سورہ التکویر
سورہ تکویر یا کُوِّرَت مکی سورتوں میں سے ہے۔ ترتیب مصحف کے لحاظ سے 81ویں اور ترتیب نزول کے لحاظ سے 7ویں سورت ہے اور قرآن کے آخری پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے جس میں تکویر (سورج کا تاریک ہوجانا) کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ سورہ تکویر میں قیامت اور اس کی لرزہ خیزی نیز قرآن کی عظمت اور اس کی تاثیر پر بحث کی گئی ہے۔
التکویر | |
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 81 |
تعداد آیات | 29 |
الفاظ | 104 |
حروف | 425 |
گذشتہ | عبس |
آئندہ | الانفطار |
نام
پہلی ہی آیت کے لفظ کوِّرَت' سے ماخوذ ہے۔ کوِّرَت تکویر سے صیغۂ ماضی مجہول ہے جس کے معنی ہیں لپیٹی گئی۔ اس نام سے مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لپیٹنے کا ذکر آیا ہے۔
زمانۂ نزول
مضمون اور اندازِ بیاں سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔
موضوع اور مضمون
اس کے دو موضوع ہیں ایک آخرت اور دوسرے رسالت۔
پہلی چھ آیتوں میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جب سورج بے نور ہو جائے گا، ستارے بکھر جائیں گے، پہاڑ زمین سے اکھڑ کر اڑنے لگیں گے، لوگوں کو اپنی عزیز ترین چیزوں تک کا ہوش نہ رہے گا، جنگلوں کے جانور بدحواس ہو کر اکٹھے ہو جائیں گے اور سمندر بھڑک اٹھیں گے۔ پھر سات آیتوں میں دوسرے مرحلے کا ذکر ہے جب روحیں از سرنو جسموں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی، نامۂ اعمال کھولے جائیں گے، جرائم کی بازپرس ہوگی، آسمان کے سارے پردے ہٹ جائیں گے اور دوزخ جنت سب چیزیں نگاہوں کے سامنے عیاں ہو جائیں گی۔ آخرت کا یہ سارا نقشہ کھینچنے کے بعد یہ کہہ کر انسان کو سوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ اس وقت ہر شخص کو خود معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔
اس کے بعد رسالت کا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں اہل مکہ سے کہا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کچھ تمھارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے، نہ کسی شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ ہے، بلکہ خدا کے بھیجے ہوئے ایک بزرگ، عالی مقام اور امانت دار پیغام بر کا بیان ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھلے آسمان کے افق پر دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس تعلیم سے منہ موڑ کر آخرت تم کدھر چلے جا رہے ہو؟