سورہ النمل
قرآن مجید کی 27 ویں سورت جو 19 ویں اور 20 پارے پر محیط ہے۔ اس میں 7 رکوع اور 93 آیات ہیں۔
دور نزول | مکی |
---|---|
زمانۂ نزول | مکی زندگی کا دورِ متوسط |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 27 |
عددِ پارہ | 19،20 |
تعداد آیات | 93 |
الفاظ | 1,165 |
حروف | 4,679 |
نام
دوسرے رکوع کی چوتھی آیت واد النمل کا ذکر آیا ہے۔ سورت کا نام اسی سے ماخوذ ہے۔ یعنی وہ سورت جس میں النمل کا قصہ مذکور ہے یا جس میں النمل کا لفظ وارد ہوا ہے۔
زمانۂ نزول
مضمون اور انداز بیاں مکہ کے دور متوسط کی سورتوں سے پوری مشابہت رکھتا ہے اور اس کی تائید روایات سے بھی ہوتی ہے۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور جابر بن زید کا بیان ہے کہ "پہلے سورۂ شعراء نازل ہوئی، پھر النمل، پھر القصص"۔
موضوع اور مباحث
یہ سورت دو خطبوں پر مشتمل ہے۔ پہلا خطبہ آغاز سورت سے چوتھے رکوع کے خاتمے تک ہے اور دوسرا خطبہ پانچویں رکوع کی ابتدا سے سورت کے اختتام تک۔
پہلے خطبے میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کی رہنمائی سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کی بشارتوں کے مستحق بھی صرف وہی لوگ ہیں جو اُن حقیقتوں کو تسلیم کریں جنہیں یہ کتاب اس کائنات کی بنیادی حقیقتوں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور پھر مان لینے کے بعد اپنی عملی زندگی میں بھی اطاعت و اتباع کا رویہ اختیار کریں لیکن اس راہ پر آنے اور چلنے میں جو چیز سب سے بڑھ کر مانع ہوتی ہے وہ انکارِ آخرت ہے کیونکہ یہ آدمی کو غیر ذمہ دار، بندۂ نفس اور فریفتۂ حیاتِ دنیا بنا دیتا ہے جس کے بعد آدمی کا خدا کے آگے جھکنا اور اپنے نفس کی خواہشات پر اخلاقی پابندیاں برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس تمہید کے بعد تین قسم کی سیرتوں کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔
ایک نمونہ فرعون اور سردارانِ قوم ثمود اور سرکشانِ قوم لوط کا ہے جن کی سیرت فکرِ آخرت سے بے نیازی اور نتیجتاً نفس کی بندگی سے تعمیر ہوئی تھی۔ یہ لوگ کسی نشانی کو دیکھ کر بھی ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ یہ الٹے ان لوگوں کے دشمن ہو گئے جنھوں نے ان کو خیر و صلاح کی طرف بلایا۔ انھوں نے اپنی ان بدکاریوں پر بھی پورا اصرار کیا جن کا گھناؤنا پن کسی صاحبِ عقل انسان سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انھیں عذابِ الٰہی میں گرفتار ہونے سے ایک لمحہ پہلے تک بھی ہوش نہ آیا۔
دوسرا نمونہ حضرت سليمان علیہ السلام کا ہے جن کو خدا نے دولت، حکومت اور شوکت و حشمت سے اس پیمانے پر نوازا تھا کہ کفارِ مکہ کے سردار اس کا خواب بھی نہ دیکھ سکتے تھے لیکن اس سب کے باوجود چونکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے حضور جواب دہ سمجھتے تھے اور انھیں احساس تھا کہ انھیں جو کچھ بھی حاصل ہے خدا کی عطا سے حاصل ہے، اس لیے ان کا سر ہر وقت منعمِ حقیقی کے آگے جھکا رہتا تھا اور کبرِ نفس کا کوئی ادنیٰ شائبہ تک ان کی سیرت و کردار میں نہ پایا جاتا تھا۔ تیسرا نمونہ ملکہ سبا کا ہے جو تاریخ عرب کی نہایت مشہور دولت مند قوم پر حکمران تھی۔ اس کے پاس وہ تمام اسباب جمع تھے جو کسی انسان کو غرورِ نفس میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ جن چیزوں کے بل پر کوئی انسان گھمنڈ کر سکتا ہے وہ سرداران قریش کی بہ نسبت لاکھوں درجے زيادہ اسے حاصل تھیں۔ پھر وہ ایک مشرک قوم سے تعلق رکھتی تھی۔ تقلید آبائی کی بنا پر بھی اور اپنی قوم میں اپنی سرداری برقرار رکھنے کی خاطر بھی، اس کے لیے دینِ شرک کو چھوڑ کر دینِ توحید اختیار کرنا اس سے بہت زیادہ مشکل تھا جتنا کسی عام مشرک کے لیے ہو سکتا ہے۔ لیکن جب ان پر حق واضح ہو گیا تو کوئی چیز اسے قبولِ حق سے نہ روک سکی، کیونکہ اس کی گمراہی محض ایک مشرک ماحول میں آنکھیں کھولنے کی وجہ سے تھی۔ نفس کی بندگی اور خواہشات کی غلامی کا مرض اس پر مسلط نہ تھا۔ خدا کے حضور جواب دہی کے احساس سے اس کا ضمیر فارغ نہ تھا۔ دوسرے خطبے میں سب سے پہلے کائنات کے چند نمایاں ترین مشہور حقائق کی طرف اشارے کر کرکے کفار مکہ سے پے در پے سوال کیا گیا ہے کہ بتاؤ، یہ حقائق اُس شرک کی شہادت دے رہے ہیں جس میں تم مبتلا ہو یا اس توحید پر گواہ ہیں جس کی دعوت اس قرآن میں تمھیں دی جا رہی ہے؟ اس کے بعد کفار کے اصل مرض پر انگلی رکھ دی گئی ہے جس چیز نے ان کو اندھا بنا رکھا ہے، جس کی وجہ سے وہ سب کچھ دیکھ بھی کچھ نہیں دیکھتے اور سب کچھ سن کر بھی کچھ نہیں سنتے وہ دراصل آخرت کا انکار ہے۔ اسی چیز نے ان کے لیے زندگی کے کسی مسئلے میں بھی کوئی سنجیدگی باقی نہیں چھوڑی ہے۔ کیونکہ جب ان کے نزدیک آخر کار سب کچھ مٹی ہو جانا ہے اور حیاتِ دنیا کی اس ساری تگ و دو کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے، تو آدمی کے لیے پھر حق اور باطل سب یکساں ہیں۔ اس کے لیے اس سوال میں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی کہ اُس کا نظام حیات راستی پر قائم ہے یا ناراستی پر۔
لیکن اس بحث سے مقصود یاس نہیں ہے کہ جب لوگ غفلت میں مگن ہیں تو انھیں دعوت دینے بے کار ہے۔ بلکہ دراصل اس سے مقصود سونے والوں کو جھنجھوڑ کر جگانا ہے۔ اس لیے چھٹے اور ساتویں رکوع میں پے در پے وہ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں جو لوگوں میں آخرت کا احساس بیدار کریں، اس سے غفلت برتنے کے نتائج پر متنبہ کریں اور انھیں اس کی آمد کا اس طرح یقین دلائیں جس طرح ایک آدمی اپنی آنکھوں دیکھی بات کا اُس شخص کو یقین دلاتا ہے جس نے اسے نہیں دیکھا ہے۔
خاتمۂ کلام میں قرآن کی اصل دعوت، یعنی خدائے واحد کی بندگی کی دعوت نہایت مختصر، مگر انتہائی مؤثر انداز میں پیش کرکے لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اسے قبول کرنا تمھارے اپنے لیے نافع اور اسے رد کرنا تمھارے اپنے لیے ہی نقصان دہ ہے۔ اسے ماننے کے لیے اگر خدا کی وہ نشانیاں دیکھنے کا انتظار کرو گے جس کے سامنے آجانے کے بعد مانے بغیر چارہ نہ رہے گا، تو یاد رکھو کہ وہ فیصلے کا وقت ہوگا۔ اُس وقت ماننے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔