اعلامیہ تاشقند (Tashkent Declaration) پاک بھارت جنگ 1965ء، کے بعد 10 جنوری 1966 کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک امن معاہدہ تھا۔ جنگ بندی 23 ستمبر اس وقت کی عظیم طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ہو گئی تھی کیونکہ خدشہ تھا کہ دوسری طاقتیں بھی اس جنگ میں شامل ہو سکتی ہیں۔

مجموعی جائزہ

ترمیم

اجلاس 4 جنوری 1966 کو مستقل تصفیہ کی کوشش کے طور پر تاشقند، ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ، سوویت اتحاد (موجودہ ازبکستان) میں منعقد کیا گیا تھا۔ سوویت اتحاد کے وزیر اعظم الیکسی کوسیجن نے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور پاکستانی صدر محمد ایوب خان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ تاشقند کانفرنس جو اقوام متحدہ، امریکی اور سوویت اتحاد کے دباؤ پر ہوئی، نے پاکستان اور بھارت کو اپنی سرحد اور کشمیر میں 1949ء کی جنگ بندی لائن کو بحال کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ معاہدہ آخر کار ایوب خان کی قیادت کے خلاف عدم اطمینان اور احتجاجی مظاہروں کی وجہ بنا۔

اعلامیہ

ترمیم

کانفرنس کو بین الاقوامی طور پر ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا اور جاری اعلامیہ کو پائیدار امن کے لیے اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ: [1]

  • ہندوستانی اور پاکستانی افواج 25 فروری 1966ء سے پہلے کے ان کی تنازع سے پہلے کے مقام پر واپس چلی جائیں گی۔
  • اقوام ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گی۔
  • اقتصادی اور سفارتی تعلقات بحال ہوں گے۔
  • دونوں رہنما دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی تعمیر کی سمت میں کام کریں گے۔

حاصل نتیجہ واقعات

ترمیم

معاہدے کو بھارت میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس میں کشمیر میں کوئی جنگ کا معاہدے یا گوریلا جنگ کی کوئی بھی شق شامل نہیں تھی۔

اعلامیہ کے اگلے روز ہی بھارتی وزیر اعظم شاستری اچانک دل کا دورہ پڑنے سے تاشقند ہی میں انتقال کر گئے۔ لال بہادر شاستری کی موت کے بارے میں کئی سازشی نظریات ہیں۔

اقتباس

ترمیم

قدرت اللہ شہاب روز اول سے ایوب خان کے پرسنل سیکریٹری تھے۔ اپنی کتاب شہاب نامہ[2] میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں:

"جنگ بندی (1965) کے بعد ہی یہ خبریں پھیلنا شروع ہو گئی تھیں کہ روس یہ کوشش کر رہا ہے کہ قضیہ کشمیر اور جنگ سے پیدا شدہ دیگر مسائل حل کرنے کے لیے وہ اپنی نگرانی میں بھارت اور پاکستان کے مذاکرات کروائے۔ رفتہ رفتہ یہ معلوم ہوا کہ مذاکرات منعقد ہونے کے لیے تاشقند کا مقام تجویز ہو رہا ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے صدر ایوب کو ایک طویل خفیہ تار دی کہ اگر واقعی ایسی کوئی تجویز آپ کے زیر غور ہے۔ تو آپ اسے فوراً رو کر دیں۔ کشمیر کے تنازع میں روس ہمارے خلاف اور ہندوستان کے حق میں بار بار اپنا ویٹو استعمال کر چکا ہے۔ اب روس کی سرکردگی میں اور اس کی سرزمین پر اس بارے میں جو بھی مذاکرات ہوں گے، ان میں حالات اور ماحول کا زیادہ سے زیادہ دباؤ اور جھکاؤ بھارت ہی کے حق میں جانے کا خدشہ ہے۔ اگر ہم نے اس دباؤ اور جھکاؤ کے خلاف زیادہ ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کی تو یقیناً روس ہمارا مزید دشمن ہو جائے گا۔ ہمارے موجودہ حالات میں ہمیں روس کی مزید دشمنی مول لینا ہرگز مناسب نہیں۔
اس تار میں دوسری بات میں نے یہ لکھی تھی کہ اب تک تنازع کشمیر کی اصلی عدالت یو۔ این۔ او کی سیکیورٹی کونسل رہی ہے، وہیں یہ تمام بحث مباحثے ہوئے ہیں اور وہیں پر سب قراردادیں منظور ہوئی ہیں جو تمام کی تمام ہمارے حق میں ہیں۔ ہمارے مفادات کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مقدمہ اسی عدالت میں قائم رہنے دیں۔ اگر ایک بار یہ معاملہ کسی اور فورم مثلاً تاشقند میں منتقل ہو گیا تو اس کی نوعیت بالکل بدل جائے گی۔ سیکیورٹی کونسل کی تمام پچھلی قراردادیں متروک الاستعمال ہو جائیں گی اور رفتہ رفتہ فرسودگی اور دقیانوسیت کی گرد میں دب کر عملاً منسوخ اور کالعدم سمجھی جائیں گی۔ مستقبل میں ہمارے پاس کشمیر کی بابت صرف وہی حوالہ باقی رہ جائے گا جو مذاکرات تاشقند فراہم کریں گے۔ ایسی صورت حال ہمارے موقف کشمیر کے لیے انتہائی زوال پزیر رجعت پذیری ثابت ہو گی۔
اس تار میں تیسری بات یہ درج تھی کہ کشمیر کے معاملے میں اگر روس بھارت اور پاکستان کے مابین اپنی خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا ہی چاہتا ہے تو یہ مذاکرات یو۔ این۔ او میں سیکیورٹی کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے چاہئیں۔ وہاں پر روس کو بھی ضرور خصوصی طور پر مدعو کیا جائے تاکہ وہ اپنی خیر سگالی کا برملا عمل اظہار کرنے میں پورا پورا آزاد ہو-
صدر ایوب نے تو میری اس ٹیلیگرام کا کوئی جواب نہ دیا لیکن چند روز بعد ہماری وزارت خارجہ سے میرے نام ایک خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میری تار پڑھ کر صدر ایوب نے اس پر یہ نوٹ تحریر فرمایا تھا۔
"There is a Lot of Sense in what he says?”
صدر کا یہ نوٹ پڑھ کر مجھے ہلکی سی امید بندھ گئی کہ شاید میری معروضات نے ان کے دل پر کچھ اثر کیا ہے اور وہ میرے مشورے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہوں گے۔ لیکن یہ میری خام خیالی ثابت ہوئی، کیونکہ چند ہفتوں کے بعد یہ خبر آئی کہ 3 جنوری 1966ء کو پاکستان کا وفد صدر ایوب کی قیادت میں تاشقند پہنچ گیا ہے ۔ بھارتی وفد کے سربراہ وزیر اعظم لال بہادر شاستری تھے۔
مذاکرات تاشقند آٹھ روز جاری رہے اس موضوع پر بھی کوئی مستند اور جامع دستاویز ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی۔ چند راویوں سے جو ہمارے وفد میں شامل تھے میں نے اتنا سنا ہے کہ ابتدائی چند ایام تعطل کا شکار رہے۔ کیونکہ شاستری جی نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ کشمیر پہلے ہی سے طے شدہ مسئلہ ہے اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہو رہے ہیں جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے ہیں۔ غالباً روسیوں کی مداخلت سے شاستری جی کسی قدر پسیجے اور پاکستانی وفد کو ان مذاکرات کے دوران کشمیر کا نام لینے کی اجازت مل گئی۔ البتہ بھارتی وزیر اعظم کا رویہ بدستور سخت اور بے لوچ رہا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے ہو چکا ہوا تھا اور اب اسے ازسر نو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ وزیر خارجہ مسٹر بھٹو کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو بغیر کوئی معاہدہ کیے واپس لوٹ جانا چاہیے۔ شروع میں صدر ایوب بھی غالباً اس خیال سے متفق تھے۔ لیکن روسی وزیر اعظم مسٹر کوسیجن نے صدر ایوب سے پے در پے چند ملاقاتیں کر کے ان پر کچھ ایسا جادو کیا کہ ان کا رویہ ڈرامائی طور پر بدل گیا۔ اور وہ دفعتاً اس بات کے حامی ہو گئے کہ کسی معاہدہ پر دستخط کیے بغیر ہمیں تاشقند سے واپس جانا زیب نہیں دیتا۔
مذاکرات کے دوران کسی نکتے پر مسٹر بھٹو نے صدر ایوب کو کچھ مشورہ دینے کی کوشش کی تو صدر کا ناریل اچانک چٹخ گیا۔ انھوں نے غصے میں مسٹر بھٹو کو اردو میں ڈانٹ کر کہا ”الو کے پٹھَے بکواس بند کرو۔"
مسٹر بھٹو نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا ”سر آپ یہ ہرگز فراموش نہ کریں کہ روسی وفد میں کوئی نہ کوئی اردو زبان جاننے والا بھی ضرور موجود ہو گا۔"
میرا اندازہ ہے کہ غالباً یہی وہ نکتہ آغاز ہے جہاں سے صدر ایوب اور ذو الفقار علی بھٹو کے راستے عملی طور پر الگ الگ ہو گئے۔
وزیر اعظم کوسیجن نے صدر ایوب پر کیا جادو چلایا یا کیا دباؤ ڈالا، اس کا ہمیں اب تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں رہنماؤں کی ایک یا دو ملاقاتیں ایسی تھیں جن میں ہمارے وفد کا کوئی اور رکن موجود نہ تھا۔ شاید اس بات کی آڑ لے کر مسٹر بھٹو نے صدر ایوب کے خلاف اپنی مہم میں یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ معاہدہ تاشقند میں کچھ ایسے امور بھی پوشیدہ ہیں جو ابھی تک صیغہ راز میں ہیں اور وہ بہت جلد ان کا بھانڈہ پھوڑنے والے ہیں۔ میرے خیال میں یہ محض ایک سیاسی شعبدہ بازی تھی جس کا مقصد صدر ایوب پر ایک عامیانہ الزام تراشی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یوں بھی صدر ایوب کی معزولی کے بعد مسٹر بھٹو نے اس تہمت کی طرف اشارہ تک کرنا چھوڑ دیا تھا، کیونکہ انھیں بخوبی علم تھا کہ یہ الزام شروع ہی سے بے بنیاد تھا۔
10 جنوری 1966ء کو وزیر اعظم شاستری اور صدر ایوب نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر دیے اور مسٹر کوسیجن نے اس پر اپنی گواہی ثبت کر دی۔ اس کے بعد خوشی منانے کی غرض سے دو تقریباًت منعقد ہوئیں۔ ایک تو بین الاقوامی صحافیوں کی پریس کانفرنس کا استقبالیہ ۔ دوسرا مسٹر کوسیجن کا دونوں وفود کے لیے ایک شاندار ڈنر۔ ان دونوں تقریباًت میں پاکستانی وفد کے اراکین کسی قدر بجھے بجھے اور افسردہ دل تھے۔ لیکن بھارتی اراکین خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور پھدک پھدک کر، چہک چہک کر اپنی شادمانی اور مسرت کا برملا اظہار کر رہے تھے۔ لال بہادر شاستری صاحب بھی فخر و انبساط سے سرشار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈنر کے بعد جب وہ اپنے ولا (Villa) میں واپس گئے تو کچھ دیر ٹیلی فون پر دہلی سے باتیں کرتے رہے۔ غالباً اپنی کامیابی اور فتحیابی کی خبر دے رہے ہوں گے۔ اس کے بعد شادی مرگ نے انھیں آ دبوچا اور دو تین گھنٹوں کے اندر اندر دل کی حرکت بند ہو جانے سے وفات پا گئے۔
دو تین روز بعد ہالینڈ کے ایک اخبار میں معاہدہ تاشقند کی تفصیلات پڑھیں۔ ساتھ ہی ایک فوٹو دیکھی جس میں صدر ایوب روسی وزیر اعظم کے ہمراہ لال بہادر شاستری کے تابوت کو کندھا دے کر دہلی جانے والے ایک جہاز کی طرف جا رہے تھے۔ اس تابوت میں صرف شاستری جی کا جسد خاکی ہی نہ تھا۔ بلکہ اس میں مسئلہ کشمیر پر یو۔ این۔ او میں ہماری تمام پیش رفت بھی لپیٹ کر مقفل کر دی گئی تھی۔ کیونکہ 10 جنوری 1966ء کے بعد مسئلہ کشمیر کا حوالہ سیکیورٹی کونسل کی قرار دادیں نہ رہی تھیں، بلکہ معاہدہ تاشقند کی وہ شق رہ گئی تھی جس میں ریاست جموں و کشمیر کا ذکر محض ضمنی طور پر اس طرح آیا تھا:
"The prime Minister of India and the President of Pakistan agree. that both sides will exert all efforts to create good neighbourly relations between India and Pakistan in accordance with the United Nations charter, they reaffirm their obligation under the charter not to have recourse to force and settle their disputes through peaceful means."
"They considered that the interest of peace in the region and particularly in the Indo-Pakistan Subcontinent and indeed, the interests of the people of India and pakistan were not served by the continuance of the tension between the two countries. It is against this background that Jammu and Kashmir was discussed, and each of the sides put forth its respective position.”
ہندوستان کے علاوہ معاہدہ تاشقند کا اصلی ثمر روس کے حصے میں بھی آیا۔ یہ مذاکرات اپنی سرزمین پر منعقد کرانے میں روس کی پیش قدی میں غالباً میں دعویٰ بھی مضمر تھا کہ حق ہمسائیگی کے طور پر جنوبی ایشیا کے معاملات اس کے حلقہ اثر کا جزو لاینفک ہیں۔ سپر پاور کے درمیان دنیا میں اپنے اپنے حلقہ اثر کی بندر بانٹ کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ امریکا نے روس کے اس خاموش لیکن واضح دعوے کو بلا چوں و چرا تسلیم بھی کر لیا۔
10 جنوری 1966ء کو مسئلہ کشمیر معاہدہ تاشقند کے تابوت میں ڈال دیا گیا تھا۔ چھ برس بعد 1972ء کو معاہدہ شملہ نے اس تابوت میں ایک اور کیل ٹھونک دی۔ یہ کیل ان الفاظ کے ساتھ گاڑی گئی تھی۔
In Jammu and Kashmir, the Line of control resulting from the casse fire of December to shall be respected by both sides without prejudice to the recognised position of either side. Neither side shall seek to alter it unlaterally, irrespective of mutual differences and legal interpretations, both sides further undertake to refrain from threat or the use of force in violation of this Line.
اس کے بعد رفتہ رفتہ اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ اگر ہم کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر تنازع کشمیر کا نام تک بھی لیں، تو بھارتی حکمران سیخ پا ہو کر ہم پر گرجنے برسنے لگتے ہیں کہ ہم ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کیوں کر رہے ہیں؟
مجموعی طور پر 1965ء کی پاک بھارت جنگ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے عہد کا ایک انتہائی اہم سنگ میل ہے۔ اس موقع پر پوری قوم نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ لیکن ان کے فوجی مشیروں کی ہمت اور اہلبیت قوم کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی۔ ان کے دیرینہ حلیف امریکا اور برطانیہ نے ان کے ساتھ بے وفائی کی۔ تاشقند میں روس نے ان پر یقیناً کسی نہ کسی قسم کا دباؤ ڈالا۔ معاہدہ تاشقند میں مسئلہ کشمیر کو اس کی بنیادی پٹڑی سے اتار کر کھٹائی میں ڈال دیا گیا۔ اس کے خلاف ملک میں شدید رد عمل کی رو ابھری۔ اور اس کے ساتھ صدر ایوب کے زوال اقتدار کے آثار مرتب ہونا شروع ہو گئے۔"

حوالہ جات

ترمیم
  1. "1965 war BBC"۔ BBC News۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2013 
  2. shahab-nama