سورہ القمر

قرآن مجید کی 54 ویں سورت
(القمر سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 54 ویں سورت جس میں 3 رکوع اور 55 آیات ہیں۔

  سورۃ 54 - قرآن  
سورة القمر
Sūrat al-Qamar
سورت القمر
----

عربی متن · انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
عددِ پارہ27 واں پارہ
اعداد و شمار3 رکوع, 55 آیات, 342 الفاظ, 1469 حروف

نام

پہلی ہی آیت کے فقرہ وانشق القمر سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لفظ القمر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

اس میں شق القمر کے واقعے کا ذکر آیا ہے جس سے اس کا زمانۂ نزول متعین ہو جاتا ہے۔ محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکۂ معظمہ میں منٰی کے مقام پر پیش آیا تھا۔

موضوع اور مضمون

اس میں کفار مکہ کی اس ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کر رکھی تھی۔ شق القمر کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کا صریح نشان تھا کہ وہ قیامت جس کے آنے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے تھے، فی الواقع برپا ہو سکتی ہے اور اس کی آمد کا وقت قریب آ لگا ہے۔ چاند جیسا عظیم الشان کرہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھٹا تھا۔ اس کے دونوں ٹکڑے الگ ہو کر ایک دوسرے سے اتنی دور چلے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا تھا۔ پھر آن کی آن میں دونوں پھر ملگئے تھے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ نظام عالم ازلی و ابدی اور غیر فانی نہیں ہے، وہ درہم برہم ہو سکتا ہے۔ بڑے بڑے ستارے اور سیارے پھٹ سکتے ہیں، بکھر سکتے ہیں، ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں اور وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جس کا نقشہ قیامت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے قرآن میں کھینچا گیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ اس امر کا پتہ بھی دے رہا تھا کہ نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے اور وہ وقت قریب ہے جب قیامت برپا ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حیثیت سے لوگں کو اس واقعہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا، دیکھو اور گواہ رہو۔ مگر کفار نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دیا اور اپنے انکار پر جمے رہے۔ اسی ہٹ دھرمی پر اس سورت میں انھیں ملامت کی گئی ہے۔ کلام کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں، نہ تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہیں، نہ آنکھوں سے صریح نشانیاں دیکھ کر ایمان لاتے ہیں۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب قیامت فی الواقع برپا ہو جائے گی اور قبروں سے نکل کر یہ داورِ محشر کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے۔ اس کے بعد ان کے سامنے قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور آل فرعون کا حال مختصر الفاظ بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تنبیہات کو جھٹلا کر یہ قومیں کس درد ناک عذاب سے دوچار ہوئیں اور ایک ایک قوم کا قصہ بیان کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ یہ قرآن نصیحت کا آسان ذریعہ ہے جس سے اگر کوئی قوم سبق لے کر راہ راست پر آ جائے تو ان عذابوں کی نوبت نہیں آ سکتی جو ان قوموں پر نازل ہوئے۔ اب آخر یہ کیا حماقت ہے کہ اس آسان ذریعے سے نصیحت قبول کرنے کی بجائے کوئی اسی پر اصرار کرے کہ عذاب دیکھے بغیر نہ مانے گا۔ اس طرح پچھلی قوموں کی تاریح سے عبرتناک مثالیں دینے کے بعد کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے جس طرز عمل پر دوسری قومیں سزا پا چکی ہیں وہی طرز عمل اگر تم اختیار کرو تو آخر تم کیوں نہ سزا پاؤ گے؟ کیا تمھارے کچھ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ تمھارے ساتھ دوسروں سے مختلف معاملہ کیا جائے؟ یا کوئی خاص معافی نامہ تمھارے پاس لکھا ہوا آ گیا ہے جس جرم میں دوسرے پکڑے گئے ہیں وہی تم کرو گے تو تمھیں نہ پکڑا جائے گا؟ اور اگر تم اپنی جمعیت پر پھولے ہوئے ہو تو عنقریب تمھاری یہ جمعیت شکست کھا کر بھاگتی ہوئی نظر آئے گی اور اس سے زیادہ سخت معاملہ تمھارے ساتھ قیامت کے روز ہوگا۔ آخر میں کفار کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کو قیامت لانے کے لیے کسی بڑی تیاری کی حاجت نہیں ہے۔ اس کا بس ایک حکم ہوتے ہی پلک جھپکاتے وہ برپا ہو جائیں گے۔ مگر ہر چیز کی طرح نظام عالم اور نوع انسانی کی بھی ایک تقدیر ہے۔ اس تقدیر کے لحاظ سے جو وقت اس کام کے لیے مقرر ہے اسی وقت پر وہ ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب کوئی چیلنج کرے اس کو قائل کرنے کے لیے قیامت لا کھڑی کی جائے۔ اس کو آتے نہ دیکھ کر تم سرکشی اختیار کرو گے تو اپنی شامت اعمال کا نتیجہ بھگتو گے۔ تمھارا کچا چٹھا خدا کے ہاں تیار ہو رہا ہے جس میں تمھاری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ثبت ہونے سے رہ نہیں گئی ہے۔