اسد الرحمن قدسی
قلندر زمان سید ناصر الدین اسد محمد اسد الرحمٰن قدسی ہٖ بن سیف الحق حافظ حبیب الرحمٰن بن شاہ نجف علی ہٖ(19جنوری 1894ء تا 24 نومبر 1977ء) کا سلسلہ نسب شاہ ابوالمکارم سبزواری کے واسطے سے امام جعفر صادق سے ملتا ہے۔ شاہ ابو المکارم، شیخ عبد القدوس گنگوہی کے خاندان میں متاہل ہوئے تھے۔ آپ سے جو نسل چلی وہ سادات سبز واری کے نام سے مشہور ہوئی۔[1]
سید محمد اسد الرحمٰن قدسی محمد اسد الرحمٰن قدسی | |
---|---|
پیدائش | 19 جنوری 1894 ء بھوپال، بھارت |
قومیت | پاکستانی، بھارتی |
نسل | سید |
شہریت | پاکستانی |
متاثّر شخصیات | مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، علامہ محمد اقبال، خواجہ حسن نظامی، اکبر الہ آبادی، والیٔ بھوپال |
موقع جال | |
سرکاری موقع جال برائے تصانیف |
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت 12 رجب 1311ھ بمطابق 19 جنوری 1894ء کو وسطِ ہند کی مشہور اسلامی ریاست بھوپال میں ہوئی۔ آپ کی شخصیت جمیل اخلاق حمیدہ کا مرقع تھی۔ برصغیر پاک و ہند کے اکابرین آپ کی فکر و نظر، علم و دانش، تبحر علمی، قلندرانہ شان، حسن اخلاق اور روحانی مقام و مرتبے کے معترف رہے ہیں۔[1]
¤ عهد طفولیت
عهد طفولیت میں جو عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا وہ یہ تھا کہ تولد ہونے بعد آپ نوزائیدہ بچوں کی طرح نہ روئے، نہ هنسے، نہ بولے۔ سکوت و خاموشی کا یہ عالم کامل دو سال تک رہا۔ اس دوران میں آپ کو هنسانے اور رلانے کی هر کوشش کی گئی، مگر بے سود! چنانچہ اهل خاندان کو یقین ہو گیا کہ آپ نطق سے، سماعت سے محروم هیں۔
فکروتردد کا یہ ماحول برقرار تھا کہ پیدائش سے ٹھیک دو سال ایک ماہ اور تین دن بعد یعنی 15 شعبان المعظم 1311 هجری کی شب والدہ نے آپ کو مصلے کے قریب سلا دیا اور خود نوافل پڑھنے میں مشغول ہو گئیں۔ جب نصف شب گذر گئی تو والدہ نے دیکھا کہ آپ آسمان کی جانب انگلی اٹھائے کچھ بول رہے هیں۔اس وقت زبان مبارک سے یہ آوازبلند ہوئی جو نہایت واضح، صاف اور صریح تھی:
الامان و الحفيظ
گویا دو (2) سال کی عمر میں آپ کی گویائی کا آغاز اسماء الحسنی سے ہوا۔ اس خرق عادت نے خاندان میں هلچل مچادی۔ پندرہویں شب شعبان کے مذکورہ واقعہ کی صبح سے آپ نے هنسنا بولنا شروع کر دیا۔ اسی دو سالہ سکوت کے دوران میں آپ پیر کے دن دودھ مطلق نہیں پیتے تھے۔ گویا آپ کا روزہ ہوتا تھا۔ یہ نہ صرف آئندہ آپ کے مجاہدات شاقہ کی خبر تھی بلکہ یہ غیبی اشارہ تھا کہ آپ صائم الدهر کے مرتبے پر فائز ہونے والے ہیں۔ جب آپ ذرا بڑے ہوئے تو اپنی والدہ کے ساتھ وضو کرتے اور جب موصوفہ نماز پڑھتیں تو آپ خود بھی ان کے اتباع میں نماز پڑھتے۔
ابھی آپ کی عمر چار تھیں کہ والدہ نے سنا کہ آپ سوتے ہوئے میں کچھ پڑھ رہے ہیں۔ جب اپنا کان آپ کے ہونٹوں کے قریب لگایا تو سنا کہ آپ سورہ رحمن تلاوت کر رہے تھے۔۔۔۔
درجات علمی و روحانی
ترمیمروحانی حوالے سے آپ قلندرِ مہری، قلندر قہری، قلندر دہری کی منازل طے کرتے ہوئے قلندر زماں کے مرتبہ عالی گہر پر فائز رہے اور یہ صاحب زماں ہر تین صدی بعد جلوہ نما ہوتے ہیں۔ آخر میں آپ مجمع البحرین کے رتبہ جلیلہ سے سرفراز ہوئے اور تمام عالمِ اسلام کے روحانی پیشواؤں میں ممتاز و منفرد ٹہرے۔
آپ صوفی اور عالم با عمل ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر اور بے مثال ادیب بھی تھے۔ آپ نے اپنی نثری کتب میں عوام الناس اور خواص کے لیے شریعت اورطریقت کے اسرار و رموز نہایت جامعیت اور بصیرت سے بیان کیے ہیں۔ یہ نثری کتب آپ کے مذہبی، روحانی، فقہی اور علمی مرتبے کی عکاس ہیں۔ ان نثری و شاعری مجموعہ جات کا مطالعہ آپ کی خوبصورت شاعری اور صوفیانہ واردات کا ایسا شفاف آئینہ ہے جس میں حسنِ کامل کے تمام جلوے اور عشق کے پُر خلوص جذبے کی تمام کیفیتیں، فقر و درویشی کے سارے رنگ اور خوبصورت تغزل کے ان گنت پہلو اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ منعکس ہو رہے ہیں۔[1]
تصانیف
ترمیمقدسی صاحب نے عوام الناس کی راہنمائی کے لیے کتب 70 سے کچھ اوپر تصنیف فرمائی ہیں۔ خزائن معرفت سے متعلق نثری تصانیف میں علم و عرفان، صراطِ مستقیم، علم بیان، اطمینانِ قلب، جہاں نما، تحفۂ درویش، معارف و طریقت، الطاف سبحانی، معمولاتِ رحمانی، نامہ قدسی، الحبیب، نقوش ماضی وغیرہ شامل ہیں۔
احادیث صحیحہ کی آسان اردو تشریح پر مشتمل کتاب شرعۃ المتین ہے۔ منہاج المبین میں عصر حاضر کے گوناگوں مسائل پر قرآن و حدیث کی روشنی میں قلم کشائی کی گئی ہے۔ نماز (فیض رحمانی) میں عوام الناس کے لیے فرقہ پندی کے اختلافات سے ہٹ کر طریقہ نماز بیان کیا گیا ہے۔ آیات ربانی مسنون اوراد و وظائف کا مجموعہ ہے۔ فن تجوید پر ایک نادر تصنیف تجوید بھی تحریر فرمائی ہے۔
تین شعری مجموعے نغمات (غزلیات)، کلام قدسی (نظمیات) اور رباعیات قدسی بھی طبع ہوئے ہیں۔[1]
وفات و مزار
ترمیمآپ 24 نومبر 1977ء بمطابق 12 ذی الحجہ 1397ھ کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا مزار آستانہ قدسی بھون ضلع چکوال میں طالبان حق کے لیے ایک چشمۂ فیض روحانی اور آپ کے جلال و جمال کا آئینہ دار ہے۔
؎قدسیٔ جنت مکان دنیا سے گو رخصت ہوا
آستانہ پر جلالت آج تک دربان ہے