بازنطینی سلطان
”بازنطینی سلطان“ سلجوق التون کے ناول (ترکی عنوان:Bizans Sultani) (انگریزی: Sultan of Byzantium) کا اردو ترجمہ ہے۔ سلجوق التون، ترکی کے معروف اور مقبول انعام یافتہ ادیب ہیں جن کے ناول ترکی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی ، اردو اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکے ہیں۔
کہانی
ترمیماس ناول کی کہانی اسرار، تجسس، سنسنی اور تاریخی معلومات سے بھرپور رہے۔ اس ناول میں تخیل ، تجسس اور تاریخ ایک دوسرے کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ ناول پڑھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف نے بازنطینی تہذیب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اسے تحریر کیا ہے۔ ناول میں قدم قدم پر بازنطینی ثقافت کی برتری اور تقدم کا احساس ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یورپ کے مسیحی بادشاہوں اور شہنشاہوں نے اپنے ہم مذہب اور حواری سلطنت کے ساتھ دھوکا کیا ورنہ شاید یہ تہذیب آج بھی زندہ ہوتی۔
اشاعت و ترجمہ
ترمیماردو میں اس ناول کی مترجم ہما انور ہیں جو اس سے پہلے مختلف ترکی ناولوں کا اردو ترجمہ کامیابی سے کر چکی ہیں جن میں نوبل انعام یافتہ سرخ میرا نام (ناول) بھی شامل ہے۔ پاکستان میں اس کے ناشر جمہوری پبلیکیشنز ہیں ، کتاب کا سرورق مصباح سرفراز کا بنایا ہوا ہے اور سال اشاعت 2017 ہے۔
ناول کا مختصر جائزہ
ترمیمبازنطینی شہنشاہ قسطنطین یاز دہم اپنے دار الحکومت قسطنطنیہ کے دفاع میں عثمانی افواج سے لڑتے ہوئے 1453ءمیں مارا گیا تھا اور اس کی لاش کبھی نہ مل پائی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بوڑھا اور بیمار شہنشاہ اس جنگ میں خود شریک نہ ہوا تھا، وہ دراصل قسطنطنیہ کے سقوط سے پہلے ہی ایک کشتی کے ذریعے فرار میں کامیاب رہا تھا اور یوں اسے لافانی شہنشاہ کا خطاب حاصل ہوا۔ اس کی گمشدگی کو پانچ صدیوں بیت جاتی ہیں اور اس شہنشاہ کی کوئی خبر نہیں ملتی۔
ناول کا ہیرو امریکی باپ (بزنس جرنل) اور ترک ماں (لا گریجویٹ) کا بیٹا ہے جو طرابزون میں پلا بڑھا ہے۔اس کی ترک ماں اور امریکی باپ میں شادی کے کچھ عرصے بعد ہی طلاق ہو چکی ہے۔ وہ ذہین، شاعری کا شوقین، شطرنج کا ماہر کھلاڑی، کئی علوم کا ماہر اور بازنطینی تاریخ میں حد درجہ دلچسپی رکھتا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے کے بعد ترکی میں ایسوی ایٹ پروفیسر بن کر باسفورس یونیورسٹی میں پڑھانے لگ جاتا ہے۔ تین پُراسرار آدمی سلطان احمد کے فورسینز ہوٹل میں نوجوان پروفیسر سے ملتے ہیں۔ اسے ملنے والے تینوں افراد ایک خفیہ تنظیم کے رکن ہیں جو بازنطینی شہنشاہ کی وصیت سے اس پروفیسر کو آگاہ کرتے ہیں۔ان کے مطابق قسطنطین یازدہم، فرار کے بعد ، عیسائی بادشاہوں اور پوپ سے فوجی مدد حاصل کرکے قسطنطنیہ واپس حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہا لیکن وہ ان سفارتی کوششوں میں کامیاب نہ ہو پایا۔
قسطنطین کی موت کے بعد ایک خفیہ سوسائٹی نومو کی بنیاد رکھی گئی جس کا مطلب ہے "قانون کا محافظ"۔ یہ تنظیم نومو گذشتہ 533 برس سے کام کر رہی ہے اور اس عرصے میں جلا وطن بازنطینی تخت کبھی خالی نہیں رہا۔ نئے شہنشاہ کا پہلا کام رازداری کا حلف اٹھانا اور پھر کھوئے ہوئے اقتدار کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔پروفیسر کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ قسطنطین یازدہم کا جانشین اور یوں بازنطینی سلطان ہے اور اسے قسطنطین یازدہم کی وصیت کو پورا کرنا ہے۔ یہیں سے اس جلاوطن بازنطینی سلطان کے اپنے ماضی اور گمشدہ بازنطینی تاریخ کی کھوج کے سنسنی خیز اور ڈرامے سے بھرپور سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
ناول میں تاریخی تذکرے
ترمیم- برج غلاطہ [1] ، 70 میٹر بلند سلنڈر کی شکل کی یادگار جسے 528 میں بازنطینی شہنشاہ جسٹینین (Justinian) نے ابتدا میں لکڑی سے بنوایا اور پھر 1348 میں جنیوا والوں نے پتھر سے ازسرنو تعمیر کروائی۔ عثمانیوں نے 1510 میں اسے بحال کیا۔ [2]
- گیارہ صدیوں تک گیارہ شاہی خاندانوں نے بازنطیم پر حکومت کی۔
- پیلیو لوگس (Paleologus) خاندان کے دوران گیارہ شہنشاہوں نے مجموعی طور پر 192 سال حکومت کی۔
- آخری شہنشاہ پیلیو لوگس (Paleologus) 1449 میں تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر 45 سال تھی۔
- 2 اپریل 1453 میں سلطان محمد ثانی نے 80 ہزار عثمانی فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کا محاصرہ شروع کیا۔ شہر کی آبادی 60 ہزار رہ چکی تھی۔
- 29 مئی 1453 کو قسطنطنیہ میں بازنطینی سلطنت کو شکست ہوئی اور شاہی پوشاک میں قسطنطین یاز دہم کی لاش شہر میں گھمائی گئی۔
- جارج ، جو شہنشاہ کا محرمِ راز، مشاط اور نجی معتمد تھا، کے مطابق قسطنطین یاز دہم شہر کی فصیلوں پر جنگ لڑتا مارا گیا۔
- مورخ نکولا ڈیلا ، شاعر ابراہیم انگورہ اور بازنطینی بشپ سیمائل کے مطابق شہنشاہ بحری جہاز کے ذریعے فرار ہو گیا تھا۔ [3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ استنبول: قدیم تہذیبوں کی راہ گذر
- ↑ بازنطینی سلطان ، سلجوق التون ، ص 10
- ↑ بازنطینی سلطان ، سلجوق التون ، ص 29