محمد شعیب خان رضوی
خوش آمدید!
ترمیم(?_?)
جناب محمد شعیب خان رضوی کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔ آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
|
-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 14:28، 5 فروری 2023ء (م ع و)
یہاں کون سننے والا ہے
ترمیماب کچھ کہنے کو نہیں رہا، کہیں بھی تو کس سے کہیں؟ یہاں کون سننے والا ہے ؟
راقم الحروف
محمد شعیب خان نجمیؔ رضوی لکھیم پوری
متعلم مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی شریف
6307364323
دنیا یہودی مظالم کو دیکھ کر خاموش ہے۔ یو این ایس سی میں روس کے ذریعے جنگ بندی تجویز پیش کی گئی، جس کو امریکہ نے ویٹو پاور کے ذریعے مسترد کروا دیا۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق یہودی فوج فلسطینی شہریوں کو گرفتار کر انجان جگہ پر لے جا رہی ہے جس کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا ہے جو اس وقت سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ جب اسرائیلی ایجنٹ سے اس کی بابت سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں اس ایجنٹ نے کہا کہ ہم صرف مشکوک افراد کو پوچھ گچھ کے لیے لے جا رہے ہیں۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطینی شہریوں کو یہودی شیطانوں نے جانوروں کی طرح بٹھا رکھا ہے، جیسے کہ انھوں نے کوئی ناقابل معافی جرم کیا ہو اور سزائے موت کے مستحق بنے ہوں۔
ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا !
دنیا میں ۵۷ ممالک ایسے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی کہتے ہیں اور تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) میں شامل ہیں۔ افسوس ان میں کوئی ایسا ملک نہیں جس نے فلسطینی مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف ٹھوس قدم اٹھایا ہو۔
جون ۱۹۶۷ء کا وہ منظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے، کیسے صیہونی دہشت گردوں نے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ڈھائے، جب تک ایک ایک مجاہد کی رگوں میں لہو دوڑتا رہا وہ بیت المقدس کی حفاظت کے لیے اپنے جان مال کی قربانی دیتا رہا اور اپنے لیے جنت میں محلات بناتا رہا۔ چشم فلک نے شاید ہی وہ مجاہدین کہیں دیکھے ہوں، جنھوں اپنی آخری سانس تک مسجد اقصی کی حفاظت کی۔ یہاں تک کہ ۷ جون کی وہ صبحِ قیامت بھی آ گئی جب بچوں کے سروں سے باپ کا سایہ اٹھا لیا گیا، عورتوں کو بیوا اور بوڑھوں کو بے سہارا کر دیا گیا۔ ظلم و زیادتی کے وہ پہاڑ توڑے گئے جن کا آج تصور بھی دل کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔ وہاں بھی ان برائے نام اسلامی ممالک نے ان مجاہدوں کا ساتھ نہیں دیا۔
ہمارا پڑوسی ملک جو ہندوستان سے ہی الگ ہوا ہے، ریاست مدینہ ہونے کا دعوے دار ہے، نیوکلیئر پاور ہونے کے باوجود اپنے بھائیوں پر ہو رہے مظالم پر چشم پوشی کیے ہوئے ہے، عرب کی غیرت ایمانی تو پہلے ہی مر چکی ہے، وہ تو مقبوضہ فلسطین کی صیہونی حکومت سے دوستیاں کر رہے ہیں، ترکوں کو نہ جانے کیا ہوا ہے جو سلطان عبد الحمید ثانی رحمہ اللہ کی روش کو بھول چکے ہیں۔ ترکوں کے ماضی کو دیکھتے ہوئے عالمِ اسلام کے جملہ مسلمان ان کی طرف ہمیشہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے ہیں لیکن افسوس ! آج وہ بھی خاموش ہیں۔ کیا اپنے بھائیوں کی محبت سے بڑھ کر بھی کوئی دوستی ہے ؟ کیا "انما المؤمنون اخوۃ" سے بڑھ کر کوئی تعلق ہے ؟ کیا اللہ کی رضا کے علاوہ بھی کسی چیز میں کامیابی ہے ؟ کیا محمد رسول اللہ ﷺ کے امتیوں کا یہ طریقہ کار رہا ہے ؟ کیا امت محمدیہ کے کسی فرد پر ظلم و زیادتی ہو اور پوری امت خواب خرگوش میں مست رہے ایسا ہماری تاریخ میں کہیں موجود ہے ؟ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیوں کیا ؟ اپنی عزت و آبرو کے لئے ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ ۱۷ سال کے اس مجاہد نے مسلمان تاجروں کی عورتوں اور بچوں کو بچانے کے لیے سندھ پر حملہ کیا اور اللہ کی رضا کے لیے جنگ لڑ کر فتحیاب ہوا۔ تاریخ ایسے ہزاروں واقعات اپنے دامن میں سنجوئے ہوئے ہے۔ چند عورتوں اور بچوں کے لیے محمد بن قاسم اپنے لشکر کے ساتھ سندھ آ گیا مگر افسوس ! آج ہم فلسطینیوں پر ہو رہے مظالم کو دیکھ کر خاموش ہیں۔
فلسطینی اپنے وجود کی لڑائی نہیں لڑ رہے، بلکہ وہ مسجد اقصی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مسجد اقصی کی حفاظت، بیت المقدس کے تقدس کے لیے وہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، بےگناہ بچے قتل ہو رہے ہیں، عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری ہو رہی ہے، بزرگوں پر ظلم کیا جا رہا ہے، لیکن اپنے آپ کو اسلامی کہنے والے ممالک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بس مذمتی بیان دے کر کام چلا رہے ہیں۔ دنیا میں کہنے کو تو ۵۷ اسلامی ممالک ہیں لیکن حقیقت میں اگر کوئی اسلامی ملک ہے وہ فلسطین ہے، وہ اسلام کے لیے خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی والا جذبہ رکھتے ہیں۔ فلسطین کے علاوہ جتنے بھی ممالک اپنے آپ کو اسلامی کہتے ہیں ان کے حکمرانوں کو چاہئے کہ اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن لیں یا اپنے نام سے اسلامی ہٹا لیں۔
مسلمانوں کا حامی و ناصر اللہ ہے، اس کا رسول ﷺ ہے، اسلاف ہیں، ۲۱ویں صدی عیسوی کا کوئی حکمران نہیں۔
ان سے امید وفا اے دل محض بے کار ہے
اہل دنیا سے محبت کا صلہ ملتا نہیں
انھیں منظور ہے جب تک یہ دور آزمائش ہے
وہ جو چاہیں تو پل میں ختم دور ابتلا کر دیں
یہ دل کی آہ تھی جو قلم کے ذریعے قرطاس پر آ گئی، اللہ عزوجل فلسطینی مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور مجاہدین کو فتح عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ
پیشکش: الاحناف آرگنائزیشن محمد شعیب خان رضوی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:20، 10 دسمبر 2023ء (م ع و)