سورہ المجادلہ

قرآن مجید کی 58 ویں سورت
(المجادلہ سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 58 ویں سورت جس کے 3 رکوع میں 22 آیات ہیں۔

المجادلہ
دور نزولمدنی
نام کے معنیبحث و تکرار
اعداد و شمار
عددِ سورت58
عددِ پارہ28
تعداد آیات22

نام

اس سورت کا نام المجادَلہ بھی ہے اور المجادِلہ بھی۔ یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ "تجادلک" سے ماخوذ ہے۔ چونکہ سورت کے آغاز میں ان خاتون کا ذکر آیا ہے جنھوں نے اپنے شوہر کے ظہار کا قضیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے پیش کر کے بار بار اصرار کیا تھا کہ آپ کوئی ایسی صورت بتائیں جس سے ان کی اور ان کے بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے اور اللہ تعالٰی نے ان کے اس اصرار کو لفظِ مجادلہ سے تعبیر فرمایا ہے، اس لیے یہی اس سورت کا نام قرار دیا گیا۔ اس کو اگر مجادَلہ پڑھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے "بحث و تکرار" اور مجادِلہ پڑھا جائے تو معنی ہوں گے "بحث و تکرار کرنے والی"

زمانۂ نزول

کسی روایت میں اس امر کی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ مجادلہ کا یہ واقعہ کب پیش آیا تھا۔ مگر ایک علامت اس سورت کے مضمون میں ایسی ہے جس کی بنا پر یہ بات تعین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کا زمانہ غزوۂ احزاب (شوال ) کے بعد کا ہے۔ سورۂ احزاب میں اللہ تعالٰی نے منہ بولے بیٹے کے حقیقی بیٹا ہونے کی نفی کرتے ہوئے صرف یہ ارشاد فرما کر چھوڑ دیا تھا کہ "اور اللہ نے تمھاری اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمھاری مائیں نہیں بنا دیا ہے۔ مگر اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ظہار کرنا کوئی گناہ یا جرم ہے اور نہ یہ بتایا گیا تھا کہ اس فعل کا شرعی حکم کیا ہے۔ بخلاف اس کے اس سورت میں ظہار کا پورا قانون بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفصل احکام اس مجمل ہدایت کے بعد نازل ہوئے ہیں۔

موضوع اور مباحث

اس سورت میں مسلمانوں کو ان مختلف مسائل کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں جو اس وقت درپیش تھے۔ آغاز سورت سے آیت 6 تک ظہار کے شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو پوری سختی کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے بعد بھی جاہلیت کے طریقوں پر قائم رہنا اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو توڑنا یا ان کی پابندی سے انکار کرنا یا ان کے مقابلے میں خود اپنی مرضی سے کچھ اور قاعدے اور قوانین بنا لینا، قطعی طور پر ایمان کے منافی حرکت ہے، جس کی سزا دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں بھی اس پر سخت باز پرس ہونی ہے۔ آیات 7 تا 10 میں منافقین کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں خفیہ سرگوشیاں کر کے طرح طرح کی شرارتوں کے منصوبے بناتے تھے اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا تھا اس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہودیوں کی طرح ایسے طریقے سے سلام کرتے تھے جس سے دعا کی بجائے بد دعا کا پہلو نکلتا تھا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ سرگوشیاں تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، اس لیے تم اللہ کے بھروسے پر اپنا کام کرتے رہے اور اس کے ساتھ ان کو یہ اخلاقی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان کا کام گناہ اور ظلم و زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشیاں کرنا نہیں ہے، وہ اگر آپس میں بیٹھ کر تخلیے میں کوئی بات کریں بھی تو وہ نیکی اور تقویٰ کی بات ہونی چاہیے۔ آیت 11 تا 13 میں مسلمانوں کی مجلسی تہذيب کے کچھ آداب سکھائے گئے ہیں اور بعض ایسے معاشرتی عیوب کو دور کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو پہلے بھی لوگوں میں پائے جاتے تھے اور آج بھی پائے جاتے ہیں۔ کسی مجلس میں اگر بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے کچھ لوگ آ جائیں تو پہلے سے بیٹھے ہوئے اصحاب اتنی سی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ذرا سمٹ کر بیٹھ جائیں اور دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کر دیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد کے آنے والے کھڑے رہ جاتے ہیں یا دہلیز پر بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا واپس چلے جاتے ہیں یا یہ دیکھ کر کہ مجلس میں ابھی کافی گنجائش موجود ہے، حاضرین کے اوپر سے پھاندتے ہوئے اندر گھستے ہیں۔ یہ صورت حال نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلسوں میں اکثر پیش آتی رہتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے لوگوں کو یہ ہدایت فرمائي کہ اپنی مجلسوں میں خود غرضی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا کریں بلکہ بعد کے آنے والوں کو کھلے دل سے جگہ دے دیا کریں۔ اس طرح ایک عیب لوگوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں (خصوصاً کسی اہم شخصیت کے ہاں) جاتے ہیں تو جم کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس بات کا کچھ خیال نہیں کرتے کہ ضرورت سے زیادہ اُس کا وقت لینا اُس کے لیے باعث زحمت ہوگا۔ اگر وہ کہے کہ حضرت اب تشریف لے جائیے تو برا مانتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر اٹھ جائے تو بد اخلاقی کی شکایت کرتے ہیں۔ اشارے کنایے سے ان کو بتائے کہ اب کچھ دوسرے ضروری کاموں کے لیے اس کو وقت ملنا چاہیے تو سُنی اَن سُنی کر جاتے ہیں۔ لوگوں کے اس طرز عمل سے خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی سابقہ پیش آتا تھا اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کے شوق میں اللہ کے بندے اس بات کا لحاظ نہ کرتے تھے کہ وہ بہت زیادہ قیمتی کاموں کا نقصان کر رہے ہیں۔ آخر کار اللہ تعالٰی نے یہ تکلیف دہ عادت چھڑانے کے لیے حکم دیا کہ جب مجلس برخاست کرنے کے لیے کہا جائے تو اٹھ جایا کرو۔ ایک اور عیب لوگوں میں یہ بھی تھا کہ ایک ایک آدمی آ کر خواہ مخواہ حضور سے تخلیہ میں بات کرنے کی خواہش کرتا تھا یا مجلس عام میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کے قریب جا کر سرگوشی کے انداز میں آپ سے بات کرے۔ یہ چیز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بھی تکلیف دہ تھی اور دوسرے لوگ جو مجلس میں ہوتے، ان کو بھی ناگوار ہوتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے یہ پابندی لگا دی کہ جو شخص بھی آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے۔ اس سے مقصود صرف یہ تھا کہ لوگوں کو اس بری عادت سے متنبہ کیا جائے تاکہ وہ اسے چھوڑ دیں۔ چنانچہ یہ پابندی بس تھوڑی دیر تک باقی رکھی گئی اور جب لوگوں نے اپنا طرز عمل درست کر لیا تو اسے منسوخ کر دیا گیا۔ آیت 14 سے آخر سورہ تک مسلم معاشرے کے لوگوں کو، جن میں مخلص اہل ایمان اور منافقین اور مذبذبین سب ملے جلے تھے، بالکل دو ٹوک طریقے سے بتایا گیا ہے کہ دین میں آدمی کے مخلص ہونے کا معیار کیا ہے۔ ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں، اپنے مفاد کی خاطر اس دین سے غداری کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے جس پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف طرح طرح کے شبہات اور وسوسے پھیلا کر اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں، مگر چونکہ وہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہیں اس لیے ان کا جھوٹا اقرار ایمان ان کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ دوسرے قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملے میں کسی اور کا لحاظ تو درکنار، خود اپنے باپ، بھائی، اولاد اور خاندان تک کی پروا نہیں کرتے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جو خدا اور رسول اور اس کے دین کا دشمن ہے اس کے لیے ان کے دل میں کوئی محبت نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے ان آیات میں صاف فرما دیا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ چاہے کتنی ہی قسمیں کھا کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلائیں، درحقیقت وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے کا شرف صرف دوسری قسم کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ وہی سچے مومن ہیں۔ انہی سے اللہ راضی ہے۔ فلاح وہی پانے والے ہیں۔