بھارت میں طلاق ثلاثہ
اسلام میں طلاق ثلاثہ جس کو طلاق بدعت اور طلاق مغلظہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بھارت کے مسلمان ، خصوصًا حنفی مسلک پر عمل کرنے والوں کے درمیان یہ طریقہ زیر عمل ہے جس کی رو سے ایک مرد اپنی زوجہ کو طلاق دینے کے لیے ایک ہی نشست میں تین بار لفظ طلاق کہتا ہے۔ یہ طریقۂ کار منہ سے بول کر، لکھ کر یا الیکٹرانک میڈیا سے حوالے بھی دیاجا سکتا تھا۔
اب بھارت میں طلاق ثلاثہ ایک منتازع صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس عمل کی مخالفت کرنے والوں نے اس کے خلاف انصاف، سیکولرازم، انسانی حقوق و حقوق نسواں اور جنسی مساوات کی آواز بلند کی ہے۔ یہاں تک کہ یہ تنازع حکومت ہند کے ایوانوں میں بھی پہنچ گئی اور لوک سبھا میں اس پر ایک بل لایا گیا جس پر بحث بھی جاری ہے اور ساتھ بھارتی عدالت عظمیٰ میں بھی معاملہ چل رہا ہے۔ عدالت عظمی کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ تین طلاق غیر قانونی اور غیر اسلامی بھی ہے، حالانکہ یہ تفصیل ہنوز در کار ہے کہ کیا عدالت ایسی صورت میں ایک طلاق کو نافذ تسلیم کرتی ہے یا اس رسم پوری طرح سے قانونًا خارج کرتی ہے۔ حکومت ہند لوک سبھا میں جو بل منظور کروا چکی ہے، اس کی رو سے تین طلاق قابل سزا جرم ہو گا اور ایسا کرنے والے مرد کو تین سال کی سزا ہوگی۔ یہ بل اگر راجیہ سبھا میں بھی پاس ہو جائے تو اس کے مستقل قانون بننے کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔
طلاق ثلاثہ بل 2019ء
ترمیمبھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا نے 30 جولائی 2019 کو طلاق ثلاثہ پر پابندی کا بل منظور کر لیا۔[1]
مزید دیکھیے
ترمیم- سعدیہ دہلوی (ای میل کے ذریعے تین طلاق پانے والی پہلی بھارتی خاتون)