بھارت میں ماہی گیری
ماہی گیری بھارت کی ساحلی ریاستوں کی ایک بڑی صنعت ہے جس سے تقریباً 14 ملین لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اِس سے بھارت تقریباً 10،5000 ٹن برامدآت 75 ممالک کو کرتا ہے جس سے 5 بلین ڈالر سے زیادہ زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے[1]۔ ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق آزادی کے بعد سے اِس میں دس گنا اضافہ ہوا ہے اور صرف 1990ء سے 2010ء کے درمیان یہ دوگنی ہوئی ہے[2]۔
بھارت کی سمندری ساحل کی لمبائی 8،129 کلومیٹر (5،051 میل) ہے جس میں 3،827 ماہی گیری گاؤں اور 1،914 روایتی ماہی گیری مراکز ہیں۔ بھارت کے تازہ پانی کے وسائل 195،210 کلومیٹر دریا اور نہروں پر مشتمل ہے۔ مزید یہ کی بھارت کی آبی کاشت کی مقدار 2010ء کی مقدار سے، جو تقریباً 3٫9 ملین مچھلی ہے، سے دس گنا بڑھائِ جا سکتی ہے اگر درست ماہی گیری معلومات، اصلاحات اور درست پالیسی نافذ کی جائیں۔
تاریخ
ترمیمتاریخی تحریروں جیسے چانکیہ کی ارتھ شاستر میں ماہی ثقافت کا ذکر ملتا ہے۔ صدیوں تک بھارت میں ماہی ثقافت چھوٹے تالابوں میں ہوتی تھی[3]۔ پیداوری صلاحیت میں نمایاں اضافہ ابتدائی انیسوں صدی میں ہوا۔
نظامت
ترمیممعاشی فوائد
ترمیمماہی گیری 2008ء میں بھارت کی خام ملکی پیداوار کا تقریباً 1 فیصد تھا۔ اس سے 14 ملین سے زیادہ لوگوں کو روزگار مہیا ہوتا ہے۔ بھارت میں تقریباً 14،000 مربع کلومیٹر پر نمکین پانی اور تقریباً 16،000 مربع کلومیٹر تازہ پانی جھیل، تالاب اور جوہڑ کی صورت میں آبی کاشت کے لیے موجود ہے۔ دریاوں کی لمبائی تقریباً 64،000 کلومیٹر ہے۔ 1990ء میں 1٫7 ملین کل وقتی 1٫3 ملین جزوقتی اور 2٫3 ملیں شوقیہ ماہی گیر اس صنعت سے وابستہ تھے۔
قوانین
ترمیمبھارت کے دستور کے مطابق قوانین وفاقی اور ریاستی حکومت کے درمیان منقسم ہیں۔ ریاستی حکومت کو بہت سے معملات میں قانون سازی کا اختیار ہے جیسے کہ پانی، زمین، ماہی گیری، جانوروں کی بیماری وغیرہ۔ وفاقی قانون، بشمول برطانوی راج کے زمانے کے قوانین جیسے کہ 1986ء کا ماحولیاتی حفاظت قانون ، 1972ء کا جنگلی حیات کی حفاظت کا قانون ماہی گیری کے لیے ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
تحقیق و تربیت
ترمیموفاقی اور ریاستی حکومت ماہی گیری کی تحقیق و تربیت کے اداروں کو معاونت کرتے ہیں۔ نمایاں تحقیقی ادرے فشری سروس آف انڈیا، مرکزی ماہی تحقیقی ادر کوچی میں ، مرکزی ماہی تعلیم ممبئی، فشری انسٹیٹوٹ مغربی بنگال، سنٹرل فشری کارپوریشن کولکاتا سنٹرل انسٹیٹوٹ آف کوسٹل انجنرگ فار فشری بنگلور اور سنٹرل انسٹیٹوٹ آف فشری ٹیکنولوجی کوچی کیرلا میں ہیں۔ حکومت نے 2006ء میں قومی ماہی گیری بورڈ بنایا جس کا مرکزی دفتر حیدرآباد میں ہے۔ اس وقت ریاستی حکومت 19 کالج چلا رہی ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Capital Market (2015-07-03)۔ "MPEDA expects marine products exports at US$ 6.6 billion in 2015-16 against US$ 5.5 billion in 2014-15"۔ Business Standard India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2017
- ↑ "Fishery and Aquaculture Country Profiles: India"۔ Food and Agriculture Organization of the United Nations۔ 2011
- ↑ "National Aquaculture Sector Overview: India"۔ Food and Agriculture Organization of the United Nations۔ 2009