اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (وفات: شوال ) یہ ابو امامہ انصاری اور اسعد الخیر سے مشہور ہیں
صحابی ۔ نام اسعد، کنیت ابوامامہ قبیلہ بنو خزرج کے خاندان بنو نجار سے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر کے دوران ہی آپ نے وفات پائی ۔

ابو امامہ
اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ
اسعد بن زرارہ
(عربی میں: أسعد بن زرارة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
وفات سنہ 623ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ واعظ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل دعوہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ترمیم

اسعد نام، ابو امامہ کنیت، خیر لقب، قبیلہ خزرج سے تھے اور بخارا کے خاندان سے وابستہ تھے، نسب نامہ یہ ہے، اسعدؓ بن زرارہ بن عبید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک ابن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج۔ بعثت نبوی سے قبل اگرچہ جزیرہ عرب پورا خطہ کفر و ظلمت کا نشیمن تھا، تاہم چند نفوس اپنی فطرت سلیمہ کے اقتضاء سے توحید کے قائل تھے، حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔[1]

اسلام

ترمیم

اسی زمانہ میں مکہ مکرمہ سے اسلام کی صدا بلند ہوئی، اسعد بن زرارہؓ اور ذکوان بن عبد قیس نے جو عتبہ بن ربیعہ کے پاس مکہ آئے تھے، ان سے آنحضرت کے حالات بیان کیے۔

انھیں سن کر ذکوان بن عبد قیس نے اسعدؓ بن زرارہ سے کہا دونک! ھذا دینک یعنی تم کو جس چیز کی تلاش تھی وہ موجود ہے،اب اس کو اختیار کر لو چنانچہ حضرت اسعدؓ بن زرارہ اُٹھ کر بارگاہ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئے اور توحید کے ساتھ رسالت کا بھی اقرار کیا۔ [2]

مکہ سے ایمان و اسلام کا جو جذبہ ساتھ لائے تھے وہ مدینہ آکر ظاہر ہوا چنانچہ اسلام کی تبلیغ شروع کی۔

سب سے پہلے ابو الہیثم بن تیہان سے ملے اور اپنے ایمان لانے کا تذکرہ کیا، ابو الہیثم بولے: کہ تمھارے ساتھ میں بھی آنحضرت کی رسالت کا اقرار کرتا ہوں۔[3]

اس بنا پر انصار میں جو شخص سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے وہ حضرت اسعدؓ بن زرارہؓ ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عقبہ اولیٰ میں 6 آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے، بہر حال عقبہ اولیٰ کے دوسرے سال 12 آدمیوں کے ساتھ مکہ آئے اور تیسرے سال عقبہ کبیرہ کی بیعت میں شرکت کی۔ کہتے ہیں کہ اسعدؓ بن زرارہ نے سب سے پہلے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا، اس بیعت میں آنحضرت نے ان کو بنو نجار کا نقیب تجویز فرمایا، حضرت اسعدؓ بن زرارہ نقیبوں میں سن وصال کے لحاظ سے سب سے چھوٹے تھے۔

لیکن اس صغر سنی کے باوجود جوش ایمان شباب پر تھا، حرہ بنی بیاضہ میں جس کو نقیع الخضمات بھی کہتے ہیں، باجماعت نماز کا انتظام کیا اور چالیس آدمیوں کے ساتھ جمعہ ادا فرمایا۔[4]

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اصحاب عقبہ میں تھے، جمعہ کی اذان سنتے تو حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے،[5] کہ اس کار خیر کی بنیاد اسی خیر مجسم کے مبارک ہاتھوں سے پڑی تھی، سچ ہے من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ۔

اسی زمانہ میں آنحضرت نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو داعی اسلام بنا کر مدینہ روانہ فرمایا، تو اسعدؓ بن زرارہ نے ان کو اپنے گھر میں مہمان اتارا۔[6]

ہجرت نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اگرچہ وحی اسلام کا مامن حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کاشانہ تھا لیکن آنحضرت کی اونٹنی اسعدؓ بن زرارہ کی مہمان تھی۔[7]

مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے لیے جو جگہ تجویز ہوئی تھی وہ زمین حضرت سہل اور سہیل نامی دو یتیموں کی ملک تھی، جو اسعدؓ بن زرارہ کی نگرانی میں تربیت پاتے تھے،[8] آنحضرت نے ان کے مربی سے زمین کی قیمت دریافت کی تو یتیموں نے عرض کیا کہ ہم صرف خدا سے اس کی قیمت چاہتے ہیں،لیکن چونکہ آنحضرت کو بلا قیمت لینا منظور نہ تھا اس لیے حضرت ابو بکرؓ سے اس کے دام دلوائے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اسعدؓ بن زرارہ نے ان یتیموں کو اپنا ایک باغ جو بنی بیاضہ میں تھا، اس زمین کے معاوضہ میں دیا تھا۔[9]

مدینہ شریف میں پہلا جمعہ

ترمیم

حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کا ذکر احادیث میں ملتا ہے کہ وہ سبقت جو ان کے حصے میں آئی، اس میں ایک نماز جمعہ کا آغاز ہے۔ چنانچہ سب سے پہلا جمعہ جو مدینے میں پڑھا گیا ، اس کا انتظام و انصرام کرنے والے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ انھوں نے ہی نماز جمعہ کی بنا وہاں پر ڈالی تھی۔ مدینہ میں ایک بڑی حویلی یا دالان دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھا ۔ وہ دونوں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی کفالت میں تھے۔ اس جگہ حضرت اسعد نے جمعہ کا انتظا م کیا جس میں چالیس کے قریب لوگ شامل ہوئے۔یہ بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد کا واقعہ ہے۔[10] روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کے پہلے اجتماع کی خوشی میں حضرت اسعدبن زرارہ نے ایک بکری بھی ذبح کروائی اور جمعہ میں شریک مسلمانوں کی دعوت کا انتظام کیا۔ حضرت اسعدبن زرارہ اس وقت تک نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ یہاں تک کہ اسلام کے پہلے مبلغ حضر ت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے۔ اس کے بعد امامت اور دیگر ذمہ داریاں انھوں نے سنبھال لیں۔ پھر جب وہ اگلے سال بعض انصار کا وفد لے کر پیارے مصطفی سے ملاقات کے لیے مکہ گئے تو اس دوران بھی حضرت اسعد بن زرارہ کو مدینے میں جمعہ پڑھانے کی سعادت نصیب ہوتی رہی ۔[11] شاعر دربار نبوی اور صحابی رسول حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب جمعہ کے لیے نکلتے تو اذان کی آواز سن کر مسنون دُعائیہ کلمات کے بعد استغفار پڑھتے اور خاص طور پرحضرت اسعد بن زرارہ کے لیے مغفرت کی دُعا کیا کرتے۔ کسی کہنے والے نے انھیں کہا کہ’’یہ کیا بات ہے جمعہ کی اذان کے وقت آپ خاص طور پر اسعد بن زرارہ کے لیے بخشش کی دُعا کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: ’’اسعد وہ شخص تھا جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینے میں تشریف آوری سے پہلے مدینے میں جمعہ کا آغاز کیا تھا۔‘‘ [12] [13]

خدمتِ رسول

ترمیم

نبی کریم جب مدینہ تشریف لے آئے تو انصار مدینہ نے بیعت عقبہ میں جو عہد کیے تھے اس کے مطابق اپنا سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اللہ کے قیام کے لیے ہر صحابی اپنا گھر پیش کررہاتھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو۔ اسے جہاں حکم ہوگا وہاںرک جائے گی اور انہی لوگوں کا میں مہمان ہوں گا۔ اونٹنی جہاں رکی وہاں سے قریب ترین گھر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا تھا جہاں میرے پیارے نبی کریم نے قیام فرمایا اور چھ ماہ تک وہاں فروکش رہے۔حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خیال کرکے کہ رسول اللہ کی خدمت کی ازلی سعادت تو اب حضرت ابو ایوب انصاری کے حصے میں آگئی تو میں کسی اور ذریعے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خدمت کرلوں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ انھوں نے پکڑ لی اور اسے اپنے گھر لے کر گئے اور اس کی خدمت کی توفیق انھیں کو ملتی رہی۔ [14] حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم کے عاشق صادق تھے۔مخیّر لوگوں میں ان کا شمار تھا۔ اپنے قبیلے کے رئیس اور سردار بھی تھے۔ اس زمانے میں جب حضور اکرم ہجرت کرکے مدینہ آئے تو سب کچھ چھوڑ کے آگئے تھے، مدینے میں نئی جگہ کی آباد کاری کی کئی ضروریات سامنے تھیں۔ حضرت اسعد بن زرارہ نے اسی موقع پر رسول اللہ کی خدمت میں حسب ضرورت وہ تحفہ پیش کیا ہوگا جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں بہت عمدہ خوبصورت قسم کا پلنگ تھا جس کے پائے ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تھے اورجو حضرت اسعد بن زرارہ نے بطور تحفہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔[15] رسول کریم کی مدینہ تشریف آوری پر جب مسلمانوں کے لیے لیے جد کے قیام کی ضرورت پیدا ہوئی تو وہی احاطہ جو سہل اور سہیل کا تھا وہاں مسجد نبوی تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے یہ مخلصانہ پیشکش کی کہ ان دونوں بچوں کو میں راضی کرلوں گا، یہ زمین مسجد کے لے لیے ول کر لی جائے اور اس کے عوض انھوں نے بنی بیاضہ والااپ اپنا غ پیش کر دیا۔ [16] حضور اکرم نے رقم دیے بغیر وہ قطعہ زمین قبول کرنے پر رضا مندی نہیں فرمائی۔ [17]

وفات

ترمیم

ابھی مسجد نبوی کی عمارت تیار ہو رہی تھی کہ شوال 1ھ میں پیغام اجل آیا، حلق میں ایک درد اٹھا جس کو ذبحہ کہتے ہیں، آنحضرت عیادت کو تشریف لے گئے اور دستِ مبارک سے سر کو داغا، لیکن یہ درد پیغام اجل تھا، اس لیے روح جسم سے پرواز کر گئی، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت رنج ہوا ، فرمایا کیا کہوں؟ یہ کیسی موت ہوئی، اب یہودیوں کو کہنے کا موقع ہے کہ پیغمبر تھے تو اپنے دوست کو اچھا کیوں نہ کر دیا، حالانکہ ظاہر ہے کہ میں قضا کا کیا علاج کرسکتا ہوں، یہ واقعہ غزوۂ بدر سے قبل کا ہے۔

جنازہ کی نماز آنحضرت نے پڑھائی اور بقیع میں لے جاکر دفن کیا، کہتے ہیں کہ ہجرت کے بعد یہ پہلی موت تھی، یہ بھی خیال ہے کہ آنحضرت نے سب سے پہلی نماز جنازہ انہی کی پڑھی تھی اور انصار کے خیال کے مطابق بقیع میں سب سے پیشتر دفن ہونے والے مسلمان یہی تھے۔[18]

چونکہ اسعدؓ بن زرارہ بنو نجار کے نقیب تھے، اس لیے ان کی وفات پر اس خاندان کے چند ارکان آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ ان کی جگہ پر کسی کو نقیب تجویز فرمایا جائے، ارشاد ہوا کہ تم لوگ میرے ماموں (ننہیالی) ہو، اس لیے میں خود تمھارا نقیب ہوں آنحضرتﷺ کا نقیب بننا بنو نجار کے لیے ایسا لازوال شرف تھا جس پر وہ ہمیشہ فخر و ناز کیا کرتے تھے۔[19]

اولاد

ترمیم

حضرت اسعدؓ بن زرارہ نے دو لڑکیاں چھوڑیں اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے متعلق وصیت کی، چنانچہ آپ نے ان کا ہمیشہ خیال رکھا اور دونوں کو سونے کی بالیاں جن میں موتی پڑے ہوئے تھے پہنائیں۔[20]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (طبقات، جلد1، قسم1، صفحہ:146)
  2. (اسد الغابہ:1/71)
  3. (طبقات ابن سعد، جلد1، قسم1، صفحہ:146)
  4. (اسد الغابہ:1/71)
  5. (اصابہ:1/32)
  6. (طبقات :3/483)
  7. (طبقات ،جلد1،قسم1،صفحہ:160)
  8. (بخاری:1/555)
  9. (زرقانی:1/444)
  10. (اسد الغابہ:ج1،ص71)
  11. (ابن سعد:ج3،ص609)
  12. (اصابہ فی تمیزالصحابہ:ج1،ص32)
  13. أبو نعيم الأصبهاني۔ معرفة الصحابة۔ الأول۔ دار الوطن۔ صفحہ: 280 
  14. (مسلم :ج3،ص1623)
  15. (زادالمعاد:ج1،ص132)
  16. (زرقانی: جلد اول،ص264)
  17. سير أعلام النبلاء آرکائیو شدہ 2017-02-11 بذریعہ وے بیک مشین
  18. (مسند ابن حنبل:4/138، اسدالغابہ، جلد4)
  19. (اسد الغابہ:/72)
  20. (اصابہ:1/33)