خوش آمدید!

ترمیم
ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں:   اور  

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید
 

جناب شاہ امان اللہ ندوی کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 215,860 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



 

یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس ( ) زریہ پر طق کریں۔

 


 

ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 18:57، 2 اکتوبر 2023ء (م ع و)

شخصی تعارف

ترمیم

نام۔شاہ امان اللہ ندوی

ولدیت۔ حافظ محمد علی حسن

سکونت۔مقام پرسا پوسٹ کما وایا سرسنڈ ضلع سیتامڑھی،بہار

مقیم حال۔ نالا سوپارہ ویسٹ ممبئی

تاریخ پیدا5/5/92

تعلیمی لیاقت۔حفظ،قرات ،عالمیت،فضیلت

حفظ وقرأت۔

ازبیت المعارف بخشی بازار الہ آباد یوپی

عالمیت۔

دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

فضیلت۔

مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ،بہار

تعلیمی تجربات۔

دس سال درس نظامیہ کا نصاب از اول تا عربی ششمجامعہ ربانی منوروا شریف سمستی پور میں پڑھایا  اور ناظم تعلیمات چار سال رہا،مزید تخصص فی الفقہ میں الاشباہ والنظائراور در مختار  میں دو سال پڑھایا۔اور ناظم انجمن تہذیب البیان تیرہ سال رہا۔رسالہ نوشتہ ربانی کا مدیر رہا۔

کمپیوٹر،ڈی ٹی پی کورس مکمل کیا اور مائکروسافٹ وارڈ دس سال پڑھایا

فون نمبر۔9801829746/7352654786

ایمیل آئی ڈی

                   sanadin@gmail.com

زبانیں۔

اردو،عربی ۔انگریزی اور فارسی

تالیف و تصنیف۔

گلدستہ انجمن،مطبوعہ ،نوشتہ ربانی سہ ماہی مجلہ ،ترجمان السنہ ماہانہ،تذکرہ محسن ملت مطبوعہ، حضرت بلال کعبہ پر مطبوعہ،گلدستہ مقالات زیر طبع، ہدایت النحو کی ترکیبی شرح  زیر طبع وغیرہ۔۔ 2409:40C2:12A6:6791:8000:0:0:0 21:33، 21 اگست 2024ء (م ع و)

تبصرہ

ترمیم

" رحمان کے مہمان"

(حج وعمرہ کا یاد گار سفر نامہ)

مصنف:جناب مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی ایم اے

ڈائریکٹر:انسٹی ٹیوٹ آف عربک اسٹیڈیز قادر باغ حیدر آباد

     یہ کتاب حیدرآباد سے میرے پاس تبصرہ کے لئے آئی ہے،کتاب میں نے پڑھی،بڑا لطف آیا،ناولانہ طرز نگارش ہے ماہر القادری  کی در یتیم کی طرح ۔

     ایک مرتبہ شروع کریں گے تو چھوڑنے کو جی نہیں چاہے گا ،حج وعمرہ پر اب تک  جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں میرے علم کے مطابق اس میں خشکی و بوجھل پن محسوس ہوتا ہے افتاد طبع مائل نہیں ہوتا ،لیکن یہ کتاب نہایت سلیس اردو زبان اور جاذبیت سے لبریز ناولانہ طرز پہ ہے جو طبیعت کے اندر ہل من مزید کی صدائے احتجاج بلند کرتی ہے کہ آگے دیکھو کیا لکھا مزید آگے دیکھو کیا لکھا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے پوری کتاب ختم ہوجاتی ہے۔

      بعض جگہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں (جہاں حضرت مفتی صاحب نے اپنی اولاد سے جدائی وفرقت کو بیان کیا ہے)اور بعض جگہ ہنسی رکتی نہیں (جہاں کتاب میں مفتی صاحب نے عرب والے کا ایک واقعی لکھا) اس کے علاوہ بھی بہت سارے حج وعمرہ کے واقعات مذکور ہیں جو خشک وتری اور پھول و کانٹے کی داستان کی طرح لگتے ہیں،مفتی صاحب کی تحریر کا طرز اس میں کہیں پھول کو پتھر بنادیتا ہے تو کہیں پتھر کو پھول،یہ ان کی تحریر کی خوبی وخاصیت ہے کہ روتے ہو ہنسادیتے ہیں اور ہنستے کو رولادیتے ہیں۔

     میں شکر گزار ہوں حضرت مفتی آصف الدین صاحب ندوی وقاسمی کے جنہوں نے مجھے اس لائق سمجھا میں اس کتاب پر تبصرہ لکھوں۔

اس کتاب کا نام ہی بہت پیارا ہے" رحمان کے مہمان"۔دونوں رحمان ومہمان ہم وزن ہیں اور عسر النطق بھی نہیں ،نہایت سہل اللسان ،کلمتان خفیفتان کی طرح۔

    اللہ تعالیٰ سے دعاء کے اس کتاب کے افادہ کو عام کرے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے یہ کتاب مفید ثابت ہواور ہم سب کو حج وعمرہ کی اور زیارت حرمین شریفین کی استطاعت و توفیق بخشے ۔

                     آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین

شاہ امان اللہ ندوی 2409:40C2:12A6:6791:8000:0:0:0 21:35، 21 اگست 2024ء (م ع و)

تبصرہ

ترمیم

ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسَد اللّہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ امان اللہ ندوی

صدر طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ سائیں سیٹی نالا سوپارہ ویسٹ ممبئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام کتاب :آپ ولی کیسے بنیں؟مصنف:قطب زماں حضرت مولانا حکیم ابونصر صاحب رحمانی مدظلہ العالی ۔صفحات :150.فن:تصوف وسلوک

      پیش نظر کتاب قطب زماں حضرت مولانا حکیم ابونصر صاحب رحمانی مدظلہ العالی کی تصنیف کردہ ایک شاہکار  علمی سرمایہ ہےفن تصوف کے باب ایک روشن چراغ کا شاندار  جاندار اضافہ ہے جو لائق تحسین ،مقبول اور مبروک ہے۔

ہوئے دیوانے ہم تو سب کو دیوانہ بنا دیں گے۔

   قطب زماں حضرت مولاناحکیم ابو نصر صاحب رحمانی مدظلہ العالی تصوف کی دنیا وہ بے تاج بادشاہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کواپنے ذکر وشغل کے ساتھ اپنی ذات کو بھی اخفاء رکھا،کیونکہ آپ کی سراپا زندگی درویشی فقیری میں گزری ہے،نام ونمود سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھاہے،اور یہی دوری اور بے لوث جذبہ سرشاری نے آپ کو مقدرکاسکندر بنادیا ہے،آپ کے سینے میں جو قربت الٰہی کی آگ لگی ہے اور خدا سے عشق ومحبت کا جو چراغ روشن ہے آپ چاہتے ہیں اور یہ خواہش کرتے ہیں کہ یہ آگ ہر انسا ن کے سینے میں لگے،اسی لئے آپ نے یہ کتاب" آپ ولی کیسے بنیں؟" بغیر کسی کتمان طریقت قلمبند کر کے عوام کے سامنے پیش کردیا،چونکہ دیوانہ چاہتا ہے کہ سب دیوانے بن جائیں۔

    میں ذاتی طور پر جہاں تک حضرت مدظلہ کو جانتاوپہچانتا ہوں وہ یہ ہےکہ اللہ رب العزت نے آپ کو انس ومحبت اور تواضع وانکساری کا پیکر بنایا ہے،اللہ نے آپ کو بہت باوجیہ اور پروقار ذات والی شخصیت بنایا ہے،آپ کو دیکھتے ہی محبت پیدا ہوجاتی اور اپنا پن محسوس ہوتا ہے۔

    حضرت مدظلہ العالی کی یہ کتاب نہایت آسان سلیس اردو زبان میں لکھی گئی ہے،جو تکلفات وتصنعات سے پاک ہے ،دیگر مصنفوں کی طرح اس کتاب میں پہنچ و خم بالکل نہیں ہے،پوری کتاب نہایت سادہ اسلوب میں نہایت اخلاص کے ساتھ لکھا گیا،اسلوب نگارش اتنا سادہ اور بے لوث اور جاذب قلب و نظر کہ ایک نشست میں پوری کتاب پڑھ جانے کاجی چاہے گا ۔

   دنیاکا ہر شخص جس کے کو اللہ نےقلب سلیم عطاء کیا ہےیہ چاہتا کہ میں اللہ والا کیسے بنوں، بس اسی کا جواب اور طریقہ اس کتاب میں نہایت مؤثر انداز میں لکھا گیا ہے۔

    کتاب دیکھ کے قلبی مسرت ہوئی ،اللہ تعالیٰ حضرت مدظلہ کی اس علمی دینی اور روحانی کاوش کو کو قبول فرمائے اور اس کے افادہ کو عام وتام کرے اور حضرت مدظلہ کے لئے اس کتاب کو توشہ آخرت ونجات کا ذریعہ بنائے ۔

دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اَولیٰ

ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسَد اللّٰہی 2409:40C2:12A6:6791:8000:0:0:0 21:37، 21 اگست 2024ء (م ع و)

تبصرہ

ترمیم

    جناب محترم مولانا محمد طفیل ندوی امام وخطیب مسجد اول ناگپاڑہ وجنرل سیکریٹری امام الہند فاؤنڈیشن ممبئی کی جدید تصنیف" خطبات محمودیہ " باصرہ نواز ہوا،بالاستیعاب حرف بحرف پڑھا قلبی مسرت ہوئی ۔

   ایک اچھےخطیب کے لئے نہایت ضروری ہےکہ اس کی خطابت میں یہ چند بنیادی باتیں ضرور پائی جائیں۔

  سب سے پہلے اخلاص نیت یعنی اصلاحی افادیت ،لوگوں کی اصلاح کی کوشش ہو غلبہ ،شہرت اور نام نمود سے دل ودماغ پاک ہو۔

موضوع کے مطابق قرآن کریم کی آیات مع ترجمہ وتفسیر ۔

موضوع پراحادیث مبارکہ کا ترجمہ و تشریح ۔

موضوع کے مطابق کسی معتبر شاعر کا شعر

موضوع پر قصص ،واقعات اور حکایات۔

عمدہ تشبیہات وتمثیلات ۔

موضوع کے مطابق ترغیبی اور ترہیبی جملے ۔

انداز بیان نہایت شائستہ اور شفتہ ۔

سنجیدگی اور متانت ۔

تسلسل وروانی کے ساتھ ٹھہراؤ

آواز میں اتار چڑھاؤ جس کو عربی میں مجلجلا ومدویا کہا جاتا ہے۔

    ظاہر ہے جو خطیب ہیں خطابت کرتے ہیں ان کو ان سب وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے،خطابت کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے،یہ ایک پرخار وادی ہے ،بہت سنبھل کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔

شاہاں چہ عجب گر نوازند گدارا

   ان تمام وادیوں سے یقینا مولانا موصوف کا گذر ہوا ہوگا اورایک عرصہ کی محنت ومشقت  اور جد جہد اور بسیار کاوش کے بعد منصہ شہودپر یہ کتاب آئے ہوگی،کئ کتابوں کے مصنف ہیں ،نوجوان صالح عالم دین ہیں طبیعت میں روانی جولانی اور نشاط ہے نہایت سنجیدہ اور متواضع انسان ہیں،کچھ کر دیکھانے کے جذبہ سے سینہ ان کا معمور ہے،اپنے علمی تقریر و تحریر کی بنیاد پر اہل علم کے نزدیک غیر متعارف نہیں ہیں۔

    "خطبات محمودیہ"یہ کتاب تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہے،مختلف اہم موضوعات پر ایک اہم علمی دریا  بکوزہ خزینہ ہے،مولانا موصوف ایک مسجد کے امام بھی ہیں ، ہر ہفتہ جمعہ میں خطاب ہوتا ہے،بس مولانا کے ان ہی تقریروں کا یہ مجموعہ ہے،جس کو تحریر کے قالب میں ڈھال دیا ہے،اور یہ نہایت ضروری تھا تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہو۔

   کتاب  کے ہر ایک موضوع میں اسلوب خطابی کو مکمل ملحوظ رکھا گیا ہے،کہیں الفاظ کے پہچ و خم میں الجھانے کی  یا نفس مضمون کو مشکل ترین بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے،بلکہ نہایت سادہ آسان اسلوب اور تعبیر اختیار کیا گیا ہے۔

   یہ کتاب فن خطابت کے باب میں ایک علمی اثاثہ  کااضافہ ہے،یوں تو خطابت پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں ،اور دن ورات لکھی جارہی ہیں ،اس فن کے شہسوار شب وروز اس میدان میں نبردآزما ہیں اور اپنی خطابت کے مجاہدہ کے مظاہرہ کو پیش کر رہے ہیں لیکن یہ کتاب دیگر کتابوں سے ممتاز اس لئے ہے کہ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہےوہ عملی زندگی کا آئینہ دار ہے،سب عوام کے سامنے پیش کی جاچکی ہے ،ازدل خیز بر دل ریزد کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

     مولانا موصوف مستحق مبارکبادی ہیں کہ انہوں نے اس قیمتی سرمایہ(جو سالوں پر محیط ہے)کے بکھرے ہوئے کانچ کے ٹکڑے کو جمع کر کے ایک مضبوط و مستحکم شیش محل تیار کردیا ہے۔

  اللہ ان کے اور  ان کےعلم وعمل میں برکت و کامیابی عنایت فرمائے اور اس کتاب کو ان کو لئے نجات کا ذریعہ بنائے آمین۔

                            شاہ امان اللہ ندوی

صدر طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ہنومان نگرنالا سوپارہ ویسٹ ممبئی ۔

2409:40C2:12A6:6791:8000:0:0:0 21:39، 21 اگست 2024ء (م ع و)

خود ساختہ پودا

ترمیم

خود ساختہ پودا (یومیہ)

   (پینتیسواں)

اوقاف کے معاملہ میں کسی بھی طرح کی مداخلت پسند نہیں

      ہمارا ملک ہندوستان جو یک جہتی اور اتفاق و اتحاد کا پیامبر ہے،جہاں مذہبی آزادی ہے جو اس کا حسن ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے،اس کو آج پاش پاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کچھ فرقہ پرست عناصر اس کے حسن کو ختم کرنا چاہتے ہیں،یہ زہریلے سانپ ہیں،جو بل سے اپنا پھن پھیلاتے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمان کو ڈنسے،لیکن۔۔۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا۔

   حالیہ دِنوں اوقاف کے مسئلہ پر اپنا پھن پھیلایا ہے،اوقاف وہ عطیہ وگفٹ ہے جیسے ہمارے اسلاف نےہماری دینی ملی اور قومی ضرورت کے واسطے رضاء الٰہی کے لئے ہمیں عنایت فرمایا ہے،اس میں صرف ہمارا حق ہے اس میں کسی دوسرے کے حق کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

  یہ اوقاف ہمارا ملی دینی اور قومی سرمایہ ہے،ہمارے اسلاف کی امانت ہے ہم امانت میں خیانت کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہماری شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔

   ہم پوری قوت کے ساتھ اپنے اوقاف کی حفاظت وصیانت کریں گے،اور تمام تر تحفظات کے سامان فراہم کریں گے بلکہ اس کو استحصال اور بدنظمی سے بھی پاک کریں گے انشاء اللہ ۔

    موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے معاشروں میں اجتماعی شعور کو بیدار کرکے اور پوری جمعیت وقوت کے ساتھ نفرتوں اور ذاتی عداوتوں اور مسلکی منافرت وشدت کا خاتمہ کر کے یکجٹ ہوکراس کو ناکام کریں۔

                                              سرحدی عقاب 2409:40C2:12A6:6791:8000:0:0:0 21:40، 21 اگست 2024ء (م ع و)

حضرت مولانا محمد اسلم غازی القاسمی دامت برکاتہم العالیہ صدر جمعیۃ علماء شمال مغربی ژون ممبئی کا مسجد معاذ بن جبل ہنومان نگر میں جمعہ سے قبل خصوصی خطاب

ترمیم

حضرت مولانا محمد اسلم غازی القاسمی دامت برکاتہم العالیہ صدر جمعیۃ علماء شمال مغربی ژون ممبئی کا مسجد معاذ بن جبل ہنومان نگر میں جمعہ سے قبل خصوصی خطاب

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

قارئین کرام!

        ملک کے حالات بہت نازک ہیں،ایک طرف گستاخان رسول  صلی اللہ علیہ وسلم جگہ جگہ پیدا ہورہے ہیں اور شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کر رہےہیں تو دوسری طرف ہمارے دینی ملی قومی مسائل میں موجودہ حکومت رخنہ اندازی کر رہی ہے،اس بار اس نے اوقاف کو نشانہ بنایا ہے،جمعیۃ علماء مہاراشٹرا نے ہمیشہ سنت ابوبکر کو زندہ کرتے ہوئے پرچم ابوبکر "اینقص الدین وانا حی"کو بلند کیا ہےمخالف باطل طاقتوں کو چیلنج ہی نہیں کیاہے بلکہ کھل کر سامنہ کیاہےاور کر رہےہیں۔

       بڑی فرحت و انبساط کی بات ہےکہ شہر ممبئی کی مشہور و معروف  بزرگ دیندار مخلص شخصیت حضرت مولانا محمد اسلم غازی القاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ صدر جمعیۃ علماء شمال مغربی ژون ممبئی کل ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ میں تشریف لا رہے ہیں اورمسجد معاذ بن جبل میں  قبل از جمعہ حضرت کا روحانی و عرفانی خطاب ہوگا ان شاءاللہ ۔

 اس لئے تمام حضرات سے درخواست ہے کہ جمعہ میں قبل از وقت پہنچ کر حضرت کے بیان سے مستفید ہوں ۔

نوٹ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آذان جمعہ بارہ پینتالیس پر ہے

  *شاہ امان اللہ ندوی* 2409:40C2:2C:5953:8000:0:0:0 20:58، 5 ستمبر 2024ء (م ع و)

سات دن گاؤں میں

ترمیم

2409:40C2:114:C3E:8000:0:0:0 10:30، 23 دسمبر 2024ء (م ع و)

احمد آباد اور اجمیر کا سفر

ترمیم

خود ساختہ (پودا)

﴿سلسلہ نمبر:112﴾

احمد آباد اور اجمیر شریف کا روحانی سفر

   اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے احمد آباد اور اجمیر شریف کے سفر کا موقع فراہم کیا۔ یہ سفر میرے لیے کئی روحانی تجربات اور محبتوں کی یادگار رہا۔ پہلی بار اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان دونوں مقامات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، جو میرے لیے ایک انمول تجربہ تھا۔

احمد آباد میں شاگرد کے بیٹے کی حفظِ قرآن کی تقریب

  اس سفر کا آغاز میرے عزیز شاگرد حافظ صاحب کے بیٹے، عزیزم محمد ارمان حق سلمہ کے حفظِ قرآن مکمل کرنے کی خوشی میں منعقد ہونے والی تقریب سے ہوا۔ نو سال کی عمر میں صرف سات ماہ اور بیس دن کے قلیل عرصے میں قرآن کریم کا حفظ مکمل کرنا ایک عظیم سعادت ہے، اور اس پر میں دل سے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں۔

   تقریب میں شرکت کی دعوت ملنے پر میں نے فوراً احمد آباد جانے کا ارادہ کیا۔ احمد آباد پہنچ کر میں نے اس خوبصورت تقریب میں شرکت کی، جہاں جید علماء، معزز شخصیات، اور دیگر مہمانوں نے حافظ ارمان کو مبارکباد پیش کی اور ان کے لیے دعائیں کیں۔ تقریب میں مولانا اشرف صاحب، مولانا فاروق صاحب، مولانا شہاب الدین صاحب بڑاہی، اور دیگر علماء کرام نے علمی و دینی بیانات پیش کیے۔ آخر میں، ناچیز کی دعا کے ساتھ اس یادگار پروگرام کا اختتام ہوا۔

احمد آباد میں عقیدت مندوں کی ضیافت

    تقریب کے بعد میرے ایک عقیدت مند جناب فیضان صاحب (اللہ ان کو سلامت رکھے) اور ان کے بھائی، عزیزم فیصل سلمہ (جو میرے شاگرد ہیں) نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی، جو تقریباً 10-15 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ان کے گھر پہنچنے پر ان کے پورے خاندان نے نہایت محبت اور خلوص کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ ان کی والدہ صاحبہ کی عقیدت، محبت اورمشفقانہ برتاؤ نے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔

    جناب فیضان صاحب نے ہمیں اپنے کاروبار، ہوٹل اور زیرِ تعمیر بلڈنگوں کی سیر کرائی۔ ہوٹل میں نہایت عمدہ بھنی ہوئی مچھلی پیش کی گئی، جو بہت لذیذ تھی اور طبیعت خوش ہوگئی۔ فیصل سلمہ نے ہماری خدمت کا حق ادا کیا۔ انہوں نے ہمیں اجمیر جانے والی بس تک پہنچایا، اور جب تک بس روانہ نہ ہوئی، وہ ہمارے ساتھ رہے۔ رخصت کے وقت نہایت محبت سے انہوں نے ایک خاص رقم بطور ہدیہ پیش کی، جس نے مجھے حیران کر دیا کہ اتنی ضیافت کے بعد یہ ہدیہ کیسے قبول کیا جائے؟ لیکن ان کے خلوص نے دل کو مزید متاثر کیا۔

اجمیر شریف کی زیارت

    احمد آباد سے فراغت کے بعد ہم نے اجمیر شریف کا رخ کیا۔ فیصل صاحب کی والدہ نے ہمارے لیے زادِ سفر تیار کیا، اور فیصل صاحب نے ہمیں بس اسٹاپ تک پہنچایا۔ وہاں سے ہم اجمیر شریف پہنچے۔ ابتدائی طور پر ہوٹل کے انتظامات میں کچھ دشواری ہوئی، لیکن اللہ کے فضل سے ایک مناسب جگہ میسر آ گئی۔

   اجمیر شریف میں درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ مزار شریف پر حاضری دی، دعائیں کیں، اور روحانی سکون کا احساس ہوا۔ وہاں کے ماحول اور عقیدت مندوں کی محبت نے دل کو ایک خاص کیفیت سے آشنا کیا۔ زیارت کے بعد دہلی جانے کا ارادہ تھا، لیکن وقت کی قلت کے باعث ہمیں واپسی کا فیصلہ کرنا پڑا۔

    واپسی کے لیے ٹکٹ ملنا مشکل ہو رہا تھا، لیکن غریب رتھ ٹرین میں ایک رفیق کی مدد سے اطمینان بخش سفر ممکن ہوا۔ انہوں نے ہمارے لیے دو سیٹوں کا انتظام کر رکھا تھا، اور یوں ہم بخیریت ممبئی پہنچ گئے۔ الحمدللہ۔

   یہ چار دن کا سفر نہایت بابرکت اور یادگار رہا۔ یہ سفر نہ صرف روحانی سکون کا باعث تھا بلکہ محبت، اخلاص، اور دینی تعلقات کی اہمیت کا بھی بھرپور احساس دلایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دین کی خدمت اور اپنے بندوں کے ساتھ محبت و خلوص سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

                                        سرحدی عقاب 2409:40C2:114:C3E:8000:0:0:0 10:32، 23 دسمبر 2024ء (م ع و)

عدالت یا سیاست

ترمیم

2409:40C2:114:C3E:8000:0:0:0 10:33، 23 دسمبر 2024ء (م ع و)

چاہتوں کا سفر

ترمیم

2409:40C2:114:C3E:8000:0:0:0 10:34، 23 دسمبر 2024ء (م ع و)