بارہ نقیب اس سے مراد انصار کے وہ بارہ نقیب مراد ہیں جو رسول اللہ نے مدینہ منورہ کے لیے مقرر فرمائے۔ انھیں نقباء مدینہ کہا جاتا ہے

نقیب کے معنی

ترمیم

قول باری ہے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے
لفظ نقیب نقب سے ماخوذ ہے جس کے معنی بڑے سوراخ کے ہیں۔ کسی کو نقیب القوم اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے احوال پر نظر رکھتا ہے اور ان کے پوشیدہ خیالات و امور سے مطلع رہتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنا پر قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والوں کے سردار کو نقیب کہا جاتا ہے۔
حسن کا قول ہے کہ نقیب کفیل اور ذمہ دار کو کہتے ہیں انھوں نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ نقیب اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ اپنے متعلقہ لوگوں کے احوال، ان کے امور، ان کے صلاح و فساد اور ان کی استقامت اور کج روی سے باخبر رہ کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع فراہم کرے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار پر بارہ نقیب اسی معنی میں مقرر فرمائے تھے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ امین کو نقیب کہتے ہیں۔[1]

بارہ نقیب

ترمیم

بیعت عقبہ ثانیہ مکمل ہو چکی تو رسول اللہﷺ نے یہ تجویز رکھی کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں۔ جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں۔ آپ کا ارشاد تھا کہ لوگ اپنے اندر سے بارہ نقیب پیش کیجیے تاکہ وہی لوگ اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ آپﷺ کے اس ارشاد پر فوراً ہی نقیبوں کا انتخاب عمل میں آگیا۔ نو خَزَرج سے منتخب کیے گئے اور تین اَوس سے۔ نام یہ ہیں

خزر ج کے نقباء

ترمیم

اوس کے نقباء

ترمیم

جب ان نقباء کا انتخاب ہو چکا تو ان سے سردار اور ذمے دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ نے ایک اور عہد لیا۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا : جی ہاں۔ ([3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر احکام القرآن للجصاص۔ مفسر: ابو احمد بن علی الرازی
  2. السیرۃ النبویۃلابن ھشام،اسماء النقباء الاثنی عشر،ص177،178
  3. زاد المعاد فی هدی خير العباد،مؤلف، شمس الدين ابن قيم الجوزیہ ناشر: مؤسسہ الرسالہ، بيروت