے اور اس صورت میں کہ "میں برہم ہوں" (اہم برہم اسمی) اس بلاواسطہ تجربہ یا مطلب کے راست وجدان کو دنیا دارانہ تجربہ سے امتیاز حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی یہاں آخری سچائی کا معیار قرار پاتا ہے۔ جیون مکت کی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک پہلو عارفانہ روحانی احتراز کا ہے۔ جبکہ وہ اپنا رخ اندر کو کر لیتا ہے اور اور برہم میں محو ہوجاتا ہے۔ اسی برہم یا جوہر اعلیٰ کو وجود، شعور یا سرور (ست چت آنند) کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی وجہ سے اس کو بہت بڑا آنند عطا کرنے والا برہم یا شیو کہتے ہیں۔ تمام کائنات کو اساسی قوت کی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے اسی کو شونیہ یا خلا کہا جاتا ہے۔ تمام کائنات میں استحکام کے ساتھ بودوباش اختیار کرنے سے اس کو پورن یا مطلق کہا جاتا ہے۔ نقاط نظر کے فرق سے اسی ایک جوہر کے کثیر نام ہیں۔ یہ بھی ایک مذاق ہے کہ نام، شکل اور ذات سے ماورا ہستی رکھنے والے وجود کا بھی ایک نام رکھا جاتا ہے، لیکن یہ نام بھی لفظی عمل کا مددگار ہونے سے غلط ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے ادویت واد یا مطلقیت کا اساسی اور اصلی فلسفہ "مون" یا سکوت ہے۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کی حالت معمولی زندگی کی کایا پلٹ کہلاتی ہے اور جب عالم خارجی کا منظر واپس آ جاتا ہے تو اس کو دھوکا نہیں دیتا اس لیے کہ اس نے ہمیشہ کے لیے مابعد الطبیعیاتی بطلان کا تحقق کر لیا ہے۔ ایک جیون مکت دکھ سکھ کا تجربہ کرتا ہے لیکن وہ اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ لازمی طور پر تمام عمل سے دست بردار نہیں ہوتا۔ وہ سب سے یکساں محبت کرتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے جیسا کہ وہ خود اپنے ساتھ کرتا ہے اس لیے کہ وہ خود میں اور دوسروں میں کوئی اختلاف نہیں دیکھتا۔ وہ تمام وجود کو اپنے اندر دیکھتا ہے اور اپنے کو تمام وجود میں۔ اس لیے کسی سے نفرت نہیں کرتا وہ جو ادویت کے علم ذات سے واقف ہو جاتا ہے اس میں رحم و کرم کی طرح نیکیوں کے لیے کچھ بھی شعوری جدوجہد درکار نہیں ہوتی۔ وہ سب اس کی فطرت ثانی ہو جاتی ہے اور آخر کار جب وہ مادی لوازمہ سے قطع تعلق کر لیتا ہے تو دوبارہ جنم نہیں لیتا بلکہ برہم کی طرح باقی رہتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Olivelle 1992, pp. x–xi, 8–10, 17–18.
  2. Stephen Phillips (1998), Classical Indian Metaphysics, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120814899, page 332 note 68
  3. Nakamura 1950, pp. 221, 680.
  4. Chandradhar Sharma (1997)، A Critical Survey of Indian Philosophy، Motilal Banarsidass، صفحہ: 239، ISBN 81-208-0365-5 

ماخذ ترمیم