الزام تراشی ایک ایسا عمل ہے جس کی رو سے ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کو نشانۂ ملازمت بناتا ہے، کوستا ہے، منفی بیانات پیش کرتا ہے اور اس فرد ثانی یا گروہ ثانی کو سماجی یا اخلاقی طور پر غیر ذمے دار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عمل مدح سرائی یا تعریف کی ضد ہے۔ جب کوئی شخص کسی غلط عمل کے لیے اخلاقی طور ذمے دار ہے، تو انجام کیے گئے کام الزام و مذمت کے لائق ہیں۔ اس کے بر عکس ایسی صورت حال میں جب کوئی شخص کسی بھلے کام کے لیے اخلاقی طور ذمے دار، تو ایسا شخص قابل تعریف ہے۔ تعریف/ مدح کی اور بھی مختلف حسیں ہیں جو نسلًا مرکوز نہیں ہیں۔ مثلًا کسی شخص کے پوشاک کے انتخاب کی صلاحیت کی تعریف کی جا سکتی اور خود کے کپڑوں کے انتخاب میں عدم پیمانے کے ہونے پر مذمت کی جا سکتی ہے یا ایک تعلیم سے غافل شخص کی دانستہ طور پر بے تیاری امتحان لکھنے پر منفی رائے دی جا سکتی ہے۔

خود الزام تراشی ترمیم

برطانوی میگزین کی جانب سے کیے گئے سروے میں یہ دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین ایک دن میں کم از کم 8 مرتبہ خود پر تنقید کرتی ہیں یا اپنے ذہن میں اس کے متعلق سوچتی ہیں۔ سروے میں 2000 خواتین کو شامل کیا گیا، 40 فیصد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ صبح دن شروع ہوتے ہی خود کو کوسنا شروع کرتی ہیں۔ سروے کے تحت وزن بڑھنے اور موٹاپے پر خواتین کی خود پر تنقید عام ہے ۔[1] یہی جال کئی بار کم عمر بچوں، اپاہجوں اور سماج کے طبقوں کا اور خود گھریلو معاملات کے بگڑنے کی صورت میں عورتوں کا ہے کہ وہ ایسی صورتوں میں خود کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔

مظلوم پر الزام تراشی ترمیم

عام لوگوں کا واسطہ زیادہ تر اپنے ہی جیسے عام لوگوں سے پڑتا ہے اور وہ انہی کے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں۔ ایک آدمی جو اپنے اختیار سے باہر کی جگہ پر مظلوم ہوتا ہے، اپنے اختیار کے دائرے میں ظالم بن جاتا ہے۔ ایک کلرک ظالم اور خائن بن کر رشوت لیتا ہے اور پھر مظلوم بن کر یہ مال اس بددیانت تاجر کو دے آتا ہے جو جھوٹ بول کر سستی چیز اسے مہنگے داموں بیچ دیتا ہے۔ پھر یہ مظلوم تاجر حرام منافع کی رقم اس ظالم حکومتی عہدے دار کو دے دیتا ہے جو اس سے رشوت طلب کرتا ہے۔ اس طرح ایک چکر چل رہا ہے، جس میں سب ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے تنگ بھی ہوتے ہیں۔ اس نہ ختم ہونے والے چکر میں سب پریشان ہیں اور سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جب کہ ہر فرد کسی نہ کسی طرح خود مظلوم بھی ہوتا ہے۔[2]

الزام تراشی پروپگنڈا ترمیم

سماج اکثر کسی شخص کے بارے میں لوگ منفی پروپگنڈا پھیلاتے ہیں اور بے جا الزام تراشی کرتے ہیں۔ یہ الزام تراشی ایک فرد یا گروہ کی دوسرے فرد یا گروہ پر ہو سکتی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں اس کی کئی شرمناک مثالیں ملتی ہیں۔ 2018ء میں بھارت کی شمالی ریاست جھارکھنڈ میں 11 افراد کو دو خواتین پر چڑیل ہونے کا الزام لگانے کے بعد انھیں ہراساں کرنا اسی کی منظر کشی ہے۔ اس واقعے میں ایک 65 سالہ خاتون اور اس کی 35 سالہ بیٹی کو مبینہ طور پر برہنہ کر کے گلیوں میں چلایا گیا اور زبردستی انسانی پیشاب پلایا گیا تھا۔[3]

الزام تراشی پروپگنڈا بین الممالک اور دو نسلوں کے بیچ بھی ممکن ہے۔ جرمن قوم کا اپنی برتری اور دیگر قومی کی خستہ حالی کا پروپگنڈا بھی اسی کی مثال ہے۔

ادارہ جاتی پروپگنڈا ترمیم

کبھی کبھی تنظیمی یا ادارہ جاتی طور پر پروپگنڈا پھیلایا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اخیر میں کئی کوبول اور دیگر فرسودہ سافٹ ویئر انجینیروں نے یہ پروپگنڈا پھیلانا شروع کیا گیا کہ وائی ٹو کے مسئلہ ایک بے حد سنگین مسئلہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ 2000ء کے ساتھ سارے کمپیوٹر کریش ہوں گے۔ مگر آگے چل کر یہ صرف ایک پروپگنڈا ثابت ہوا اور کوئی کمپیوٹر کریش نہیں ہوا۔[4]

حوالہ جات ترمیم

مزید مطالعات ترمیم

  • Douglas, T. Scapegoats: Transferring Blame (1995)
  • Wilcox, C.W. Scapegoat: Targeted for Blame (2009)

بیرونی روابط ترمیم