سلطان صلاح الدین اویسی
سلطان صلاح الدین اویسی (Sultan Salahuddin Owaisi) حیدرآباد شہر سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان تھے۔ وہ مسلسل چھ مرتبہ حیدرآباد سے بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بنے جب تک کہ وہ 2004ء میں وہ اپنے بڑے بیٹے اسد الدین اویسی کے حق میں دستبردار ہو گئے۔[3][4]
سلطان صلاح الدین اویسی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
صدر کل ہند مجلس اتحاد مسلمین | |||||||
مدت منصب 1983 – 2008 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 14 فروری 1931ء حیدر آباد |
||||||
وفات | 29 ستمبر 2008ء (77 سال)[1] حیدر آباد |
||||||
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
||||||
مذہب | مسلم | ||||||
جماعت | آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین | ||||||
اولاد | 1-اسد الدین اویسی 2-اکبر الدین اویسی 3-برہان الدین اویسی اور 1 بیٹی (بھتیجے امین الدین اویسی سے شادی)[2] |
||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | نظام کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
درستی - ترمیم |
وہ اپنی زندگی میں اپنے لیے سالار ملت کا لقب منتخب کیے اور اسی نام ان کے مداح انھیں تا حیات مخاطب کرتے رہے۔ ان کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ان کی زندگی میں ایک سے لے کر پانچ ارکان اسمبلی اور کئی بلدی کونسلروں کے ساتھ قانون ساز اداروں میں اپنی موجودگی درج کرتی رہی۔ 1983ء میں حیدرآباد شہر خطرناک فرقہ وارانہ چھڑپیں ہوئیں۔ اس موقع پر بعض جگہوں پر لاؤڈ اسپیکر سے لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے کی پہلے سے ریکارڈ آوازیں گشت ہوئیں۔ اس کی وجہ سے شہر کافی دہشت کا ماحول بن گیا۔ اس کے اگلے ہی سال ہوئے لوک سبھا انتخابات میں مجلس شہر کی نشست جیتی اور اویسی رکن پارلیمان بنے۔ اس کے بعد وہ 1999ء تک برابر رکن پارلیمان بنے رہے۔
1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کے انہدام کے بعد اویسی پر انھی کے پارٹی کے ایم ایل اے محمد امان اللہ خان سے شدید اختلافات ہوئے اور خان کو مجلس سے خارج کر دیا گیا۔ خان نے الزام عائد کیا کہ اویسی ذاتی مفادات کے لیے ملت کے مفادات کا سودہ کر رہے ہیں۔ اس کی مثال انھوں نے اس سے دی کہ جہاں اویسی اس وقت شہر میں وقفے وقفے سے جلسۂ ملی بیداری کے جلسوں میں اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کو مسجد کی شہادت میں مورد الزام قرار دے رہے تھے، وہیں وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے حق میں ووٹ دیے تھے۔ خان نے یہ بھی الزام لگایا کہ مجلس کے زیر انتظام دکن گروپ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز مسلمان طلبہ سے بھاری رقم داخلے کے وقت عطایا کی شکل میں وصول کر رہے ہیں حالانکہ یہ تعلیمی ادارے جو ایم بی اے، انجینئری، طب، فارمیسی اور کئی اور کورسیز پر مشتمل ہیں، رفاہی غرض سے بنائے گئے تھے۔ 1994ء کے اسمبلی انتخابات میں امان اللہ خان کی نو تشکیل شدہ مجلس بچاؤ تحریک سے خود امان اللہ خان اور ممتاز احمد خان منتخب ہوئے۔ اس کے بعد اویسی نے چارمینار کی مشہور مکہ مسجد میں رمضان میں یوم القرآن کے ایک جلسے میں قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے کر قسم کھائی کہ انھوں نے ملت کے کسی مفاد کا سودہ نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو اللہ ان کو اور ان کے خاندان کو غارت کر دے۔ اس کے بعد سے عوام کی ہمدردی وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کئی پارٹی چھوڑنے والے امیدوار دوبارہ پارٹی میں شامل ہوئے۔ خود امان اللہ خان کے ساتھی ممتاز احمد خان اویسی کی ایم آئی ایم میں شامل ہو گئے۔ امان اللہ خان کو ہرانے کے لیے شہر کی ایک مشہور اسلامی درس گاہ دار العلوم سبیل السلام سے مہدویوں کے خارج الاسلام ہونے کا فتوٰی جاری کیا گیا۔ اس فتوے کو پرانے شہر کے عوام میں گشت کروایا گیا۔ بالآخر اگلے لوک سبھا انتخابات میں اویسی آسانی امان اللہ خان کو ہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی خان کی مجلس بچاؤ تحریک کمزور پڑتی گئی اور مجلس اگلے کچھ سالوں اور بھی مضبوط بن گئی۔ اویسی 1999ء تک خود رکن پارلیمان بنے جبکہ 2004ء سے انھوں نے اپنے بیٹے اسد الدین اویسی کو شہر سے رکن پارلیمان بنوایا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.thaindian.com/newsportal/uncategorized/mim-president-owaisi-dies_100101649.html
- ↑ Wedding grandeur in Hyderabad – Times Of India. Articles.timesofindia.indiatimes.com (2008-07-15). Retrieved on 2012-05-05.
- ↑ Andhra Pradesh / Hyderabad News : A veteran of many battles آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hindu.com (Error: unknown archive URL). The Hindu (2008-09-30). Retrieved on 2012-05-05.
- ↑ MIM president Salahuddin Owaisi passes away | Indian Muslims آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ indianmuslims.info (Error: unknown archive URL). Indianmuslims.info. Retrieved on 2012-05-05.