اسٹیبلشمنٹ یا انصرام یا استقرار، عام طور پر پاکستانی تجزیہ نگاروں میں استعمال ہونی والی اصطلاح ہے جو پاکستان میں فوجی حاکمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پس پردہ ریاستی انتظام کے متعلق یہ افراد، جو مکمل طور پر فوج سے تعلق نہیں رکھتے وہ پاکستان کی سیاست، دفاع اور جوہری پروگرام کے پالیسی فیصلوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کے جوہری منصوبوں بلکہ دفاعی بجٹ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنے مروجہ نظریہ کے مطابق استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔[1]

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ترمیم

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جامع تعریف سٹیفن پی کوہن نے اپنی کتاب “آئیڈیا آف پاکستان“ میں کی ہے،
کوہن کے مطابق پاکستان کی یہ انصرامی قوت دراصل درمیانی راستے کے نظریہ پر قائم ہے اور اس کو غیر روایتی سیاسی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے جس کا حصہ فوج، سول سروس، عدلیہ کے کلیدی اراکین اور دوسرے کلیدی اور اہمیت کے حامل سیاسی و غیر سیاسی افراد ہیں۔

اساس ترمیم

کوہن کے مطابق اس غیر تسلیم شدہ آئینی نظام کا حصہ بننے کے لیے چند مفروضات کا ماننا ضروری ہے جیسے،

  1. بھارت کے ہر قدم اور ہر چال کا منہ توڑ جواب دینا انتہائی لازم ہے۔
  2. پاکستان کے جوہری منصوبے ہی دراصل پاکستان کی بقا اور وسیع تر حفاظت کی ضمانت ہیں۔
  3. جنگ آزادئ کشمیر جو تقسیم ہند کے بعد شروع ہوئی، کبھی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔
  4. وسیع پیمانے پر ہونے والی عمرانی اصلاحات، جیسے کہ زمینوں کی مفت تقسیم وغیرہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہیں۔
  5. غیر تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس طبقہ کو ہمیشہ پامال اور کچل کر رکھنا ہی حکمت ہے۔
  6. اسلام پسند نظریہ ہونا انتہائی موزوں بات ہے لیکن اسلام کا مکمل طور پر نفاذ ممکن نہ رہے۔
  7. اور یہ کہ امریکا کے ساتھ تعلقات استوار رہنے چاہیے لیکن کبھی بھی امریکا کو پاکستان پر مکمل طور پر گرفت حاصل نہ ہونے پائے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ان کلیدی نکات میں یہ بھی اکثر شامل کیا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہر حال میں ریاست کے انتظام، سیاست وغیرہ پر گرفت مضبوط رکھنی چاہیے۔[2]

سیاست ترمیم

اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی انتخابات اور انتظام پر اثر انداز ہونے کی پالیسی بھی شامل ہے، جس کے تحت پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی جماعتیں اور اتحاد بنائے اور توڑے بھی جاتے رہے ہیں۔[3] پاکستان کے سیکولر اور لبرل خیالات کے حامل گروہ ان تمام اتحادوں اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل میں پیش پیش رہتے ہیں۔[4]
اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے بھی اسی طرح سے انصرامی سیاست کے تحت منطقی اتحاد اور پالیسیاں تشکیل دیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اس کا استعمال سیاست اور فوجی حکمت عملی میں کیا۔ افغانستان پر سوویت افواج کے حملے کے بعد، جنرل ضیاء کی نظر میں افغانستان کا شمار پاکستان کی فوجی اور سیاسی پالیسیوں کا منبع بن گیا۔ ان کے مطابق پاکستان کی بقاء اور استحکام دراصل اس امر میں ہے کہ پاکستان افغانستان پر مکمل طور پر اثر انداز رہے۔[5]

مزید پڑھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. کسی ذمہ دار کے بغیر: جمعہ مارچ 16, 2007ء
  2. دی آئیڈیا آف پاکستان۔ سٹیفن فلپ کوہن۔ واشنگٹن: بروکنگ انسٹی ٹیوشن پریس، 2004ء۔
  3. ارد شیر کاؤس جی ہم تاریخ سے کبھی نہیں سیکھتے روزنامہ ڈان, اگست 19, 2007ء
  4. پاکستان کے شمالی صوبے نے اسلامی قوانین کی توثیق کر دی
  5. زاہد حسین ( اپریل 2008ء) فرنٹ لائن پاکستان: جہاد پسند اسلام کی طرف تحریک۔ آئی بی ٹارس