مراٹھی ادب سے مراد بھارتی صوبہ مہاراشٹر میں بولی جانے والی ہند آریائی زبان مراٹھی کا ادب ہے۔ یہ زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔

یادو دور

ترمیم
 
گیانیشور کی پینٹنگ، مصور راجا روی ورما۔

کتبوں کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مراٹھی زبان بارہویں صدی عیسوی میں تحریر و مکاتبت کے لیے معیاری زبان کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ تاہم حقیقی مراٹھی ادب کے اولین ریکارڈ تیرہویں صدی کے اواخر کے ملے ہیں۔[1] اس لحاظ سے مراٹھی ادب کے اولین آثار یادو دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض محققین کی رائے ہے کہ یادو حکمرانوں نے مراٹھی ادب کی تخلیق میں تعاون کیا تھا اس لیے ان کے عہد میں مراٹھی ادب کے آثار پائے جاتے ہیں۔[2] یادو حکمران اپنی رعایا سے رابطے کے لیے مراٹھی کو دیگر زبانوں پر فوقیت دیتے تھے،[3] اسی بنا پر یادو دور حکومت کی آخری نصف صدی کے کتبات میں کنڑ اور سنسکرت کی بجائے مراٹھی غالب نظر آتی ہے۔[4] تاہم اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ یادو حکمرانوں نے براہ راست مراٹھی ادب کی ترقی و ترویج میں حصہ لیا یا داد و دہش کے ذریعہ مراٹھی ادبا کی ریاستی سرپرستی کی۔[5]

مراٹھی ادب کے ابتدائی دور میں مذہبی اور فلسفیانہ رنگ غالب رہا،[6] اس دور کے بیشتر ادبا اور شاعروں کا تعلق مہانوبھو اور وارکری فرقے سے نظر آتا ہے۔ آخری تین یادو حکمرانوں کے عہد حکومت میں علم نجوم، طب، پران اور ویدانت کے موضوع پر نیز بادشاہوں اور درباریوں کی مدح سرائی میں نثری اور منظوم تخلیقات بکثرت ملتی ہیں۔ چنانچہ "نلوپاکھیان"، "رکمنی سویمور" اور شری پتی کی "جیوتش رتن مالا" (1039ء) کو اس عہد کے ادبی نمونوں کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مہانوبھو فرقے سے تعلق رکھنے والے بھاسکر بھٹ بوریکر کے متعلق کہا جاتا ہے وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے مراٹھی زبان میں حمد و مناجات کو نظم کیا۔[7]

گیانیشور (1275ء – 1296ء) مراٹھی ادب کی پہلی شخصیت ہے جن کے قارئین کا حلقہ انتہائی وسیع تھا کیونکہ ان کی تحریریں خاصی اثر انگیز ہوتی تھیں۔[6] ان کی شاہکار تصنیفوں میں "امرت انوبھو" اور بھاوارتھ دیپیکا (جو گیانیشوری کے نام سے معروف ہے) خاصی مشہور ہوئیں۔ بھاوارتھ دیپیکا بھگوت گیتا کی نو ہزار اشعار پر مشتمل طویل تفسیر ہے۔

گیانیشور کے ہم عصر بھکتی سنت نام دیو اس عہد کی دوسری اہم ادبی شخصیت ہے۔ نام دیو نے مراٹھی اور ہندی دونوں زبانوں میں مذہبی گیت لکھے۔ ان کے کچھ ہندی گیت سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بھی شامل ہیں۔

اسی ابتدائی عہد میں ایک اور مصنف ملتے ہیں جن کا نام مکند راج تھا۔ "وویک سندھو" اور "پرم امرت" ان کی مشہور تصنیفات ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں مکند راج نے ادویت فلسفہ پر بحث کی ہے۔[8] بعض محققین انھیں بارہویں صدی عیسوی کا خیال کرتے ہیں اور ان کی تصنیف وویک سندھو کو مراٹھی ادب کی پہلی کتاب قرار دیتے ہیں، ان محققین کے نزدیک اس کتاب کا سنہ تصنیف 1188ء ہے۔ تاہم بیشتر ماہر لسانیات مورخین کا اب اس پر اتفاق ہے کہ مکند راج کا زمانہ چودھویں صدی عیسوی یا اس کے بعد کا ہے اور وویک سندھو غالباً لیلا چرتر اور گیانیشوری کے بعد لکھی گئی ہے۔[9]

سلطنت کا دور

ترمیم

مراٹھی ادب کی تاریخ کا دوسرا مراحلہ یادو دور کے بعد سلطنت کے دور سے شروع ہوتا ہے۔ اس عہد میں دو سلطنتیں تھیں، بہمنی سلطنت (1347ء – 1527ء) اور بیجاپور سلطنت (1527ء – 1686ء)۔ ان سلطنتوں کے ابتدائی ایام میں مراٹھی زبان کی سرگرمیاں کچھ سرد پڑ گئی تھیں۔ وارکری سنت شاعر ایک ناتھ (1533ء – 1599ء) جو گیانیشور کا اصل جانشین سمجھا جاتا ہے، اس عہد میں مراٹھی ادب کی قابل ذکر شخصیت ہے۔ ایک ناتھ نے اپنے دور میں گیانیشور کا ترمیم شدہ مستند نسخہ تیار کر کے شائع کیا جو دکن پر مسلم حملے کے بعد ناپید ہو چکا تھا۔[6] نیز ایک ناتھ نے متعدد ابھنگ (مذہبی گیت) اور بیانیے بھی قلم بند کیے اور کچھ چھوٹی چھوٹی کتابیں تیار کیں جن میں بھاگوت پران کی تشریح و تفسیر ملتی ہیں۔ ان کتابوں میں "ایک ناتھی بھاگوت"، "بھاوارتھ راماین"، "رکمنی سویمور ہستاملک" اور "بھاروڈ" معروف ہیں۔ داسوپنت بھی اسی عہد کا چھوٹا لیکن قابل ذکر شاعر ہے۔[6] ایک ناتھ کے پوتے مکتیشور (1574ء – 1645ء) نے بھی مراٹھی زبان میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں معروف رزمیہ داستان مہابھارت کا ترجمہ بھی شامل ہے۔

گوا کے رہنے والے مسیحی مبلغ ٹامس اسٹیفنز کی تحریر کردہ کرست پران پہلی بار سنہ 1616ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب کوکنی اور مراٹھی دونوں زبانوں کو ملا کر لکھی گئی ہے اور ابتدائے آفرینش سے یسوع مسیح کی وفات تک انسانی تاریخ کو بیان کرتی ہے۔ کتاب کا پہلا نسخہ رومن رسم الخط میں شائع ہوا تھا۔[10]

مراٹھا دور

ترمیم
 
تکارام

مرہٹہ قوم نے سترہویں صدی عیسوی میں اپنی سلطنت قائم کی، چنانچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد میں مراٹھی ادب کی ترقی کو گویا پر لگ گئے تھے۔ مرہٹہ قوم کے رہنما شیواجی کی سنہ 1674ء میں تاج پوشی ہوئی، انھوں نے عملاً کچھ وقت تک مغربی مہاراشٹر کے بڑے علاقے پر حکمرانی کی۔[11]

مراٹھا دور کی ابتدا میں مراٹھی کے دو انتہائی مشہور شاعر نظر آتے ہیں، تکارام اور سمرتھ رام داس۔ یہ دونوں شیواجی کے ہم عصر تھے۔ تکارام (1608ء – 1650ء) وارکری فرقے کے سب سے مشہور روحانی شاعر تھے جنھوں نے بھکتی تحریک میں زور و شور سے حصہ لیا تھا، بعد کے ادوار میں مرہٹہ معاشرے پر ان کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ہم عصر اور شیواجی کے روحانی استاد سمرتھ رام داس نے داس بودھ اور "مناچے شلوک" تالیف کیے۔

اٹھارہویں صدی عیسوی میں متعدد مشہور کاوشیں منظر عام پر آئیں جن میں وامن پنڈت کی یتھارتھ دیپیکا، رگھوناتھ پنڈت کی نل دم ینتی سویمور، شری دھر پنڈت کی پانڈو پرتاپ، ہری وجے اور رام وجے اور موروپنت کا ترجمہ مہابھارت قابل ذکر ہیں۔ قدیم مراٹھی ادب کا تاریخی سرمایہ بکھر اور "کٹاؤ" پر مشتمل ہے۔

پیشواؤں کے دور اقتدار میں کرشن اور شری دھر مراٹھی کے ممتاز شعرا تھے۔[6] سنت مہی پتی جنھوں نے بھکتی سنتوں کی سوانح عمریاں لکھی ہیں، وہ بھی اسی دور کے ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Christian Lee Novetzke 2016, p. 54.
  2. Christian Lee Novetzke 2016, p. 74,86.
  3. Christian Lee Novetzke 2016, p. x.
  4. Christian Lee Novetzke 2016, p. 53.
  5. Christian Lee Novetzke 2016, p. 74.
  6. ^ ا ب پ ت ٹ Kusumavati Deshpande، Sadashiva Shivaram Bhave (1988)۔ "Marathi"۔ $1 میں Nagendra۔ Indian Literature۔ Prabhat Prakashan۔ صفحہ: 202–۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2012 
  7. Amaresh Datta (2006)۔ The Encyclopaedia Of Indian Literature (Volume Two) (Devraj To Jyoti)۔ Sahitya Akademi۔ صفحہ: 1624۔ ISBN 978-81-260-1194-0۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2012 
  8. Shrikant Prasoon (2009)۔ Indian saints and sages۔ Pustak Mahal۔ صفحہ: 139–۔ ISBN 978-81-223-1062-7۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2012 
  9. Christian Lee Novetzke 2016, p. 88.
  10. Winand M. Callewaert، Rupert Snell (1994)۔ According to Tradition: Hagiographical Writing in India۔ Otto Harrassowitz Verlag۔ صفحہ: 164–۔ ISBN 978-3-447-03524-8۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2012 
  11. Neeti M. Sadarangani (2004)۔ Bhakti Poetry in Medieval India: Its Inception, Cultural Encounter and Impact۔ Sarup & Sons۔ صفحہ: 45–۔ ISBN 978-81-7625-436-6۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2012 


کتابیات

ترمیم

بیروانی روابط

ترمیم