بکھر (مراٹھی ادب)
بکھر (مراٹھی: बखर) مراٹھی نثر میں موجود تحریری تاریخی بیانیہ کی ایک شکل ہے اور عہد وسطیٰ کے مراٹھی ادب کی اولین اصناف میں سے ایک ہے۔[1] سترہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی تک دو سو سے زائد بکھر لکھے گئے، ان میں سب سے زیادہ مشہور اور اہم ترین بکھر وہ ہیں جن میں مرہٹہ حکمران شیواجی کی زندگی کے واقعات قلمبند کیے گئے ہیں۔ نیز بکھر کو اس لحاظ سے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کہ ان کی مدد سے مرہٹوں کے نظریہ تاریخ پر روشنی پڑتی ہے تاہم ان میں بعض اوقات حقائق بیان کرنے لیے مبالغہ سے کام لیا گیا اور خوب حاشیہ آرائی کی گئی ہے۔
اشتقاق
ترمیماکثر محققین کا خیال ہے کہ مراٹھی لفظ "بکھر" عربی زبان کے لفظ خبر کی تقلیب ہے۔ ایس اين جوشی کا خیال ہے کہ یہ لفظ فارسی کے خیر یا بخیر سے مشتق ہے جو عموماً خطوط کے آخر میں لکھا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ بکھر کے متون میں بھی یہ لفظ اسی شکل میں ملتا ہے۔ باپوجی سنک پال کے مطابق یہ لفظ سنسکرت الاصل "اکھیایِکا" سے مشتق ہے جس کے معنی "قصہ کہانی" کے ہیں۔[2]
اسلوب
ترمیمبکھر کی اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
- وہ نثر میں لکھے گئے ہیں۔
- انداز بیان طاقت ور ہے۔
- اسلوب کلام میں سیاست اور تاریخ کی آمیزش اس طرح کی گئی ہے جو مرہٹہ حب الوطنی کو ابھارے۔
- ان کے محررین عموماً حب الوطنی کے جذبوں سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
- مرہٹہ روایتوں اور مافوق الفطرت طاقتوں پر اعتقاد کو بتایا جاتا ہے۔
نیز ابتدائی بکھروں میں اختصار اور نثر میں فارسی الاصل الفاظ کی خاصی تعداد ملتی ہے تاہم بعد کے بکھروں میں یہ رجحان نہیں ملتا، بلکہ اختصار کی بجائے طوالت سے کام لیا گیا یے اور سنسکرت الاصل الفاظ بکثرت استعمال کیے گئے ہیں۔
تاریخ
ترمیمبکھروں کی ابتدا 1448ء یا 1455ء سے ہوئی، اس دور میں مختلف مصنفین کے تحریر کردہ بکھر ملتے ہیں۔ ان میں کیشوچاریہ کا تحریر کردہ "مہی کاو تیچی بکھر" (महिकावतीची बखर) کا نثری حصہ یعنی دوسرا اور تیسرا باب قابل ذکر ہے۔[1][3] نیز وہ بکھر جسے پندرہویں اور سولہویں صدیوں کے تین مصنفین بھگوان، دت اور کیشوچاریہ نے لکھا ہے اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اس میں سب سے پہلے مراٹھی آبادی کو بہمنی سلطنت کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔[3]
بکھروں کی مجموعی تعداد تقریباً دو سو ہے جن میں سے پچاس اہم ہیں جبکہ کچھ بکھر شائع ہی نہیں ہوئے۔[2][3] ابتدائی بکھروں مثلاً سبھاسد بکھر، اکیانوے کلمی بکھر اور آگیاپتر بکھر وغیرہ کو چھوڑ کر بقیہ تمام بکھر 1760ء سے 1850ء تک لکھے گئے ہیں۔[3] یہ دور پیشواؤں کے عروج کا زمانہ ہے۔ کم از کم گیارہ بکھر شیواجی کے سوانح اور عہد حکومت پر لکھے گئے ہیں۔ ان گیارہ میں سے سبھاسد بکھر اور اکیانوے کلمی بکھر اہم ترین خیال کیے جاتے ہیں، جبکہ کچھ بکھر سبھاسد بکھر ہی سے ماخوذ ہیں۔ چونکہ ان بکھروں کا زمانہ تصنیف شیواجی کے عہد سے بہت قریب ہے اس لیے مورخین کے یہاں یہ بکھر شیواجی کے سوانح اور ان کی فتوحات کے قابل اعتبار مآخذ میں شمار کیے جاتے ہیں۔[3]
بکھروں کی فہرست
ترمیمکچھ مشہور بکھروں کی فہرست حسب ذیل ہے۔
بکھر | تاریخ | مصنف | وضاحت | حوالہ |
---|---|---|---|---|
مہی کاو تیچی بکھر (وقائع نویس بکھر) | پندرہویں اور سولہویں صدیاں | بھگوان، دت اور کیشوچاریہ | ابتدائی کاوش جس میں مرہٹوں کو بہمنی سلطنت کے خلاف اکسایا گیا ہے | [3] |
سبھاسد بکھر | 1694 | کرشناجی اننت سبھاسد (شیواجی کی انتظامیہ کے ایک افسر) | شیواجی کے اولین سوانحی بیانیوں میں سے ایک جو سنہ 1697ء میں جنجی قلعہ میں لکھا گیا | [2][3] |
91 کلمی بکھر | اٹھارہویں صدی عیسوی کی تصنیف جس کا مصنف نامعلوم ہے۔ جدوناتھ سرکار جیسے کچھ محققین اسے معاصر تالیف کے طور پر قبول کرتے ہیں جبکہ سریندر ناتھ سین نے اس کے خلاف حقیقت اور متضاد بیانات کی بنا پر اسے 1760ء کے اواخر کی تالیف بتایا ہے۔[4] | مصنف نامعلوم، متعدد نسخے مختلف محققین کے ملتے ہیں۔[5] | [3] | |
چٹنس بکھر | c. 1811 | ملہار رام راؤ چٹنس (شاہو دوم کے ستارا دربار کا ایک مصنف) | [2] | |
پیشویانچی بکھر | c. 1818 | ایک افسر (غالباً کرشناجی ونایک سوہونی) | پیشواؤں کی تاریخ قلم بند کی گئی ہے | [2] |
بھاؤ صاحبانچی بکھر | اٹھارہویں صدی کا اواخر | پانی پت کی جنگ (1761) کے واقعات | [2] |
اعتبار
ترمیمبیشتر مورخین نے ان بکھروں کو ناقابل اعتبار سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہے کیوں کہ ان کی زبان سنسکرت کے اقوال اور فارسی کی انتظامی اصطلاحات سے بوجھل اور اسلوب مبالغہ آمیز ہے۔ تاہم عہد حاضر میں ان میں درج تاریخی مواد کی تحقیق جاری ہے۔[2]
جیمز گرانٹ ڈف نے اپنی کتاب "ہسٹری آف مراٹھاز" کی تالیف میں ان بکھروں پر اعتماد کیا ہے۔ شنکر گوپال تلپلے ان بکھروں کو تاریخ کے قابل اعتماد مآخذ میں شمار کرتے ہیں[1] جبکہ ہندوستان کے قوم پرست مورخ وشوناتھ کاشی ناتھ رجواڑے (1864ء – 1926ء) نے انھیں "لفاظی سے پر"، "نامکمل، متضاد، مبہم اور ناقابل اعتبار" کہہ کر رد کر دیا ہے۔[2] اسی طرح جدوناتھ سرکار (1870ء – 1958ء) نے بھی ان بکھروں کو "افواہوں اور روایتوں کا مجموعہ اور بسااوقات افیمیوں کی کہانی سے بدتر" سے تعبیر کیا ہے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ Shankar Gopal Tulpule (1979)۔ Classical Marāṭhī literature: from the beginning to A.D. 1818۔ Otto Harrassowitz Verlag۔ صفحہ: 443–446۔ ISBN 978-3-447-02047-3۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2011
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح Prachi Deshpande (2007)۔ Creative pasts: historical memory and identity in western India, 1700-1960۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 19–39۔ ISBN 978-0-231-12486-7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جون 2011
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Amaresh Datta (1 January 2006)۔ The Encyclopaedia Of Indian Literature (Volume One (A To Devo)۔ Sahitya Akademi۔ صفحہ: 329–331۔ ISBN 978-81-260-1803-1۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2011
- ↑ سریندرناتھ سین (1993)۔ Studies in Indian history: historical records at Goa۔ ایشین ایجوکیشنل سروسز۔ صفحہ: 135–136۔ ISBN 978-81-206-0773-6۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2012
- ↑ بال کرشنا (1940)۔ Shivaji the Great۔ کولہاپور: آریہ بک ڈپو۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2012