بھارت میں مائیکرو فائنانس
بھارت میں نیشنل بینک فار انڈسٹریل اینڈ رورل ڈیولپمنٹ (نابارڈ) اپنے خود کا مائیکرو فائنانس یا خرد مالیہ نظام چلا رہا ہے۔ اس کے تحت سیلف ہیلپ گروپوں (Self-Help Groups) کی مدد پچھلے کئی دہائیوں کی جاتی رہی ہے جس سے دیہاتی عورتیں استفادہ کرتی ہیں۔ اس منصوبے کی بے پناہ کامیابی روایتی سوچ کو بدل دے چکی ہے اور رسمی شعبے اس تحریک سے وابستہ ہونے کے لیے آمادہ ہو چکے ہیں۔ تاحال نابارڈ کے ذریعے فروغ پا رہے خود امدادی زمرہ جات- بینک باہمی رابطہ پروگرام (Self Help Group Linkage Programme) دنیا بھر میں خردمالیہ کے سرمایے کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔[1]
تاریخ
ترمیم1974ء میں خواتین کی تنظیم سیلف ایمپلائیڈ ویمینز ایسوسی ایشن (مختصرًا سیوا) نے خود کو ایک شہری کوآپریٹیو بینک کے طور پر اندراج کروائی۔ اسے شری مہیلا سیوا سہکاری بینک کے نام سے موسوم کیا گیا جس کا مقصد ان غریب عورتوں کی مدد کرنا تھا جو احمد آباد شہر کے غیر منظم شعبے میں ملازمت رکھتی ہیں۔ اسے بھارت میں مائیکرو فائنانس کے آغاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔[2]
مملکتی سطح پر مائیکرو فائنانس تحریک کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب نابارڈ نے ایک غیر سرکاری تنظیم مائرادا (MYRADA) کے ایک ایکشن ریسرچ منصوبے کو اسپانسر کیا تاکہ دیہی علاقوں کے غریبوں کی مالی ضروریات کا احاطہ کیا جا سکے اور سیلف ہیلپ گروپوں کے بینکوں سے روابط کا پروگرام تیار کیا جا سکے۔ اس کا آغاز ایک تجرباتی منصوبے کے طور پر 1992ء میں ہوا جب ریزرو بینک آف انڈیا نے غیر رسمی زمروں کو تسلیم کیا۔ اس کے نتیجے میں نابارڈ نے بینکوں کی باز مالیہ کاری تاکہ ان زمروں کو غیر ضمانتی قرض فراہم کیے جا سکیں۔[2]
موجودہ طور پر مائیکرو فائنانس ادارے 29 ریاستوں اور 4 مرکزی زیر انتظام علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کی نظامت کا قلمدان 138,980 ملین روپیے کا ہے۔ اوسط قرض 12,751 روپیے کا ہے اور 85 فی صد قرض آمدنی جاری کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔[2]
اعداد و شمار
ترمیمایک مطالعے کے مطابق بھارت میں مائیکرو فائنانس کے اعداد و شمار اس طرح ہیں[2]:
آبادیات | 2016ء - 2017ء کے دستیاب اعداد و شمار |
---|---|
شہری گاہک | 39% (بیش تر دیہی گاہک) |
خاتون قرض خواہ | 96% |
درج فہرست طبقات و درج فہرست قبائل | 20% |
اقلیتیں | 10% |
غیر منافع بخش | 79% |
چند غور طلب امور
ترمیم- موجودہ دور میں بھارت کے زیادہ تر خود مالیہ قرضہ جات کی مالیت 15,000 روپیے سے کم ہیں اور ادائیگی کے لیے مشکل سے چند ہفتے یا مہینے دیے جاتے ہیں۔ اس سے ان قرضوں کی غیر ثمر آوری ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔
- اکثر قرضدار نہ صرف مالیہ سے محروم ہوتے ہیں، وہ تجارتی ہنر اور پیشہ ورانہ مہارت سے بھی خالی ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ باتیں ان کی صحیح سمت میں گامزن ہونے میں مانع ہوتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت یا غیر سرکاری اداروں کی تربیت کے ذریعے صلاحیتوں کو ابھارنے کا کام کرنا چاہیے۔
- خرد مالیہ سے قرض گیرندے اکثر شرح سود کی زیادتی سے پریشان ہوتے ہیں جو کافی زیادہ ہوتا ہے۔[1]
بھارت سرکار کا ایک مستحسن اقدام
ترمیمبھارت سرکار "خرد مالیہ ادارہ (ترقی اور نگرانی)" (The Micro Finance Institutions (Development and Regulation) لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ان مالیاتی اداروں کو بااثر بنایا جاسکے۔ اس بل کی رو سے خرد مالی ادارے نہ صرف قرض دے سکیں گے، بلکہ وہ خرد رقمی جمعبندی (microdeposits) بھی لے سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی بیمہ، وظیفہ اور رقمی منتقلی (money transfer) جیسی خدمات فراہم کرسکیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بل کی رو سے یہ ادارہ جات بھارت کے مرکزی بینک (ریزرو بینک) کے تحت آجائیں گے۔[1]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ “Microfinance: An Imperative for Financial Inclusion”, Preetha Reddy, Indian Management, March 2014, Volume 53, Issue3, Page 9.
- ^ ا ب پ ت "Efficiency of Microfinance Institutions in India: A two-stage DEA approach", Ram Pratap Sinha, Pallavi Reddy, International Journal of Rural Management, 15 (1): 49-77, April 2019