بھارتیہ جنتا پارٹی

بھارت کی سیاسی جماعت
(بی جے پی سے رجوع مکرر)

بھارتیہ جنتا پارٹی (ہندی: भारतीय जनता पार्टी) المعروف "بی جے پی" بھارت کی ایک سیاسی جماعت ہے جو 1980ء میں قائم کی گئی۔ یہ اِس وقت (2020ء میں) بھارت کی حزب اقتدار قومی جمہوری اتحاد کی سب سے اہم جماعت ہے اس اس کے بعد 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بڑی کامیابی کے بعد نریندر مودی کی قیادت میں اسنے مرکزی حکومت حاصل کرلی پھر یہ مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد کثیر ریاستوں کی حکمراں بن گئی،2019 میں دوبارہ کامیابی کے بعد یہ جماعت مزید اکثریت کے ساتھ ملک کے اقتدار پر قابض ہے، یہ جماعت کٹّر ہندو قوم پرستی (ہندوتوا) کی علمبردار ہے اور قدامت پسند سماجی حکمت عملیوں، خود انحصاری، قوم پرستانہ طرز عمل سے خارجہ حکمت عملی چلانے اور مستحکم قومی دفاع پر یقین رکھتی ہے۔

مخففبی جے پی/بھاجپا
صدرجے پی نڈا
پارلیمانی چیئرپرسننریندر مودی
لوک سبھا رہنمانریندر مودی
(وزیر اعظم)
راجیہ سبھا رہنماارون جیٹلی
(وزیر خزانہ)
تاسیس6 اپریل 1980 (44 سال قبل) (1980-04-06)
پیشرو
صدر دفتر6-اے، دین دیال اُپادھیائے مارگ، ماتا سُندری ریلوے کالونی، منڈی ہاؤس،
نئی دہلی 110002
یوتھ ونگبھارتیہ جنتا یووا مورچا
خواتین وِنگبی جے پی مہیلہ مورچا
کسان ونگبے جے پی کسان مورچا
رکنیت250 ملین (جولائی 2023)[1]
نظریات
سیاسی حیثیتدائیں بازو[9][10][11]
بین الاقوامی اشتراک
ای سی آئی حیثیتقومی جماعت[14]
اتحادقومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے)
لوک سبھا میں نشستیں
303 / 545
[15](موجودہ 541 ارکان + 1 اسپیکر)
راجیہ سبھا میں نشستیں
73 / 245
(موجودہ 244 ارکان)[16]
حکومت میں ریاستوں و یونین علاقوں کی تعداد
17 / 31
ویب سائٹ
www.bjp.org

بی جے پی 1998ء سے 2004ء تک، دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے، اقتدار میں رہی اور اس عرصے میں سابق وزیر اعظم بھارت اٹل بہاری واجپائی اور سابق نائب وزیر اعظم بھارت لعل کرشن ایڈوانی ان کے نائب رہے 2014 کی مرکزی حکومت حاصل کرنے کے بعد سے تادم تحریرنریندر مودی وزیر اعظم ہیں۔ اپنے قدامت پسندانہ نظریات کے باوجود بی جے پی پاکستان کے ساتھ قیام امن کی متعدد کوششیں کر چکی ہے جن میں 1999ء کا اعلان لاہور، 2001ء میں پرویز مشرف کا ناکام دورۂ بھارت اور 2004ء میں جنوبی ایشیائی آزاد تجارت کا معاہدہ اہم ہیں۔ تاہم بابری مسجد کے حوالے سے بی جے پی کے نظریات کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کیونکہ اس مسجد کے انہدام میں اس جماعت کے رہنما مبیّنہ طور پر ملوّث ہے - اس کے علاوہ یہ اس مسجد کی شہادت کے بعد اس مقام پر رام مندر کی تعمیر کے حق میں رائے رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ گجرات فسادات 2002ء میں بی جے پی حکومت کی سرپرستی میں ہوئے

جماعت کے موجودہ صدر جے بی نڈا ہیں جو امیت شاہ کے وزیر داخلہ بننے سے خالی ہوئی کرسی پر عبوری طور پر 2019 میں فائز ہوئے ،سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اس کے بانی صدر تھے جبکہ سابق نائب وزیر اعظم لعل کرشن ایڈوانی تین مرتبہ جماعت کی صدارت کے عہدے پر فائز رہے ہیں اس کے علاوہ ،امت شاہ ،راج ناتھ سنگھ اور نتن جے رام گڈکری اس کے دیگر صدور رہے ہیں۔

تاریخ

ترمیم

بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی سیاسی بازو جن سنگھ کی موجودہ شکل ہے۔ 1977ء میں جن سنگھ کی حمایت سے جنتا پارٹی زیرِ اقتدار آئی۔ 1980ء میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی اور بھیرون سنگھ شیخاوت نے مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو تشکیل دی۔ اس کا پہلا صدر اٹل بہاری واجپائی رہے۔

آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے ساتھ بی جے پی نے بھی رام جنم بھومی تنازع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بابری مسجد منہدم کر کے مندر کی تعمیر کی مانگ کی۔ 6 دسمبر1992 میں بی جے پی -آر ایس ایس - وشوا ہندو کے کارکنوں نے بابری مسجد کو منہدم کیا۔ اس کے بعد ملک کے مختلف حصّوں میں فرقہ وارانہ فسادات واقع ہوئے اور ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔

1996ء میں انتخابات کے بعد بی جے پی کو 161 نشستیں ملیں اور گٹھ جوڑ کے توسّط سے 13 دن تک واجپائی نے وزیرِ اعظم کے عہدہ سنبھالا۔ لیکن اکثریت ثابت نہ کر سکا تو استعفی دینا پڑا۔ 1998ء کے انتخابات میں بی جے بی کا محاذ 182 نشستیں حاصل کر کے واجپائی دوبارہ عہدۂ وزیرِ اعظم پر فائز رہے۔ لیکن جیا للیتا کی قیادت والی جماعت نے انحراف کیا تو حکومت گر گئی۔

عام انتخابات کے نتائج

ترمیم

رسمی طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیاد 1980ء میں رکھی گئی اور 1984ء میں پہلی دفعہ پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا اور دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد 1996ء کے انتخابات میں پہلی بی جے پی لوک سبھا میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بنی اور حکومت بھی بنا لی مگر وہ بہت مختصر مدت کے لیے تھی۔[17] اس کے بعد 1998ء اور 1999ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشست حاصل کرنے والی پارٹی بنی اور دونوں دفعہ اتحادی حکومت بنائی مگر اتحاد کی سربراہی خود بی جے پی نے کی۔[18] 2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی۔ 1991ء کے بعد سے جب بھی بی جے پی حکومت میں نہیں رہی ہے، پارلیمان میں حزب مخالف کے عہدہ پر اس کا رکن ضرور رہا ہے۔[19] گذشتہ انتخابات کی مزید تفصیل کے لیے جنتا پارٹی اور بھارتیہ جن سنگھ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

سال مقننہ پارٹی رہنما نشستیں جیتیں تبدیلی شرح ووٹ تبدیلی نتیجہ حوالہ۔
بھارت کے عام انتخابات، 1984ء 8ویں لوک سبھا لال کرشن اڈوانی
2 / 533
  2 7.74% مخالف [20]
بھارت کے عام انتخابات، 1989ء 9ویں لوک سبھا لال کرشن اڈوانی
85 / 545
  83 11.36%   3.62% اعتماد اور رسد for NF [21]
بھارت کے عام انتخابات 1991ء 10ویں لوک سبھا لال کرشن اڈوانی
120 / 545
  35 20.11%   8.75% مخالف [22]
بھارت کے عام انتخابات 1996ء 11ویں لوک سبھا اٹل بہاری واجپائی
161 / 545
  41 20.29%   0.18% حکومت، بعد میں مخالف [23]
بھارت کے عام انتخابات، 1998ء 12ویں لوک سبھا اٹل بہاری واجپائی
182 / 545
  21 25.59%   5.30% حکومت [24]
بھارت کے عام انتخابات، 1999ء 13ویں لوک سبھا اٹل بہاری واجپائی
182 / 545
  23.75%   1.84% حکومت [25]
بھارت کے عام انتخابات، 2004ء 14ویں لوک سبھا اٹل بہاری واجپائی
138 / 543
  44 22.16%   1.69% مخالف [26]
بھارت کے عام انتخابات، 2009ء 15ویں لوک سبھا لال کرشن اڈوانی
116 / 543
  22 18.80%   3.36% مخالف [27]
بھارت کے عام انتخابات، 2014ء 16ویں لوک سبھا نریندر مودی
282 / 543
  166 31.34%   12.54% حکومت [28]
بھارت کے عام انتخابات، 2019ء 17ویں لوک سبھا نریندر مودی
303 / 543
  21 37.46%   6.12% حکومت [29]

پارلیمان میں نمائندگی

ترمیم

لوک سبھا

ترمیم

 

راجیہ سبھا

ترمیم

 

حوالہ جات

ترمیم
  1. First Post 2023.
  2. "BJP stands by Hindutva ideals: Venkaiah Naidu"۔ دی ہندو۔ 23 مارچ 2012۔ 3 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. "Is Modi's India Safe for Muslims?"۔ فارین پالیسی۔ 26 جون 2015۔ 19 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. Monika Bonikowska (2014)۔ "India After The Elections"۔ Centre for International Relations (6): 2۔ 24 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ  آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ csm.org.pl (Error: unknown archive URL) "آرکائیو کاپی"۔ 27 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2019 
  5. McComas Taylor (2016)۔ Seven Days of Nectar: Contemporary Oral Performance of the Bhagavatapurana۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 197 
  6. Sunila Kale (2014)۔ Electrifying India: Regional Political Economies of Development۔ Stanford University Press۔ صفحہ: 94 
  7. Parsa Venkateshwar Rao Jr. (18 جنوری 2016)۔ "Modi's right-wing populism"۔ زی نیوز۔ 1 جولائی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2017 
  8. Ruth Wodak (2013)۔ Right-Wing Populism in Europe: Politics and Discourse۔ A&C Black۔ صفحہ: 23 
  9. Malik & Singh 1992, pp. 318–336.
  10. BBC 2012.
  11. Banerjee 2005, p. 3118.
  12. Akhilesh Pillalamarri۔ "India's Bharatiya Janata Party Joins Union of International Conservative Parties — The Diplomat"۔ The Diplomat۔ 28 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  13. "International Democrat Union » Asia Pacific Democrat Union (APDU)"۔ International Democrat Union۔ 16 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2017 
  14. Election Commission 2013.
  15. "Members: Lok Sabha"۔ loksabha.nic.in۔ لوک سبھا سیکریٹریٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2019 
  16. "STRENGTHWISE PARTY POSITION IN THE RAJYA SABHA"۔ Rajya Sabha۔ 6 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  17. Guha 2007, p. 633.
  18. Sen 2005, pp. 251–272.
  19. National Informatics Centre 2014.
  20. Election Commission 1984.
  21. Election Commission 1989.
  22. Election Commission 1991.
  23. Election Commission 1996.
  24. Election Commission 1998.
  25. Election Commission 1999.
  26. Election Commission 2004.
  27. Election Commission 2009.
  28. Election Commission 2014.
  29. Election Commission 2019.

بیرونی روابط

ترمیم

بھارتیہ جنتا پارٹی کی باضابطہ ویب گاہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bjp.org (Error: unknown archive URL)