قاضی اطہر مبارکپوری
مورخ اسلام الحاج مولانا عبد الحفیظ صاحب قاضی اطہر مبارکپوری (پیدائش 4 رجب 1334ھ مطابق 7 مئی 1916ء - وفات 27 صفر 1417ھ مطابق 14 جولائی 1996ء), محلہ حیدرآباد قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں بروز یکشنبہ صبح پانچ بجے پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا مولانا احمد حسین رسولپوری نے عبد الحفیظ نام رکھا۔ مگر قاضی اطہر سے مشہور ہوئے۔ اطہر آپ کا تخلص ہے، جوانی میں کچھ دنوں خوب شاعری کی، برجستہ اشعار کہتے تھے، پھر شاعری چھوڑ دی۔ قاضی اس لیے کہے جاتے ہیں کہ آپ کے خاندان میں ایک عرصہ تک نیابت قضا کا عہد قائم رہا۔[4]
قاضی اطہر مبارکپوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1916[1][2][3] مبارکپور |
وفات | سنہ 1996 (79–80 سال)[1][2][3] مبارکپور |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
مذہب | اسلام |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
درستی - ترمیم ![]() |
تصانیفترميم
- ہفتہ وارالانصار بہرائچ کے مدیر
- عرب و ہند عہد رسالت میں (اردو)
- ہندوستان میں عربوں کی حکومتیں (اردو)
- اسلامی ہند کی عظمت رفتہ (اردو)
- خلافت راشدہ اور ہندوستان (اردو)
- خلافت عباسیہ اور ہندوستان (اردو)
- خلافت بنو امیہ اور ہندوستان (اردو)
- Dayar-e-Purab Mein Ilm-o-Ulama (اردو)
- Tazkirah-e-Ulama-e-Mubarakpur (اردو)
- Maasir-o-Maarif (اردو)
- Aasaar-o-Ikhbar (اردو)
- Tadween-e-Sair-o-Maghazi (اردو)
- Khairul Qoroon Ki Darsgahein (اردو)
- Aimma Arba’a (اردو)
- Banaat-e-Islam Ki Ilmi Wa Deeni Khidmaat (اردو)
- Islami Nezam-e-Zindagi (اردو)
- Afadaat-e-Hasan Basri (اردو)
- Muslamaan (اردو)
- Assalehaat (اردو)
- Tablighi Wa Taalimi Sargarmian Ahde Salaf Mein (اردو)
- Islami Shadi (اردو)
- Ma’ariful Qur'an (اردو)
- Tabaqatul Hujjaj (اردو)
- Ali Wa Husain (اردو)
- Hajj Ke Baad (اردو)
- Khawateen Islam Ki Ilmi Wa Deeni Khidmaat (اردو)
- Qaedah Baghdadi Se Sahih Bukhari Tak (اردو)
- Rejalus Sindh Wal Hind (عربی)
- Al Iqdus Sameen (عربی)
- Al Hind Fi Ahdil Abbaseen (عربی)
- Jawaherul Osool (عربی)
- Tareekh Asmaa Asseqaaf (عربی)
- Deewan Ahmad (عربی)
- Musalmano Ke Har Tabqe Mein Ilmo Olama (اردو)
- Mae Tohoor (اردو)
معاشی زندگیترميم
آپ کے ہاں ابتدا میں بہت تنگی تھی۔ گزر اوقات بہت مشکل تھی۔ اس لیے زمانۂ طالب علمی میں ہی جلد سازی کا کام کرنے لگے۔ جلد سازی کے لوازمات اعظم گڑھ جا کر لاتے تھے۔ وہ بھی پیدل، اس میں کئی گھنٹے صرف ہوتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ سے انہوں نے تعلیم ترک نہ کی۔ کتابوں سے بہت محبت تھی۔ اس لیے پیسہ پیسہ جمع کرتے۔ جب اتنے پیسے جمع ہو جاتے کہ کوئی کتاب خرید لی جائے تو کتاب خرید لیتے۔ زندگی کا بڑا حصہ تنگی و ترشی میں گزرا۔ لیکن اخیر عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر رزق کے دروازے کشادہ کر دیے۔ حتیٰ کہ آپ کا شمار مبارکپور کے امرا میں ہونے لگا۔ بچپن سے ہی آنکھیں کمزور تھیں۔ لیکن ضعفِ بصارت کی وجہ سے کثرتِ مطالعہ سے نہیں رکے۔ اور نہ ہی اس چیز نے کثرت تصنیف و تالیف سے روکا۔ آپ سادہ طبیعت، مہمانوں کی خوب خاطر داری کرنے والے، پاکی صفائی کو پسند کرنے والے تھے۔ اپنے شہر مبارکپور میں ایک ادارہ ’’دائرہ حلبیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔[5]
محسن ہند کا خطابترميم
پاکستانی علما کے پاس آپ کی شخصیت اور تحقیقات کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ پر آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’محسنِ ہند‘‘ کا لقب دیا، پاکستان میں منعقد ہونے والے علمی سیمناروں میں آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کی بعض کتب کو عالم عربی میں مصدر و مرجع ہونے کا شرف حاصل ہے۔ قاضی صاحب کو علم حاصل کرنے کی بہت تڑپ تھی۔ مطالعۂ کتب کا بڑا گہرا شغف تھا۔ جس کی وجہ سے امہات الکتب اور دوسری کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا گویا بہت بڑا کتب خانہ ہو۔ مطبوعات و مخطوطات کی اتنی کثرت ہو گئی تھی گھر تنگ دانی کا شکوہ کرنے لگا۔ اس کتب خانے کا فیض تھا کہ آپ نے بڑی معیاری اور خوبصورت کتابیں علمی دنیا کے سامنے پیش کیں۔[6]
اساتذہترميم
نعمت اللہ مبارکپوری (م: 1362ھ) آپ کے پاس فارسی، خط نسخ و خط نستعلیق سیکھی۔ مفتی محمد یاسین مبارکپوری (م:1404ھ) جن کے پاس بہت سی عربی کی کتابیں پڑھیں۔ شکر اللہ مبارکپوری (م: 1361ھ) کے پاس کتب منطق وفلسفہ پڑھی۔ بشیر احمد مبارکپوری (م: 1404ھ) کے پاس بعض کتب منطق پڑھی ہیں۔ محمد عمر مبارکپوری (1415ھ) کے پاس تفسیر جلالین اور دوسری کتابیں پڑھیں۔ محمد یحییٰ رسولپوری (1387ھ) کے پاس علم عروض، علم قوافی اور علم ہیئت حاصل کیا۔ جو آپ کے ماموں تھے۔[7]
شعر گوئیترميم
آپ نے طالب علمی کے زمانے سے شعر گوئی شروع کر دی تھی اور یہ اشعار ’’فرقان‘‘ بریلی(1357ھ)، ’’قائد‘‘ مرادآباد (1357ھ) اور لاہور کے کے رسائل جیسے زمزم، کوثر اور مسلمان میں چھپنے لگے۔ ان اشعار سے آپ کی شہرت علمی حلقوں تک پہونچ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ 225 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا جو اصحاب صفہ کے متعلق تھا۔ اس کے بعد تصنیف و تالیف اور صحافت کے میدان میں ایسا اترے کہ شاعری ترک کر دی۔[8]
وفاتترميم
14 جولائی 1996 بعد نماز فجر اپنے بچوں سے کہا کہ میں نے یہ علمی خزانہ بڑی محنت اور مشقت سے جمع کیا ہےـ اگر اس کی حفاظت سے کر سکو تو یہ دار العلوم دیوبند یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے کردینا تاکہ اس سے استفادۂ عام کا دروزہ کھلا رہے ـ 14 جولائی 1996 کو ہی یہ علم و فضل کا آفتاب 80 سال کی عمر پاکر دنیائے فانی سے دارِ بقاء کی طرف کوچ کرگیاـ ۔ نماز جنازہ مہتمم دار العلوم دیوبند مولانا ابو القاسم نعمانی نے پڑھائی.[9]
حوالہ جاتترميم
- ^ ا ب بنام: At̤har al-Hindī Mubārakpūrī — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/399928 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: http://id.worldcat.org/fast/1449107 — بنام: At̤har, Qāz̤ī Mubārakpūrī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb16557159h — بنام: At̤har Qāz̤ī Mubārakpūrī — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ از: مولانا محمد عثمان صاحب معروفی رحمتہ اللہ علیہ۔
- ↑ تابہ فلک از:ظہیردانش عمری ص:56،ناشرآتش اکیڈمی،کڈپہ2009ء
- ↑ تابہ فلک از:ظہیردانش عمری ص:51،ناشرآتش اکیڈمی،کڈپہ2009ء
- ↑ تابہ فلک از:ظہیردانش عمری ص:50 ،ناشرآتش اکیڈمی،کڈپہ2009ء
- ↑ تابہ فلک از:ظہیردانش عمری ص:52،ناشرآتش اکیڈمی،کڈپہ2009ء
- ↑ Abu Muhammad Maulana Sana'ullah Sa'd Shuja Abadi. Ulama-e-Deoband Ke Aakhri Lamhaat. Maktaba Rasheediya, Saharanpur. صفحات 275–276.