اردو پر فارسی زبان کے اثرات
فارسی زبان نے مشرق وسطی، وسط اور جنوب ایشیائی خطوں کی کئی جدید بڑی زبانوں کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا ہے جن میں اردو بھی شامل ہے۔ فارسی زبان کا ان زبانوں میں نفوذ و اثر بہت زیادہ ہے۔[1] محمود غزنوی کی فتح کے بعد ہندی کی بغل سے ترکی، فارسی، عربی اور مغربی ایشیاء کی مقامی زبانوں کے الفاظ و تراکیب سے مرکب ایک مخلوط النسل زبان نے جنم لیا جو بعد میں اردو کے نام سے جانی گئی۔اس زبان کا انداز تحریر فارسی ہے اور یہ بولنے میں ہندی زبان سے مشابہ ہے۔ اسے اردو کا نام دیا گیا یعنی لشکر کی زبان، کیونکہ یہ زبان اس وقت لشکری حلقوں میں رائج تھی۔ اردو زبان کی فارسی سے قربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ فارسی میں ہے اور اردو کی شاعری میں بیشمار اشعار ایسے ہیں جنہیں فارسی بولنے والے بغیر کسی ترجمے کے مکمل مفہوم کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور ہندوستان کی سات سرکاری ریاستی زبانوں میں سے بھی ایک ہے۔[2] فارسی زبان کے انتہائی نفوذ کے باوجود اردو کو ہندی-ایرانی زبانوں کے گروہ میں ایک ہندوستانی زبان کے طور پر زمرہ بند کیا گیا ہے۔اپنی ہیئت ترکیبی کی وجہ سے اردو بہت جلد ادبی اور ثقافتی حلقوں میں سرایت کر کے مقبول ہونے لگی۔ غزل، قصیده، مرثیہ اور نظم جیسی ادبی اصناف فارسی ادب سے اردو ادب میں وارد ہوئیں۔
فارسی زبان اور طرز تعمیر ہند-ایرانی ثقافت کے دو بڑے ستون رہے ہیں۔ علاوہ ازیں تصوف اور تعلیمات اسلامی کا گرانقدر سرمایہ بھی فارسی میں رہا ہے۔ سات سو سال تک فارسی ہندوستان کی سرکاری ،درباری اور عوامی زبان رہی تاوقتیکہ چارلس تر ویلین نے 1836 میں فارسی کی بجائے انگریزی زبان کو فروغ دیا۔[3]
روایات عمومی کے مطابق برصغیر میں فارسی کا نفوذ مسلمان حکمرانوں اور خصوصاً سلاطین دہلی کے توسط سے تیرہویں اور سولہویں صدی کے دوران مغل سلطنت کے عہد میں ہوا۔ لیکن ایسی روایات بھی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برصغیر میں فارسی کا وجود اور نفوذ آمد اسلام سے بھی پہلے کا تھا۔[3]
ایران اور ہندوستان کے باہمی مراسم کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ تاریخ نگار لکھتے ہیں کہ جب 1100 سے 1500 قبل مسیح کے دوران آریا درہ خیبر کے راستے ایران اور ہندوستان میں وارد ہوئے تھے اسی دن سے ایران اور ہندوستان کے درمیان ثقافتی اور لسانی روابط کا آغاز ہو گیا تھا۔
اسی طرح سنسکرت اور اوستا میں میں لفظی مشابہتیں بھی برصغیر اور ایران کے دیرینہ روابط کی نشان دہی کرتی ہیں۔اشکانیوں کے دور (226–249 ق. م) میں یہ روابط بڑھے اور ساسانیوں کے دور (226 ق م - 652 م) تک مزید فروغ حاصل ہوا۔ نوشیروان کے عہد میں ہندی کتاب “ کلیلہ و دمنہ “ کے فارسی ترجمے نے تہذیبی اور ثقافتی رشتے کو اور مضبوط کر دیا۔[4]
غزنویوں کے دور میں ثقافت اسلامی کے فروغ کے ساتھ لاہور میں فارسی ادبی مراکز قائم ہوئے۔ ابو فرج رونی اور غمگین مسعود سلمان (متوفی 1121)، لاہور میں ہندوستان کے دو اولین عمده فارسی گو شاعر تھے۔ غزنویوں کے دور میں ثقافت اسلامی کے فروغ کے ساتھ لاہور میں فارسی ادبی مراکز قائم ہوئے۔ ابو فرج رونی اور غمگین مسعود سلمان (متوفی 1121)، لاہور میں ہندوستان کے دو اولین عمده فارسی گو شاعر تھے۔ ہندی اور فارسی کے عظیم شاعر امیر خسرو (متوفی 1325) کا تعلق دہلی سے تھا، وہ بہت سے فنون و علوم میں برصغیر میں ایک امتیازی مقام رکھتے تھے۔ انھیں اردو ادب کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔[5][6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Ethnologue report for Iranian
- ↑ Akhtarul Wasey (16 July 2014)۔ "50th Report of the Commissioner for Linguistic Minorities in India (July 2012 to June 2013)" (PDF)۔ 08 جولائی 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2016
- ^ ا ب پژوهشی در تأثیر زبان فارسی بر زبانهای شبه قاره هندوستان [1] ایرنا
- ↑ تأثیر زبان فارسی بر زبان و ادبیات شبه قاره هند [2] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hozehonari.com (Error: unknown archive URL) حوزه هنری دکترعجم
- ↑ "INDIA xvi. INDO-PERSIAN HISTORIOGRAPHY"
- ↑ http://www.iranicaonline.org/articles/ghurids Iranica: GHURIDS or Āl-e Šansab; a medieval Islamic dynasty of the eastern Iranian lands.