بھیرومل مہرچند آڈوانی

ہندوستانی سندھی مصنف

بھیرومل مہرچند آڈوانی (انگریزی: Bherumal Meharchand Advani، سندھی= ڀيرو مل مهرچند آڏواڻي)، (پیدائش: 1875ء- وفات:7 جولائی 1953ء) بھارت سے تعلق رکھنے والے سندھی زبان کے نامور ادیب، نثر نگار، مورخ، ناول نگار، مترجم، مضمون نگار، ادبی نقاد اور معلم تھے۔ انھوں نے 40 سے زائد کتابیں تحریر کیں۔[1]

بھیرومل مہرچند آڈوانی
(سندھی میں: ڀيرو مل مهرچند آڏواڻي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1875ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدرآباد ،  بمبئی پریزیڈنسی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 جولا‎ئی 1950ء (74–75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پونے ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ معلم ،  ناول نگار ،  ادبی نقاد ،  مورخ ،  مضمون نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سندھی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

کاکو بھیرومل مہرچند آڈوانی 1875ء میں حیدرآباد، سندھ، بمبئی پریزیڈنسی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ وہ غیر منقسم ہندوستان میں سندھ کے جید قلم کاروں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے مشن اسکول اور یونین اکیڈمی حیدرآباد سے تعلیم حاصل کی۔ یونین اکیڈمی سادھو نول رائے اور ہیرانند شوقیرام آڈوانی نے 28 اکتوبر 1888ء میں قائم کی تھی۔ ابتدائی ملازمت محکمہ ایکسائز اور محکمہ نمک (سالٹ) میں کی۔ پھر ڈی جے کالج میں سندھی زبان کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد ازاں اسی کالج میں شعبہ سندھی کے سربراہ ہو گئے۔ تقسیم ہند کے بعد 1949ء میں وہ بھارت میں منتقل ہو گئے۔ ان کا تعلق بھی ان ادیبوں کی نسل سے تھا جو اپنے آپ کو کسی ایک ادبی صنف سے وابستہ کرنا پسند نہ کرتے تھے بلکہ علم کی ہر برانچ سے شُدھ بُدھ رکھنا ضروری خیال کرتے تھے۔[2] چناں چہ ان کی کتاب سندھی زبان کی تاریخ سندھی زبان میں اپنی نوعیت کی سب اہم کتاب تصور کی جاتی ہے، یہ ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔مضمون نگاری کے علاوہ دیگر زبانوں سے سندھی میں تراجم بھی کیے۔ بہت سے ناول، ڈرامے اور مضامین دیگر زبانوں سے سندھی میں منتقل کیے۔ان کے منتخب مضامین کے مجموعے گل زارِ نثر، بہار نثر اور جوہر نثر شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کے طبع زاد ناولوں میں آنند سندرکا، موہنی بائی اور وسریل نعمت (بھولی ہوئی نعمت) شامل ہیں۔ وہ ہلکے پھلکے مضامین لکھنے میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ چناں چہ سندھ کا سیلانی اسی طرز کا مضمون ہے جس میں انھوں نے سندھ کے خاص خاص شہروں اور تاریخی مقامات اور اہم لوگوں سے ملاقات کروائی ہے۔ اسی طرح لطیفی سیر میں ان مقامات کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں جہاں جہاں شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے سفر اختیار کیا تھا۔ یہ دونوں کتابیں دل چسپ اور سے بھرپور ہیں۔ ان کی دیگر کتابوں میں قدیم سندھ، سندھ کے ہندوؤں کی تاریخ، موہن جو دڑو، غریب اللغات (شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی شاعری کی لغت)، تیر اندازی کی تاریخ شامل ہیں۔[3][4][5]

وفات

ترمیم

بھیرومل مہرچند آڈوانی 7 جولائی 1953ء میں پونہ ،بھارت میں وفات پا گئے۔


حوالہ جات

ترمیم
  1. Muhammad Saleem Memon (2017)۔ "ڪاڪو ڀيرومل مهرچند آڏواڻي (سنڌي ادب جو هڪ وساريل ورق)" (PDF)۔ Kalachi Research Journal۔ جامعہ کراچی۔ 20 (2): 45–56 [مردہ ربط]
  2. سید مظہر جمیل، مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد، 2017ء، ص 264
  3. مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، ص 265
  4. غلام محمد گرامی، ویا سی وینجھار (سندھی): سندھی ادبی بورڈ، جامشورو، طبع دوم، جون 1995ء
  5. انسائیکلوپیڈیا سندھیانا ( جلد اول)، سندھی لینگویج اتھارٹی حیدرآباد