ایک بہت خطرناک اور جان لیوا انفیکشن کی بیماری ہے، جوتیزی سے ا یک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتی ہے۔ اس وقت 2014ء میں افریقی ملک لائبیریا اس کی وبا پھوٹی ہوئی ہے۔ ایبولا وائرس ایک ایسی خطرناک ترین بیماری ہے جسے ’’ایبولا ہیمرجک فیور‘‘Ebola hemorrhagic fever بھی کہا جاتا تھا۔ ایبولا بخارمیں مبتلا 90 فیصد افراد کو ہلاکت کا خطرہ رہتا ہے۔ اس بیماری میں بھی ویسی ہی علامات پائی جاتی ہیں جو ڈینگی بخار میں پائی جاتی ہیں۔ ڈینگی بخار کی طرح ابھی تک ایبولا کے لیے بھی کوئی ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ایبولا کے مریضوں کی تعداد 9000 سے زائد ہو چکی ہے۔ ان میں 4000 سے زائد اس مرض سے وفات پا چکے ہیں۔

ایبولا وائرس بیماری
تخصصInfectious diseases تعديل على ويكي بيانات

ابتدا

ترمیم

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے پہلے یہ بیماری وسطیٰ اور مغربی افریقہ کے دور دراز دیہاتوں میں آئی جو برساتی جنگلات کے قریب تھے۔ وائرس پہلے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس کے بعد انسانوں سے انسانوں میں پھیلا۔ 1976ء میں یہ مرض سب سے پہلے کانگو اور سوڈان میں رپورٹ ہوا۔ یہ وائرس افریقی جنگلات میں بیمار جانوروں بن مانس، بندر، چمگادڑ اور دوسرے جانوروں سے انسانوں میں آیا۔

نام کی مناسبت

ترمیم

1976ء میں ایبولا وائرس پہلی بار دریا سے 60 میل کے فاصلے پر یامبوکو میں شناخت کیا گیا تھا لیکن پروفیسر پیٹر پایٹ نے اسے قصبہ کی بجائے دریا کا نام دیا تاکہ قصبہ بیماری کی بدنامی سے محفوظ رہے۔[1] اس لیے ایبولا وائرس اور ایبولا وائرس بیماری دریائے ایبولا سے موسوم ہیں۔[2] بعد ازاں اس دریافت کے باوجود کہ دریائے ایبولا یامبوکو گاؤں کے قربت میں نہیں اس کا نام برقرار رہا۔

علامات

ترمیم

اس بیماری کی عمومی علامات یہ ہیں : تیز بخار، سر درد، جوڑوں میں درد، پٹھوں میں درد، گلے میں درد، کمزوری، معدے میں درد اور بھوک کا ختم ہو جانا۔ بیماری خطرناک مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اندر خون بہنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں، کانوں اور ناک سے بھی خون بہنے لگتا ہے۔ بعض مریض خون کی الٹیاں بھی کرتے ہیں اور بعض مریض کھانسی کیساتھ خون تھوکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مریضوں کے پاخانے کیساتھ خون آتا ہے اور جسم پر خسرے کے طرح کے دانے نکل آتے ہیں۔

پھیلاؤ

ترمیم

ایبولا وائرس کی بیماری نزلے، زکام اور چیچک کا باعث بننے والے وائرسوں کی طرح متعدی نہیں ہے لیکن ایبولا وائرس متاثرہ جانور یا انسان کی جِلد کے علاوہ ان کے جسم سے خارج ہونیوالے سیال مادّوں سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ ایک جانور اور انسان سے دوسرے جانور اور انسان کو لگنا شروع ہو جاتا ہے ‘ جو لوگ ایبولا وائرس کا شکار ہونیوالوں کی تیمارداری کرتے ہیں یا اس سے ہلاک ہونے والوں کو دفناتے ہیں، انھیں بھی عموماً یہ وائرس لگ جاتا ہے۔

علاج

ترمیم

جس شخص کے بارے میں تصدیق ہو جائے کہ وہ ایبولا وائرس سے لاحق ہونے بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے، اسے فوراً دوسرے انسانوں سے الگ کر دینا چاہئیے تاکہ بیماری دوسرے انسانوں کو نہ لگ جائے۔ مریض کو ٹھوس غذا نہ دی جائے۔ اسے آکسیجن بھی لگائی جاتی ہے۔ خون کا دباؤ یعنی بلڈ پریشر معمول پر رکھنے کی دوائیں بھی دی جاتی ہیں اور اسے خون بھی لگایا جاتا ہے۔ اس وائرس سے بچنے کے لیے تاحال کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں کا سفر بالکل نہیں کیا جائے جہاں ایبولا وائرس پایا جاتا ہو یا پھیل چکا ہو۔ حفظانِ صحت کی خدمات انجام دینے والے افراد بھی نقاب لگا کر، دستانے پہن کر اور عینک لگا کر اس وائرس سے بچنے کی تدبیر کر سکتے ہیں۔

تحفظ کے لیے ویکسین

ترمیم

اپریل 2015ء میں روس میں ایبولا وائرس کے خلاف ایک نئی ویکسین ایجاد کی گئی تھی۔ اس کو روس کی وزارت صحت نے آئندہ چند ماہ میں لوگوں پر آزمائے جانے کے بعد جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Wordsworth, Dot (25 October 2014). "How Ebola got its name". The Spectator (London, England). Retrieved 26 October 2014.
  2. "Ebola outbreak confirmed by DR Congo"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جولا‎ئی 2015 
  3. "Sputnik International - Breaking News & Analysis - Radio, Photos, Videos, Infographics"۔ 09 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 فروری 2016