نکاح، اسلامی معاشرتی نظام کا ایک اہم رکن ہے جو زوجین کو حلال طریقے سے ازدواجی رشتے میں باہم منسلک کرتا ہے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

”النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي
ترجمہ: نکاح میری سنّت ہے اور جس نے میری سنّت پہ عمل نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں۔“

شرائط ترمیم

  • نکاح کے لیے لازم ہے کہ طرفین یعنی مرد اور عورت اس پر راضی اور دونوں. ایجاب و قبول کریں ایک ہی محفل میں ایجاب و قبول ہو..
  • نکاح کے لیے حق مہر بھی لازمی ہے۔ شریعت نے اگرچہ اس کی کو‎ئی مخصوص مقدار مقرر نہیں کی تاہم اس حوالے سے حکم دیا گیا ہے کہ یہ مرد کی آمدنی کے متناسب مقرر کیا جائے نہ بہت قلیل ہو اور نہ ہی حد سے متجاوز ہو۔
  • نکاح کے لیے دو عاقل و بالغ مرد گواہوں کا ہونا لازمی ہے (عموما ایک مرد کی طرف سے ہوتے ہیں اور ایک عورت کی جانب سے )۔
  • لڑکی کی. طرف سے وکیل مرد ہوتا ہے
  • نکاح کا علی الاعلان ہونا لازمی ہے۔ اسلام میں خفیہ نکاح کا کو‎ئی تصور نہیں۔

اسلام سے قبل بھی معاشروں خصوصا عرب معاشرہ میں شادی کے دیگر طریقے رائج تھے جن کی اکثریت خاصی شرمناک تھی۔

زمانہ جاہلیت میں رائج نکاح کی اقسام ترمیم

شادی جو خاندانی زندگی کے قیام و تسلسل کا ادارہ ہے، اہل عرب کے ہاں اصول و ضوابط سے آزاد تھا جس میں عورت کی عزت و عصمت اور عفت و تکریم کا کوئی تصور کارفرما نہ تھا۔ اہل عرب میں نکاح کے درج ذیل طریقے رائج تھے[1]

زواج البعولۃ ترمیم

یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا۔ اس میں یہ تھا کہ مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی۔ نکاح کی یہ قسم چند تبدیلیوں کے بعد مسلمانوں میں رائج ہے ان تبدیلیوں میں مرد کو حد سے حد چار نکاح کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کو اپنی ازواج میں تمام معاملات میں عدل و انصاف کرنے کا سختی سے پابند کیا گیا ہے دوسری اہم تبدیلی کہ عورت کی حیثیت عام مال و متاع سے ختم کرکے اس کے باقاعدہ حقوق مقرر کیے گئے ہیں۔ [[حق مہر]8] اور وراثت میں عورت کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔

زواج البدل ترمیم

بدلے کی شادی، اس سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا۔ یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی۔ بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پا جاتا۔

نکاح متعہ ترمیم

کسی ایک مدت مقررہ تک ایک خاص مہر پر متفق ہو جاتے۔ یہ مدت ایک سال یا ایک ماہ یا ایک گھنٹہ کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔ مدت مقررہ پوری ہوتے ہی یہ نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا طلاق کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یہ نکاح بھی چند تبدیلیوں کے بعد اسلام میں رائج رہا تھا اور تمام اسلامی فرقے اس بات پر متفق ہیں کیونکہ سورہ نساء کی آیت نمبر 24 کے مطابق اسلام نے اس کی تائید کی ہے۔ مگر بعد میں مسلم فرقے اختلاف کا شکار ہو گئے۔

نکاح الخدن ترمیم

دوستی کی شادی، اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی۔

یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے۔

نکاح الضغینہ ترمیم

جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح تھا یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انھیں بیچ دیتا چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مُباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا۔ یوں ایک آزاد عورت غلام بن کر بِک جاتی۔ اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی۔

نکاح شغار ترمیم

وٹے سٹے کی شادی۔ یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا۔ اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا اسلام نے اس کی بھی ممانعت فرما دی۔

نکاح الاستبضاع ترمیم

فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح۔ مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی۔

نکاح الرہط ترمیم

اجتماعی نکاح۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس آدمی ایک ہی عورت کے لیے جمع ہوتے اور ہر ایک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور وہ بغیر کسی پس وپیش کے آجاتے پھر وہ جسے چاہتی (پسند کرتی یا اچھا سمجھتی) اسے کہتی کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔

نکاح البغایا ترمیم

فاحشہ عورتوں سے تعلق، یہ بھی نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں دو فرق تھے، ایک تویہ کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط میں دس سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔

موجودہ اسلامی تصور ترمیم

اسلام نے جہاں دوسرے معاشرتی عوامل کو فطرت سے ہم آہنگ کیا وہیں نکاح کی رائج الوقت قسم نیز نکاح متعہ (بعد میں یہ نکاح بھی خلیفہ دوم کے حکم سے ممنوع قرار دے دیا گیا) کے علاوہ دوسری تمام اقسام کو منسوخ کر دیا تاہم جاہلیت میں کیے جانے والے ایسے تمام نکاح منسوخ نہیں کیے گئے بلکہ آئندہ ان کے انعقاد پر پابندی لگادی گئی۔ جدید دور میں جو نکاح رائج ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔

  • عمومی نکاح: مسلمانوں کے تمام فرقوں میں رائج ہے۔
  • نکاح متعہ: اہل تشیع اسے حلال سمجھتے ہیں۔ اس کا رواج زیادہ نہیں ملتا مگر ایران و عراق کے کچھ علاقوں کے علاوہ یورپ میں اس کا کچھ رواج موجود ہے۔
  • نکاح مسیار: نکاح کی ایک قسم جس میں مرد و عورت ایک معاہدہ کے تحت اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ اہل سنت میں مصر، مراکش، تیونس کے علاوہ یورپ میں رواج موجود ہے۔ اسے اہل سنت کے نزدیک حلال سمجھا جاتا ہے اور اہل تشیع علما اسے درست نہیں سمجھتے ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

متعلقہ مضامین ترمیم

بیرونی روابط ترمیم