اردشیر اول یا اردشیر دراز دست یا ارتخششتا اول (فارسی: اردشیر یکم‎، (قدیم فارسی: ARATAXASHASSA)‏ Artaxšaça / ارتخشتره،[1]) ہخامنشی سلطنت کا شہنشاہ اور خشیارشا اول کا تیسرا بیٹا جو اپنے باپ اور بڑے بھائی دارا کے قتل کے بعد ایران کے تخت پر بیٹھا۔ اس کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے بڑا تھا۔ ابتدا میں ارتانیس کے زیر اثر رہا۔ جب ارتانیس اردشیر کو قتل کرنے کی سازش میں مارا گیا تو ایک اور امیر باگ تھکشا نامی کے زیراثر آیا۔ اس کے عہد میں سلطنت میں بغاوتیں ہوتی رہیں۔ کتاب عزرا کے مطابق یہ شاہ ایران کا نام تھا اس کے دور حکومت میں بہت سے یہودی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ عزرا اُن 5000 افراد رہا شدہ افراد کی قیادت پر مامور تھے۔[2]

اردشیر اول
ارتخششتا اول
شہنشاہ
شاہ فارس
فرعون مصر
اردشیر اول کے مقبرے سے، نقش رستم
شاہ فارس
465–424 ق م
پیشروخشیارشا اول
جانشینخشیارشا دوم
شریک حیاتملکہ داماسپیا
آلوگونہ
کسمارتیدن
آندریا
نسلخشیارشا دوم
Sogdianus
دارا دوم
Arsites
Parysatis
خاندانہخامنشی خاندان
والدخشیارشا اول
والدہAmestris
پیدائشنا معلوم
وفات424 ق م
تدفیننقش رستم، فارس

حالاتِ زندگی

ترمیم

ارتاکزرسس یا ارتخشتر یا اردشیر اول (دراز دست) (465 تا 424 قبل از مسیح) : خشیارشا اول کے قتل کے بعد ارتخشتر اول یا ارد شیر دراز دست تخت نشین ہوا۔ مگر تقریباً ایک سال تک وہ آزادانہ حکومت نہ کرسکا۔ اس کے باپ کا قاتل اردوان اس پر حاوی تھا۔ آخر کچھ کشاکش کے بعد بادشاہ کے ایک معتمد مغابیز (Megabyrus) یا بالغابش نے اسے قتل کرکے بادشاہ کو رہائی دلائی۔ اس واقع کے دو سال بعد 462قبل مسیح میں اردشیرکے بھائی ہستاسب (Hystaspes) نے باخترمیں بغاوت کردی۔ اردشیرخود گیا اور دو جنگوں میں اسے مغلوب کر کے ملک کے اندر امن قائم کیا۔ اردشیر کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ یونانیوں سے متعلق ہے۔ خشیارشا اول کے عہد میں ایرانیوں نے یونانیوں سے شکست کھائی تھی، اس شکست سے جہاں ہونانی جزائر و مقبوضات ایرانی حکومت کے قبضہ سے نکل گئے وہاں ان کی گرفت مصر پر بھی ڈھیلی پڑی۔ 461 ق م میں لیبیا کے سابق شاہی خاندان کے ایک فرد ایناروس (Inarus) بن سامتق دوم نے یونانیوں کی مدد سے ایرانی حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ یونانی بیڑوں نے مصر کی حمایت میں کئی مقام پر ایرانیوں سے جنگ کی اور ان کوو شکست دی۔ پپریمہ (Papremis) کی جنگ میں مصر کا ایرانی حاکم ہخامنش قتل ہوا۔ اس کے بعد باغیوں نے ممفیہ کا محاصرہ کر دیا۔ اردشیرنے بغابیش (Bagabish) کو تین لاکھ فوج کے ساتھ اس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے مصر بھیجا۔ اس نے آتے ہی باغیوں کو شکست فاش دی، ایناروس کو گرفتار یوا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ سوسہ بھجوادیا۔ (456 قبل مسیح) اس کامیابی کے بعد ایرانی فوج نے یونانیوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ اس وقت یونان اتحاد کا شیرازہ بکھر رہا تھا، یونان کی دو بڑی طاقتیں ایتھنزاور اسپارٹاایک دوسرے سے بر سر پیکار تھیں۔ ایسی حالت میں یونانیوں نے مصالحت کرلینی مناسب سمجھی۔ جس کے تحت دونوں حکومتوں کے درمیان میں 449 قبل مسیح میں صلح ہو گئی۔ اتحاد دلس کے ممبروں کی آزادی تسلیم کرلی گئی۔ نیز قبرض پر ایران کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا۔ اردشیرنے 424 ق م میں وفات پائی اور نقش رستم میں دفن ہوا۔[3]

یہود سے تعلقات

ترمیم

ارتخشتر یا اردشیر اول کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بہت حسین، باوقار اور رحمدل بادشاہ تھا۔ مصر کے پہلے آبشار کے نزدیک الفنطین (elephantine) کے مقام پر پیپری (Papyrus) دستیاب ہوئے ہیں جو الفنطین پیپری کے نام سے مشہور ہیں۔ ان میں دوسری باتوں کے علاوہ اردشیر کی مذہبی پالیسیوں کے متعلق بھی کچھ حالات ہیں ان کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ یہودیوں پر بہت مہربان تھا اور انھیں ہر طرح کی مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔ یہودیوں کی مذہبی روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کی روایات میں ہے کہ اردشیر ایک یہود نحمیاہ کو بہت مانتا تھا۔ وہی اس کا ساقی تھا۔ اس کے عہد میں فلسطین کے چند حکام نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہ یہود ہمیشہ شورش پسند رہے اور آشوریوں اور کلدانیوں کے زمانے میں برابر بغاوت کرتے رہے۔ بادشاہ سے اس مضمون کا فرمان صادر کروایا کہ یہود کی مذہبی عمارات کی تعمیر روک دی جائے۔ چنانچہ اس کے فرمان پر فوری عمل کیا گیا اور تعمیر روک دی گئی۔ ایسی حالت میں نحمیاہ نے مرکزی حکام کو ملاکر اپنے دعوے کو پیش کیا کہ تعمیر کی اجازت خورس اعظم و دارا اول نے دی تھی۔ اس لیے اُن کے حکم کا لحاظ رکھا جائے۔ چنانچہ اس کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی۔ یہودی روایات کے مطابق عزرا (Ezra) اسی بادشاہ کی حکومت کے ساتویں سال بابل سے یروشلم واپس آئے۔[4]

بائبل میں تذکرہ

ترمیم

کتاب مقدس میں کتاب عزرا کے ساتویں باب میں ارتخشتا یعنی اردشیر اول کا تذکرہ ملتا ہے۔

اِن باتوں کے بعد شاہِ فارس اَرت اَحَش اَستا (ارتخشتا) کی سلطنت میں عزرا بِن سِرا یاہ بِن عزر یاہ بِن حلقی یاہ۔ بِن شلُوم بِن صادُو ق بِن اخِی طُو ب۔ بِن امر یاہ بِن عزریا ہ بِن مِرایو ت۔ بِن زرح یا ہ بِن عُزّی بِن بُقّی۔ بِن ابِی شو ع بِن فِینحا س بِن الِی عازار بِن ہارُو ن کاہِن اول۔ یِہی عزرا بابل سے یروشلم کو گیا اور وہ موسیٰ کی شرِیعت میں جو خُداوند خدا نے اِسرائیل کو دی ماہِرفقِیہ تھا۔ تو جو کچھ اس نے مانگا، بادشاہ نے اس کو دیا۔ بمطابق خُداوند کے ہاتھ کے جو اس پر تھا۔ اور اَرت اَحَش اَستا بادشاہ کے ساتویں برس میں بنی اِسرائیل اور کاہِنوں اور لاویوں اور گانے والوں اور دربانوں اورنتینیوں میں سے کتنے لوگ اس کے ساتھ گئے۔ تو اور بادشاہ کے ساتویں سال کے پانچویں مہینے میں وپ یروشلیم میں پہنچا۔ کیونکہ پہلے مہینے کے پہلے دن کو وہ بابل سے روانہ ہوا اور پانچویں مہینے کے پہلے دن کو وہ یروشلیِم میں آ پہنچا ۔ بمطابق خدا کے نیک ہاتھ کے جو اس پر تھا۔ کیونکہ عزرا نے اپنے دل کو خُداوند کی شریعت کی تلاش کے لیے تیار کیا تھا۔ تاکہ اُس پر عمل کرے اور اِسرائیل میں قوانین اور احکام کی تعلیم دے۔ [5]

458 قبل مسیح میں عزرا کو یروشلم کے حالات کا علم ہوا تو آپ نے شاہِ فارس ارتخششتا اردشیر میمون سے یروشلم جانے کی اجازر چاہی بادشاہ نے بخوشی اجازر دی اور ساتھ ہی ایک فرمان لکھ کر دیا، جو کتاب عزرا، باب 7 : 12 تا 26 میں ہے۔ ۔[6] بادشاہ کا فرمان یوں ہے۔

ارتخششتا بادشاہ کی دستاویز جو اُس نے عزرا کو دی اور عزرا کاہِن اور فقِیہ یعنی خُداوند کے اِسرائیل کو دِئے ہُوئے احکام اور آئِین کی باتوں کے فقِیہ کوجو خط ارتخششتا بادشاہ نے عِنایت کیا اُس کی نقل یہ ہے۔ ارتخششتا شاہنشاہ کے طرف سے عزرا کاہِن یعنی آسمان کے خدا کی شریعت کے فقِیہِ کامِل وغیرہ وغیرہ کو۔ مَیں یہ فرمان جاری کرتا ہُوں کہ اِسرائیل کے جولوگ اور اُن کے کاہن اور لاوی میری مملکت میں ہیں اُن میں سے جِتنے اپنی خُوشی سے یروشلیِم کو جانا چاہتے ہیں تیرے ساتھ جائیں۔ چُونکہ تُو بادشاہ اور اُس کے ساتوں مشیروں کی طرف سے بھیجا جاتا ہے تاکہ اپنے خُدا کی شرِیعت کے مُطابِق جو تیرے ہاتھ میں ہے یہودا ہ اور یروشلیم کا حال دریافت کرے۔ اور جو چاندی اور سونا بادشاہ اور اُس کے مُشِیروں نے اسرائیل کے خدا کو جس کا مسکن یروشلیِم میں ہے اپنی خُوشی سے نذر کِیا ہے لے جائے۔ اور جِس قدر چاندی سونا بابل کے سارے صُوبہ سے تُجھے مِلے گا اور جو خُوشی کے ہدئےلوگ اور کاہِن اپنے خُداکے گھر کے لِئے جو یروشلیِم میں ہے اپنی خُوشی سے دیں اُن کو لے جائے۔ اِس لیے اُس روپے سے بَیل اور مینڈھے اور حلوان اوراُن کی نذر کی قُربانیاں اور اُن کے تپاون کی چِیزیں تُوبڑی کوشِش سے خرِیدنا اور اُن کو اپنے خُدا کے گھر کے مذبح پر جو یروشلیِم میں ہے چڑھانا اور تُجھے اور تیرے بھائیوں کو باقی چاندی سونے کے ساتھ جو کچھ کرنا مناسب معلُوم ہو وُہی اپنے خُداکی مرضی کے مطابق کرنا۔ اور جو برتن تُجھے تیرے خُدا کے گھر کی عبادت کے لِئے سونپے جاتے ہیں اُن کو یروشلیِم کے خُدا کے حضُور دے دینا۔ اور جو کُچھ اَور تیرے خُدا کے گھر کے لِئے ضرُوری ہو جو تُجھے دینا پڑے اُسے شاہی خزانہ سے دینا۔ اور مَیں ارتخششتا بادشاہ خود دریا پار کے سب خزانچیوں کو حُکم کرتا ہُوں کہ جو کُچھ عزرا کاہِن آسمان کے خُدا کی شرِیعت کا فقِیہ تُم سے چاہے وہ بِلاتوقُّف کِیا جائے۔ یعنی سَو قِنطار چاندی اور سَو کُر گیہُوں اور سَوبَت مَے اور سَو بَت تیل تک اور نمک بے اندازہ۔ جو کُچھ آسمان کے خُدا نے حُکم کِیا ہے سو ٹھیک ویسا ہی آسمان کے خدا کے گھر کے لِئے کِیا جائے کیونکہ بادشاہ اور شاہزادوں کی مملکت پر غضب کیوں بھڑکے؟ اور تم کو ہم آگاہ کرتے ہیں کہ کاہِنوں اور لاویوں اور گانے والوں اور دربانوں اور نتنیم اور خُدا کے اِس گھر کے خادِموں میں سے کِسی پر خِراج چُنگی یا محصُول لگانا جائِز نہ ہو گا۔ اور اے عزرا تُو اپنے خُدا کی اُس دانِش کے مُطابِق جو تُجھ کو عِنایت ہُوئی حاکِموں اور قاضِیوں کو مُقرّرکر تاکہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خُدا کی شرِیعت کو جانتے ہیں اِنصاف کریں اور تُم اُس کو جو نہ جانتا ہو سِکھاؤ۔ اور جو کوئی تیرے خُدا کی شرِیعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اُس کو بِلا توقف قانونی سزا دی جائے ۔ خواہ مَوت یا جلاوطنی یا مال کی ضبطی یا قَیدکی۔ خداوند ہمارے باپ دادا کا خدا مبارک ہو جِس نے یہ بات بادشاہ کے دِل میں ڈالی کہ خُداوند کے گھر کو جویروشلیِم میں ہے آراستہ کرے۔ اور بادشاہ اور اُس کے مُشِیروں کے حضُور اور بادشاہ کے سب عالی قدر سرداروں کے آگے اپنی رحمت مُجھ پر کی اور مَیں نے خُداوند اپنے خُدا کے ہاتھ سے جو مجھ پرتھا تقویت پائی اور مَیں نے اِسرائیل میں سے خاص لوگوں کو اِکٹھا کیا کہ وہ میرے ہمراہ چلیں۔ [7]۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. R. M. Ghias Abadi (2004)۔ Achaemenid Inscriptions (کتیبه‌های هخامنشی)‎ (بزبان الفارسية) (2nd ایڈیشن)۔ Tehran: Shiraz Navid Publications۔ صفحہ: 129۔ ISBN 964-358-015-6 
  2. قاموس الکتاب صفحہ 643
  3. اسٹوری آف سولائزیشن (تہذیب کی کہانی)، از: ول ڈیوررنٹ؛ لائف فرام دی اینشنٹ پاسٹ، از: جیک فِنگن؛ ایران قدیم، از: حسن پیرینیا
  4. قدیم مشرق۔ از: ڈاکٹرمعین الدین۔ جلد دوم۔ صفحہ 53 تا57
  5. کلام مقدس ، کتاب عزرا ۔ باب 7، اردو ترجمہ بمطابق سوسائٹی آف سینٹ پال روما، 1958ء ایڈیشن۔ لاہور
  6. تاریخ انبیا اور اقوام عالم، از سیدہ انواز زہرا زیدی، ادارہ زین المفکرین۔ سال ایڈیشن2005، جلد اول، صفحہ 410۔
  7. کتاب مقدس ،کتاب عزرا ۔باب:7 ، آیت :11 تا 27