سورہ الاحزاب

قرآن مجید کی 33 ویں سورت
(الاحزاب سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 33 ویں سورت جو 21 ویں اور 22 ویں پارے میں ہے۔ اس میں 9 رکوع اور 73 آیات ہیں۔

  سورۃ 33 - قرآن  
سورة الأحزاب
Sūrat al-Aḥzāb
سورت الأحزاب
----

عربی متن · انگریزی ترجمہ


دور نزولمدنی
دیگر نام (انگریزی)The Coalition, The Combined Forces, The Allies, The Confederates, The Joint Forces
عددِ پارہ22 واں پارہ
اعداد و شمار9 رکوع, 73 آیات, 1,303 الفاظ, 5,618 حروف

نام

آیت 20 کے فقرے ﴿يحسبون الأحزاب لم يذهبوا﴾ سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

اس سورت کے مضامین تین اہم واقعات سے بحث کرتے ہیں۔ ایک غزوۂ احزاب جو شوال 5ھ میں پیش آیا۔ دوسرا غزوۂ بنی قریظہ جو ذی القعدہ میں پیش آیا۔ تیسرے حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح جو اسی سال ذی القعدہ میں ہوا۔ ان تاریخی واقعات سے سورت کا زمانۂ نزول ٹھیک متعین ہو جاتا ہے۔

تاریخی پس منظر

جنگ احد (شوال 3ھ) میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے تیر اندازوں کی غلطی سے لشکر اسلام کو جو شکست ہو گئی تھی اس کی وجہ سے مشرکینِ عرب، یہود اور منافقین کی ہمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور انھیں امید بندھ چلی تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان بڑھتے ہوئے حوصلوں کا اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ہے جو احد کے بعد پہلے ہی سال میں پیش آئے۔ جنگ احد پر دو مہینوں سے زیادہ نہ گذرے تھے کہ نجد کے قبیلہ بنی اسد نے مدینہ طیبہ پر چھاپہ مارنے کی تیاریاں کیں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی روک تھام کے لیے سریہ ابو سلمہ بھیجنا پڑا۔ پھر صفر 4 ھ میں قبائل عضل اور قارہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے چند آدمی مانگے تاکہ وہ ان کے علاقے میں جا کر لوگوں کو دین اسلام کی تعلیم دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چھ اصحاب کو ان کے ساتھ کر دیا مگر رجیع (جدہ اور رابغ کے درمیان) پہنچ کہ وہ لوگ قبیلہ ہذیل کے کفار کو ان بے بس مبلغین پر چڑھا لائے۔ ان میں سے چار کو قتل کر دیا اور دو صاحبوں (حضرت خبیب بن عدی اور حضرت زید بن الدثنہ رضی اللہ عنہم) کو لے جاکر مکہ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ پھر اسی ماہ صفر میں بنی عامر کے ایک سردار کی درخواست پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک اور تبلیغی وفد جو چالیس (یا بقول بعض 70) انصاری نوجوانوں پر مشتمل تھا، نجد کی طرف روانہ کیا مگر ان کے ساتھ غداری کی گئی اور بنی سلیم کے قبائل عصیہ اور ذکوان نے بئر معونہ کے مقام پر اچانک نرغہ کرکے ان سب کو قتل کر دیا۔ اسی دوران مدینے کا یہودی قبیلہ بنی النضیر دلیر ہو کر مسلسل بد عہدیاں کرتا رہا، یہاں تک کہ ربیع الاول 4ھ میں اس نے خود صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہید کر دینے کی سازش تک کر ڈالی۔ پھر جمادی الاول میں بنی غطفان کے دو قبیلوں بنو ثعلبہ اور بنو مخارب نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں کیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خود ان کی روک تھام کے لیے جانا پڑا۔ اس طرح جنگ احد کی شکست سے جو ہوا اکھڑی تھی وہ مسلسل سات آٹھ مہینے تک اپنا رنگ دکھاتی رہی۔

لیکن وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزم و تدبر اور صحابۂ کرام کا جذبۂ فدا کاری تھا جس نے تھوڑی مدت کے اندر ہی حالات کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ عربوں کے معاشی مقاطعے نے اہل مدینہ کے لیے جینا دشوار کر رکھا تھا۔ گرد و پیش کے تمام مشرک قبائل چیرہ دست ہو رہے تھے۔ خود مدینے کے اندر یہود و منافقین مارِ آستین بنے ہوئے تھے۔ مگر ان مٹھی بھر مومنین و صادقین نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں پے در پے ایسے اقدامات کیے جن سے عرب میں اسلام کا رعبت صرف بحال ہی نہیں ہو گیا، بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا۔

جنگ احزاب سے پہلے کے غزوات

ان میں سے اولین اقدام وہ تھا جو جنگ احد کے فوراً ہی بعد کیا گیا۔ جنگ کے ٹھیک دوسرے روز جبکہ بکثرت مسلمان زخمی تھے اور بہت سے گھروں میں عزیز ترین اقارب کی شہادت پر کہرام برپا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود بھی زخمی اور حضرت حمزہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی شہادت پر دلفگار تھے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کے فدائیوں کو پکارا کہ لشکر کفار کے تعاقب میں چلنا ہے تاکہ وہ کہیں راستے سے پلٹ کر پھر مدینے پر حملہ آور نہ ہوجائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اندازہ بالکل صحیح تھا کہ کفار قریش ہاتھ آئی ہوئی فتح کا کوئی فائدہ اٹھائے بغیر واپس تو چلے گئے ہیں لیکن راستے میں جب کسی جگہ ٹھہریں گے تو اپنی اس حماقت پر نادم ہوں گے اور دوبارہ مدینے پر چڑھ آئیں گے۔ اس بنا پر آپ نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا اور فوراً 630 جاں نثار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ مکہ کے راستے میں جب جمراء الاسد پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین روز تک پڑاؤ کیا تو ایک ہمدرد غیر مسلم کے ذریعے آپ کو معلوم ہو گیا کہ ابو سفیان اپنے 2978 آدمیوں کے ساتھ مدینے سے 36 میل دور الروحاء کے مقام پر ٹھہرا ہوا تھا اور یہ لوگ فی الواقع اپنی غلطی کو محسوس کرکے پھر پلٹ آنا چاہتے تھے، لیکن یہ سن کر ان کی ہمت ٹوٹ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک لشکر لیے ہوئے ان کے تعاقب میں چلے آ رہے ہیں۔ اس کارروائی کا صرف یہی فائدہ نہیں ہوا کہ قریش کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہو گئے، بلکہ گرد و پیش کے دشمنوں کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کی قیادت ایک انتہائی بیدار مغز اور اولو العزم ہستی کر رہی ہے اور مسلمان اس کے اشارے پر کٹ مرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔

پھر جونہی بنی اسد نے مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاریاں شروع کیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مخبروں نے بر وقت آپ کو ان کے ارادوں سے باخبر کر دیا۔ قبل اس کے کہ وہ چڑھ کر آتے، آپ نے حضرت ابو سلمہ (ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پہلے شوہر) کی قیادت میں ڈیڑھ سو آدمیوں کا ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا۔ یہ فوج اچانک ان کے سر پر پہنچ گئی۔ بدحواسی کے عالم میں وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ان کا سارا مال اسباب مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔

اس کے بعد بنی النضیر کی باری آئی۔ جس روز انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی اور اس کا راز فاش ہوا اسی روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو نوٹس دے دیا کہ دس دن کے اندر مدینے سے نکل جاؤ۔ اس کے بعد تم میں سے جو یہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ منافقین مدینہ کے سردار عبداللہ بن ابی نے ان کو تڑی دی کہ ڈٹ جاؤ اور مدینہ چھوڑنے سے انکار کردو، میں دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمھاری مدد کروں گا، بنی قریظہ تمھاری مدد کریں گے اور نجد سے بنی غطفان بھی تمھاری مدد کے لیے آئیں گے۔ ان باتوں میں آکر انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ ہم اپنا علاقہ نہیں چھوڑیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر لیجیے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نوٹس کی میعاد ختم ہوتے ہی ان کا محاصرہ کر لیا اور ان کے حامیوں میں سے کسی کی یہ ہمت نہ پڑی کہ مدد کو آتا۔ آخر کار انھوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ ان میں سے ہر تین آدمی ایک اونٹ پر جو کچھ دال کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں گے اور باقی سب کچھ مدینہ ہی میں چھوڑ جائیں گے۔ اس طرح مضافات مدینہ کا وہ پورا محلہ جس میں بنی نضیر رہتے تھے، ان کے باغات اور گڑھیوں اور سر و سامان سمیت مسلمانوں کے ہاتھ آگیا اور اس بد عہد قبیلے کے لوگ خیبر، وادی القریٰ اور شام میں تتر بتر ہو گئے۔

پھر آپ نے بنی غطفان کی طرف توجہ کی جو مدینے پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول رہے تھے۔ آپ چار سو کا لشکر لے کر نکلے اور ذات الرقاع کے مقام پر ان کو جا لیا۔ اس اچانک حملے نے ان کے حواس باختہ کر دیے اور کسی جنگ کے بغیر وہ اپنے گھر بار اور مال اسباب چھوڑ کر پہاڑوں میں منتشر ہو گئے۔

اس کے بعد شعبان 4ھ میں آپ ابو سفیان کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے نکلے جو اس نے احد سے پلٹتے ہوئے دیا تھا۔ خاتمۂ جنگ پر اس نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کی طرف رخ کرکے اعلان کیا تھا کہ

آئندہ سال بدر کے مقام پر ہمارا تمہارا مقابلہ پھر ہوگا

اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں ایک صحابی کے ذریعے یہ اعلان کرادیا تھا کہ

ٹھیک ہے، یہ بات ہمارے اور تیرے درمیان طے ہوگئی

۔ اس قرارداد کے مطابق طے شدہ وقت پر آپ 1500 صحابیوں کو لے کر بدر کے مقام پر پہنچ گئے۔ ادھر سے ابو سفیان دو ہزار کا لشکر لے کر چلا مگر مر الظہران (موجودہ وادئ فاطمہ) سے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدر میں آٹھ دن اس کا انتظار کیا۔ اس واقعے سے وہ دھاک جو احد میں اکھڑی تھی پہلے سے بھی زیادہ جم گئی۔ اس نے پورے عرب پر یہ بات کھول دی کہ اب تنہا قریش محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے۔

اس دھاک میں ایک اور واقعے نے مزید اضافہ کیا۔ عرب اور شام کی سرحد پر دومۃ الجندل (موجودہ الجوف) ایک اہم مقام تھا جہاں سے عراق اور مصر و شام کے درمیان عرب کے تجارتی قافلے گذرتے تھے۔ اس مقام کے لوگ قافلوں کو تنگ کرتے اور اکثر لوٹ لیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ربیع الاول 5ھ میں ایک ہزار کا لشکر لے کر ان کی تادیب کے لیے خود تشریف لے گئے۔ وہ آپ کے مقابلے کی ہمت نہ کر سکے اور بستی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اس سے پورے شمالی عرب پر اسلام کی ہیبت بیٹھ گئی اور قبائل نے یہ سمجھ لیا کہ مدینے میں جو زبردست طاقت پیدا ہوئی ہے اس کا مقابلہ اب ایک دو قبیلوں کے بس کا کام نہیں ہے۔

غزوۂ احزاب

یہ حالات تھے جن میں غزوۂ احزاب پیش آیا۔ یہ غزوہ دراصل عرب کے بہت سے قبائل کا ایک مشترکہ حملہ تھا جو مدینے کی اس طاقت کو کچل دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کی تحریک بنی النضیر کے ان رہنماؤں نے کی تھی جو مدینے سے جلا وطن ہو کر خیبر میں مقیم ہو گئے تھے۔ انھوں نے دورہ کرکے قریش اور غطفان اور ہذیل اور دوسرے بہت سے قبائل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ سب مل کر بہت بڑی جمعیت کے ساتھ مدینے پر ٹوٹ پڑیں۔ چنانچہ ان کی کوششوں سے شوال 5ھ میں قبائل عرب کی اتنی بڑی جمعیت اس چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہو گئی جو اس سے پہلے عرب میں کبھی جمع نہ ہوئی تھی۔ اس میں شمال کی طرف سے بنی النضیر اور بنی قینقاع کے وہ یہودی آئے جو مدینے سے جلا وطن ہوکر خیبر اور وادئ القریٰ میں آباد ہوئے تھے مشرق کی طرف سے غطفان کے قبائل (بنو سلیم، فزارہ، مرہ، اشجع، سعد اور اسد وغیرہ) نے پیش قدمی کی اور جنوب کی طرف سے قریش اپنے حلیفوں کی ایک بھاری جمعیت لے کر آگے بڑھے۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد دس بارہ ہزار تھی۔

یہ حملہ اگر اچانک ہوتا تو سخت تباہ کن ہوتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ طیبہ میں بے خبر بیٹھے ہوئے نہ تھے بلکہ آپ کر خبر رساں اور تحریک اسلامی کے ہمدرد اور متاثرین جو تمام قبائل میں موجود تھے، آپ کو دشمنوں کی نقل و حرکت سے برابر مطلع کرتے رہتے تھے۔ قبل اس کے کہ یہ جم غفیر آپ کے شہر پہنچتا، آپ نے چھ دن کے اندر مدینہ کے شمال غربی رخ پر ایک خندق کھدوالی اور کوہ سلع کو پشت پر لے کر تین ہزار فوج کے ساتھ خندق کی پناہ میں مدافعت کے لیے تیار ہو گئے۔ مدینہ کے جنوب میں باغات اس کثرت سے تھے (اور اب بھی ہیں) کہ اس جانب سے کوئی حملہ اس پر نہ ہو سکتا تھا۔ مشرق میں حرات (لاوے کی چٹانیں) ہیں جن پر سے کوئی اجتماعی فوج کشی آسانی کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ یہی کیفیت مغربی جنوبی گوشے کی بھی ہے۔ اس لیے حملہ صرف احد کے مشرقی اور مغربی گوشوں سے ہو سکتا تھا اور اسی جانب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خندق کھدوا کر شہر کو محفوظ کر لیا تھا۔ یہ چیز سرے سے کفار کے جنگی نقشے میں تھی ہی نہیں کہ انھیں مدینے کے باہر خندق سے سابقہ پیش آئے گا، کیونکہ اہل عرب اس طریقِ دفاع سے نا آشنا تھے۔ ناچار انھیں جاڑے کے زمانے میں ایک طویل محاصرے کے لیے تیار ہونا پڑا جس کے لیے ہو گھروں سے تیار ہو کر نہ آئے تھے۔

اس کے بعد کفار کے لیے صرف ایک ہی تدبیر باقی رہ گئی اور وہ یہ کہ بنی قریظہ کے یہودی قبیلے کو غداری پر آمادہ کریں جو مدینہ طیبہ کے جنوب مشرقی گوشے میں رہتا تھا۔ چونکہ اس قبیلے سے مسلمانوں کا باقاعدہ حلیفانہ معاہدہ تھا جس کی رو سے مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدافعت کرنے کا پابند تھا، اس لیے مسلمانوں نے اس طرف سے بے فکر اپنے بال بچے ان گڑھیوں میں بھجوا دیے تھے جو بنی قریظہ کی جانب تھیں اور ادھر مدافعت کا کوئی انتظام نہ کیا تھا۔ کفار نے اسلامی دفاع کے اس کمزور پہلو کو بھانپ لیا۔ ان کی طرف سے بنی النضیر کا یہودی سردار حیی بن اخطب بنی قریظہ کے پاس بھیجا گیا تاکہ انھیں معاہدہ توڑ کر جنگ میں شامل ہونے پر آمادہ کرے۔ ابتدا میں انھوں نے اس سے انکار کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے معاہدہ ہے اور آج تک کبھی ہمیں ان سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی ہے لیکن جب اب اخطب نے ان سے کہا کہ "دیکھو! میں اس وقت عرب کی متحدہ طاقت اس شخص پر چڑھا لایا ہوں، یہ اسے ختم کر دینے کا نادر موقع ہے، اس کو اگر تم نے کھو دیا تو پھر دوسرا کوئی موقع نہ مل سکے گا"، تو یہودی ذہن کی اسلام دشمنی اخلاق کے پاس و لحاظ پر غالب آ گئی اور بنی قریظہ عہد توڑنے پر آمادہ ہو گئے۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس معاملے سے بھی بے خبر نہ تھے۔ آپ کو بر وقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپ نے فوراً کے سردار (سعد بن عبادہ، سعد بن معاذ، عبداللہ بن رواحہ اور خواث بن جبیر رضی اللہ عنہم) کو ان کے پاس تحقیقِ حال اور فہمائش کے لیے بھیجا۔ چلتے وقت آپ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ اگر بنی قریظہ عہد پر قائم رہیں تو آ کر سارے لشکر کے سامنے علی الاعلان یہ خبر سنا دینا لیکن اگر وہ نقض عہد پر مصر ہوں تو صرف مجھ کو اشارۃً اس کی اطلاع دے دینا تاکہ عام مسلمان یہ بات سن کر پست ہمت نہ ہو جائیں۔ یہ حضرات وہاں پہنچے تو بنی قریظہ کو پوری خباثت پر آمادہ پایا اور انھوں نے برملا ان سے کہہ دیا کہ

ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد و پیمان نہیں ہے

۔ اس جواب کو سن کر وہ لشکر اسلام میں واپس آئے اور اشارۃً حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کر دیا: قبیلہ عضل و قارہ نے رجیع کے مقام پر مبلغینِ اسلام کے وفد سے جو غداری کی تھی، وہی کچھ اب بنی قریظہ کر رہے ہیں۔

یہ خبر بہت جلدی مدینہ کے مسلمانوں میں پھیل گئی اور ان کے اندر اس سے سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ کیونکہ اب وہ دونوں طرف سے گھیرے میں آ گئے تھے اور ان کے شہر وہ حصہ خطرے میں پڑ گیا تھا جدھر دفاع کا بھی کوئی انتظام نہ تھا اور سب کے بال بچے بھی اسی جانب تھے۔ اس پر منافقین کی سرگرمیاں اور تیز ہوگئیں اور انھوں نے اہل ایمان کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کے نفسیاتی حملے شروع کر دیے۔ کسی نے کہا کہ "ہم سے وعدے تو قیصر و کسریٰ کے ملک فتح ہونے کے کیے جا رہ ے تھے اور حال یہ ہے کہ ہم رفع حاجت کے لیے بھی نہیں نکل سکتے۔ " کسی نے یہ کہہ کر خندق کے محاذ سے رخصت مانگی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں ہمیں جا کر ان کی حفاظت کرنی ہے۔ کسی نے یہاں تک خفیہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ حملہ آوروں سے اپنا معاملہ درست کرلو اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے حوالے کردو۔ یہ ایسی شدید آزمائش کا وقت تھا جس نے ہر اس شخص کا پردہ فاش ہو گیا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی نفاق موجود تھا۔ صرف صادق و مخلص اہل ایمان ہی تھے جو اس کڑے وقت میں بھی فدا کاری کے عزم پر ثابت قدم رہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس نازک موقع پر بنی غطفان سے صلح کی بات چیت شروع کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا ایک تہائی حصہ لے کر واپس چلے جائیں۔ لیکن جب انصار کے سرداروں (سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم) سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان شرائطِ صلح کے متعلق مشورہ طلب کیا تو انھوں نے عرض کیا

یا رسول اللہ! یہ آپ کی خواہش ہے کہ ہم ایسا کریں؟ یا یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمارے لیے اسے قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے؟ یا آپ صرف ہمیں بچانے کے لیے یہ تجویز فرما رہے ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا

میں صرف تم لوگوں کو بچانے کے لیے ایسا کر رہا ہوں، کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سارا عرب متحد ہو کر تم پر پِل پڑا ہے، میں چاہتا ہوں کہ ان کو ایک دوسرے سے توڑ دوں

۔ اس پر دونوں سرداروں نے بالاتفاق کہا کہ

اگر آپ ہماری خاطر یہ معاہدہ کر رہے ہیں تو اسے ختم کر دیجیے، یہ قبیلے ہم سے اس وقت بھی ایک حبہ خراج کے طور پر کبھی نہ لے سکے تھے جب ہم مشرف کھے اور اب تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا شرف ہمیں حاصل ہوا ہے، کیا اب یہ ہم سے خراج لیں گے؟ ہمارے اور ان کے درمیان اب صرف تلوار ہے، یہاں تک کہ اللہ ہمارا اور ان کا فیصلہ کردے

۔ یہ کہہ کر انھوں نے معاہدے کے مسودے کو چاک کر دیا جس پر ابھی فریقین کے دستخط نہ ہوئے تھے۔

اسی دوران قبیلۂ غطفان کی شاخ اشجع کے ایک صاحب نعیم بن مسعود مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابھی تک کسی کو بھی میرے قبولِ اسلام کا علم نہیں ہے، آپ مجھ سے اس وقت جو خدمت لینا چاہیں میں اسے انجام دے سکتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تم جا کر دشمنوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوئی تدبیر کرو۔ چنانچہ وہ بنی قریظہ کے پاس گئے جن سے ان کا بہت میل جول تھا اور ان سے کہا کہ قریش اور غطفان تو محاصرے سے تنگ آکر واپس بھی جا سکتے ہیں، ان کا کچھ نہ بگڑے گا، مگر تمھیں مسلمانوں کے ساتھ اسی جگہ رہنا ہے، وہ لوگ اگر چلے گئے تو تمھارا کیا بنے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اس وقت تک جنگ میں حصہ نہ لو جب تک ان سے باہر کے آئے ہوئے قبائل کے چند نمایاں آدمی تمھارے پاس یرغمال کے طور پر نہ بھیج دیے جائیں۔ یہ بات بنی قریظہ کے دل میں اتر گئی اور انھوں نے متحدہ محاذ کے قبائل سے یرغمال طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر یہ صاحب قریش اور غطفان کے سرداروں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ بنی قریظہ کچھ ڈھیلے پڑتے نظر آ رہے ہیں، بعید نہیں کہ وہ تم سے یرغمال کے طور پر کچھ آدمی مانگیں اور انھیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے کر کے اپنا معاملہ صاف کر لیں۔ اس لیے ذرا ان کے ساتھ ہوشیاری سے معاملہ کرنا۔ اس سے متحدہ محاذ کے رہنما بنی قریظہ کی طرف سے کھٹک گئے اور انھوں نے قرظی سرداروں کو پیغام بھیجا کہ اس طویل محاصرے سے اب ہم تنگ آ گئے ہیں، اب ایک فیصلہ کن لڑائی ہونی چاہیے، کل تم ادھر سے حملہ کرو اور ہم ادھر سے یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بنی قریظہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ آپ لوگ جب تک اپنے چند نمایاں آدمی یرغمال کے طور پر ہمارے حوالے نہ کر دیں، ہم جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس جواب سے متحدہ محاذ کے رہنماؤں کو یقین آ گیا کہ نعیم کی بات سچی تھی۔ انھوں نے یرغمال دینے سے انکار کر دیا اور اس سے بنی قریظہ نے سمجھ لیا کہ نعیم نے ہم کو ٹھیک مشورہ دیا تھا۔ اس طرح یہ جنگی چال بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے دشمنوں کے کیمپ میں پھوٹ ڈال دی۔

اب محاصرہ 25 دن سے زیادہ طویل ہو چکا تھا۔ سردی کا زمانہ تھا۔ اتنے بڑے لشکر کے لیے پانی اور غذا اور چارے کی فراہمی بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی تھی اور پھوٹ پڑ جانے سے بھی محاصرین کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ اس حالت میں یکایک ایک رات سخت آندھی آئی جس میں سردی اور کڑک اور چمک تھی اور اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دیتا تھا۔ آندھی کے زور سے دشمنوں کے خیمے الٹ گئے اور ان کے اندر شدید افراتفری برپا ہو گئی۔ قدرت خداوندی کا یہ کاری وار وہ نہ سہہ سکے۔ راتوں رات ہر ایک نے اپنے گھر کی راہ لی اور صبح جب مسلمان اٹھے تو میدان میں ایک دشمن بھی موجود نہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میدان کو دشمنوں سے خالی دیکھ کر فوراً ارشاد فرمایا

اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کر سکیں گے، اب تم پر ان چڑھائی کرو گے

۔ یہ حالات کا بالکل صحیح اندازہ تھا۔ قریش ہی نہیں، سارے دشمن قبائل متحد ہو کر اسلام کے خلاف اپنا آخری داؤ چل چکے تھے۔ اس میں ہار جانے کے بعد اب ان میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ مدینے پر حملہ آور ہونے کی جرات کر سکتے۔ اب حملے کی قوت دشمنوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو چکی تھی۔

غزوۂ بنی قریظہ

خندق سے پلٹ کر جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر پہنچے تو ظہر کے وقت جبریل علیہ السلام نے آ کر حکم سنایا کہ ابھی ہتھیار نہ کھولے جائیں، بنی قریظہ کا معاملہ باقی ہے، ان سے بھی اسی وقت نمٹ لینا چاہیے۔ یہ حکم پاتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فوراً اعلان فقرمایا کہ "جو کوئی سمع و طاعت پر قائم ہو وہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھے جب تک دیار بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے "۔ اس اعلان کے ساتھ آپ نے حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو ایک دستے کے ساتھ مقدمۃ الجیش کے طور پر بنی قریظہ کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ جب وہاں پہنچے تو یہودیوں نے کوٹھوں پر چڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی لیکن یہ بد زبانی ان کو اس جرمِ عظیم کے خمیازے سے کیسے بچا سکتی تھی کہ انھوں نے عین لڑائی کے وقت معاہدہ توڑ ڈالا اور حملہ آوروں سے مل کر مدینے کی پوری آبادی کو ہلاکت کے خطرے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دستے کو دیکھ کر وہ سمجھتے تھے کہ یہ محض دھمکانے آئے ہیں لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں پورا اسلامی لشکر وہاں پہنچ گیا اور ان کی بستی کا محاصرہ کر لیا گیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ محاصرے کی شدت کو وہ دو تین ہفتوں سے زیادہ برداشت نہ کر سکے اور آخر کار انھوں نے اس شرط پر اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے کر دیا کہ قبیلۂ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اسے فریقین مان لیں گے۔ انھوں نے حضرت سعد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو اس امید پر حَکم بنایا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں اوس اور بنی قریظہ کے درمیان جو حلیفانہ تعلقات مدتوں سے چلے آ رہے تھے وہ ان کا لحاظ کریں گے اور انھیں بھی اسی طرح مدینہ سے نکل جانے دیں گے جس طرح پہلے بنی قینقاع اور بنی النضیر کو نکل جانے دیا گیا تھا۔ خود قبیلۂ اوس کے لوگ بھی حضرت سعد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے تقاضا کر رہے تھے کہ اپنے حلیفوں کے ساتھ نرمی برتیں لیکن حضرت سعد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ابھی ابھی دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دو یہودی قبیلوں کو مدینہ سے نکل جانے کا موقع دیا گیا تھا وہ کس طرح سارے گرد و پیش کے قبائل کو بھڑکا کر مدینے پر دس بارہ ہزار کا لشکر چڑھا لائے تھے۔ اور یہ معاملہ بھی ان کے سامنے تھا کہ اس آخری یہودی قبیلے نے عین بیرونی حملے کے موقع پر بد عہدی کرکے اہل میدہن کو تباہ کر دینے کا کیا سامان کیا تھا۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ دیا کہ بنی قریظہ کے تمام مرد قتل کردیے جائیں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کی تمام املاک مسلمانوں میں تقسیم کردی جائیں۔ اس فیصلے پر عمل کیا گیا اور جب بنی قریظہ کی گڑھیوں میں مسلمان داخل ہوئے تو انھیں پتہ چلا کہ جنگ احزاب میں حصہ لینے کے لیے ان غداروں نے 15 سو تلواریں، تین سو ز رہیں، دو ہزار نیزے اور 15 سو ڈھالیں فراہم کی تھیں۔ اگر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سارا جنگی سامان عین اس وقت مدینہ پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا جبکہ مشرکین یکبارگی خندق پار کر کے ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس انکشاف کے بعد تو اس امر میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی کہ حضرت سعد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے ان لوگوں کے معاملے میں جو فیصلہ دیا وہ بالکل برحق تھا۔

معاشرتی اصلاحات

جنگ احد اور جنگ احزاب کے درمیان دو سال کا یہ زمانہ اگرچہ ایسے ہنگاموں کا زمانہ تھا جن کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو ایک دن کے لیے بھی امن و اطمینان نصیب نہ ہوا لیکن اس پوری مدت میں نئے مسلم معاشرے کی تعمیر اور ہر پہلو میں زندگی کی اصلاح کا کام برابر جاری رہا۔ یہی زمانہ تھا جس میں مسلمانوں کے قوانینِ نکاح و طلاق قریب قریب مکمل ہو گئے، وراثت کا قانون بنا، شراب اور جوئے کو حرام قرار دیا گیا اور معیشت و معاشرت کے دوسرے بہت سے پہلوؤں میں نئے ضابطے نافذ کیے گئے۔ اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ جو اصلاح کا تقاضا کر رہا تھا تبنیت (گود لینے یا بیٹا بنانے) کا مسئلہ تھا۔ عرب کے لوگ جس بچے کو متنبیٰ بنا لیتے تھے وہ بالکل ان کی حقیقی اولاد کی طرح سمجھا جاتا تھا، اسے وراثت ملتی تھی، اس سے منہ بولی ماں اور منہ بولی بہنیں وہی خلا ملا رکھتی تھیں جو حقیقی بیٹے اور بھائی سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ منہ بولے باپ کی بیٹیوں اور اس کے باپ کے مر جانے کے بعد اس کی بیوہ کا نکاح اسی طرح نا جائز سمجھا جاتا تھا جس طرح سگی بہنیں اور حقیقی ماں کے ساتھ کسی کا نکاح حرام ہوتا ہے۔ اور یہی معاملہ اس صورت میں بھی کیا جاتا تھا جب منہ بولا بیٹا مر جائے یا اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ منہ بولے باپ کے لیے وہ عورت سگی بہو کی طرح سمجھی جاتی تھی۔ یہ رسم قدم قدم پر نکاح اور طلاق اور وراثت کے ان قوانین سے ٹکراتی تھی جو اللہ تعالٰیٰ نے سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء میں مقرر فرمائے تھے ان کی رو سے جو لوگ حقیقت میں وراثت کے حقدار تھے یہ رسم ان کا حق مار کر ایک ایسے شخص کو دلواتی تھی جو سرے سے کوئی حق نہ رکھتا تھا۔ ان کی رو سے جن عورتوں اور مردوں کے درمیان رشتۂ نکاح حلال تھا، یہ رسم ان کے باہمی نکاح حرام کرتی تھی اور سب سے زیادہ یہ کہ اسلامی قانون جن بد اخلاقیوں کا سد باب کرنا چاہتا تھا، یہ رسم ان کے پھیلنے میں مددگار تھی کیونکہ رسم کے طور پر منہ بولے رشتے میں خواہ کتنا ہی تقدس پیدا کر دیا جائے، بہرحال منہ بولی ماں، منہ بولی بہن اور منہ بولی بیٹی حقیقی ماں بہن اور بیٹی کی طرح نہیں ہو سکتی۔ ان مصنوعی رشتوں کے رسمی تقدس پر بھروسا کرکے مردوں اور عورتوں کے درمیان جب حقیقی رشتہ داروں کا سا خلا ملا ہو تو وہ برے نتائج پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان وجود سے اسلامی قانون نکاح و طلاق، قانون وراثت اور قانون حرمت زنا کا یہ تقاضا تھا کہ متبنیٰ کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھنے کے تخیل کا قطعی استیصال کر دیا جائے۔

لیکن یہ تخیل محض ایک قانونی حکم کے طور پر اتنی سی بات کہہ دینے سے ختم نہیں ہو سکتا تھا کہ "منہ بولا رشتہ کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہے "۔ صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات اور اوہام محض اقوال سے نہیں بدل جاتے۔ حکماً لوگ اس بات کو مان بھی لیتے کہ یہ رشتے حقیقی رشتے نہیں ہیں، پھر بھی منہ بولی ماں اور منہ بولے بیٹے کے درمیان منہ بولے بھائی اور بہن کے درمیان، منہ بولے باپ اور بیٹی کے درمیان، منہ بولے خسر اور بہو کے درمیان نکاح کو لوگ مکروہ ہی سمجھتے رہتے۔ نیز ان کے درمیان خلا ملا بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا۔ اس لیے ناگزیر تھا کہ یہ رسم عملاً توڑی جائے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنفسِ نفیس اس کو توڑیں کیونکہ جو کام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود کیا ہو اور اللہ کے حکم سے کیا ہو، اس کے متعلق کسی مسلمان کے ذہن میں کراہت کا تصور باقی نہ رہ سکتا تھا۔ اسی بنا پر جنگ احزاب سے کچھ پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا کہ آپ اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی مطلقہ بیوی سے خود نکاح کر لیں اور اس حکم کی تعمیل آپ نے محاصرۂ بنی قریظہ کے زمانے میں فرمائی۔ (غالباً تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ عدت ختم ہونے کا انتظآر تھا اور اسی دوران جنگی مصروفیات پیش آ گئی تھیں)۔

نکاح زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا پر پروپیگنڈے کا طوفان

یہ کام ہونا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان یکلخت اٹھ کھڑا ہوا۔ مشرکین اور منافقین اور یہود سب آپ کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے۔ احد کے بعد احزاب اور بنی قریظہ تک دو سال کی مدت میں جس طرح وہ زک پر زک اٹھاتے چلے گئے تھے اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں آگ لگ رہی تھی۔ وہ اس بات سے بھی مایوس ہو چکے تھے کہ اب وہ کھلے میدان میں لڑ کر کبھی آپ کو زیر کر سکیں گے۔ اس لیے انھوں نے اس نکاح کے معاملے کو اپنے لیے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ اب ہم محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس اخلاقی برتری کو ختم کر سکیں گے جو ان کی طاقت اور ان کی کامیابیوں کا اصل راز ہے۔ چنانچہ یہ افسانے تراشے گئے کہ (معاذ اللہ) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہو کو دیکھ کر عاشق ہو گئے تھے، بیٹے کو اس تعلقِ خاطر کا علم ہو گیا، اس نے بیوی کو طلاق دے دی اور باپ نے اس کے بعد بہو سے بیاہ رچا لیا۔ حالانکہ یہ بات صریحاً تھی۔ حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر آپ کے سامنے گذری تھی۔ کسی وقت ان کو دیکھ کر عاشق ہو جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ پھر آپ نے خود اصرار کرکے حضرت زید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے ان کا نکاح کرایا تھا۔ ان کا سارا خاندان راضی نہ تھا کہ قریش کے اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی ایک آزاد کردہ غلام سے بیاہی جائے۔ خود حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا بھی اس رشتے سے ناخوش تھیں۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے سب مجبور ہو گئے اور حضرت زید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ساتھ ان کی شادی کرکے عرب میں اس امر کی پہلی مثال پیش کر دی گئی کہ اسلام ایک آزاد کردہ غلام کو اٹھا کر شرفائے قریش کے برابر لے آیا ہے۔ اگر فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی میلان حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی جانب ہوتا تو زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے ان کا نکاح کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی آپ خود ان سے نکاح کر سکتے تھے لیکن بے حیا مخالفین نے ان سارے حقائق کے موجود ہوتے یہ عشق کے افسانے تصنیف کیے، خوب نمک مرچ لگا لگا کر ان کو پھیلایا اور اس پروپیگنڈے کا صور اس زور سے پھونکا کہ خود مسلمانوں کے اندر بھی ان کی گھڑی ہوئی روایات پھیل گئیں۔

پردہ کے ابتدائی احکام

یہ بات کہ دشمنوں کے تصنیف کیے ہوئے یہ افسانے مسلمانوں کی زبانوں پر چڑھنے سے بھی نہ رکے، اس امر کی کھلی ہوئی علامت تھی کہ معاشرے میں شہوانیت کا عنصر حدِ اعتدال سے بڑھا ہوا تھا۔ یہ خرابی اگر موجود نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ذہن ایسی پاک ہستی کے متعلق ایسے بے سر و پا اور اس قدر گھناؤنے افسانوں کی طرف ادنیٰ التفات بھی کرتے، کجا کہ زبانیں ان کو دہرانے لگتیں۔ یہ ٹھیک موقع تھا جبکہ اسلامی معاشرے میں اُن اصلاحی احکام کے نفاذ کی ابتدا کی گئی جو "حجاب" (پردے) کے عنوان سے بیان کیے جاتے ہیں۔ ان اصلاحات کا آغاز اس سورت سے کیا گیا اور ان کی تکمیل ایک سال بعد سورۂ نور میں کی گئی جبکہ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا پر بہتان کا فتنہ کھڑا ہوا۔ (تفصیل کے لیے مضمون سورۂ نور دیکھیے)۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خانگی زندگی کے معاملات

اسی زمانے میں دو مسئلے اور بھی توجہ طلب تھے۔ اگرچہ بظاہر ان کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خانگی زندگی سے تھا، مگر جو ذات اپنی جان خدا کے دین کو پروان چڑھانے کے لیے کھپا رہی تھی اور ہمہ تن اس کارِ عظیم میں منہمک تھی اس کے لیے خانگی زندگی کا سکون فراہم کرنا اور اس کو پریشانیوں سے بچانا اور اس کو لوگوں کے شکوک و شبہات سے محفوظ رکھنا بھی خود دین ہی کے مفاد کے لیے ضروری تھا۔ اس لیے اللہ تعالٰیٰ نے سرکاری طور پر ان دونوں مسئلوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

پہلا مسئلہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت مالی حیثیت سے انتہائی تنگ حال تھے۔ ابتدائی چار سال تک تو آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذریعۂ آمدنی تھا ہی نہیں۔ 4ھ میں بنی النضیر کی جلا وطنی کے بعد ان کی متروکہ زمینوں کا ایک حصہ اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے آپ کی ضروریات کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ مگر وہ آپ کے کہنے کے لیے کافی نہ تھا۔ ادھر منصبِ رسالت کے فرائض اتنے بھاری تھے کہ وہ آپ کے جسم اور دل و دماغ کی ساری طاقتیں اور آپ کے اوقات کا ایک ایک لمحہ سونتے ڈال رہے تھے اور آپ اپنی معاش کے لیے ذرہ برابر بھی کوئی فکر یا کوشش نہ کر سکتے تھے۔ ان حالات میں جب آپ کی ازواجِ مطہرات خرچ کی تنگی کے باعث آپ کے سکونِ طبع میں خلل انداز ہوتی تھیں تو اس سے آپ کے ذہن پر دہرا بار پڑ جاتا تھا۔

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ حضرت زينب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے آپ کی چار بیویاں موجود تھیں۔ حضرت سودہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا، حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام سلمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا۔ ام المومنین حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا آپ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس پر مخالفین سے یہ اعتراض اٹھایا اور مسلمانوں کے دلوں میں بھی اس سے شبہات ابھرنے لگے کہ دوسروں کے لیے تو بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنا ممنوع ٹھہرا دیا گیا ہے مگر خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی۔

موضوع اور مباحث

یہ مسائل تھے جو سورۂ احزاب کے نزول کے زمانے میں پیش آئے تھے اور انہی پر اس سورت میں کلام فرمایا گیا ہے۔ اس کے مضامین پر غور کرنے اور پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ پوری سورت ایک خطبہ نہیں ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہو، بلکہ یہ متعدد احکام و فرامین اور خطبات پر مشتمل ہے جو اس زمانے کے اہم واقعات کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے نازل ہوئے اور پھر یک جا جمع کرکے ایک سورت کی شکل میں مرتب کر دیے ۡگئے۔ اس کے حسب ذیل اجزاء صاف طور پر ممیز نظر آتے ہیں۔

  1. پہلا رکوع غزوۂ احزاب سے کچھ پہلے کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے۔ تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس رکوع کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے وقت حضرت زید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے چکے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت ضرورت کو محسوس فرما رہے تھے کہ متبنیٰ کے بارے میں جاہلیت کے تصورات اور اوہام و رسوم کو مٹایا جائے اور آپ کو یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ لوگ منہ بولے رشتوں کے معاملے میں محض جذباتی بنیادوں پر جس قسم کے نازک اور گہرے تصورات رکھتے ہیں اور وہ اس وقت تک ہر گز نہ مٹ سکیں گے جب تک آپ خود آگے بڑھ کر اس رسم کو نہ توڑ دیں لیکن اس کے ساتھ ہی آپ اس بنا پر سخت متردد تھے اور قدم بڑھاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے کہ اگر اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت زید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا تو اسلام کے خلاف ہنگامہ اٹھانے کے لیے منافقین اور یہود اور مشرکین کو جو پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں، ایک زبردست شوشہ ہاتھ آ جائے گا۔ اس موقع پر رکوع اول کی آیات نازل ہوئیں۔
  2. رکوع دوم و سوم میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ پر تبصرہ فرمایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ یہ دونوں رکوع ان لڑائیوں کے بعد نازل ہوئے ہیں۔
  3. چوتھے رکوع کے آغاز سے آیت 35 تک کی تقریر دو مضامین پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو، جو اس تنگی و عسرت کے زمانے میں بے صبر ہو رہی تھیں، اللہ تعالٰیٰ نے نوٹس دیا ہے کہ دنیا اور اس کی زینت اور خدا اور رسول اور آخرت میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو۔ اگر تمھیں پہلی چیز مطلوب ہے تو صاف کہہ دو، تمھیں ایک دن کے لیے بھی تنگی میں مبتلا نہ رکھا جائے گا بلکہ بخوشی رخصت کر دیا جائے گا۔ اور اگر دوسری چیز پسند ہے تو صبر کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کا ساتھ دو۔ دوسرے حصے میں اس معاشرتی اصلاح کی طرف پہلا قدم اٹھایا گیا جس کی ضرورت اسلام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ذہن اب خود محسوس کرنے لگے تھے۔ اس سلسلے میں اصلاح کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر سے کرتے ہوئے ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ تبرج جاہلیت سے پ رہی ز کریں، وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور غیر مردوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں سخت احتیاط ملحوظ رکھیں۔ یہ پردے کے احکام کا آغاز تھا۔
  4. آیت 36 سے 48 تک کا مضمون حضرت زينب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح کے سلسلے میں ہے۔ اس میں تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو مخالفین کی طرف سے اس نکاح پر کیے جا رہے تھے، ان تمام شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی تھی، مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مرتبہ و مقام کیا ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کفار و منافقین کے جھوٹے پروپیگنڈے پر صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے۔
  5. آیت 49 میں طلاق کے قانون کی ایک دفعہ بیان ہوئی ہے۔ یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً انہی واقعات کے سلسلے میں کسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔
  6. آیت 50 تا 52 میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے نکاح کا خاص ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان متعدد پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں جو ازدواجی زندگی کے معاملے میں عام مسلمانوں پر عائد کی گئی ہیں۔
  7. آیت 53 تا 55 میں معاشرتی اصلاح کا دوسرا قدم اٹھایا گیا۔ یہ حسب ذیل احکام پر مشتمل ہے : نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھروں میں غیر مردوں کی آمد و رفت پر پابندی۔ ملاقات اور دعوت کا ضابطہ۔ ازواج مطہرات کے بارے میں یہ قانون کہ گھروں میں صرف ان کے قریبی رشتہ دار آ سکتے ہیں، باقی رہے غیر مرد، تو انھیں اگر کوئی بات کہنی ہو یا کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے کہیں یا مانگیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کے بارے میں یہ حکم کہ وہ مسلمانوں کے لیے ماں کی طرح حرام ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بھی ان میں سے کسی کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا۔
  8. آیت 56 تا 57 میں ان چہ میگوئیوں پر سخت تنبیہ کی گئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح اور آپ کی خانگی زندگی پر کی جا رہی تھیں اور اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دشمنوں کی اس عیب چینی سے اپنے دامن بچائیں اور اپنے نبی پر درود بھیجیں۔ نیز یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ نبی تو درکنار، اہلِ ایمان کو تو عام مسلمانوں پر بھی تہمتیں لگانے اور الزامات عائد کرنے سے کلی اجتناب کرنا چاہیے۔
  9. آیت 59 میں معاشرتی اصلاح کا تیسرا قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس میں تمام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں سے اپنے آپ کو ڈھانک کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں۔

اس کے بعد آخر سورت تک افواہ بازی کی اس مہم (Whispering Campaign) پر سخت زجر و توبیخ کی گئی ہے جو منافقین اور سفہاء و ارازل نے اس وقت برپا کر رکھی تھی۔