بھارت کی عدالتِ عظمیٰ بھارت کے آئین میں اعلیٰ ترین عدلیہ اور نظرِ ثانی کی آخری عدالت ہے۔ اس کے علاوہ یہ اعلیٰ ترین آئینی عدالت ہے جو ملکی قوانین پر نظرِ ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔ اس عدالت میں ایک منصفِ اعلیٰ اور زیادہ سے زیادہ 30 دیگر منصفین ہو سکتے ہیں۔ اس عدالت کے پاس کسی مقدمے کی اولین سماعت، ماتحت عدلیہ کے فیصلوں پر نظرِ ثانی اور دیگر آئینی اداروں کو تجاویز دینے کے وسیع تر اختیارات ہیں۔[1]

ہندوستان کی عدالت عظمی کا نشان

ملک میں نظرِ ثانی کی اعلیٰ ترین عدالت ہونے کی وجہ سے یہاں ملک بھر کی عدالتِ عالیہ (ہائی کورٹ) اور دیگر عدالتوں اور ٹریبیونلز کے مقدمات پر نظرِ ثانی کی کارروائی کی جاتی ہے۔ یہ عدالت شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور ملک میں مختلف حکومتوں کے مابین تنازعات کو بھی حل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ملکی صدر کی جانب سے کسی خاص معاملہ بھیجنے جانے پر اس کا آئین کے تحت جائزہ لیتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ عدالت اپنی مرضی سے (سووموٹو) کے تحت خود سے کسی مقدمے کو سماعت کے لیے منظور کر سکتی ہے جس کے لیے کسی درخواست گزار کی ضرورت نہیں پڑتی۔ عدالتِ عظمیٰ کا دیا ہوا فیصلہ تمام ماتحت عدالتوں اور ریاستی اور ملکی حکومت کے لیے لازم ہو جاتا ہے۔[2] آئین کی دفعہ 142 کے تحت ملکی صدر کو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درامد یقینی بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔

تاریخ

ترمیم

1861 میں ہندوستان کی ہائی کورٹ ایکٹ کے تحت مختلف صوبوں میں اعلیٰ عدالتیں (ہائی کورٹ) تشکیل دی گئیں اور کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں عدالتِ عظمی جبکہ پریزیڈنسی شہروں میں صدر عدالتوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ تمام عدالتیں اپنے اپنے علاقوں میں اعلیٰ ترین عدلیہ شمار ہوتی تھیں۔ 1935 میں حکومتِ ہندوستان کے وفاقی عدلیہ کے قیام سے قبل تک یہ اعلیٰ عدالتیں ہی سب سے اونچی عدالتیں سمجھی جاتی تھیں۔ وفاقی عدالت مختلف صوبوں اور وفاقی ریاستوں کے درمیان میں تنازعات کے حل او ر عدالتِ عالیہ کے فیصلوں کے خلاف نظر ِثانی کا اختیار رکھتی تھی۔ ہندوستان کے پہلے منصفِ اعلیٰ (چیف جسٹس آف انڈیا) کا نام ایچ جے کانیا تھا۔[2]

بھارت کی عدالتِ عظمیٰ کا قیام 28 جنوری 1950 کو عمل میں آیا۔[3] اس عدالت نے وفاقی عدالت اور پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کو تحلیل کر دیا جو اپنے وقت میں ہندوستانی نظامِ عدل میں سب سے اونچا مقام رکھتی تھیں۔

سب سے پہلے عدالتِ عظمیٰ کو پارلیمان کی عمارت میں ایوانِ شہزادگان میں جگہ دی گئی جہاں 1937 تا 1950 وفاقی عدالت قائم رہی۔ 1958 میں عدالتِ عظمیٰ کو اس کی موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا۔ شروع میں بھارت کے آئین کے مطابق ایک منصفِ اعلیٰ اور سات دیگر منصفین (جج) مقرر ہوئے جبکہ ان کی تعداد کو بڑھانے کا اختیار پارلیمان کو دیا گیا۔[4] ابتدائی برسوں میں اس عدالت نے صبح 10 سے 12 بجے تک اور پھر سہ پہر کو 2 سے 4 بجے تک اور مہینے میں 28 دن کام کیا۔[5]

عدالت کی عمارت کا طرزِ تعمیر

ترمیم

عمارت کی ساخت ترازو سے مشابہہ ہے اور مرکز میں وسطی حصہ ہے جس میں منصفِ اعلیٰ کی عدالت، سب سے وسیع عدالتی کمرے اور دونوں جانب عدالتی ہال ہیں۔ دائیں جانب بار روم، اٹارنی جنرل اور دیگر قانونی افسران کے دفاتر اورکتب خانہ ہیں۔ بائیں جانب عدالت کے دفاتر ہیں۔ اس عمارت میں کُل پندرہ عدالتی کمرے ہیں۔[2][3][6]

اس عمارت کی بنیاد 29 اکتوبر 1954 کو ڈاکٹر راجندر پرساد نے رکھا جو بھارت کے پہلے صدر تھے۔ عمارت کا مرکزی حصہ 17 ایکڑ کے تکون پر بنا ہے اور اس کا ڈیزائن گنیش بھیکاجی دیوللیکر نے بنایا جو سینٹرل پبلک ورکس ڈپارٹمنٹس کے پہلے بھارتی سربراہ تھے۔ اس کا مرکزی گنبد 27.6 میٹر اونچا ہے اور وسیع برآمدہ ہے۔ 1958 میں عدالت اس عمارت میں منتقل ہوئی۔ دو نئے بازو جو مشرقی اور مغربی بازو ہیں، بعد میں بنائے گئے۔ اس عمارت میں آخری بار تعمیر و توسیع کا کام 1994 میں ہوا۔[3]

ماں اور بچے کا مجسمہ

ترمیم

20 فروری 1980 کو 6 فٹ 11 انچ اونچا تانبے کا کالے رنگ کا مجسمہ نصب کیا گیا۔ اس میں ہندوستان کو ماں کی شکل میں جمہوریہ بھارت کی شکل کے بچے پر چھائے ہوئے دکھایا گیا ۔ بچے کے ہاتھ میں کھلی ہوئی کتاب کی شکل میں بھارت کا قانون دکھایا گیا ہے۔ کتاب پر ترازو کی شکل موجود ہے جو ہر کسی کے لیے یکساں انصاف کو ظاہر کرتی ہے۔یہ مجسمہ مشہور فنکار چنتامونی کار نے بنایا تھا۔ یہ مجسمہ مہاتما گاندھی کے مجسمے کے عین پیچھے ہے۔

عدالت کی مہر میں اشوکا کے ستون کا بالائی حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ‘جہاں انصاف، وہیں کامرانی‘ ہے۔[2]

رجسٹری

ترمیم

رجسٹری کا سربراہ سیکریٹری جنرل ہوتا ہے جو 8 رجسٹراروں کی سربراہی کرتا ہے جبکہ کئی ایڈیشنل اور ڈپٹی رجسٹرار بھی اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس کے تحت کل 1770 ماتحت ہوتے ہیں جن میں سے 221 گزیٹڈ افسران، 805 نان گزیٹڈ افسران اور 744 درجہ چہارم کے ملازمین ہوتے ہیں۔[7] اس رجسٹری کے افسران اور دیگر عملے کی تعیناتی آئین کی دفعہ 146 کے تحت ہوتی ہے۔[8][9]

عدالتِ عظمیٰ کے وکلا

ترمیم

عدالتِ عظمیٰ کے 2013 کے قوانین کے مطابق صرف ایسے وکیل جو سپریم کورٹ کے ساتھ رجسٹر ہوں، کو عدالت میں پیش ہونے اور موکلین کی طرف سے مقدمہ لڑنے کی اجازت ہے۔[10] عدالتِ عظمیٰ یا دیگر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹس کہلائے جانے والے وکیل بھی مقدمہ لڑ سکتے ہیں مگر ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں رجسٹر شدہ وکیل کا ہونا لازم ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی اور وکیل سپریم کورٹ سے رجسٹر شدہ وکیل کے ساتھ پیش ہو سکتا ہے۔

ساخت

ترمیم

عدالت کا سائز

ترمیم

ابتدا میں بھارتی آئین میں ایک منصفِ اعلیٰ (چیف جسٹس) اور سات منصفین (جج) مقرر کیے گئے۔ شروع میں فل بنچ یعنی تمام منصفین مل ک رکسی بھی مقدمے کی سماعت کرتے تھے۔ جوں جوں کام بڑھتا گیا اور مقدمات آنے لگے، پارلیمان نے 1956 میں یہ تعداد 8 سے بڑھا کر 10 اور پھر 1960 میں 13، 1977 میں 17، 1986 میں 26 اور 2008 میں 31 (موجودہ تعداد) کر دی۔ جوں جوں منصفین کی تعداد بڑھتی گئی، ہر مقدمے کی سماعت کے بنچ میں ججوں کی تعداد 2 سے 3 کر دی گئی۔[11] جہاں قانون کی بنیادی تشریح کا مسئلہ ہو، وہاں 5 یا اس سے زیادہ منصفین مقرر ہوتے ہیں جنہیں آئینی بنچ کہا جاتا ہے۔ اگر ضرورت پیش آئے تو کوئی بھی بنچ زیادہ بڑے بنچ کی طرف مقدمے کو منتقل کر سکتا ہے۔[12]

قابلیت برائے منصفِ عدالتِ عظمیٰ

ترمیم

آئین کی دفعہ 124 کے مطابق 65 سال یا اس سے کم عمر کا ایسا بھارتی شہری:

  • جو ایک یا زیادہ عدالتِ عالیہ میں مسلسل 5 سال یا زیادہ کام کر چکا ہو
  • یا عدالتِ عالیہ میں 10 سال سے بطور وکیل کام کر رہا ہو
  • یا ایسا قانون کا طالبِ علم جو صدر کی نگاہ میں اس عہدے کے قابل ہو

کو عدالِت عظمیٰ کا منصف بنایا جا سکتا ہے۔[13]

اقلیتوں کی نمائندگی

ترمیم

عدالتِ اعلیٰ میں محض 7 منصفین کے علاوہ باقی تمام کو عدالتِ عالیہ کے منصفین سے چنا گیا ہے۔ دیگر سات بار کے اراکین تھے جنہیں براہ راست منصف بنایا گیا۔[14][15]

1989 میں عدالتِ عظمیٰ کی پہلی خاتون منصف ایم فاطمہ بیوی تھیں۔[16] اندو ملہوترا اس عدالت کی ساتویں اور موجودہ منصفہ ہیں۔[17][18]1968 میں محمد ہدایت اللہ پہلی بار عدالتِ عظمیٰ کے مسلمان منصفِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔ 2000 میں بالا کرشنن پہلے دلت منصف اور 2007 میں پہلے دلت منصفِ اعلیٰ بنے۔ 2010 میں ایس ایچ کپاڈیہ اس عدالت کے پہلے پارسی منصفِ اعلیٰ بنے۔[19] 2017 میں جگدیش سنگھ کیہر پہلے سکھ منصفِ اعلیٰ بنے۔ اندو ملہوترا بار سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون منصف ہیں۔

قانونی خود مختاری

ترمیم

آئین میں عدالتِ اعلیٰ کے منصفین کی خود مختاری کو مختلف انداز سے یقینی بنایا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ 50 کے تحت ریاست عدلیہ اور افسران کو الگ کرنے کی پابند ہے۔ عدلیہ کی آزادی، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی آئین کے ڈھانچے کی بنیاد ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ اور عدالتِ عالیہ کے پاس از خود مقدمات کی سماعت (سووموٹو) کا اختیار ہوتا ہے جن میں آئین یا عدالت کی توہین سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کا بنیادی مقصد آئینی تنازعات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں آئین کابنیادی ڈھانچہ مقننہ یا انتظامیہ کی وجہ سے خطرے میں پڑے، عدلیہ کو از خود سماعت کرنی چاہیے۔

بھرتیاں اور کالیجیم

ترمیم

آئین میں اور پھر عدالت کی طرف سے منصفین کے تین مقدمات میں (1982، 1993، 1998) میں اس بات کی توثیق کی گئی کہ صدر عدالتِ عظمیٰ کے منصفین کی تعیناتی کالیجیم کی سفارشات کے تحت کرے گا۔ کالیجیم میں بھارت کے منصفِ اعلیٰ، عدالتِ عظمیٰ کے چار بزرگ ترین منصفین اور متعلقہ امیدوار جس عدالت ِ عالیہ سے آنا ہو، اس کے منصفِ اعلیٰ شامل ہوتے ہیں۔

1993 تک یونین کابینہ منصفین کی تعیناتی کی سفارش صدر سے کرتی تھی۔ 1993 کے دوسرے مقدمے میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ کوئی بھی وزیر یا انتظامیہ کے ارکان صدر کو کسی بھی نام کی سفارش نہیں کر سکتے۔ اس کام کے لیے محض کالیجیم سے ہی نام بھیجے جائیں گے۔ اسی فیصلے میں انتظامیہ کو کالیجیم کے سفارش کردہ کسی نام کو رد کرنے کا اختیار دیا گیا تاہم یہ اختیار ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا۔

عدالتِ عظمیٰ کے منصف کو 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہونا ہوتا ہے۔ تاہم عدالتِ عظمی کے منصفین کی طرف سے منصفِ اعلیٰ کی تعیناتی کا عرصہ متعین کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

تنخواہ

ترمیم

آئین کی دفعہ 15 کے تحت عدالتِ عظمیٰ کے منصفین کی تنخواہ، تعطیلات، پنشن اور دیگر امور کو طے کرنے کا اختیار ملکی پارلیمان کو دیا گیا ہے۔ تاہم کسی منصف کی تعیناتی کے بعد اس کے حقوق اور فرائض کو پارلیمان تبدیل نہیں کر سکتی۔ عدالتِ عظمیٰ کے منصف کی تنخواہ اڑھائی لاکھ روپے ماہوار ہے جو بھارتی حکومت کے اعلیٰ ترین افسر کی تنخواہ ہے اور یہ افسر کابینہ کا سیکریٹری برائے بھارت ہوتا ہے۔ منصفِ اعلیٰ کی تنخواہ 2٫80٫000 روپے ماہوار ہے۔

حلفِ تعیناتی

ترمیم

عہدے کا حلف لینے کے وقت صدر کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔

عہدے سے ہٹایا جانا

ترمیم

آئین کی دفعہ 124/4 کے تحت کسی بھی منصف کو اس کے عہدے سے صدر ہٹا سکتا ہے۔ تاہم اس کارروائی کی منظوری کے لیے پارلیمان کے تمام ایوان میں کم از کم نصف سے زیادہ ارکین کی حمایت اور ان ایوانوں میں موجود اراکین کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اس کارروائی کی ابتدا راجیہ سبھا کے 50 یا لوک سبھا کے 100 اراکین کرتے ہیں۔ اس معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جاتا ہے جو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے متعلقہ منصف کا موقف سن کر اپنی رائے دیتی ہے۔ اگر یہ رائے اس منصف کے خلاف ہو اور متعلقہ منصف مستعفی نہ ہونا چاہے تو پھر اس کے خلاف پارلیمان میں کارروائی کی جاتی ہے۔

اگر متعلقہ منصف کو قصور وار پایا جائے تو اس کے خلاف حلف کی خلاف ورزی کا مقدمہ بھی چل سکتا ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد

ترمیم

عدالتِ عظمیٰ سے فارغ خطی کے بعد منصف کو بھارت میں کسی بھی انتظامیہ یا عدالت کے سامنے مقدمہ لڑنے کی اجازت نہیں۔

ملکی قوانین پر نظرِ ثانی

ترمیم

بھارتی آئین کی دفعہ 137 کے تحت یہ عدالت اپنے فیصلوں پر بھی نظرِ ثانی کر سکتی ہے۔

توہین عدالت کی سزا کا اختیار

ترمیم

آئین کی دفعہ 129 اور 142 کے تحت ملک کی کس بھی عدالت بشمول عدالتِ عظمیٰ کی توہین کے بارے یہ عدالت سزا سنا سکتی ہے۔ 12 مئی 2006 کو مہاراشٹر کے ایک وزیر سروپ سنگھ نائیک کو توہینِ عدالت ک سلسلے میں ایک ماہ جیل کی سزا سنائی گئی تھی جو کسی بھی وزیر کو سنائی جانے والی پہلی سزائے قید تھی۔

اصول

ترمیم

آئین کی دفعہ 145 کے تحت عدالتِ عظمی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں جب اور جہاں ضرورت محسوس کرے، نئے اصول بنا سکتی ہے تاہم ان اصولوں کو صدر کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

روسٹر سسٹم

ترمیم

5 فروری 2018 کو عدالتِ عظمیٰ نے منصفین کو مقدمات دیے جانے سے متعلق ایک نیا اصول وضع کیا۔ منصفِ اعلیٰ کے ذمے نظرِ ثانی کی خصوصی درخواستیں، عوامی دلچسپی کے معاملات، سماجی انصاف، انتخابات اور دیگر امور دیکھنا ہیں۔ کالیجیم یا سینئر ججوں کے ذمے کام کے حوالے سے مقدمات، رہن کے معاملات، ٹیکس سے متعلق معاملات، صارفین کے حقوق کا تحفظ، بحری قوانین، پرسنل لا، خاندانی قوانین، زمین کے حصول کے مقدمات،ملازمت سے متعلق مقدمات اور کمپنیوں کے معاملات ہیں۔

معلومات کا حق

ترمیم

2010 میں عدالتِ عظمیٰ نے اپنے سامنے ایک ایسی پٹیشن رکھی جس میں دہلی کی عدالتِ عالیہ کا فیصلہ چیلنج کیا گیا تھا کہ بھارت کے منصفِ اعلیٰ کے دفتر پر بھی معلومات کے حق کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ اگرچہ عدالتِ عظمیٰ اس کے حق میں ہے مگر مقدمے کا فیصلہ تا حال نہیں آیا۔

کیمپس کی سہولیات

ترمیم

قانونی امداد، کورٹ کی فیس لینے والے، ابتدائی طبی امداد، دندان ساز، فزیو تھراپی اور پیتھالوجی کی لیبارٹری، ریل ریزرویشن کاؤنٹر، کینٹین، ڈاکخانہ ، یو سی او بینک کی شاخ اور تین اے ٹی ایم مشینیں، عدالتِ عظمیٰ کا عجائب گھر بھی یہاں آنے والوں کی دلچسپی کا محور ہوتے ہیں۔

اہم ترین فیصلے

ترمیم

زمینوں کی اصلاح

ترمیم

جب بعض عدالتوں نے ایسے ریاستی قوانین کو کالعدم قرار دیا جن کے تحت زمینداروں سے زمینیں لے کر انھیں آگے تقسیم کیا جاتا تھا اور کہا کہ یہ قوانین زمینداروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تھے، تو پارلیمان نے 1951 میں آئین میں پہلی ترمیم منظور کی جس کے بعد 1955 میں چوتھی ترمیم بھی آئی جس کے تحت زمین کی دوبارہ تقسیم کو قانونی قرار دیا گیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے 1967 میں گولک ناتھ بمقابلہ ریاست پنجاب میں فیصلہ دیا کہ پارلیمان کے پاس بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں۔ 1971 میں آئین کی 25ویں ترمیم میں زمین رکھنے کے حق کو بنیادی حقوق سے نکال لیا گیا اور اس کے نتیجے میں حکومت کے پاس لوگوں کی ذاتی زمین پر قبضے کا اختیار آ گیا اور زمینداروں میں بے چینی پھیلی۔

ہنگامی حالت (1975–77)

ترمیم

اندرا گاندھی کی طرف سے بھارت میں1975–77 لگائی جانے والی ہنگامی حالت کے نفاذ سے عدلیہ کی آزادی بری طرح متاثر ہوئی۔ پارلیمان کے قوانین کے تحت قیدیوں کے حقوق محدود کر دیے گئے۔ پانچ بزرگ ترین منصفین نے یہ فیصلہ دیا کہ ہنگامی حالت کے دوران میں حکومت کو لامحدود طاقت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ اس دوران میں کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے۔

1980 کے بعد

ترمیم

1977 میں اندرا گاندھی کو انتخابات میں شکست ہوئی اور مرار جی ڈیسائی نے نئی حکومت بنائی۔ وزیرِ قانون شانتی بھوشن کئی ترامیم متعارف کرائیں جن کی وجہ سے ہنگامی حالت کا نفاذ اور اس کو برقرار کھا جانا کافی مشکل بنا دیا گیا اور اس بارے کافی اختیارات عدالتِ عظمیٰ کو دے دیے گئے۔

حالیہ اہم مقدمات

ترمیم

2000 کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے کئی تاریخ ساز فیصلے دیے ہیں۔ کوئہلو بمقابلہ ریاست تمل ناڈو کا فیصلہ 11 جنوری 2007 کو دیا گیا جس میں 9 منصفین کے بنچ نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی توثیق کی۔ اس بنچ نے فیصلہ دیا کہ بنیادی حقوق سے متعلق کوئی بھی قانون اپنے نتائج و عواقب کی بنا پر رد کیا جا سکتا ہے۔

2 جی مقدمہ

ترمیم

2008 میں سپریم کورٹ نے ٹو جی دیے جانے سے متعلق حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 122 لائسنس منسوخ کر دیے۔

کالا دھن

ترمیم

حکومت نے جب 18 بھارتیوں کے لیخنسٹائن کے ایل جی ٹی بینک میں کھاتوں کی تفصیلات دینے سے انکار کیا تو عدالتِ عظمیٰ کے دومنصفین نے اس بارے خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا۔

اقلیتی ریزرویشن

ترمیم

عدالتِ عظمیٰ نے اندھرا پردیش کی عدالتِ عالیہ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

بیرون ملک بھارتیوں کو آن لائن/بذریعہ ڈاک حقِ رائے دہی

ترمیم

تین منصفین بشمول منصفِ عالیٰ نے الیکشن کمیشن کو اس بارے نوٹس جاری کیا کہ بیرونِ ملک بھارتیوں کو حقِ رائے دہی بذریعہ ڈاک یا آن لائن دیا جائے۔

سبرا منین بمقابلہ حکومت

ترمیم

اس فیصلے کے تحت:

  • انتظامیہ کے افسران کو چاہیے کہ وہ کسی بھی زبانی دیے جانے والے حکم پر عمل نہ کریں
  • سول سروس بورڈ جس کی سربراہی ملکی سطح پر کابینہ سیکریٹری اور ریاستی سطح پر چیف سیکریٹری کریں گے، کے ذمے تعیناتیاں اور تبادلے ہوں گے
  • گروپ بی کے افسران کے تبادلے کا اختیار متعلقہ محکمے کے سربراہ کے پاس ہوگا
  • ریاستی وزرا ماسوائے وزیرِ اعلیٰ کے کسی بھی تبادلے یا تعیناتی کے حوالے سے کوئی دخل نہیں دے سکیں گے

ان اصلاحات کو اہم تبدیلیاں قرار دیا گیا ہے۔

تیسری جنس کو تسلیم کرنا

ترمیم

اپریل 2014 میں تیسری جنس کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ اس فیصلے کے تحت: 1۔ ہیجڑے، مخنث ماسوائے دو جنس والے افراد کو تیسری جنس گردانا جائے گاتاکہ ان کے بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے 2۔ بین الصنفی افراد کو حق ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کی جنس کے تحت خود کو شمار کر سکتے ہیں اور وفاقی اور ریاستی حکومتوں کا ذمہ ہے کہ وہ متعلقہ فرد کو مرد، عورت یا بطور تیسری جنس قانونی شناخت دی جائے

35٫000 سے زائد افسران کو ملنے والا فائدہ

ترمیم

اترپردیش کی حکومت نے سپرنٹنڈنٹ کی عمر کو 58 سے کم کر کے 55 کر دیا جس سے 35٫000 سے زیادہ افسران متاثر ہوئے۔ بعد ازاں یہ غلطی درست کر دی گئی تاہم یہ شق بھی رکھی گئی کہ یہ قانون موجودہ افسران پر لاگو ہوگا، نئے آنے و الے سپرنٹنڈنٹوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا جسے عدالتِ عظمیٰ نے پسند کیا۔

تنقید

ترمیم

رشوت ستانی

ترمیم

2008 میں عدالتِ عظمیٰ پر الزامات کی بوچھاڑ ہوئی جن میں اعلیٰ ترین عدالتی عہدے داروں کی رشوت ستانی، سرکاری خرچے پر پرتعیش تعطیلات، منصفین کے ذاتی اثاثوں کو عوام کے لیے ظاہر کرنا، منصفین کی تقرری میں رازاری اور معلومات کو معلومات کے حق کے تحت شائع نہ کرنا شامل تھے۔ منصفِ اعلیٰ کے جی بالاکرشنن کے بیان کہ وہ پبلک سرونٹ نہیں بلکہ آئینی اتھارٹی ہیں، پر بہت تنقید کی گئی۔ بعد ازاں انھوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ سابقہ صدور پرتیبھا پٹیل اور عبدالکلام نے عدلیہ پر اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے کے الزامات عائد کیے۔ سابقہ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے بھی بیان دیا کہ عدلیہ کو درپیش بڑے مسائل میں رشوت ستانی بھی شامل ہے اور یہ کہ اس کے خاتمے کی فوری کوشش کی جانی چاہیے۔

بھارت کے کابینہ سیکریٹری نے 2008 میں ایک ترمیم پیش کی جس کے تحت منصفین کے خلاف مقدمات کے سلسلے میں نیشنل جوڈیشل کونسل قائم کی گئی۔ اس میں عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمی کے منصفین کے بارے مقدمات چلائے جائیں گے۔

لٹکے ہوئے مقدمات

ترمیم

2011 میں عدالتِ عظمیٰ کے ایک نیوز لیٹر کے مطابق کل 58٫519 مقدمات لٹکے ہوئے ہیں جن میں سے 37٫385 کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ تعداد یکم نومبر 2017 کو 55٫259 تھی۔ قانونی کی بالادستی کئی ایسے قوانین جو پارلیمان سے منظور ہوئے مگر وہ بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم ہیں مگر عدالتِ عظمیٰ نے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

چار منصفین بمقابلہ منصفِ اعلیٰ

ترمیم

12 جنوری 2018 کو چار بزرگ منصفین نے موجودہ منصفِ اعلیٰ کے کام کرنے کے طریقے کے خلاف پریس کانفرنس کی اوربتایا کہ منصفِ اعلیٰ کیسے اپنی مرضی سے مقدمات کو مختلف منصفین میں بانٹتے ہیں۔ 20 اپریل 2018 کو حزبِ اختلاف کی 7 جماعتوں نے نائب صدر کو منصفِ اعلیٰ کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دی۔ تاہم نائب صدر نے یہ درخواست اس لیے مسترد کر دی کہ یہ ان کے کام کرنے کے طریقے سے متعلق اعتراضات تھے نہ کہ ان پر کسی بدعنوانی سے متعلق تھی۔ اس طرح عدلیہ کی آزادی متاثر ہونے کا امکان تھا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Rule of law index 2016"۔ 29 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018 
  2. ^ ا ب پ ت "History of Supreme Court of India" (PDF)۔ Supreme Court of India۔ 22 دسمبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2014 
  3. ^ ا ب پ History of the Supreme Court of India
  4. "Constitution of Supreme Court of India"۔ Supreme Court of India 
  5. name="History PDF"
  6. "Constitution"۔ Supreme Court of India۔ 28 January 1950 
  7. "Facilities at Supreme Court of India" (PDF)۔ Supreme Court of India۔ 14 مئی 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2014 
  8. "Constitution of Supreme Court"۔ Supreme Court of India۔ 30 مارچ 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2013 
  9. "Organisational Chart of the Registry of the Supreme Court of India" (PDF)۔ Supreme Court of India۔ 31 مئی 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2014 
  10. "Supreme Court Rules, 2013" (PDF)۔ sci.nic.in۔ Supreme Court of India۔ 27 May 2014۔ 22 جولا‎ئی 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولا‎ئی 2014 
  11. Rishad Ahmed Chowdhury۔ "Missing the Wood for the Trees: The Unseen Crisis in the Supreme Court" (PDF)۔ NUJS Law Review (July–September)۔ 2012 (3/4): 358۔ 08 دسمبر 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 نومبر 2015 
  12. "Supreme Court of India — History"۔ Supreme Court of India۔ 27 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2012 
  13. "Section 124, Constitution of India"۔ VakilNo1۔ 26 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2012 
  14. Abhinav Chandrachud (2011)۔ "The age factor"۔ Frontline۔ 26 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2014 
  15. "Justices Arun Mishra, Adarsh Goel and lawyer Rohinton Nariman appointed Supreme Court judges"۔ Economic Times۔ PTI۔ 26 June 2014۔ 03 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2014 
  16. "Supreme Court of India — Former Judges"۔ Supreme Court of India۔ 05 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2014 
  17. Bhadra Sinha (11 July 2014)۔ "From trial court to Supreme Court, woman judge may go all the way"۔ The Hindustan Times۔ 17 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2014 
  18. A Subramani (14 August 2014)۔ "Justice Banumathi becomes 1st woman SC judge from TN"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2014 
  19. "Justice S H Kapadia sworn in as new Chief Justice of India"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 12 May 2010۔ 26 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2010