الحاج مولوی ریاض الدین احمد

{{subst:afdx|دوسرا|help=off}} {{subst:afdx|پہلا|help=off}} الحاج مولوی ریاض الدین احمد ایک ممتاز ماہر تعلیم، مدرس اور سماجی مصلح تھے۔ آپ 1906 میں ہندوستان کے شہر آگرہ میں پیدا ہوئے۔ اس شہر کو چونکہ اکبربادشاہ کی نسبت سے اکبرآباد بھی کہاجاتا ہے اسلیے بسااوقات ان کے نام کے ساتھ اکبرآبادی کا لاحقہ بھی نظرآتا ہے۔آپ کا نسب کئی واسطوں سے معروف صوفی بزرگ شیخ سلیم چشتی سے جا ملتا ہے۔ یہ وہ شیخ سلیم چشتی ہیں جن سے اکبر بادشاہ کو بطور خاص بہت عقیدت تھی۔ گھر میں ہونے والی ابتدائی تربیت نے ریاض الدین احمد کو تعلیم کی گہری قدردانی سکھائی۔ جب آپ کا جنم ہوا تو آپ کا گھرانہ خاص متمول شمار ہوتا تھا مگر رفتہ رفتہ حالا ت بدلتے رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی متحرک قیادت سے متاثر ہو کر، ریاض الدین احمد نے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں فعال حصہ لیا۔ جناح کی شخصیت کا نوجوان ریاض الدین احمد پر گہرا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقیدت کا یہ سلسلہ ٹھوس صورت اختیار کرتا گیا۔

الحاج مولوی ریاض الدین احمد کی یادگار تصویر

تعلیم بالخصوص خواتین کی تعلیم کےلیے ان کی کوششوں کے اعتراف میں حکومت پاکستا ن نے پس مرگ انہیں تمغہ امتیاز بھی عطا کیا ہے۔ اسی نسبت سے بہت سے قدرشناس انہیں ’’ سرسید ثانی‘‘ کا خطاب بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے جس دور میں جنم لیا اور جس دور میں وہ پروان چڑھے وہ ہندوستان کے مسلمانوں میں روایت واقدار کے حوالے سے جمود کا دور تھا۔ روایتی افکار اور روایتی اقدار کے اس دور میں انھوں نے محسوس کیا کہ خواتین کی تعلیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کے انقلابی خیالات ان کے دور کے اصولوں سے متصادم تھے لیکن خواتین کی خواندگی کے لیے ان کی وابستگی اور لگن میں کمی نہیں آئی۔ وہ انجمن اسلامیہ ٹرسٹ کے بانی تھے جس نے بہت سے تعلیمی اداروں کے قیام کی نوید سنائی۔الحاج مولوی ریاض الدین احمد اکبر آبادی نے کم و بیش 17 تعلیمی ادارے مختلف اوقات میں قائم کیے۔ ان میں پہلی درسگاہ ’’ محمودہ نسواں‘‘ اسکول آگرہ تھی جبکہ آخری جناح یونیورسٹی برائے خواتین تھی۔اس دوران آپ انجمن اسلامیہ ٹرسٹ کے تحت چھپنے والے میگزین سے بھی مختلف حیثیتوں میں منسلک رہے۔ اسی میگزین کے صفحات میں آپ نے اپنی زندگی کے چند گوشے بھی منور کیے ہیں جنہیں جوڑ کرہم ان کی آپ بیتی کی تصویر بناسکتے ہیں۔

بچپن

اپنی خود نوشت کا آغاز وہ اللہ تعالیٰ کے شکرسے کرتے ہیں جس نے انہیں مسلمانوں کے گھرپیدا کیا اوریوں وہ متبع رسالت کا تفاخر پاسکے۔شفاعت رسول کی امید رکھتے ہوئے وہ اپنی عمر مسلمانوں کی خدمت میں گزارنے کے مصمم ارادے کا اظہار کرتے ہیں اورپھر اپنے خاندان کا تعارف کراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ مولوی صاحب کے والد ماجد کا پاپوش کا کاروبار تھا۔ راجہ گوالیار کے چمڑے کی فیکٹری کی ایجنسی انہیں ملی ہوئی تھی۔جب یہ کاروبار بگڑا تو انہوں نے عینکیں  بیچنے کا کاروبار اپنایا اور آگرہ سے کلکتہ اور آگرہ سے بمبی تک شہرشہر پھر کرچشمے فروخت کرتے ۔ یہ اس عہد کی نئی صنعت تھی اور لوگ چشمے سے آنکھوں کو ملنے والی روشنی کی وجہ سے انہیں آنکھوں کے ڈاکٹر کا درجہ دیتے ۔ والد جن کا نام فیاض الدین تھا ریاض الدین کو اولیائے دین کی خانقاہوں اور مزارات پر باقاعدگی سے ساتھ لے جاتے ۔چودہ برس کی عمر میں آپ نقشبندیہ سلسلے سے بیعت ہوچکے تھے۔بتاتے ہیں کہ جب گیارہ بارہ کا سن تھا تو رات کو بستر پر لیٹنے لگتا تو یہ خیال ستاتا کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک افغانستان، ایران اور ترکی وغیرہ اپنی فوجیں اکٹھی کیوں نہیں کر لیتےتاکہ تمام دنیا کو فتح کو کرکے اپنے پرچم کے نیچے لے آئیں یہ وہ دور تھا جب جنگ بلقان کا شورہر جانب تھا۔ لوگ ترک جرنیلوں انورپاشا وغیرہ کی بہادری کی داد دیتے تھے۔ اسی کے ساتھ تحریک خلافت کا دور بھی آگیا۔ شوکت علی اور جوہرعلی اور بی اماں کی ترک جرنیلوں کے ساتھ تصاویر جابجا فروخت ہونے لگیں۔ ہر جمعہ کو مسلمانوں کےجلوس مرکزی مساجد سے نکلتے اور دلوں کو گرماتے ۔پولیس رضاکاروں کو گرفتار کرتی ،۔ایسے میں ننھے ریاض الدین جو ابھی گیارہ بارہ کے سن میں تھے وہ  پولیس کی گاڑی پر چڑھ گئے کہ مجھے بھی گرفتار کرو۔ اس پر گاڑی پر تعینات پولیس والے نے سخت چپت لگا کر نیچے اتار دیا۔


نوجوانی

بطور طالب علم مولوی ریاض الدین کچھ ایسے خاص نہ تھے۔ اردوفارسی اور جغرافیہ جیسے مضامین میں تو خوب نمبر لاتے مگرجہاں تک انگریزی اور حساب کا تعلق تھا عموماًً سالانہ امتحانوں میں ناکام رہتے۔ نویں دسویں جماعت کے دن تھے اور والد صاحب کےحالات اچھے نہیں رہ گئے تھے۔ مالی پریشانیوں نے گھیررکھا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نےاپنے جگرگوشے کےلیے الگ سے ٹیوشن کا بندوبست کیا۔جب درجہ نہم میں پہنچے تو فیاض الدین صاحب کے ایک دوست مولوی علی احمد خان وکیل رئیس فتح آباد نے تجویز دی کہ کیوں نہ ریاض الدین پانچ روپے ماہوار پران کے دو پوتوں کو ابتدائی تعلیم کےلیے ٹیوشن دے دیا کریں چنانچہ معاملہ طے ہوگیا۔ فارغ البالی نصیب ہوئی ،دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا لیکن ادھر 1926 میں مولوی صاحب میٹرک کے امتحان میں فیل ہوگئے۔

یہ حساس طبیعت کے حامل نوجوان ریاض الدین کےلیے بڑا جھٹکا تھا۔ والد صاحب کے ایک اور دوست سید آل نبی جو کی آگرہ کی میونسپلٹی کےسررشتہ سے کہہ کر 20 روپے ماہوار پر کلرک رکھوا دیا۔ انہوں نے اردو میں اپنے ہاتھ سے درخواست لکھی اور پھر انگریزی میں اس پر سفارش لکھ کر آگے بڑھا دیا۔ قاصد تحریر دیکھ کربھانپ گیا اور یہ قصہ عام کردیا۔چنانچہ اس شہرت سے  نوجوان ریاض الدین کو خوب فائدہ ہوا اور وہ گویا کلرکوں کے راجہ  بن گئے۔ریاض الدین نےایک موقع پر سید آل نبی کی سیاسی مخالفت بھی کی لیکن اعلیٰ ظرف شخص نے کبھی اسے کینہ پروری کاسبب نہیں بنایا بلکہ اس کے باوجود ریاض الدین کو میونسپلٹی کا سب رجسٹرار بنانے کےلیے بھرپور تگ و دو کی ۔

1928 میں آپ نے مسلم ٹینس کلب کےنام سے ایک ادارہ قائم کیا اور اس سلسلہ میں روزانہ ہوٹ پارک جانا ہوتا وہاں ایک عوامی کب خانہ بلدیہ آگرہ کی طرف سے قائم تھاجس کی عمارت  جون صاحب نے تعیمر کرائی تھی اور سے چلانےک لےیے کچھ روپتہ بھی آگرہ میونسپلٹی کو دیا تھا وہاں جو اردواخبارات اور جریدے آتے ھے وہسب کے سب وہ تھے جن کو ہندو نکالتے تھے ان میں تیج، ملاپ ، زمانہ م مستانہ جوگی، گرو گھنٹال  وغیرہ تھے، ریاض الدین یہ دیکھ کر دکھی ہوتے کہ مسلمانوں کا اپنا کوئی اخباریا رسالہ نہیں آتا۔ ریاض الدین کی کوشش کے باوجود اس ک ےل یے کسی اخباریا جریدے میںاضافہ نہ ہوسکا۔ اس پر نوجوان ریاض الدین نے ٹھانہ کہ اس ناانصافی کا علاج یہ ہے کہ انا ایک الگ کب خانہ کھولاجائے چنانچہ انہوں نے کشمیر ی بازار میں ایک کمرہ تین روپے ماہوار کرائ پر اوپر کی منزل پر حاصل کیااور وحدت الایمان، مولوی پیشوا، نیرنگ خیال ، ادبی دنیا، ہمایوں جہانگیر لاہور سے منوانے شروع کیے ۔ کچھ فرنیچر چند دوستوں نے فراہم کیا کچھ کا بندوبست انہوں نےخود کیا اور یوں مسلم لائبریری آگرہ کا افتتاح ہوگیا۔ ،مفتی انتظام اللہ شہابی کی معاونت بھی یہیں نصیب ہوئی اور چند سال میں یہ کتب خانہ ایک بڑی لائبریری کی صورت اختیار کر گیا۔ حکیم عبدالستار خان اکبرآبادی کی ایک پرانی مسلم لائبریری تھی وہ انہوں نے اپنی کتابوں اور فرجیچر سمیت دے دی۔ پھر ڈپٹی عرفان علی بیگ سی آٗی ای کا کب خانہ بھی ان کے صاحبزادے مرزاقربان علی بیگ سے خرید لیا، نواب فیاض خان رئیس دتاولی جو جواب اسمعیل خان کے متبنیٰ تھے ان کا کب خانہ نواب فیاض خان کے فرزندوں نے مسلم لائبرئری کےلیے دے دیا۔ قریب آٹھ ہزار کتابیں اس دور میں جمع ہوگئیں۔ ہزار دوسزار کتوابوں کا اہتمام تو مفتی انتظام اللہ شہابی مرحوم نے خود کیا۔ اس کبت خانے کو آگرہ میونسپلٹی اور ڈسٹرکٹ بورڈ آگرہ سےسالانہ امداد بھی ملنے لگی اور یوں ادارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا۔

سیاست

نوجوان ریاض ادین عدالت دیوانی میں بحثیت لائبریرین ملازم ہوگئے۔ یہاں ڈسٹرکٹ جج مسٹر بینٹ باراایٹ لا آئی سی ایس تھے اور ان کی تنخواہ نوجوان ریاض الدین کی تنخواہ سے سو گنا زیادہ تھی یہ نا انصافی انہیں بہت کھلتی تھی کہ انسانوں کی اجرت میں اس قدر فرق نہیں ہونا چاہیے۔ شبلی نعمانی کے چھوٹے بھائی جنید نعمانی آگرہ میں سب سے لائق جج تھے۔ انہوں نے ایک دن نقل نویس کی فاش غلطیاں پکڑیں  تو ڈسٹڑکٹ جج کو لکھتے ہیں ک ہناہل لوگوں کو ملازمت دے دی جاتی ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ قابلیت جانچ کرملازمتیں دی جائیں۔اس پرانگریز آئی سی ایس جی او ایلن نے اس کانام غیر مستقل کارکنوں اور امیدواروں کی قابلیت جانبچنے کےلیے مقرر کر دیا۔ ریاض الدین کی ملازمت بھی ابھی مستقل نہیں تھی، وہ بھی امتحان دینے پہنچے۔لائبریری کے انتظام و انصرام کی وجہ سے اخبار بینی کی ایک عادت سی ہوگئی تھی، جس دن امتحان تھا اس دن ریاض الدین صطح کے اخبارات پڑھ کر گئے تھے۔ انگریزی اخبار میں خبر تھی کہ بمبئی یونیورسٹٰ نے انلگینڈ کی کی ایک یونیورسٹٰ کے پاس شدہ طلبہ کا اپنی یونیورسٹی میں ملازمت کا سلسلہ اس لیے بند کردیا تھا کہ بمبئی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل کچھ افراد لند ن کی یونیورسٹی کے معیار پر پورا نہیں اترے تھے۔ جنید صاحب نے وہی خبر دی کہ  پڑھ کرتشریح کریں ، نوجوان ریاض الدین چونکہ پہلے ہی خبر پڑھ چکے تھے اسلیے فوراً تشریح کردی  یوں تمام امیدواروں میں ریاض الدین سیکنڈ نمبر پرآئے۔ یہ چیز اس عہدیدار کو بہت ناگوارگزری جو رشوت لےکرامیدواروں کو مستقل ملازمت دلا دیا کرتا تھا اس کی روزی بند ہوگئی۔پھر ایک دن یوں ہوا کہ اس عہدیدار کو اپنا غصہ نکالنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ ہوایوں کہ ریاض الدین نے ایک چٹھی ٹائپ کرکے ڈسٹرکٹ جج کے پاس لے گئے۔جج نے اس میں کوئی ترمیم کرکے اپنے چھوٹے دستخط اس پر کر دیئے ،اب ریاض الدین نے دوسری نقل میں وہی ترمیم کرکے فائل میں شامل کردی اور اصل خط ترمیم شدہ الہ آباد کے ایک بکسلر کو یادہانی کے طور پر بھیج دیا۔ جب اس کاکوئی جوا ب نہیں آیا تو دوسرا خط یادہانی کا لے کر ریاض الدین اسی عہدیدار کے پاس گئے اور جب اسے ریاض الدین کی غلطی کا علم ہوا تو وہ فوراً انگریز ڈسٹرکٹ جج کے علم میں لے آیا چنانچہ بطور سزا ریاض الدین کا تبادلہ متھرا کردیا گیا۔ اب پردیس میں ملازمت کا یہ پہلا موقع تھا۔بڑی پریشانی رہی یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا محمد علی جوہر کا لندن میں انتقال ہوا ، تمام وکلا میں بڑا چرچا تھا کہ مولانا نے اپنی جان ایک آزاد ملک میں دی۔ادھر والد محترم فیاض الدین نے کسی نہ کسی طرح اس عہدیدار(صدرمنصرم) کو ریاض الدین کو معاف کرنے پر آمادہ کرلیا  لیکن اس میں کوئی رشوت وغیرہ کا بالکل کوئی کردار نہیں تھا۔ ہاں البتہ وہ عہدیدار فیاض الدین صاحب سے عینکیں ضرور خریدتا تھا ۔یوں کچھ عرصہ بعد ریاض الدین کا تبادلہ آگرہ لائبریرین کی جگہ پر ہو گیا ْ۔

سید آل بنی کےانتقال کے بعد آگرہ میں مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہ رہا تھا۔ کوئی ایسا رہنما نیہں تھا جسے انگریز حاکموں میں کوئی اثر ورسوخ ہو۔ ایسے میں ایک دن ریاض الدین نے دیکھا کہ ایک سرخ وسفید شخص نہایت اعلیٰ درجے کا سوٹ پہنے پاس سے گزرے ، خدو خال او ر وضع قطع سے بالکل انگرمز معلوم ہوئے۔دریاگت کیا یہ کوں ہیں پتہ چلا کہ اختر عادل صاحب ہیں اور سرکاری وکیل کی حیثیت سے تقرر ہوا ہے۔ ان سے قبل اوشیودت وکسرکاری وکیل تھے جنہیں سبکدوش کردیا گیا ہے۔اختر عادل کے بارے میں پتہ چلا کہ ڈبل ایل ایل بی ہیں، بریلی کے انسپکٹر آف اسکول رہ چکے ہیں جبکہ گورنمنٹ ہائی اسکول کے صدر معلم بھی رہ چکے ہیں۔ اس طرح وہ پلے ہندوستانی تھے نہیں یوپی میں یہ اعلیٰ عہدہ ملا تھا۔کمشنرآگرہ جب کلکٹر متھرا ہوا کرتے تھے تو بنیئے سے لئے گئے ایک قرض سے اختر عادل صاحب نے ان کی جاں بخشی کرئی تھی اور اس انگریز افسر آئیرلینڈ نے اخترعادل کو سرکاری وکیل بنا دیا ۔اختعادل کو کتابوں کی بہت ضرورت رہتی اور اس طرح ان کی دوستی نوجوان ریاض الدین سے گہری گئی ۔

ریاض الدین بھانپ گئے کہ اگر اختر عادل آگرہ کی میونسپلٹی اور صوبائی اسمبلی کے رکن ہوجائیں تو مسلمانوں کے بہت سے کام نکل سکتے ہیں لہذا جیسے ہی میونسپلٹی کے انتخاب کا موقع آیا ریاض الدین نے تجویز دی کہ نائی کی منڈی سے امیدوار ہوجائیے ،وہ پس وپیش کرنے لگےجس کی وجہ ریاض الدین کی سمجھ میں نہ آئی۔ کاغذات انامزدگی جمع کرانے کےلیے پچاس روپے فیس تھی۔اختر عادل صاحب نے چپڑاسی کے ہاتھ رقم بھجوانے کا وعدہ کیا ،لیکن انتظار کرنے والے انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ریاض الدین نے یہ پچیس روپے ان کے بھتیجے نعیم الدین ایڈووکیٹ اور پچیس روپے ان کے بھانجے اسرار صاحب ایڈووکیٹ سے بطور قرض لیا۔ااخترعادل کو جتانے کی سرتوڑ کوشش کی ۔مقابلے کے لوگ بھی کوئی کم حیثیت نہیں تھے۔ ل احمداکبر آادی اور حکیم بخش کا علق بھی اختر عادل کی رادری سے تھا اور تیسرے مشیر علی علون خان بھی بہت صاحب حیثیت تھے۔ اختر عادل نے اپنے سیاسی وعدے پورے نہیں کیے۔ اور یوں نوجوان ریاض الدین جو اپنے دیانتداری کے جذبے کے تحت بساط بھراخترعادل کےلیے سیاسی  خدمات انجام دیتے رہے انہیں احساس ہوا کہ غلی ہوئی ہے اور اس کا خمیازہ نہ صرف انہیں بھگتنا پڑا بلکہ پوری قوم کو بھی بھگتنا پڑا۔لیکن یہ سیاسی محنت اکارت نہیں گئی۔بعد ازاں جب اپریل 1962 میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بنیادی جمہوریت میں  کونسل کا انتخاب خود لڑیں گے تو یہ سیاسی تربیت ان کے کام آئی۔ اس انتخاب کا حوالہ انہوں نے اپریل 1962 میں شائع ہونے والے انجمن کے میگزین میں بھی کیا ہے۔ یہاں انہوں نے اپنا انتخابی نشان پہیہہ اور اپنا سلسلہ نمبر 25 بھی قارئین سے متعارف کرایا ہے (احمد, 1962)۔

علمی و صحافتی خدمات

مولوی ریاض الدین احمد  کو اپنی جائے پیدائش آگرہ  یا اکبرآباد سے بالعموم اور اس  کے مسلمان مشاہیر سے بالخصوص بہت محبت تھی ۔سیماب اکبرآبادی کی یاد میں انجمن کا ایک نمبر نکالنا اور اورق انجمن میں جابجا اکبرآباد کے نمایاں افراد کا تذکرہ (شہابی)اس کا ایک مظہر ہے ۔ مثال کے طور پرسینٹ جونس کالج آگرہ کے پروفیسر مولانا عابد حسین فریدی اور حامد حسن قادری کا ذکرہے ۔ یہ دونوں گورے چٹے بھائی بالترتیب کالج کے فارسی اور اردو کے شعبوں کے سربراہان تھے۔۔اس کے علاوہ ان کی فرمائش پر مفتی انتظام اللہ شہابی نے مشاہیر اکبرآباد کے نام سے ایک تصنیف  بھی کی جس میں شیخ  ابراہیم محدث سے لے کرمنظر صدیقی تک 136 مشاہیر اکبرآباد کے نام درج ہیں۔

انجمن اسلامیہ میگزین کے مختلف شماروں میں بین السطور آپ کا نقطہ نظر بکھرا ہوا ہے۔بطورناشرآپ نے کراچی سے ایک ادبی جریدے انجمن اسلامیہ میگزین کا اجرا کیا اورقدرت اللہ شہابی کو اس کا مدیر مقرر کیا۔اس کا پہلا شمارہ25 نومبر 1958 بمطابق13 جمادی الاول 1378 ہجری کو سامنے آیا۔چونکہ مولوی ریاض الدین احمد اکبرآبادی اس کے مدیر نہیں تھےاس لیے وہ قارئین سے مدیر کی حیثیت سے مخاطب نہیں ہوئے لیکن انہوں نے بطور مصنف اپنے مقاصد کو ہمیشہ اپنی تحریروں میں پروسا۔اس میگزین کا  زراعانت 6 روپے سالانہ یا  فی  شمارہ آٹھ آنے مقرر کیا گیا۔اس میگزین کو سعیدی قرآن محل کراچی سے طباعت کراکےشائع کیا گیا۔یہ جریدہ جس قسم کے ہمت شکن حالات میں مرتب کیا گیا اس کی عکاسی پہلے شمارے کے اداریے سے ہوتی ہے جو قدرت اللہ شہابی نے شذرات کے نام سے لگا ہے۔  لکھتے ہیں

’’ یہ انجمن سلامیہ میگزین کا پہلا شمارہ ہے۔ ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اس مختصر سے مجموعہ نگارشات کو ہر لحاظ سے ایک یاگار علمی پیشکش بنادیں، حالات کی نامساعدت اکثر اہل قلم حضرات کی خوئے عہد خلافی اور وسائل کی کمی کے باوجود ہم اپنی ان کوششوں میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اہم سے پہلے رسالہ شائع کرنے کی سنگلاخ راہوں سے گزر چکے ہیں۔ ہماری تو ابھی ابتدا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیاْ

ہمارے ملک میں کسی خالص علمی و ادبی جرید کا اجرا کو ئی ایسی بات نہیں جسے معموالات روزمرہ میں شمار کیاجاسکے  ۔یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ جب بھی کوئی رسالہ شائع ہوتا ہے تو وہ دو تین اشاعتوں کے بعد دم توڈ دیتا ہے لیکن اس کے برعکس فلمی اور جاسوسی قسم کے رسالے ہزاروں کی تعداد میں چھپتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہےَ یہ بہت اہم سوال ہے اگر ہم اپنے اشاعتی اداروں کی سرگرمیوںاور پٹرھنے والوں کی دلچسپیوں کا تجزیہ کریں تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ موجودہ دور میں وہی تحریریں پسند کی جاتی ہیں جو سطحی اور بے مقصد تفریح کا باعث ہوں۔ ان خیالات میں میگزین کے ناشر مولوی ریاض الدین احمد کے خیالات اور مقاصد کا اعادہ ہوتا نظر آتا ہے۔اک درد نمایاں ہے اور درد اپنی ذات کا نہیں بلکہ نوجوانان قوم کا درد ہے۔

میگزین میں اگلی تحریر منشی مولوی ریاض الدین احمد اکبرآبادی کی ہے اور وہ اپنی سطروں کو وہ انجمن اسلامیہ کی پچیس سالہ تاریخ کے مختلف اتارچڑھائو سے روشناس کرانے کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی دستاویز کا ایک حصہ ہے جبکہ دوسرا حصہ آئندہ اشاعت میں پیش کرنیکا وعدہ کیا گیا ہے۔اس دستاویز میں  انجمن اسلامیہ کے رفقا اور ان کی جدوجہد کا ایک مختصر تعارف ہے۔اگلی تحریر بھی مولوی ریاض الدین صاحب کی ہے اور یہ ایک میزانیہ ہے جسے انہوں نے اپنے ادارے کے معطیان کے حسا ب کتاب کو شفاف رکھنے کےلیے پیش کیا۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ دسمبر 1945 میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل  کانفرنس کا سالانہ اجلاس نوا زادہ لیاقت علی خان کے زیر صدارت آگرہ میں ہوا جس مٰں ایک ریزولیوشن جناح کالج کے قیا م کے بارےمیں منظور ہوا اور اس کےلیے بیس ہزارروپے کا چند ہ ہوا۔ جو میزانیہ دیا گیا ہے اس میں حاصل شدہ چندے  اور اخراجات کی پوری تفصیل موجود ہے۔ 25 سالہ میزانیے کے مطابق 22246.96 روپے چند ہ جمع ہوا جس میں 2236 روپے کے اخراجات ہوئے اور اس طرح20010 روپے بچے اور یہ پوری کی پوری رقم کراچی لائی گئی۔دیگر موضوعات خالصتاً ادبی ،اخلاقی یا مذہبی ہیں۔ مضامین اعلیٰ پایہ کے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دقت نظر سے ان کا انتخاب کیا گیاہوگا۔

انجمن میگزین

پہلے شمارے میں دو ابتدائی تحریریں انجمن اسلامی کے جنرلسیکرٹری ریاض الدین احمد کی ہیں۔ان میں س ایک تحریر انجمن اسلامیہ کی 25 سالہ خدمات کی رپورٹ ہے جبکہ دوسری تحریر دراصل عطیات دہندگان کے دیئے گئے عطیات کا گوشوارہ ہے۔ اس پچیس سالہ رپورٹ کاآٓغاز یوں ہوتا ہےـ’’ آگرہ جو ایک قدئم تاریخی شہر ہے اور صدیوں تک اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے اورجو بابر ہمایوں، اکر، جہانگیر اور شاہجہاں کے دورحکومت میں درالخلافہتھا اور پٹھانوں کے دورحکومت میں بھی دارلسلنت رہا تھا۔ سولہویں صدیمیں دنیا کا سب سے بڑا شہر شمار کیا جاتا تھا جہاں اس وقت چھ لاکھ کی آبادی تھی۔ غدر میں انگریزیوں کے ہاتھو قہں ککی اسلمی ثقافت اور اس کے نام لیوا کچھ اس طرح ختم کیے گئے کہ ندگی کے  آثارمفقود نظر آتے تھے۔ اس صدی کے ٓغاز میں ایک لاکھ مسلمانوں کی تعلیمی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی کہ اس پر جس قدر ماتم کیاجاتا کم تھا۔

خدا کا شکر ہے کہ ایک مد مومن مارہرہ صلع ایٹہ سے یعنی مولوی سعید احمد صاحب بسلسلہ ملازمت آگرہ تشریف لائے اور چند مخلص حضرات کو ہمراہ لے کر آگرہ کے مسلاموں کی تعلیمی حالت بہتربنا نے کی کوشششیں شروع کر دیں۔ صرف چند سال کی کوششوں کے بعد ایک ہائی اور دو مڈل اسکول ایک مکتب اور ایک کتب خانہ قائم کیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی حالگ انجمن محمدیہ کے ان بے لوث اورخداتترس کارکنوں کی وہ سے کافی ترقی کرگئی بھی پھر ایک لاکھ مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات اس سے زیادہ توجہ مکی محتاج تھیں۔

خدا کا شکرہہے کہ اس لسلسہ میں اللعہ تعالیٰ نے کچھ کام مجھ ناچیز سے بھی لینا اپنی مشیت میں شامل کرلیا تھا۔ میرا نظریہ ہے کہ کہ ضرورت اتجاد کی میاں ہے اور انجمن اسلامیہ کے ہتھوں اب تک جو کچھ تعلیمی کام ہوا وہ صرف اس مقولہ کےی بنا پر تکمیل پایا۔ آگرہ میں سرف ایک پبلک کالئبریری میونسپلیٹی کی جان سے کھلی ہوئی تھی جس می اردو کے آخبارات تیج اور ملاب وغیرہ آتے تھے اور رسالوں میں زمانہ مستانہ جوگی وہ غرہ مہیا کیے جاتے تھے یہ وہ زمانہ تھا کہ جب لصرف لاہور سے چاپانچ بلند پایہ ارددو کے رسالے شائع ہوتے تھے۔ میرای مراد ہمایو، عالمبیر، ادبی دنیااور نیرنگ خیال سے ہے میں نے جب یہ محسوس کیا کہ اردو کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہورہی تھی۔

جون جولائی 1986 میں انجمن اسلامیہ کے قیام کے جشن طلائی کے موقع پر شائع ہونے والے انجمن میں بھی وہ انجمن اسلامیہ کے قیام اور ارتقائی مراحل پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کی جوانی کے دور میں آگرہ کی واحد لائبریری جونسن میں زیادہ ترکتابیں انگریزی اور ہندی کی تھیں، انہی دو زبانوں کے اخبار اور رسالے آتے تھے۔ اردو کے اخبا اور رسالوں میں ماپ ، تیج ، زمانہ ، مستانہ جوگی اور گرو گھنٹال آتے  تھے جب کی ادارت ہندووں کے ہاتھ میں تھی۔اس کے علاوہ زماہ کے سوال سارے جرائد اپنے مضامین اور زبان کے اعتبار سے غیر معیاری تھے۔اس صورتحال نے مسلمانوں کےلیے الگ سے لائبریری کے قیام کے خیال کی راہ ہموار کی ۔ریاض الدین کوئی بہت ثروت مند آدمی نہیں تھے نہ ایسے وسائل تھے کہ تنہا ایسے کام کرسکتے۔ لیکن انہوں نے بسم اللہ کرڈالی ۔ اپنی محدود آمدنی سے کچھ رقم مختص کرکے ایک کمرہ کرائے پر لیا اس میں مسلم لائبریری کے نام سے ایک کتب خانہ کھولا ۔فرنیچر کےلیے دوستوں نے مدد کی۔ رسالوں اور اخباروں کو چندہ بھیج کر لائبریری کے نام سے اجرا کیا۔ یہ رسالے الامان، وحدت ، عالمبیر، نیرنگ خیال ۔ ہمایوں اور ابی دنیا تھ۔ الامان اور وحدت کی ادارت کے فرائض مولانا مظہر الدین صاحب اا کررہے تھے، ان کو بعد میں ان کی بیباکی اور صاف گوئی کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔ عالمگیر، نیرنگ خیال، ہمایوں اور ادبی دنیا دنیا چاروں ۔

ذکرریاض

انجمن کے ریاض الدین اکبرآبادی نمبر جو کہ بعدمیں ذکرریاض کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا اس میں ان کے ہم عصروں اوران سے فیض پانے والے ولوں کی تحریریں شامل ہیں۔ دوسرے شمارے کے آخری صفحات  مولوی ریاض الدین احمد کی تحریر کی دوسری قسط ہےجس کی پچیس سالہ تاریخ کے مختلف اتار چڑھائو بیان کیے گئے ہیں۔

اس کا آغاز نعت صفحہ نمبر دو پر جناب ابوالخیر صاحب کشفی لیکچراردوکالج کراچی کی نعت بحضور سرور کائنت سے ہوتا ہے ۔ صفحہ تین پر قدرت اللہ شہابی کا اداریہ شذرات موجود ہے ، مولانا سیدعبدالرشید صاحب فاضل ایم  کا مضمون فارسی ادب میں شاہنامہ کا مقام صفحہ 5 پر ہے۔ مدیر کے نام سے ایک مضمون بعنوان قدیم مشاعتہ صفحہ 9 ہے علامہ ابن رومیہ البیلی اندلسی پر مدری مضمون صفحہ 13 پر ہے۔کراچی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر جناب اقتدار حسن صاحب کا مضمون شمالی ہندمیں اصلاح زبان کی تحریک پرمضمون صفحہ 21 ہے۔ مولوی محمد حبیب اللہ خان صاحب غضنفرصاحب (صدرشعبہ اردو) ایم اے او کالج کراچی کا مضمون نحو عر بی کا معقولاتی پہلوصفحہ 29 پرشائع ہوا ہے۔۔ ادو ے ایک بڑے محقق جناب مولانا نصیر الدین صاحب ہاشی نے کیفیات اسد علی خان کے نام سے غالب پر ایک مضمون لکھا ہے جو صفحہ 33 پرشائع ہوا ہے۔ جناب ڈاکٹر محمد عقیل صاحب کا مضمون غدر کے گردوپیش میں چند نثر نگاف کے عنوان سے مضمون صفحہ 40 پر جبکہ علامہ اقبال کے فلسفہ خودی پر جناب فروغ علوی صاحب کاکوروی کا مضمون صفحہ 54 پر جبکہ آخر میں جناح کالج فنڈ کے حوالے سے منشی ریاض الدین صاحب سیکریٹری انجمن اسلامیہ

14نمبر شمارے میں دو اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں ایک تو سرورق پہلے جیسے سادہ سرورق کے بجائے رنگین بھی ہوگیا ہے اوراسے کسی آرٹسٹ سے بنوایا گیا ہے۔ ٹائٹل انسائیڈ پر جگر کی تصویر ان کا مصرعہ ہے ُُُُُُُ‘’ جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پرُُُ درج ہے۔ پندرہوں شمارے کا سرورق پھر کچھ رجعت کا حامل ہے تاہم یہ ماضی کے ٹائٹلز سے بھی مختلف ہے اوراس پر پہلی مرتبہ ٹیلی فون نمبر بھی درج ہے اس سےیہ اندازہ بھی کیاجاسکتا ہےکہ اس عرصے میں انجمن اسلامیہ کو فون کی سہولت مل گئی ہوگی۔15 نمبر میں فہرست مضامین دستیاب نہیں ہے۔ شذرات سے آغاز ہوتا ہے جس میں ایوب حکومت کی دوسری سالگرہ پر مبارکباددی گئی ہے اور اسے کامیابی قراردیا گیاہے۔صفحہ 6 پرمدیر کے نام قارئین کے خطوط کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ اس حصے کا نام ’’  ہمارے نام‘‘تجویز کیا گیا ہے اور پہلا خط محمد مشتاق شوق چاندپوری صاحب لاہور سے ہے۔

انتظام اللہ شہابی کی انتقال کے بعدمولوی ریاض الدین احمد کو اپنی گوناگوں تعلیمی اور فلاحی مصروفیات کے باوجود خود مدیر اعلیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں  جبکہ ثناالحق صدیقی مدیر معاون مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب چونکہ اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے کبھی شائق نہیں رہے اس لیے انہوںنے شذرات کے نام سےلکھے جانے والے  اداریے کو ادارے سے معنون کیا۔ادارےکے نام سے لکھی جانے والی نگارشات محض اداریوں تک محدود نہ تھیں میگزین میں جابجا ایسی تحریریں ملتی ہیں جن پر صاحب تحریر کے بجائےادارہ کانام لکھا ہے۔

انہوں نے شذرات کو اخباری اداریوں کی طرز پر متعدد موضوعات کےلیے مختص کیا۔ایک خط کشید کرکے ایک اداریے کو دوسر ے سے ممتیز کیا گیا ہے۔ خطوط میں احباب مدیر کو نام مولوی صاحب اور جناب ریاض الدین کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور وہ کسی نام پر معترض نہیں البتہ خطوط پر اپنی آرا لگی لپٹی رکھے بغیر دیتے ہیں۔ بطور مدیر آپ  میگزین کے بیرونی صفحے کی کتابت و طباعت پر خصوصی توجہ دی اور اسے جاذب نظر بنایا۔ اس کے علاوہ آپ نے میگزین کے اندرتصویری صحافت کا سلسلہ بھی شروع کیا اور انجمن کی اہم تقریبات کی تصاویر بمعہ کیپشن شائع ہونا شروع ہوئیں۔ کہانیوں کے ساتھ تصویری خاکے (السٹریشن بنانے) کا سلسلہ بھی انہوں نے شروع کیا۔ اس طرح اپنی عملیت پسندی کی بدولت وہ اس خالص ادبی و علمی جریدے کو اس قدر جاذب نظر بنادیا کہ اس نے عامیانہ ذوق ادب کے حامل مگرطباعت کے حربوں سے آراستہ میگزینوں اور ڈائجسٹوں کو مسابقت دینا شروع کر دی۔

ہم نے آج کے ہمت شکن ماحول میں ایک خالص علمی و ادبی رسالہ شائع کرنا افادہ کیا ہے۔ ہمیں اس راستے کی دشاریوں اور تکالیف کا پورا پورا احساس ہے لیکن ہم اس احساس سے اس قدر خائف نہیں ہیں کہ حالات کو نا قابل اصلاح سمجھ کر گوشہ نشین ہوجائیں۔ ہمیں مصلح ہونےکا دعویٰ نہیں ہے لیکن اتنا ضرورکہاجاسکتا ہے کہ اگر یہ مگیزین ہمارے پڑھنے والوں میں اور کچھ نہیں تو خودشناسی کا جذبہ ہی پیدا کردے توہم سمجھیں گے کہ ہماری کوششیں بے کار نہیں گئیں۔

تعلیمی خدمات

انجمن اسلامیہ ٹرسٹ کی قیام اور اس کے تحت چلنے والے اداروں نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں تعلیمی میدان میں ایک مثال قائم کی۔ مولوی صاحب کا یقین تھا کہ ایک معاشرہ تب ہی ترقی کر سکتا ہے جب اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں، اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر ان کی توجہ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ ایک حقیقی مصلح تھے جو معاشرے میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتے تھے۔مولوی صاحب کی زندگی ایک جدوجہد کی داستان ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسی کہانی بھی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ایک فرد کی لگن اور حوصلہ بڑے پیمانے پر تبدیلی لا سکتا ہے۔ ان کی انتھک محنت اور عزم نے نا صرف تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی بلکہ ایک ایسا سماجی ماحول بھی پیدا کیا جہاں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔الحاج مولوی ریاض الدین احمد کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے نئی نسلیں تحریک حاصل کریں گی۔ ان کا خواب ایک تعلیم یافتہ اور بیدار معاشرہ تھا، اور ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خواب دیکھنے اور ان کو حقیقت میں بدلنے کے لئے محنت کرنا ضروری ہے۔ آج ہم ان کے قائم کردہ اداروں اور ان کی خدمات کی بدولت ایک بہتر ستقبل کی جانب دیکھ رہے ہیں۔الحاج مولوی ریاض الدین احمد کنام پاکستان کے تعلیمی اور سماجی شعبوں میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا، اور ان کی یاد ان لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گی جو ان کی سوچ اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ اگست 1998 کی دوپہرکو خالق حقیقی کے روبرو پیش ہوگئے۔حکومت پاکستان نے پس مرگ انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔

شاعری

خود مولوی ریاض الدین احمد مرحوم اچھا شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔نمونے کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے: (۱۲)

اچھا چھیڑا ہے میں نے قصہ غم ابھی سے رنگ کیوں اُڑنے لگا

قلبِ منظر کا اربابِ محشر کا

غم قید قفس ہے اب نہ رنج یادگلشن ہے

کلیجا کرچکے ہیں آشنا بربادپتھر کا

تجھے دیکھیں گے یا اعمال نامے اپنے دیکھیں گے

وہی دن ہے ترے دیدار کا جودن ہے محشر کا

————

وہ رنگ خون ارماں، وہ بہاریںزخم حسرت کی

ریاضؔ اکثر مجھے دھوکا ہوا دلپر گل تر کا

————

مرا خیال اگر صرف جستجوہوجائے

تو کیا مجال کہ پھر پردہ پوش تُوہو جائے

اسی امید پر گردن جھکائے بیٹھاہوں

کہ تیری تیغ قریب رگِ گُلوہوجائے

میں ان پہ حال دل زار آئینہکردوں

ذرا سی دیر اگر ان سے گفتگوہوجائے

شگفتگی ہو نصیب جہاں ذوقریاضؔ

کہ دل میں بند محبت برنگ بُوہوجائے

————

دل لے کے مجھ سے دیتے ہوداغ جگر مجھے

یہ بات بھولنے کی نہیں عمربھر مجھے

مرنا ہے ان کے پاؤں پر رکھ کر سرِ نیاز

کرنا ہے آج قصہ غم مختصرمجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کاسامنا

مل جائے دو گھڑی کو تمھاری نظر مجھے

اللہ رے شوق دید کی حیرت افزائیاں

یہ حال ہے کہ کچھ نہیں آتا نظر مجھے

تم دور ہو تو کس لیے دل میںمقام ہے

میں پاس ہوں تو کچھ نہیں اپنیخبر مجھے

دوئی نفس کی ہے اپنے سواجہاں

ڈھونڈے سے بھی ملا نہ کوئینوح ہ گر مجھے