اردو جنوبی ایشیا سے آکر بسنے والے تارکین وطن کی جانب سے برطانیہ میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ برطانیہ میں اردو بولنے والوں کی اکثریت پاکستانی ورثے سے وابستہ ہونے کے طور پر خود کی شناخت کوظاہر کرتے ہیں۔ اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد کے ساتھ برطانیہ میں بہت سے علاقے ہیں۔ ان میں مانچسٹر،لیڈز اور بریڈفورڈ، اسکاٹ لینڈ کے کچھ حصے اور ویسٹ مڈلینڈز اور لندن کے مختلف علاقے میں شامل ہیں۔ لندن کے اسکولوں کے 2000 میں کیے گئے ایک سروے میں پایا گیا کہ اردو اور اس کی 'ہمشیرہ' زبان ہندی کو ملاکر لندن میں سب سے زیادہ بولی جانے والی دس زبانوں میں پانچواں مقام حاصل ہے۔[1]

شیفیلڈ شہر میں اردو کا فروغ ترمیم

برطانیہ کا شیفیلڈ شہراس لحاظ سے ایک اہم شہر ہے کہ یہاں اردو کے رواج اور فروغ کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں جس میں اس شہر کی انتظامیہ کا بڑا اہم کردار ہے۔ شہر کے شفاخانوں، کتب خانوں ،اور اسکولوں کے باہر لگے سائن بورڈ پر انگریزی کے ساتھ اردو ترجمہ موجود ہوتا ہے۔ یہاں کے کتب خانوں میں اردو کتب کا کافی بڑا ذخیرہ ہے۔ ہسپتال میں جو مریض آتے ہیں ان کی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے اور جن میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انھیں ڈاکٹر سے اپنی زبان میں بات کرنے کے لیے مترجم کی سہولت مہیا کی جاتی ہیں۔ شیفیلڈ میں مقیم تارکین وطن پاکستانی ہیں جو یہاں کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہے۔ یہ 60 کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوئے ہیں۔ شیفیلڈ میں ' جامعہ اسلامیہ اردو ٹیچنگ سینٹر ' کے نام سے ایک ادارہ ہے۔ یہ 1990 میں قائم ہوا تھا۔[2]

مانچشٹر میٹروپالیٹن یونی ورسٹی کی جانب سے اولین اردو ڈگری نصاب کا آغاز ترمیم

مانچشٹر میٹروپالیٹن یونی ورسٹی برطانیہ کا پہلا تعلیمی ادارہ بن گیا ہے جو طلبہ کو اردو میں ڈگری حاصل کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ستمبر 2015 سے یہ اس زبان کے مطالعے کی سہولت بین الاقوامی تجارت اور سیاسیات کے طلبہ کو بھی دے رہا ہے۔ حالانکہ دیگر جامعات میں قلیل مدتی نصاب کی سہولت موجود ہے، لیکن اس ادارے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اولین جامعاتی کورس ہے جس میں اردو ڈگری کی سطح پر پڑھائی جا رہی ہے۔[3]

اردو بطور بیرونی زبان پڑھنے کا رواج ترمیم

اردو کا بطور بیرونی زبان پڑھنے کا رواج برطانیہ میں بڑھ رہا ہے۔ جہاں 2006 میں صرف 6 طلبہ اردو پڑھتے تھے، وہاں 2011 میں یہ بڑھ کر 10 سے زائد طالب علموں کی زبان بن گئی ہے۔[4]

برطانیہ کی نئی نسل کو درپیش اردو سیکھنے میں مشکلات ترمیم

  • دیرینہ دور کے برعکس گھریلو سطح پر پنجابی، پوٹھوہاری، سندھی اور پشتو پر توجہ دی جا رہی ہے، جس سے اردو پر توجہ کم ہو رہی ہے۔
  • اسکولی سطح پر اردو تعلیم کا رجحان کم ہو رہا اور کئی اسکولوں سے اردو ہٹا دی گئی ہے۔
  • صحافت کے میدان میں یا تو ہے ہی نہیں یا بے معیاری ہے۔
  • قارئین کی عدم دلچسپی کے باعث اہلِ علم اپنے ہی خرچ سے کتابیں شائع کرتے ہیں اور مفت تقسیم کرتے ہیں۔ یہ کتابیں عمومًا پڑھنے سے زیادہ گھر کی سجاوٹ کا حصہ بنتے ہیں۔
  • نئی نسل کو شعر گوئی یا نثر نگاری کا کچھ ذوق نہیں ہے۔
  • کئی سفارت خانے ثقافتی مراکز قائم کرکے کسی ملک میں ہم قوم افراد کے ملنے اور مشترکہ وراثت کو بڑھانے میں معاون بنتے ہیں۔ اس طرح کی کوئی سرگرمی پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے نہیں کی گئی ہے۔[5]

حوالہ جات ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم