بھارت میں واٹس ایپ سے جڑا ہجومی تشدد
بھارت میں واٹس ایپ سے جڑا ہجومی تشدد یا بھارت میں واٹس ایپ سے جڑے ہجومی قتل کے واقعات (انگریزی: Indian WhatsApp lynchings) اور اس سے نکلنے والے واقعات کافی عرصے سے جاری ہیں۔ ماہرین ان کو ملک میں رو نما ہونے والے کئی ہجومی تشدد کے واقعات سے جوڑ چکے ہیں جو بہ طور خاص 2014ء سے زیادہ شدت اختیار کر چکے تھے۔
2020ء کے دہلی فسادات
ترمیمدہلی پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ تشدد کے پہلے دو دن ہی کچھ واٹس ایپ گروپس تشکیل دیے گئے تھے، جس نے نفرت، افواہ اور خوف و ہراس پھیلانے میں مدد کی اور لوگوں کو ایک ساتھ مل کر حملہ کرنے اور مخصوص محلوں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا۔ پولیس کی تحقیقات کا پتہ چلا ہے جب جعفرآباد میٹرو اسٹیشن پر سی اے اے مخالف مظاہرین کے اجتماع کی مخالفت کرنے کے لیے بی جے پی کے کپل مشرا کی ریلی کے بعد 23 فروری کو شمال مشرقی دہلی میں تناؤ بڑھ گیا تو دونوں برادریوں کے ارکان نے اشتعال انگیز تحریروں، آڈیو اور ویڈیو پیغامات کی تشہیر اور بھیڑ کو راغب کرنے کے لیے متعدد واٹس ایپ گروپ بنائے۔واٹس ایپ گروپوں کا زیادہ تر حصہ 23 اور 24 فروری کے درمیان تشکیل دیا گیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق شمال مشرقی دہلی سے تعلق نہیں رکھنے والی کئی پرانی ویڈیوز تشدد کو تیز کرنے کے لیے آگے بھیج دی گئیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ واٹس ایپ گروپس کو اصل وقت کی معلومات دینے کے لیے بھی استعمال کیا گیا کہ کہاں جمع ہونا ہے اور کون سی دکانوں اور گھروں کو نشانہ بنانا ہے۔[1]
جے این یو پر حملہ،2020ء
ترمیم2020ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں حملے کے دوران بھی واٹس ایپ گروپوں کا استعمال کیا گیا تھا۔[2] اس حملے میں کئی طلبہ زخمی ہوئے، جس میں طلبہ انجمن کی صدرنشین آئشی گھوش بھی شامل تھیں۔ آئشی بائیں محاذ سے تعلق رکھتی ہیں اور اے بی وی پی جیسے دائیں محاذ اور مرکز کی بی جے پی حکومت کے لوگوں کی سخت مخالف رہی ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "پولیس تحقیقات میں ایسے واٹس ایپ گروپس کو تلاش کیا گیا ہے جو دہلی تشدد کے دوران نفرت پھیلانے کے لیے تیار کیے گئے تھے"۔ 10 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اپریل 2020
- ↑ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تشدد کا راز واٹس ایپ گروپ میں پوشیدہ تھا؟[مردہ ربط]