ابو لبابہ
ابو لبابہ بن عبد المنذر انصار مدینہ میں سے ہیں اور قبیلہ اوس کے سرداروں میں سے تھے۔
ابو لبابہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | رفاعہ بن عبد المنذر |
پیدائش | 1 ہزاریہ مدینہ منورہ |
عملی زندگی | |
طبقہ | صحابہ |
نسب | اوسی |
پیشہ | محدث |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ونسب ترميم
رفاعہ نام، ابو لبابہ کنیت، قبیلہ اوس سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، رفاعہ ابن عبدالمنذر بن زبیر بن امیہ بن زید بن مالک بن عوف بن عمروبن عوف بن مالک بن اوس۔
اسلام ترميم
عقبہ ثانیہ میں اسلام لائے اور نقیب بنائے گئے۔
غزوات ترميم
اکثر غزوات میں شرکت کی، غزوۂ بدر میں خاص امتیاز حاصل ہوا، ہر اونٹ پر 3، 3 آدمی سوار تھے، ابو البابہؓ جس اونٹ پر تھے وہ شہنشاہ زماں کا موکب ہمایوں تھا، حضرت علیؓ بھی اسی پر تھے، وہ لوگ باری باری چڑہتے اترتے تھے، جب آنحضرتﷺ کے اترنے کی باری آتی تو جان نثار عرض کرتے کہ آپ سوار رہیں ہم پیدل چلیں گے، لیکن آنحضرتﷺ فرماتے کہ تم مجھ سے زیادہ پیدل چلنے پر قادر نہیں اورنہ میں تم میں سے زیادہ ثواب سے مستغنی ہوں۔ [1] مدینہ سے دو دن کی مسافت پر روما ایک مقام ہے وہاں پہنچ کر آنحضرتﷺ نے ابو لبابؓہ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر کرکے واپس کردیا اورغنیمت میں جس طرح مجاہدین کا حصہ لگایا تھا ان کا بھی لگایا۔
غزوہ قینقاع اورغزوہ سویق میں بھی وہی مدینہ پر آنحضرتﷺ کے جانشین تھے، [2] 5ھ میں آنحضرتﷺ نے اہل قریظہ کا جو یہودی تھے اور اسلام کے سخت دشمن تھے، محاصرہ کیا یہ لوگ قبیلہ اوس کے حلیف تھے، اس بنا پر انہوں نے ابولبابہ کو مشورہ کے لئے بلایا یہ وہاں پہنچے تو یہود نے بڑی تعظیم کی اوران کے سامنے اصل مسئلہ پیش کیا، یہودیوں کی عورتیں اوربچے روتے ہوئے سامنے نکل آئے، یہ عجیب درد ناک سماں تھا، اس کو دیکھ کر دل بھر آیا اور کہا کہ میرے خیال میں تم کو آنحضرتﷺ کا حکم مان لینا چاہیے، گلے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ نہ ماننے کی صورت میں قتل کردیئے جاؤ گے، کرنے کو تو اشارہ کر گئے؛ لیکن جب یہ خیال آیا کہ خدا اور رسول ﷺ کی خیانت ہوئی تو پیروں کے نیچے کی زمین نکل گئی، وہاں سے اٹھ کر مسجد نبوی میں آئے اور ایک موٹی اور وزن دار زنجیر سے اپنے کو ایک ستون میں باندھا کہ جب تک خدا تو بہ قبول نہ کرے اس طرح بندھا رہوں گا۔
زیادہ عرصہ گزرا تو آنحضرتﷺ نے لوگوں سے دریافت کیا، قصہ معلوم ہونے پر فرمایا، خیر جو کچھ ہوا اچھا ہوا، اگر وہ میرے پاس آجاتے تو میں خود استغفار کرتا غرض 7، 8 روز اسی طرح گذرے نماز اور حوائج ضروریہ کے لئے زنجیر کھول لیتے تھے اس سے فراغت کے بعد ان کی لڑکی پھر باندھ دیتی، کھانا پینا بالکل ترک تھا، کانوں سے بہرے ہوگئے، آنکھیں بھی معرضِ خطر میں پڑگئیں اور ناطاقتی سے بیہوش ہوکر زمین پر گر گئے اس وقت رحمتِ الہی کے نزول کا وقت آیا۔ آنحضرت ﷺ حضرت ام سلمہؓ کےمکان میں تھے کہ طلوع فجر سے پیشتر آیت تو بہ اتری آپ فرط مسرت سے مسکرا اٹھے، حضرت ام سلمہؓ نے کہا یا رسول اللہ!خدا آپ کو ہمیشہ ہنسائے، بات کیا ہے؟فرمایا ابو لبابہ کی توبہ قبول ہوگئی، اتنا کہا تھا کہ یہ خبر تمام شہر میں مشہور ہوگئی، لوگ ابو لبابہؓ کو کھولنے آئے، انہوں نے کہا کہ جب آنحضرتﷺ خود آکر کھولیں گے اس وقت یہاں سے ہٹوں گا ؛چنانچہ نماز صبح کے لئے جب آنحضرت ﷺ مسجد تشریف لائے تو خود اپنے دست مقدس سے حضرت ابو لبابہ کو کھولا۔
ابو لبابہؓ پر مسرت طاری تھی کہ درخواست کی کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر آپ کے پاس رہوں گا اوراپنا کل مال صدقہ کرتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک ثلث صدقہ کرو۔ [3] تو بہ میں یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ، وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [4] مسلمانو! تم اللہ رسول اوراپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو؛حالانکہ تم اس کو جانتے ہو اور خوب سمجھ لو کہ تمہارا مال اور اولاد آزمائش ہیں اورخدا کے پاس بڑا اجر ہے مسلمانو! تم ؛بلکہ خدا سے ڈرو گے تو تم کو ممتاز کرےگا اورتمہاری برائیاں دور کرے گا اور خدا بڑا فضل کرنے والا ہے۔ 8ھ میں غزوہ فتح ہوا، اس غزوہ میں عمروبن عوف کا جھنڈا ان کے پاس تھا، غزوۂ تبوک میں شریک تھے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس غزوہ میں شامل نہیں ہوئے اوراسی وجہ سے اپنے کو مسجد کے ستون میں باندھا تھا، لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں، غزوہ تبوک میں جو مسلمان بلا عذر رہ گئے تھے وہ صرف3 تھے مرارہ بن ربیع، بلال بن امیہ، کعب بن مالکؓ، چنانچہ قرآن مجید میں بھی تین ہی کا لفظ موجود ہے۔ وعلی الثلثۃ الذین خلفوا
وفات ترميم
سنہ وفات میں سخت اختلاف ہے؛ لیکن اس قدر مسلم ہے کہ حضرت علیؓ کے عہد مبارک میں وفات پائی۔
اولاد ترميم
دولڑکے چھوڑے، سائب اور عبدالرحمن
فضل وکمال ترميم
حضرت ابو لبابہؓ جلیل القدر صحابی تھے برسوں آنحضرتﷺ کی صحبت سے مشرف رہے تھے، اس اثنا میں بہت حدیثیں سننے کا اتفاق ہوا ہوگا، لیکن ان کی مرویات کی تعداد نہایت قلیل ہے۔ روایان حدیث کے زمرہ میں بعض اکابر صحابہ داخل ہیں، مثلاً عبداللہ بن عمرو، تابعین کا تمام اعلیٰ طبقہ ان کی مسند فیض کا حاشیہ نشین ہے، جن میں مخصوص لوگوں کے نام یہ ہیں: عبدالرحمن بن یزید بن جابر، ابوبکربن عمروبن حزم، سعید بن مسیب، سلمان اغر، سعید الرحمن بن کعب بن مالک، سالم بن عبداللہ بن عمر، عبید اللہ بن ابی یزید، نافع مولی ابن عمر وسالب عبدالرحمن۔
اخلاق ترميم
معمولی معمولی باتوں میں بھی حدیث نبوی پر عمل کا لحاظ رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سانپ مارنے کی حدیث سنی تھی اس کی بنا پر جہاں سانپ دیکھتے مارڈالتے تھے لیکن گھر میں نکلنے والے سانپ اس سے مستثنیٰ تھے، ابو لبابہؓ کا مکان ان کے مکان سے بالکل متصل واقع تھا، ایک روز کہا اپنے گھر کی کھڑکی کھولو، میں اسی طرف سے مسجد جاؤں گا، ابن عمرؓ اٹھے اور ادھر سے وہ بھی کھول رہے تھےپٹ کھلا تو ایک سانپ نظر آیا، عبداللہ ؓ نے دوڑ کر مارنا چاہا، انہوں نے روکا کہ آنحضرتﷺ نے گھر کے ساپنوں کے مارنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ [5]
ستون ابو لبابہ ترميم
رفاعہ بن عبد المنذر غزوہ خندق کے موقع پر مدینہ کے یہودیوں " بنونضیر " کے خلاف فیصلہ ہوا جنھوں نے غداری کی تھی آنحضرت ﷺ کی کارروائی کے موقع پر رفاعہ نے اشارہ سے اس کارروائی کا انہیں اشارہ سے بتایا پھر خود ہی اس غلطی سے توبہ کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ایک ستوں سے باندھے رکھا تھا، چھ دن تک بندھے رہے بعد میں مسجد نبوی کے اس ستوں کو رفاعہ کی کنیت کی نسبت سے " ابولبابہ " کہا جانے لگا۔[6]