چڑیل جنوب مشرقی ایشیا میں ایک مؤنث آسیب ہے اور بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں معروف ہے۔ وہ عام طور پر "غیر متفق ماں کی روح" کے طور پر جانی جاتی ہے، وہ درختوں میں رہتی ہے اس وجہ اُسے درخت کی آسیب کہا جاتا ہے۔[1]

کچھ داستانوں کے مطابق، ایک عورت جو بچے کی پیدائش یا حمل کے دوران مر جاتی ہے یا اس کے سسرالیوں کے ہاتھوں تکلیف پا کر مرنے والی عورت انتقام کی تلاش کے لیے واپس آتی ہے، وہ خاص طور پر اپنے خاندان میں مردوں کو نشانہ بناتی ہے۔ زیادہ تر چڑیلیں بدصورت اور پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن ان کے پاس ایک خوبصورت عورت میں ڈھل جانے کی طاقت ہوتی ہے اور ایسا کر کے وہ مردوں کو بہلاتی پھسلاتی ہے اور پھر اپنے جام میں پھنسا کر یا تو ان کو ماردیتی ہے یا پھر ان کا جوہر حیات پی کر ان کو بوڑھا بنا دیتی ہے۔ اس کے اثر سے بچنے اور بھیس بدلنے سے روکنے کے لیے کئی تدابیر کی جاتی ہیں۔ اپنے خاندان تک اس کو آنے سے روکنے کے لیے خصوصی تدابیر کی جاتی ہیں۔ اگر خاندان میں کوئی چوڑیل نکل آئے تو بہت سی پوجا پاٹ کی جاتی ہیں اور وہ مرجاتی ہے۔ پھر لاش کو اس طرح دفن کرتے ہیں کہ کسی کو اس کا پتہ نہ لگے۔ پاکستان میں چڑیل کو “پچھل پیری“ کہتے ہیں۔ ، بنگلہ دیش میں ”پیتنی/شخچنی“ اور ملائیشیا اور انڈونیشیا میں پونتیاناک کہا جاتا ہے۔ بھارت و پاکستان میں چڑیل کا لفظ انگریزی زبان کے لفظ Witch کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی میں witch جادوگرنی یا ڈائن کو کہتے ہیں جس کے شیطان کی دی ہوئی خصوصی طاقت ہوتی ہے۔ [2] آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی چوڑیل کو فلموں، ادبی پاروں، ٹی وی اور ریڈیو پراگرا موں پر نشر کیا جاتا ہے ۔ چوڑیل کو دیکھنے اور اس کی خرافات کے تذکرے اب بھی جنوب مشرقی ایشیا کے گاؤں میں سننے کو آتے ہیں۔[3]

تخلیق

ترمیم

ایسا مانا جاتا ہے کہ چڑیلوں کی ابتدا ایران سے ہوئی ہے جہاں وہ ان کو اس عورت کی بدروح کے طور پر تصور کیا جاتا ہے جو اپنی خواہشات کو مکمل کرنے سے قبل مر گئی ہو۔ [4] جنوبی مشرقی ایشیا میں چڑیل اس بھوت کو مانا جاتا ہے جو آیا دوران زچگی یا ”دوران نجاست“ مر گئی ہو۔ نجاست کا دور دراصل ہندوستان میں ایک بہت ہی برا وہم ہے جس کے مطابق ایک عورت دوران حیض اور بچہ کی ولادت کے بعد 12 دنوں تک نجس رہتی ہے۔[1][5][6][7][8][9][10][11][12][13][14][15][16][11][17] کچھ ذرائع کے مطابق بھارت میں اگر کوئی عورت دوران زچگی یا دیوالی کے موقع پر مر جاتی ہے تو وہ چڑیل بن جاتی ہے۔ [11][14] مرزاپور کے کورواسوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت زچگی کے کمرے میں مرتی ہے وہ چڑیل بن جاتی ہے۔ پتاریوں اور مجھواروں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت دوران زچگی یا دوران حیض مرجاتی ہے تو وہ چڑیل بن جاتی ہے اور سفید لباس میں ملبوس ایک خوبصورت عورت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور پہاڑیوں میں مردوں کو رجھاتی ہے؛ ان کے نزدیک اپنا حاصل کر کے خود کو آزاد کرانیے کا ایک واحد طریقہ ہے۔ بھویار کہتے ہیں اگر کوئی لڑکی 20 دن کی عمر سے قبل ہی مر جاتی ہے تو وہ چڑیل بن جاتی ہے۔[1]

پنجاب میں اگر کوئی آدمی بستر پر مر جاتا ہے تو وہ بھوت بن جاتا ہے۔ اور عورت چوڑیل۔[18] خارواروں کا خیال ہے کہ جب روح جسم سے آزاد ہوتی ہے تو وہ ہوا بن جاتی ہے لیکن اگر کسی شخص سے ٹکرا جاتی ہے تو تکلیف دہ بن جاتی ہے۔[5] ،مغربی بھارت گجرات میں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی عورت غیر فطری موت مرتی ہے تو وہ چڑیل بن جاتی ہے، اس کو جاکیھن، جاکھائی، مئکائی، نگولائی اور الوانتین کہتے ہیں۔[19][20] شروع میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ صرف نچلے طبقے کی عورتیں ہی چڑیل ہوتی ہیں۔[10]

ظاہری شکل و صورت

ترمیم

چڑیل کے نام پر بدصورت اور لٹکے ہوئے پستان والی عورت کا تصور ذہن میں آتا ہے، جس کی زبان کالی ہو، موٹے اور کھردرے ہونٹ اس کو مزید بد شکل بنا دیتی ہے۔ بعض دفعہ تو اس کا منہ ہی غائب ہوتا ہے۔ اس کا پیٹ مٹکا نما باہر نکلا ہوتا ہے۔ درندوں جیسے ہاتھ اور بد وضع اور غیر ضروری طور پر لمبے بال ہوتے ہیں۔ اور کبھی سؤر کی سی شکل اور بڑے بڑے دانت اور کبھی انسانوں کی سی شکل اور نوکیلے دانت اور وحشت ناک حد تک پراگندہ بال والی عورت چوڑیل بن کر سامنے آتی ہے۔[9][11][21][19] کبھی ایسی عورت بن جاتی ہے جس کا سامنے والا حصہ سفید اور پیچھے کا حصہ سیاہ ہو، پیر الٹے ہوں اور برہنہ گھومتی ہو۔[1][8]

کارستانیاں

ترمیم
 
ہندو عقائد کے مطابق چڑیل ڈاکنی اور کالی کی پوجا کرتی ہے۔

چڑیل زیادہ تر قبرستان، مقبرے، ویران میدان، غیر آباد گھر، چوراہہ، بیت الخلا اور غلیظ جگہوں پر دیکھی جاتی ہے۔[9][22][21] اگر چڑیل گھر کی ستائی ہوئی ہوتی ہے تو وہ گھر کے مرد افراد کو شکار بناتی ہے اور سب سے چھوٹے فرد سے شروع کرتی ہے۔ وہ پورا خون پی جاتی ہے جس سے شکار بے جان اور بوڑھا ہو جاتا ہے۔ پھر دوسرے مرد کو شکار بناتی ہے۔ جب گھڑ کے سارے مرد مر جاتے ہیں تب وہ دوسرے افراد کو لگ جاتی ہے۔ اگر کوئی چوڑیل کو دیکھ لے تو وہ جان لیوا بیماری کا شکار ہو سکتا ہے اور جو چڑیل سے نظریں ملالے تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔[1][5][6][8][2][11][17] نظم للا رادھا اور چڑیل میں پجاری ہیرو کو پیپل کے درخت کے قریب جانے سے منع کرتا ہے جو چڑیل کا ٹھکانہ ہوتا ہے اور اپنے قریب آنے والے کو وہ مار دیتی ہے۔ مگر وہ اس کے قریب جاتا ہے۔ چڑیل اس کو میٹھی آواز میں بلاتی ہے۔ اس کو رجھاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کے قریب چلا جاتا ہے۔ وہ جیسے جیسے قریب جاتا ہے اس پر مدہوشی طاری ہوتی رہتی ہے۔ وہ دبلا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر مرجاتا ہے۔[6] کتاب :عورت، ہندوستانی ثقافت میں“ میں مذکور ہے کہ “چڑیل ہر اس آدمی کو شکار بنانے کے لیے اس کا پیچھا کرتی ہے جس سے وہ ایک بال مل لیتی ہے۔ اور اس کی درندگی والی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔“ وہ ناچنے والی لڑکیوں کو بھی نشانی بناتی ہے۔ ان کو مدہوش کر دیتی ہے۔ [16] ایک فارسی دیومالا کے مطابق جب کوئی راہگیر چڑیل کو گندگی میں دیکھتا ہے اس کو لگتا ہے کہ وہ سمت مخالف میں جا رہی ہے مگر در حقیقت اس کے پیر الٹے ہوتے ہیں اور وہ اچانک سے قریب آجاتی ہے۔[4] پتاری اور مجوار کے مطابق وہ اپنے شکار کو لینے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کو لے کر پہاڑیوں میں چلی جاتی ہے۔ اس سے جان خلاصی کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک بکرے کی بلی دی جائے۔[1][8] کبھی کبھی چڑیل کنوارے نوجوانوں پر ڈورے ڈالتی ہے، ان کا دھیان اپنی طرف کھینچتی ہے اور رات کو ان سے عشق لڑانے جاتی ہے۔ اگر وہ لڑکے کو آزاد نہ کرے تو وہ لڑکا اس سے ملنے کی خواطر انتہائی لاغر ہوجاتا ہے اور بالآخر مر جاتا ہے۔[23] یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان ماؤں پر بھی حملہ کرتی ہے۔[14]

بچاؤ اور علاج

ترمیم

چڑیل سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے بنے کا سبب نہ بنا جائے اور اس کے بننے پر لگام لگائی جائے۔ یعنی حاملہ عورتوں کا اچھا خیال رکھا جائے۔[24] البتہ اگر کوئی عورت مرجائے تب بھی کچھ علاج و معالجہ اور بچاؤ تدابیریں کر کے اس کو چڑیل بننے سے روکا جا سکتا ہے۔ تمل تہذیب میں پجاری مردہ کو راضی اور خوش کرنے کے لیے اس کی پوجا کرتے ہیں۔[25] کچھ علاقوں میں چڑیل سے بچاو کے لیے ایک سنگی گھیرا بنا دیا جاتا ہے۔[11] بھارت کے کچھ علاقوں میں لاش کو گھر کے صدر دروازے کی بجائے پچھلے دروازے سے نکالتے ہیں تاکہ میت کو واپس آنے کا راستہ نہ ملے۔[19] اگر کوئی عورت دوران زچگی یا حیض مر جاتی ہے تو “اس کے جسم پر گائے سے بنی 5 اشیاء کی مالش کی جاتی ہے اور کچھ عبارتیں تلاوت کی جاتی ہیں“۔[1] پہاڑی علاقوں میں اگر کوئی حاملہ عورت مر جاتی ہے تو بہت احتیاط سے اس کو اٹھایا جایا ہے اور جائے موت کی مٹی ہٹا دی جاتی ہے۔ پھر وہاں پر سرسوں بوئی جاتی ہے۔ اور اس کے گھر سے شمشان گھاٹ تک جس راستے سے اس کو لے جایا جاتا ہے اس پر بھی سرسوں چھڑک دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ہی ہے کہ سرسوں مردوں کی دنیا میں کھلتی ہے اور اس کی بھینی بھینی نفیس خوشبو روح کو آسودہ اور مطمئن کر دیتی ہے اور وہ اپنے زمین والے گھر میں واپس نہیں آتی ہے؛ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چوڑیل اپنی قبر سے رات کو نکلتی ہے اور اپنے گھر کی طرف اسی راستہ سے واپس جاتی ہے، راستے میں اس کو سرسوں کے بیج بکھرے ہوئے ملتے ہیں جنہیں وہ چننا چروع کردیتی ہے اور اسی اثنا مین سورج طلوع ہو جاتا ہے۔ [12] کچھ ذرائع کے مطابق چڑیل کو صرف بائیگا قبیلے کے لوگ ہی روک سکتے ہیں۔ ان کو ایک بکرے کی بلی دینی پڑتی ہے۔[8] ایک کہانی میں ایک لڑکا بتاتا ہے کہ وہ چڑیل سے مل کر آیاہے۔ ایک ماہر ادویات (ایک ماہر ادویات جو چڑیل سے نجات پانے کے لیے جاور منتر پڑھتا ہے) کو بلایا جاتا ہے تاکہ وہ چڑیل سے بچہ کو بچا سکے۔ [23]

بچاو کے تدفینی طریقے

ترمیم

کسی ہندو عورت کو چوڑیل بننے سے روکنے کے لیے اس کو ہندو روایتی طریقے سے جلانے کی بجائے اس کی لاش کو دفن کر دیا جاتا ہے۔ عمل تدفین کی مکمل کارروائی بہت احتیاط سے انجام دی جاتی ہے۔ [19][24] اس عورت کو ہمیشہ پوجا پاٹ میں یاد رکھا جاتا ہے۔ [10] علاقوں کے حساب سے تدفین کے مختلف طریقے رائج ہیں تاکہ کسی بھٰ عورت کی روح کو چوڑیل بننے سے بچایا جا سکے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کی قبر میں کانٹے رکھ دیے جائیں اور اوپر سے بھاری پتھر سے ڈھک دیا جائے تاکہ روح قبر سے باہر نہ نکل سکے۔ اگر حاملہ عورت مر جائے اور اس کا پیٹ چاک کر کے بچے کو نکال لیا جاتا ہے اور زچہ بچہ کو اسی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ [1] موزاپور کے مجوار علاقے میں میت کی قبر میں کانٹے بھر دیے جاتے ہیں اور اوپر سے بھاری پتھروں سے ڈھک دیا جاتا ہے اور یوں چوڑیل باہر نکلنے سے قاصر رہتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں لاش کو گائے سی بنی 5 اشیا سے مالش کرتے ہیں اور کچھ خاص منتروں کا جاپ کرتے ہیں۔ پھر اس کا کفن جلا دیا جاتا ہے اور یا تو اس کو جلا دیتے ہیں یا دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ ایک طریقہ ہی بھی ہے کہ اس کی چار انگلیاں اور پاؤں کا انگوٹھا کاٹ لیا جاتا ہے اور ان سب کو فولادی انگوٹھی سے ساتھ زمین میں دفن کردیتے ہیں اور جائے موت پر سرسوں چھڑک دیتے ہیں۔ [8] اورراون کے مطابق زیادہ تر بد چوڑیلیوں کی آنکھیں سل دی جاتی ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے جاتے ہیں۔ پھر اس کو قبر میں زمین کی جانب منہ کر کے الٹا لٹا دیا جاتا ہے اور ایک روحانی طبیب گھر سے قبر تک لاش کے ساتھ چلاتا ہے اور سرسوں کا چھڑکاو کیا جاتا ہے، ساتھ ہی تمام لوگ منتر پڑھتے ہوئے جاتے ہیں۔ جنوبی منڈل کے گونڈز علاقے میں “حالت زچگی میں مری عورت کو باندھ دیا جاتا ہے اور بچہ کو بچا لیا جاتا ہے‘‘ اور اس طرح چوڑیل سے بچاو کیا جاتا ہے۔ [7]

ادبیات

ترمیم

جن ادیبوں نے چڑیل سے متعلق کہانیاں لکھی ہیں ان میں ردیارد کلپنگ، ہمایوں احمد، رابندرناتھ ٹیگور، ستیہ جیت رائے اور سوکمار رائے شامل ہیں۔[26] بچوں کی ادبیات میں چڑیل کا تذکرہ ملتا ہے (جیسے “ٹھاکر مار جھولی“ اور اور کچھ ٹی وی سلسلے۔ [27][28] ایک بنگالی ڈراؤنی فلم ”پوتولیر پروٹیشود“ (1998) ایک لڑکی کو دکھایا ہے کہ اس کو اس کے گھر والے مار دیتے ہیں اور جوابا وہ چوڑیل بن جاتی ہے اور بدلہ لیتی ہے۔ ایک بالی ووڈ کی فلم ”1920: بھوت کی واپسی“ میں بھی ایک چوڑیل کا کردار دکھایا گیا ہے جو ہیرو آفتاب شوداسانی سے پیار کرتی ہے اور مار دی جاتی ہے۔ پھر کچھ پوجا پاٹ کر کے اس کو شانت کیا جاتا ہے۔ [29]

ایک بنگلہ دیشی ریڈیو چینل کا ریڈیو فورتی 88۔0 ایف ایم ہر جمعہ کی رات کو رات 12 بجے بھوت ایف ایم کے نام سے ایک پروگران نشر کرتا ہے۔[30] اس پروگرام میں ملک بھر سے لوگ چڑیل سے متعلق اپنے مشاہدے بیان کرتے ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Crooke, William (1848–1923)۔ An Introduction to the Popular Religion and Folklore of Northern India. 1894. https://archive.org/details/introductiontopo00croorich
  2. ^ ا ب Janet Chawla (1994). Child-bearing and culture: women centered revisioning of the traditional midwife : the dai as a ritual practitioner. Indian Social Institute. p. 15
  3. "HAUNTED TALES: IN CONVERSATION WITH 'DHAKA PARANORMAL SOCIETY'". daily-sun.com. Retrieved 2016-04-03.
  4. ^ ا ب DeCaroli, Robert. “Reading Bhājā: A Non-Narrative Interpretation of the Vihāra 19 Reliefs.” East and West, vol. 50, no. 1/4, 2000, pp. 271., https://www.jstor.org/stable/29757456.
  5. ^ ا ب پ Pioneer Press. North Indian Notes and Queries, Volume 1. 1891. https://books.google.com/books?id=bcZCAQAAMAAJ&pg=PA69&dq=churel&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwjy9Kn34NLSAhVIxoMKHegsAPU4RhDoAQg9MAY#v=onepage&q=churel&f=false
  6. ^ ا ب پ Hope, L. (1903). LALLA RADHA AND THE CHUREL. Fortnightly Review, May 1865-June 1934, 74(443), 874-876. Retrieved from https://search.proquest.com/docview/2443980?accountid=10629
  7. ^ ا ب Leshnik, Lorenz S. “Archaeological Interpretation of Burials in the Light of Central Indian Ethnography.” Zeitschrift Für Ethnologie, vol. 92, no. 1, 1967, pp. 23–32., https://www.jstor.org/stable/25841079.
  8. ^ ا ب پ ت ٹ ث Bartels, Max, Paul Bartels, and Hermann Heinrich Ploss. Woman. an historical gynecological and anthropological compendium. London: n.p., 1935. Print
  9. ^ ا ب پ Theresa Cheung (2006)۔ The Element Encyclopedia of the Psychic World۔ Harper Element۔ صفحہ: 112۔ ISBN 978-0-00-721148-7 
  10. ^ ا ب پ Raymond Buckland (2009)۔ The Weiser Field Guide to Ghosts: Apparitions, Spirits, Spectral Lights and Other Hauntings of History and Legend۔ Weiser Books۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-1-57863-451-4 
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث Bane, Theresa (2010)۔ "Churel"۔ Encyclopedia of Vampire Mythology۔ McFarland۔ صفحہ: 47–8۔ ISBN 978-0-7864-4452-6 
  12. ^ ا ب Hildburgh, W. L. (Oct 1917). "103. Note on a Magical Curative Practice in Use at Benares". MAN. Royal Anthropological Institute of Great Britain and Ireland. 17: 158. جے سٹور 2788048.
  13. Lehman, F. K. “BURMANS, OTHERS, AND THE COMMUNITY OF SPIRITS.” Crossroads: An Interdisciplinary Journal of Southeast Asian Studies, vol. 18, no. 1, 2006, pp. 127–132., https://www.jstor.org/stable/40860835.
  14. ^ ا ب پ Williams, Monier, and Henry Charles Coote. “Indian Mother-Worship.” The Folk-Lore Record, vol. 3, no. 1, 1880, pp. 117–123., https://www.jstor.org/stable/1252374.
  15. Hosten, Fr. H. “Pahāṛiā Burial-Customs (British Sikkim).” Anthropos, vol. 4, no. 3, 1909, pp. 669–683., https://www.jstor.org/stable/40442588.
  16. ^ ا ب Fane, Hannah. “The Female Element in Indian Culture.” Asian Folklore Studies, vol. 34, no. 1, 1975, pp. 51–112., https://www.jstor.org/stable/1177740.
  17. ^ ا ب Crooke, W. “The Dīvālī, the Lamp Festival of the Hindus.” Folklore, vol. 34, no. 4, 1923, pp. 267–292., https://www.jstor.org/stable/1256550.
  18. Crooke, William. “Death; Death Rites; Methods of Disposal of the Dead among the Dravidian and Other Non-Aryan Tribes of India.” Anthropos, vol. 4, no. 2, 1909, pp. 457–476., https://www.jstor.org/stable/40442412.
  19. ^ ا ب پ ت J. Gordon Melton (1999)۔ The Vampire Book: The Encyclopedia of the Undead۔ Visible Ink Press۔ صفحہ: 372 
  20. W. L. Hildburgh (Oct 1917)۔ "103. Note on a Magical Curative Practice in Use at Benares"۔ MAN۔ Royal Anthropological Institute of Great Britain and Ireland۔ 17: 158۔ JSTOR 2788048 
  21. ^ ا ب Bob Curran (2005)۔ Vampires: A Field Guide To The Creatures That Stalk The Night۔ Career Press۔ صفحہ: 138–9۔ ISBN 978-1-56414-807-0 
  22. Rajaram Narayan Saletore (1981)۔ Indian Witchcraft۔ Abhinav Publications۔ صفحہ: 121–2۔ ISBN 978-0-391-02480-9۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2012 
  23. ^ ا ب Barnouw, Victor (Autumn 1956). "Some Eastern Nepalese Customs: The Early Years". Southwestern Journal of Anthropology. University of New Mexico. 12 (3): 267. جے سٹور 3629084.
  24. ^ ا ب Jonathan Maberry، Da Kramer (2008)۔ "They Thirst: Vampres"۔ THEY BITE!: Endless Cravings of Supernatural Predators۔ Citadel Press۔ صفحہ: 67۔ ISBN 978-0-8065-2820-5 
  25. Strickland, Lily. “Aboriginal and Animistic Influences in Indian Music.” The Musical Quarterly, vol. 15, no. 3, 1929, pp. 371–387., https://www.jstor.org/stable/738327
  26. Digby, Simon. “Kipling's Indian Magic.” India International Centre Quarterly, vol. 36, no. 1, 2009, pp. 58–67., https://www.jstor.org/stable/23006472.
  27. "Thakumar Jhuli" (PDF). bdnews.com. Retrieved 2016-03-04.
  28. দক্ষিনারঞ্জন মিত্র মজুমদার, ঠাকুরমার ঝুলি (PDF)
  29. https://en.wikipedia.org/wiki/1920:_The_Evil_Returns#Cast
  30. "Bhoot FM - Download Bhoot FM Recorded Episodes". Bhoot FM. Retrieved 2016-04-03.