الانصار بہرائچ
ہفتہ وار الانصار بہرائچ سے شائع ہونے والا ایک اخبار تھا۔ جس کے مالک محفوظ الرحمن نامی اور مدیر قاضی اطہر مبارکپوری تھے۔جو نومبر 1947 سے مئی 1948تک نکلا اور بعد میں بند ہو گیا۔
تاریخ
ترمیمقاضی اطہر مبارکپوری لکھتے ہیں کہ قیام لاہور کا پورا دور ملک میں سخت انتشار،بے چینی اور فتنہ و فساد سے پُر تھا،ملک کی تقسیم طے ہو چکی تھی،تفصیلات طے ہورہی تھیں،بلکہ 15 اگست 1947ء کی تاریخ بھی مقرر ہو چکی تھی، مولانا فارقلیط نے کہاکہ تقسیم کے وقت امرتسراور لاہور میں فسادات کا خطرہ ہے، اس لیے ہم لوگوں کو یہاں سے وطن چلا جانا چاہیے ،جب سکون ہوگا تو واپس آجائیں گے،ان کو اندازہ نہیں تھا کہ تقسیم ملک اس طرح ہو جائے گی کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے،چنانچہ پہلے میں چلا آیا ،بعد میں فارقلیط صاحب بھی گئے ،اس کے بعد وہ اخبار الجمعیتہ سے منسلک ہو گئے اور میں بیکار رہا،جگہ کی تلاش میں مدرسوں کا چکر کاٹا مگر کہیں کام نہیں چلا،اسی میں چار پانچ مہینے گذر گئے،سخت پریشانی تھی،مدرسے والے کہتے تھے کہ وہ باہررہ چکے ہیں اس لیے جب بھی موقع پائیں گے پڑھانا چھوڑ دیں گے۔اس دور میں مولانا محفوظ الرحمٰن نامی مبارک پور آئے ،وہ یو پی کی پہلی کانگریسی حکومت کے پارلیمنٹری سکریٹری بنائے گئے،انھوں نے اپنے وطن بہرائچ سے ہفتہ وار ’’الانصار ‘‘ جاری کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔اس کی ادارت کے لیے بات طے ہو گئی،مشاہرہ 75 روپیے طے ہوا،قیام و طعام کا انتظام ان کے گھر تھا،اور محرم 1367ھ(نومبر 1947ء)تارجب1367ھ(1948ء) بہرائچ میں قیام رہا،اکلیل پریس اور کاتب ان کے گھر کے تھے۔[1] مولانا عبد الحفیظ بلیاویؒ اس وقت مدرسہ نور العلوم میں مدرس تھے، جس کے ذمہ دار مولانا محفوظ الرحمٰن نامی صاحب ؒتھے۔،وہ نائب اڈیٹر بنائے گئے ان کا قیام بھی مولانا نامیؒ مکان کے ایک حصہ میں تھاوہ خالص علمی آدمی تھے،اس وقت’’مصباح اللغات‘‘ کے مسودّات صاف کرکے ’’ندوۃ المصنفین ‘‘ دہلی بھیجا کرتے تھے،،بڑے چاک چوبند ،بے تکلف،مخلص اور علمیمزاج کے ہم ذوق آدمی تھے،ان سے خوب بنتی تھی۔ یہ زمانہ پورے شمالی ہند خصوصاً پنجاب میں مسلمانوں کے حق میں بڑا پُر آشوب تھا،معلوم ہوتا تھا کہ یہاں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا،قتل و غارت گری،آتش زنی اور دوسرے طرح طرح کے فسادات تھے،اور میں’’الانصار‘‘ میں ان فرقہ پرستوں ،قاتلوں اور مسلمان دشمن جماعتوں کے خلاف تیز وتند انداز میں لکھتا تھا،اور یوپی حکومت کی طرف سے بار بار تنبیہ اور نوٹس آتی تھی۔حتیٰ کہ گرفتاری اور سزا کی باری آگئی مگر مولانا نامی نے حکومت کو اطمینان دلایا کہ وہ اخبار پر کنٹرول کریں گے اور مجھ سے کہا کہ آپ یوپی میں پنجاب کا انداز تحریر اختیار نہ کرین ورنہ اخبار بند ہو جائے گا،میں نے مولانا فارقلیط صاحب کو اس سلسلہ میں لکھا تو انھوں نے بھی یہی کہا کہ دہلی کا معاملہ اور ہے ،یوپی کا اور !قلم سنبھال کرکے لکھیے۔!اسی دوران یوپی حکومت کا ایک سرکلرتمام عدالتوں میں پہنچا کہ اخبار’’الانصار‘‘کو کوئی اشتہار نہ دیا جائے ،وہ حکومت کے نزدیک غیر مقبول اخبار ہے،اس لیے کسی طرح سات ماہ جاری رکھ کر اسے بند کر دینا پڑا میرے مضامین مولانا عبد الماجد دریا آبادی’صدق جدید‘‘میں بڑے انشراح سے ایک ’’ایک غیور صحافی‘‘ ’’ایک بے باک صحافی‘‘وغیرہ کے حوالہ سے بلاتبصرہ نقل کرتے تھے،عبد الرزاق ملیح آبادی نے اپنے اخبار’’عصر جدید‘‘میں مولانا دریابادی ے خلاف ایک نہایت گستاخانہ مضمون لکھا میں نے انصار میں اسی انداز کا جواب لکھا اور مولانا دریابادی سے وقتی اختلافات کے باوجود ان کی طرف داری کی،اس وجہ سے وہ میری حوصلہ افزائی کرنے لگے،ورنہ اس سے پہلے ’’زمزم‘‘میں ان کے خلاف دو کالم میں لمبا چوڑا مضمون لکھ چکا تھا۔[2] زندہ دلان پنجاب کے رنگین شہر اور مرکز شعر و ادب جیسے بارونق وپُر بہار جگہ کے مقابلہ میں بہرائچ ایک سنسان اور بے کیف و کم مقام تھا،جس کو غازی میاںؒ کی وجہ سے شہرت تھی،لاہور کے مقابلہ میں یہاں کا قیام با لکل بے کیف تھا،مگر چونکہ مزاج مدرسہ کا تھا اس لیے یہاں مدرسہ نور العلوم دلچسپی کا مرکز بن رہا،مولانا عبد الحفیظ بلیاوی،مولانا سید حمید الدین صاحب،حافظ محمد نعمان صاحب ،مولانا سلامت اللہ صاحب ،حافظ عبد العزیز صاحب اور حافظ اعمیٰ صاحب یہاں کے مخلص و بااخلاق اساتذہ تھے،میں بھی بعض کتابیں پڑھاتاتھا،اکژوقت وہیں ،خصوصاً مولانا بلیاوی کی دلچسپ علمی و ادبی مجلس بڑی پُرکشش تھی،طلبہ و مدرسین میں وقت گزرتا تھا،مبارکپور کے کپڑوں کے بعض تاجر بھی آتے جاتے تھے،اخبار کے کاغذ کے سلسلہ میں مولانا نامی کے یہاں لکھنؤ آنا جانا ہوتا تھا،راستہ میں گونڈہ شہر کے مدرسہ فرقانیہ سے تعلق ہو گیا تھا،ابوزکریابن علی خطیب تبریزی کی شرح ’’ دیوان الحماسﺔ ‘‘ پہلی بار یہیں کے کتب خانہ سے لے کر دیکھی تھی،یہیں کے دوران قیام تقسیم کے بعد مسلمانوں کی پہلی کانفرنس مولانا آزاد کی زیر صدارت لکھنؤ میں ہوئی جس میں مسلم جماعتوں کو سیاسی سرگرمی الگ ہو کر ثقافتی و تہذیبی اور دینی و مذہبی خدمات کا فیصلہ کیا گیا تھا،اور میں اس میں شریک ہوا تھا،اسی دوران گاندھی جی قتل ہوا تھا،اور بہرائچ میں ماتمی جلوس نکلا تھا،جس میں ہم لوگ شریک تھے۔ یہاں کے خواجہ محمد خلیل اسمبلی کے ارکان اور درگاہ سالار مسعود غازیؒ کی کمیٹی کے چیرمین تھے،وہ اپنے ذہن و مزاج کے آدمی تھے ،ہم لوگ اکثڑ درگاہ میں فتریح کے لیے جاتے تھے،اسی کے قریب انارکلی نام کا ایک تالاب ہے اس میں مچھلی کے شکار کے لیے جایا کرتے تھے،ابن بطوطہ نے بہرائچ میں بانس کے جنگل اور اس میں گینڈے کا ذکر کیا ہے،درگاہ کے شمال میں بانسوں کا جنگل تھاوہاں سے میں نے ایک چھڑی کاٹی تھی،یہاں شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ اور بعض دوسرے مشائخ کے مزار ہیں،یہاں ایک معمولی سے کتب خانہ میں ابوالعاءمعری کا دیوان ’’سقط الزند‘‘ تھا جس کو میں نے 8 سفر1367ھ میں ڈھائی روپئے میں خریدا ،،جو 1319ھ مطابق1901 میں مصر میں چھپا تھا۔[3] تذکرہ مشاہیر اعظم گڑھ ومبارک پور: قیام بہرائچ کے دوران میں نے ’’تذکرہ مشاہیر اعظم گڑھ و مبارک پور ‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے کی ابتدا جمادالاولیٰ1367ھ میں کی،اور اچھا خاصا مسودہ تیار ہو گیا ،بعد میں اسی سے’’ تذکرہ علمائے مبارک پورُُ1974ء میں شائع کیا،یہ پوری بیاض منتشر شکل میں میرے پاس موجو دہے۔[4]