اندھیرا اجالا (ڈراما)
اندھیر اجالا ایک مقبول پاکستان ٹیلویژن ڈراما تھا جو پاکستان ٹیلی ویژن پر 1984-1985 کے دوراں نشر کیا گیا تھا۔ اس ڈراما کے مصنف یونس جاوید اور ہدایتکار راشد ڈار تھے۔ اس ڈراما کے مشہور کرداروں میں سے سب سے زیادہ مشہور کردار "حوالدار کرم داد" تھا جو مشہور اداکار عرفان کھوسٹ نے نبھایا۔ عرفان کے علاوہ اس سیریل میں دیگر مشہور ادکار جمیل فخری، قوی خان اور عابد بٹ (سب انسپکٹر محمود) تھے۔[1] اس ڈراما کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ایک کس طرح ایک پولیس والا جرائم کی روک تھام ایک مزاحیہ طریقے سے کرتا ہے اور معاملات کو کیسے سنبھالتا ہے۔[2]
اہم کاسٹ
ترمیم- عرفان کھوسٹ
- جمیل فخری
- قوی خان
- عابد بٹ
- نذیر حسینی
- سعدیہ جیلانی
- منون عباسی
- خیام سرحدی
- ریما
پسِ منظر
ترمیمقصہ ہے 1981 کا جب پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے طویل دورانیے کے پلے کا آغاز کیا، جو مہینے میں کسی ایک ویک اینڈ پر نشر ہوتا تھا۔
اس سلسلے کا پہلا ڈراما ’کانچ کا پل‘ رہا، جسے یونس جاوید نے تحریر کیا جبکہ ہدایت کاری کے فرائض لاہور ٹیلی ویژن کے جنرل منیجر اور پروڈیوسر محمد نثار حسین نے ادا کیے۔ لونگ پلے کو ’ڈراما 81‘ کے ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔
پی ٹی وی کا یہ نیا سلسلہ خاصا مقبولیت حاصل کرگیا۔ طویل دورانیے کے ان ڈراموں کی تیاری میں بہترین کہانیوں اور منجھے ہوئے اداکاروں کا انتخاب ہوتا۔ 29 دسمبر 1983 کو ’ڈراما 83‘ کے سلسلے میں ’رگوں میں اندھیرا‘ بھی نشر کیا گیا، جس میں راحت کاظمی کو کراچی سے خصوصی طور پر بلایا گیا۔
کہانی کا پس منظر پولیس اسٹیشن کے گرد گھومتا ہوا تھا جس میں راحت کاظمی نے اے ایس پی مسعود الرحمٰن کا کردار نبھایا۔ ایک ایماندار پولیس افسر کے روپ میں ان کی اداکاری اپنے عروج پر رہی۔ ساتھی فنکاروں میں جمیل فخری، عرفان کھوسٹ، زیب رحمان، نگہت بٹ، محبوب عالم، انور علی، عابد بٹ اور محمود اسلم شامل رہے۔
محمد نثار حسین کی ڈائریکشن میں تیارکیے گئے اس لونگ پلے کے رائٹر بھی یونس جاوید ہی تھے۔ ڈراما تو سمجھیں ہر کسی کے دل میں گھر کر گیا۔ شہرت اور پسندیدگی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ ایک ہفتے کے اندر اِسے پھر سے 5 جنوری 1984 کو دوبارہ نشر کیا گیا۔
’رگوں میں اندھیرا‘ کی پیش کش کے پس پردہ خاصی دلچسپ کہانی ہے۔ ڈرامے کے مصنف یونس جاوید کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ ڈراما ہنگامی بنیادوں پر لکھا۔ محمد نثار حسین جن رائٹرز سے ’ڈراما 83‘ کا پلے لکھوانا چاہ رہے تھے، انہوں نے عین وقت پر معذرت کرلی۔ تبھی یونس جاوید کو طلب کیا گیا اور حکم ملا کہ ’ڈراما83‘ کے لیے لونگ پلے لکھیں۔
کوئی کہانی یا کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ یونس جاوید کسی کہانی کی تلاش میں تھے۔ تبھی ایک رات دس گیارہ بجے کے قریب انہوں نے میڈیکل سٹور کے قریب منشیات کی عادی لڑکی کو دیکھا جو نشہ ٹوٹنے کے بعد حواس باختہ تھی۔ یونس جاوید کے مطابق نشے کی عادی یہ لڑکی ان کے لیے مجسم کہانی بن گئی۔
بس یہیں سے ان کے ذہن میں آئیڈیا آیا کہ لونگ پلے کے لیے نشے کا موضوع چن کر اس بے رحم لت کے خلاف لڑائی کی جائے۔ جبھی نشے کو رگوں میں دوڑتے ہوئے اندھیرے سے تعبیر کیا گیا، جس سے نمٹنے کے لیے پولیس فورس فعال ہوتی ہے۔
ڈراما تیار کرکے جب وہ محمد نثار حسین کے پاس لے گئے تو انہوں نے سکرپٹ کو فلمی قراردے کر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ یونس جاوید کو یقین تھا کہ یہ ڈراما ضرور پسند کیا جائے گا۔ انہوں نے تو ہر کردار کو یہ بھی بتایا کہ انہیں کس طرح جملوں کی ادائیگی کرنی ہے اور کون سا لب و لہجہ اختیار کرنا ہے۔ ہدایت کار کے ساتھ ساتھ رائٹر کی اس دن و رات کی محنت کا یہ اثر ہوا ہے کہ ’رگوں میں اندھیرا‘ واقعی اب تک کلاسک تصور کیا جاتا ہے۔
ڈرامے کی کامیابی کی مبارک باد یں وصول کرتے ہوئے یونس جاوید کو کچھ عرصے بعد یہ خوش خبری بھی سنائی گئی کہ اب اسی طویل دورانیے کے پولیس اہلکاروں والے کرداروں کے ساتھ ڈراما سیریز بنائی جائے گی۔
ہدایت کار محمد نثار حسین خاصے پرامید تھے، جنہوں نے ’اندھیرا اجالا‘ کی ڈائریکشن کی ذمے داری راشد ڈار کو دی۔ چونکہ راحت کاظمی کو کراچی سے بلا کر اس ڈرامے کا حصہ بنانا، پی ٹی وی کے لیے اخراجات کا باعث بنتا اسی بنا پر ان کی جگہ لاہور ٹی وی مرکز کے ہی قوی خان کو ان کے کردار کے لیے منتخب کیا گیا جبکہ باقی سٹاک کردار کم و بیش وہی تھے جو ’رگوں میں اندھیرا‘ میں شامل تھے۔
اظرین کے لیے یہ تجربہ خاصا دلچسپ رہا کہ ایک ایسا ڈراما، جس کے مشہور کرداروں کو لونگ پلے میں دیکھ چکے تھے اب ہر ہفتے ان کی اسکرین پر نظر آنے لگے۔ چھوٹی چھوٹی اصلاحی کہانیاں اور معاشرتی برائیوں کو بیان کرتا یہ ڈراما سیریز شہرت کی ساری حدیں پار کرتا چلا گیا۔
ڈائریکٹ حوالدار ہوں، جعفرحسین ہوں یا نوا پرانا یا پھر اللہ دتہ سکرین پر جلوہ گر ہوتے تو چہروں پر مسکراہٹوں کی بہار آجاتی۔ مختلف فنکاروں کا ان کے ’ٹریڈ مارک ڈائیلاگز‘ کے ذریعے شہرت کا نیا سفر شروع ہوا، جیسے عرفان کھوسٹ کا یہ کہنا کہ ’دَہ جماعت پاس ہوں ڈائریکٹ حوالدار ہوں کوئی مذاق نہیں ہوں میں،‘ قوی خان کا ’بولو بولو‘ یا پھر جمیل فخری کا کڑک دار آواز میں ’ بس‘ کی صدا لگانا۔
جمیل فخری جو جعفر حسین کے کردار میں جلوہ گر ہوئے تھے اور کئی اقساط میں ان کے رویے سے تساہل پسندی کی جھلک ملی، ساتھ ساتھ فرائض سے راہ فرار کی بھی۔ لیکن اس وقت سب کی آنکھیں نم ہوگئیں جب ایک قسط میں انہوں نے فرض کو اولاد پر ترجیح دے کر اسے گولی کا نشانہ بنایا۔
یونس جاوید کو یہ اطمینان تھا کہ ایک سہ ماہی میں پیش ہونے کے بعد یہ ڈراما سیریز اپنے اختتام کو پہنچے گی تو انہیں دوسرے تخلیقی کاموں کی فرصت مل جائے گی لیکن انہیں بتایا گیا کہ حکومت تک کو یہ ڈراما سیریز پسند آرہی ہے جبھی اس وقت کے سیکریٹری انفارمیشن لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمٰن کے فرمان پر لاہور ٹی وی مرکز کو کہا گیا کہ وہ اس ڈراما سیریز کو اگلی سہ ماہی میں بھی جاری رکھیں، جس پر یونس جاوید نے دبے لفظوں میں احتجاج بھی کیا لیکن محمد نثار حسین کے کہنے پر وہ اب پھر سے نئی کہانیوں کے ساتھ ’اندھیرا اجالا‘ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Information and episodes of the serial 'Andhera Ujala'"۔ vidpk.com۔ 01 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2016
- ↑ https://www.youtube.com/watch?v=aptkqSdmvSU, Andhera Ujala (TV Series) on YouTube, Retrieved 31 October 2016
- ↑ [[1]]