استقلال مارشی
استقلال مارشی، یعنی ترانۂ آزادی، ترکی کا قومی ترانہ ہے جو جمہوریہ ترکی کے قیام (29 اکتوبر 1923ء) سے دو سال قبل 12 مارچ 1921ء کو ترک جنگ آزادی میں شریک افواج کے جذبات کو مہمیز دینے کے لیے عسکری نغمے اور بعد از قیامِ جمہوریہ قومی ترانے کی حیثیت سے باضابطہ طور پر اختیار کیا گیا۔
اردو: ترانۂ آزادی | ||||
---|---|---|---|---|
ترکی میں ایک کمرۂ جماعت کا منظر، جہاں استقلال مارشی (دائیں جانب)، اتاترک کی تصویر اور ان کی نوجوانوں سے کی گئی ایک تقریر آویزاں ہے | ||||
قومی ترانہ | ترکیہ ترک جمہوریہ شمالی قبرص | |||
شاعری | محمد عاکف ارصوی | |||
موسیقی | عثمان ذکی اونگور | |||
اختیار کردہ | 12 مارچ 1921 | |||
نمونۂ موسیقی | ||||
|
اس ترانے کے خالق ترکی کے شاعرِ اسلام محمد عاکف ارصوی ہیں جبکہ اس کی مروجہ دھن عثمانی ذکی اونگور نے تیار کی ہے۔ استقلال مارشی اس وقت تحریر کیا گیا جب جنگ عظیم اول کے بعد ملک پر بیرونی قوتیں قابض تھیں اور مصطفی کمال کی قیادت میں ملکی فوجیں اُن سے نبرد آزما تھیں۔ قومی ترانے کے انتخاب کے لیے جب ملک بھر میں ایک مقابلہ کرایا گیا جس میں کل 724 شعرا نے میں حصہ لیا۔ ان ترانوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار ترانے موجود تھے لیکن قومی کمیٹی کو جو مطلوب تھا وہ ترانہ نہ مل سکا۔ اُس وقت کے ترک وزیر تعلیم حمد اللہ صبحی نے دیکھا کہ محمد عاکف نے اس مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔ انھوں نے اس سلسلے میں عاکف سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ نہ مقابلے میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں اور نہ 500 لیرا کا وہ انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں جو جیتنے والے کے لیے رکھا گیا تھا۔ انھیں بڑی مشکل سے ترانہ لکھنے پر آمادہ کیا گیا اور جب یکم مارچ 1921ء کو حمد اللہ صبحی نے یہ ترانہ مجلس کبیر ملی کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا تو اراکین مجلس پر ایک جوش اور کیف طاری ہو گیا اور کمیٹی نے رائے دی کہ اب دوسرے ترانے سنے بغیر عاکف کے ترانے کو منتخب کر لیا جائے اور 12 مارچ 1921ء کو باضابطہ طور پر استقلال مارشی ترکی کا قومی ترانہ قرار دیا گیا۔
یہ ترانہ اور محمد عاکف کی تصویر 1983ء سے 1989ء تک رائج 100 ترک لیرا کے بینک نوٹ پر موجود تھی۔ ترانہ سرکاری و عسکری تقاریب، قومی نمائشوں، کھیلوں کے مواقع اور اسکولوں میں پڑھا جاتا ہے جہاں 10 بندوں پر مشتمل اس ترانے کے اولین دو بند ہی گائے جاتے ہیں۔
عاکف کے جذبات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں سے سخت ضرورت کے باوجود 500 لیرا کی انعامی رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ یہ رقم انھوں نے ترک فوج کو ہدیہ کر دی تھی۔ انھوں نے اس ترانے کو اپنے مجموعۂ کلام “صفحات” میں بھی شایع نہیں کیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ میری نہیں بلکہ پورے ملک کی ملکیت ہے۔ عاکف کے مجموعۂ کلام میں یہ ترانہ ان کے انتقال کے بعد ہی شامل ہوا۔
عاکف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ
” | اللہ اب اس ملت کے لیے پھر ترانۂ آزادی نہ لکھوائے! ہاں، نہ لکھوائے! اللہ اب پھر اس مملکت کو اور اس کی آزادی کو خطرے میں نہ ڈالے کہ وہ پھر ایک ترانۂ آزادی لکھنے پر مجبور ہو | “ |
استقلال مارشی کی پہلی دھن علی رفعت چغتائی نے ترتیب دی جو 1924ء سے 1930ء تک برقرار رہی۔ یہ دھن 24 دھنوں میں سے منتخب کی گئی تھی جس پر علی رفعت کو بھی 500 لیرا انعام دیا گیا۔ تاہم 1930ء میں شفیع ذکی اونگور کی بنائی ہوئی دھن اختیار کی گئی جو آج بھی رائج ہے۔
زبان کی چاشنی اور حسن بیان کے علاوہ جوش و جذبات کے لحاظ سے دنیا میں کم ترانے ہوں گے جو ترکی کے قومی ترانے کا مقابلہ کر سکیں [1]۔ 1928ء میں جب ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا تو لادینی نظام کے حامی عناصر نے ترانے پر سخت اعتراضات کیے اور اس کو بدلنا چاہا کیونکہ اس میں اسلامی جذبات نمایاں تھے لیکن اس ترانے کی غیر معمولی مقبولیت کے باعث یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور یوں استقلال مارشی آج بھی ترکی کا قومی ترانہ ہے۔[1]
متن و اردو ترجمہ
ترمیمیہ استقلال مارشی کا مکمل متن ہے جس کا اردو ترجمہ ثروت صولت مرحوم نے کیا ہے :
Korkma, sönmez bu şafaklarda yüzen al sancak;
Sönmeden yurdumun üstünde tüten en son ocak.
O benim milletimin yıldızıdır, parlayacak;
O benimdir, o benim milletimindir ancak.
ڈر کیسا! یہ شفق رنگ فضاؤں میں تیرنے، چمکنے اور لہرانے والا سرخ پرچم اس وقت تک لہراتا رہے گا جب تک ہمارے وطن کے سب سے آخری خاندان کا چراغِ حیات گل نہ ہو جائے۔ یہ ہماری ملت کی قسمت کا تارا ہے، جو روشن ہے اور روشن رہے گا۔ یہ ہمارا اور صرف ہمارا ہے۔
Çatma, kurban olayım çehreni ey nazlı hilâl!
Kahraman ırkıma bir gül! Ne bu şiddet bu celâl?
Sana olmaz dökülen kanlarımız sonra helâl,
Hakkıdır, Hakk‘a tapan, milletimin istiklâl!
اے پیارے ہلال، تیرے قربان جاؤں۔ تیرے چہرے پر رنج و غم کیسا؟ غصہ اور جلال کی یہ شدت کیسی؟ تو ہماری بہادر قوم کو دیکھ کر ایک بار مسکرا دے، ورنہ ہم نے جو خون بہایا ہے وہ ہلال کی شکل اختیار نہ کر سکے گا۔ استقلال اور آزادی خدائے برحق کو پوجنے والی اس ملت کا حق ہے۔
Ben ezelden beridir hür yaşadım, hür yaşarım.
Hangi çılgın bana zincir vuracakmış? Şaşarım!
Kükremiş sel gibiyim, bendimi çiğner aşarım;
Yırtarım dağları, enginlere sığmam, taşarım.
ہم ازل سے آزاد ہیں اور آزاد رہیں گے۔ وہ کون پاگل ہے جو ہمیں زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کرے گا۔ ہم گرجتے گونجتے سیلاب کی طرح ہیں اور ہر بند کو توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ ہم پہاڑوں کو چیر کر فضائے بسیط کی وسعتوں میں پھیلنا جانتے ہیں۔
Garbın âfakını sarmışsa çelik zırhlı duvar,
Benim iman dolu göğsüm gibi serhaddim var.
Ulusun, korkma! Nasıl böyle bir imanı boğar.
“Medeniyet!” dediğin tek dişi kalmış canavar?
اگرچہ ہمارے مغربی افق پر فولاد کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے لیکن ہمارا ایمان سے بھرا سینہ ہماری سرحد ہے۔ اے میری قوم! ڈر نہیں، یہ خونخوار جانور جسے “تہذیب” کہا جاتا ہے ہمارے ایمان کا گلا نہیں گھونٹ سکتا۔
Arkadaş! Yurduma alçakları uğratma sakın!
Siper et gövdeni, dursun bu hayasızca akın.
Doğacaktır sana vaadettiği günler Hakk‘ın;
Kimbilir, belki yarın, belki yarından da yakın.
اے برادران وطن خبردار، یہ بزدل آگے نہ بڑھ پائیں۔ اپنے سینوں کو سپر بنا دو اور بے شرموں کے حملے کو روک دو۔ اللہ نے جس دن کا وعدہ کیا ہے وہ طلوع ہو کر رہے گا اور کون جانتا ہے کہ وہ کل ہی طلوع ہو جائے؟ یا کل سے بھی پہلے!
Bastığın yerleri “toprak” diyerek geçme, tanı!
Düşün, altında binlerce kefensiz yatanı!
Sen şehit oğlusun, incitme, yazıktır atanı;
Verme, dünyaları alsan da bu cennet vatanı.
اس خاک پر یہ سمجھ کر قدم نہ رکھو کہ یہ زمین ہے۔ اس خاک کے نیچے تو ہزاروں بے کفن دفن ہیں۔ تم شہیدوں کی اولاد ہو، دیکھو، وہ مجروح نہ ہوں اور وطن کی اس جنت کو ہم سے کوئی چھین نہ سکے۔
Kim bu cennet vatanın uğruna olmaz ki fedâ?
Şüheda fışkıracak toprağı sıksan, şühedâ!
Can ı, cananı, bütün varımı alsın da Hüdâ,
Etmesin tek vatanımdan beni dünyada cüdâ.
کون ہے جو اس جنتِ وطن پر قربان نہ ہو جائے گا جس کے چپے چپے پر شہداء بکھرے پڑے ہیں۔ اے خدا، تو مجھے، میرے محبوب کو اور ہر چیز کو لے لے، لیکن مجھ کو جب تک زندہ ہوں اس وطن سے جدا نہ کر۔
Rûhumun senden, ilâhi, şudur ancak emeli;
Değmesin mabedimin göğsüne na-mahrem eli!
Bu ezanlar ki şahadetleri dinin temeli,
Ebed i yurdumun üstünde benim inlemeli.
اے اللہ! ہم اپنی روح کی گہرائیوں سے تیری بارگاہ میں التجا کرتے ہیں کہ ہماری عبادت گاہوں تک نا محرموں کی رسائی نہ ہو اور یہ اذانیں جو تیرے دین کی شہادت (گواہی) دیتی ہیں تا ابد ہمارے وطن کے طول و عرض میں گونجتی رہیں۔
O zaman vecd ile bin secde eder varsa taşım;
Her cerihamdan, ilâhi, boşanıp kanlı yaşım,
Fışkırır rûh-i mücerret gibi yerden nâşım;
O zaman yükselerek arşa değer belki başım!
اس وقت (جب وطن آزاد ہو جائے) اگر میں مر بھی گیا تو میری روح ہزاروں سجدے کرے گی اور میرے جسم کا زخم مندمل ہو جائے گا اور میرا سر عرش سے بھی بلند ہو جائے گا۔
Dalgalan sen de şafaklar gibi ey şanlı hilâl;
Olsun artık dökülen kanlarımın hepsi helâl!
Ebed iyyen sana yok, ırkıma yok izmihlâl.
Hakk ıdır, hür yaşamış bayrağımın hürriyet;
Hakk ıdır, Hakk‘a tapan milletimin istiklâl!
شفق رنگ فضاؤں میں لہرانے والے ہلال تُو اسی طرح لہراتا رہ اور ہمارا بہایا ہوا خون ہلال کی شکل اختیار کر لے۔ اے ہلال تُو ابد تک اسی طرح لہراتا رہے اور میری قوم سرنگوں نہ ہو۔ آزاد رہنے والے ہلال، آزادی تیرا اور خدائے بر حق کو پوجنے والی ملت کا حق ہے۔