امید و بیم (انگریزی: Angst) در حقیقت دو متضاد الفاظ کا مرکب ہے۔ امید کسی مثبت یا خوش نما چیز دکھنے یا ہونے کے جذبے کا نام ہے جب کہ بیم یا خوف ڈر یا کسی چیز نہ ہونے یا کم ہی وجود پزیر ہونے کا نام ہے۔ ان متضاد کیفیات کے ساتھ ساتھ تجسس کا جذبہ، اندرونی انتشار یا خود کو غیر محفوظ تصور کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔[1]


مثالیں

ترمیم
  • پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 2018ء میں اپنے عہدے کا جائزہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اس کے نتیجے میں سعودی عرب نے فوری طور پر ایک ارب ڈالر پاکستان کو دیے اور تیل کی فراہمی کی قیمت 3 سال تک مؤخر کر کے معاشی طور پر بد حال ملک پاکستان کی ایک بہت بڑی پریشانی دور کردی

تاہم مبصرین نے معاشی صورت حال سدھارنے کو اصل میزان امتحان قرار دیا۔ اس طرح اس مثبت آغاز کے باوجود امید و بیم کی کیفیت صاف عیاں تھی۔

  • مشہور شاعرہ فہمیدہ ریاض کے پہلے مجموعے 'پتھر کی زبان' کی نظموں میں ایک عام لڑکی کو نوجوانی کے دنوں میں پیش آنے والے مسائل مثلاً خواہش وصل، امید و بیم کی کیفیت، بے وفائی کا شکوہ، نارسائی کے احساس وغیرہ کا غلبہ ہے۔ معاشرتی جبر کو معدودے چند نظموں میں ہی موضوع بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مجموعے میں شامل دو نظموں 'پتھر کی زبان' اور 'گڑیا' کے ذکر سے فہمیدہ کے فکر و فن پر روشنی پڑتی ہے۔ نظم 'پتھر کی زبان' میں عورت و مرد کے ازلی رشتے اور اس رشتے میں جسم و جاں کی قیمت پر بھی عورت کی جانب سے وفا کی ریت نبھانے کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔[2] اس طرح عورتوں کے امید و بیم کی کیفیات کا شاعرہ کے کلام میں تذکرہ موجود ہے۔
  • اسی طرح سے ایک اور شاعرہ عارفہ شہزاد نے بھی کئی نظمیں نسوانی امید و بیم کے زمرے میں لکھی ہیں۔ مختصر نظم ”سیلفی“ محض خود پر مر مٹنے کی کیفیت ہویدا نہیں کرتی ہے بلکہ سیلفی میں ہم زاد، پرچھائیں، آئینہ، نقل اور مشابہت کی برملا اور بے محابا نمائندگی کی وساطت سے خود کو روپوش کرنے کی روش کا تخلیقی امتزاج نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سیلفی کی ہمہ موجودگی اصل کے شعوری غیاب کا اشاریہ بھی ہے۔ اور یہ یہی ناقدین کی نظر میں امید و بیم کی عکاسی کرتی ہے۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Angst"۔ Merriam-Webster۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2018 
  2. تانیثی مزاحمت کے برگ وبار اور فہمیدہ ریاض
  3. ورق در ورق: ’عورت ہوں نا