فہمیدہ ریاض
فہمیدہ ریاض (ولادت: 28 جولائی 1946ء- 21 نومبر 2018ء) پاکستانی ترقی پسند ادیبہ، شاعرہ، سماجی کارکن برائے حقوق انسانی و حقوق نسواں تھیں۔ [4] ان کی مشہور تصانیف میں گوداوری، خط مرموز اور خانہ آب و گل ہے۔ خانہ آب و گل فارسی زبان کی مشہور مثنوی مولانا روم کا اردو ترجمہ ہے۔15 ادبی کتابوں کی مصنفہ کی پوری زندگی تنازعات سے گھری رہی ہے۔ جب ان کا مجموعہبدن دریدہ منظر عام پر آیا تو ان پر شہوت انگیز اور حساس الفاظ استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا۔ انھوں نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی کتابوں کا سندھی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ فہمیدہ ریاض نے محمد ضیاء الحق کے دور آمریت سے تنگ آ کر پاکستان سے بھارت میں پناہ لی جہاں انھوں نے کئی برس گزار دئے۔ [5][6] ان کا شعری مجموعہ اپنا جرم ثابت ہے جنرل ضیاء الحق کے ظلم و ستم کو بیاں کرتا ہے۔ انھوں نے اس مجموعہ میں اپنا تجربہ بیان کیا ہے۔[7] تصانیف میں مٹی کی مورت ہوں اور سب لعل و گہر دونوں ہی کلیات ہیں
فہمیدہ ریاض | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 جولائی 1946ء [1] میرٹھ |
وفات | 21 نومبر 2018ء (72 سال)[1] لاہور [1] |
شہریت | بھارت [2] پاکستان برطانوی ہند ڈومنین بھارت |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مترجم ، مصنفہ |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [3] |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ذاتی زندگی
ترمیمفہمیدہ ریاض کی ولادت 28 جولائی 1946ء کو میرٹھ کے ایک تعلیمی خاندان میں ہوئی۔ اس وقت میرٹھ برطانوی حکومت کا حصہ تھا۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ایک تعلیم پسند شخص تھے۔ وہ صوبہ سندھ میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مصروف تھے۔ [8] ان کے والد کا تبادلہ ہو گیا اور وہ لوگ حیدراباد میں مقیم ہو گئے۔ [8] ابھی ان کی عمر چار برس ہی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور والدہ نے ان کی پرورش کی۔ [9]انھوں نے ایام طفولت میں اردو اور سندھی زبان سیکھ لی۔ اس کے بعد فارسی سے بھی شناسائی حاصل کی۔ [10] تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے جڑگئیں۔[9] کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فہمیدہ ریاض کو ان کے اہل خانہ نے ان کو طے شدہ شادی کرنے پر ابھارا۔ انھوں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ کچھ برس برطانیہ میں گزارے۔ اس کے بعد طلاق لے کر پاکستان آگئیں۔ اس دوران انھوں نے بی بی سی اردو ریڈیو میں کام کیا اور فلم کاری میں ڈگری حاصل کی۔ اس شادی سے ان کو ایک بیٹی ہے۔ [8]
دوسری شادی سے ان کو دو اولادیں ہوئیں۔ ان کے دوسرے شوہر کا نام ظفر علی اجان ہے۔ وہ ایک سیاست دان ہیں۔ [8]
عملی زندگی اور پاکستان میں تحریکی سرگرمی
ترمیمکراچی میں انھوں نے ایک اشتہاری اجنسی میں کام کرنا شروع کیا مگر جلدی ہی اپنا ایک مجلہ جاری کیا۔ اس مجلہ کا انداز کچھ سیاسی اور لبرل تھا جو جنرل ضیاءالحق کو پسند نہ آیا اور ان پر اور ان کے شوہر پر متعدد الزامات لگائے گئے اور یہاں تک کہ ان کے شوہر ظفر کو جیل بھی جانا پڑا۔ بعد میں مجلہ بھی بند ہو گیا۔ [9] سنسرشب کے بارے میں وہ کہتی تھیں:
” | ہر ایک کو ایک فن میں سنجیدہ ہونا چاہئے اور کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ فن میں ایسی تقدیس ہے کہ وہ تشدد کو نہیں اپناتا ہے۔ قاری کو چاہئے کہ وسعت قلب کے ساتھ مطالعہ کرے تاکہ معنی کی گہرائی کو پہونچ سکے۔ میں اردو-ہندی انگریزی لغت ایسی دلچپی سے پڑھتی ہوں گویا شاعری پڑھ رہی ہوں۔ مجھے الفاظ بہت بھاتے ہیں۔ [11] | “ |
ان کا ماننا تھا کہ“ فیمینزم کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ میرے نزدیک فینزم کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی طرح عورت بھی ایک مکمل انسان ہے جس کی لا محدود ذمہ داریاں ہیں۔ ان کو بھی امریکی کالے یا دلت کی طرح سماجی برابری حاصل کرنے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ عورتوں کا معاملہ مزید سنگین ہے۔ ان کو سڑک پر بلا جھجک اور بغیر کسی پریشانی کا سامنا کیے ہوئے سڑکوں پر گھومنے کی آزادی ہے۔ ان کو تیرنے، محبت کی شاعری کرنے کی آزادی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مرد بلا کسی روک ٹوک کے کرتے ہیں اور ان پر کوئی اخلاقی پابندی عائد نہیں ہوتی ہے۔ یہ نا انصافی بہت واضح ہے، بہت ظالمانہ اور ناقابل معافی ہے۔ “[11]
بھارت میں جلا وطنی کی زندگی
ترمیماپنے سیاسی خیالات کی بنا پر ان کو کافی مشکلات کا سامناکرنا پڑا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں ان پر تقریباً دس مقدمے کیے گئے۔ [7] پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124A کے تحت ان پر سیڈیشن چارج لگا۔ [12] شوہر کی گرفتاری کے بعد ان کے ایک مداح نے ان کو ضمانت پر رہا کروایا تاکہ پھر سے ان کو جیل نا جانا پڑے اور پھر ان کو اور ان کے دو چھوٹے بچوں اور بہن سمیت مشاعرہ کے بہانے بھارت بھیج دیا جائے۔ اس وقت بھارت کی مشہور شاعرہ امرتا پریتم نے اس ضمن میں موجودہ وزیر اعظم اندرا گاندھی سے اس ضمن میں بات کی اور محترمہ ریاض کو بھارت میں پناہ مل گئی۔ [7]
ان کے بچوں کو بھارت میں اسکول میں داخلہ مل گیا۔ [12] بھارت میں ان کے کئی رشتہ دار رہتے تھے۔ بعد میں ان کے شوہر جیل سے رہا ہونے کے بعدبھارت آگئے اور ان کے ساتھ رہنے لگے۔ اس خاندان نے تقریباً سات برس جلا وطنی کی زندگی گزاری۔ پھر جنرل محمد ضیاء الحق کی وفات کے بعد بینظیر بھٹو کے ولیمہ کی شام کو وہ بھارت سے پاکستان لوٹ آئیں۔ اس دوران میں ان کا قیام بحیثیت شاعرہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں رہا۔ اپنی جلاوطنی کے دوران میں انھوں ہندی بھی سیکھ لی تھی۔
وفات
ترمیم72 سال کی عمر میں 21 نومبر 2018ء کو وہ اس دنیا سے چل بسیں۔ [13]
منتخب ادبی کتب
ترمیمان کی پہلی شاعری احمد ندیم قاسمی کے فنون میں شائع ہوئی، اس وقت ان کی عمر محض 15 برس تھی۔ 22 سال کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔
سال | عنوان | ناشر |
---|---|---|
1968ء | خط مرموز | آج کی کتابیں، کراچی |
کراچی (ناول) | ||
گوداوری (ناول) | ||
1967ء | پتھر کی زبان (شاعری) | نئی آواز جامعہ نگر نئی دہلی |
کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے (شاعری) | ||
ہمرکاب (شاعری) | ||
1973ء | بدن دریدہ (شاعری) | |
دھوپ (شاعری) | مکتبہ دانیال، کراچی | |
1999 | آدمی کی زندگی (شاعری) | آج کی کتابیں، کراچی |
1998 | کھلے دریچے سے | وڈا کتاب گھر، کراچی |
حلقہ میری زنجیر کا | ||
ادھورا آدمی | ||
پاکستان، لٹریچر اینڈ سوسائٹی | ||
قافلے پرندوں کے | ||
یہ خانہ آب و گل | ||
2011 | سب لعل و گوہر
(شعری کلیات) |
سنگ میل بپلکیشنز، لاہور |
2017ء | تم کبیر | اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس |
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ https://www.awid.org/whrd/fahmida-riaz
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb15037482f — اخذ شدہ بتاریخ: 26 مارچ 2017 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/063870509 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 مئی 2020
- ↑ "Pakistani poet Fahmida Riaz is 72. These poems show she was in relentless pursuit of a new order"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2018
- ↑ "That Thing That India and Pakistan Do"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2018
- ↑ "Hindu Pakistan? Not Quite"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2018
- ^ ا ب پ Amar Sindhu (2013-09-14)۔ "Herald Exclusive: In conversation with Fahmida Riaz"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2017
- ^ ا ب پ ت "Fahmida Riaz: The Progressive Writer and Poet of Sindh"۔ Sindhi Dunya (بزبان انگریزی)۔ 2016-04-07۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2017
- ^ ا ب پ "Fahmida Riaz – Profile & Biography | Rekhta"۔ Rekhta (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2017
- ↑ "Fahmida Riaz"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2017
- ^ ا ب thnsj۔ "The Hindu : Literary Review / Interview : `There is something sacred about art'"۔ www.thehindu.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2017
- ^ ا ب "Pakistanis seek friendship with India: Fahmida Riaz"۔ hindustantimes.com/ (بزبان انگریزی)۔ 2013-04-08۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2017
- ↑ "Pakistani poet, author Fahmida Riaz passes away"۔ www.aljazeera.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2018