محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ
Chakia Mansehra Hazara KPK Pakistan چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان
چکیاہ کا گاؤں ضلع وتحصیل مانسہرہ شیر سے پانچ کلو میٹر اور بائی پاس سے ڈھائی کلومیٹرکے فاصلے پر داتہ خوشحالہ گاؤں اور سفیدہ گاؤں کے درمیان میں واقع ہے. یہ گاؤں یونین کونسل داتہ میں آتا ہے جبکہ ویلج کونسل چکیاہ میں خوشحالہ گاؤں بھی شامل ہے. چکیاہ گاؤں میں ملک اشتیاق اعوان نائب ناظم رہ چکے ہیں ملک اشتیاق اعوان پیپلز پارٹی کےسابق صوبائی وزیر صوبہ سندھ ملک خواج محمد اعوان کے بیٹے ہیں. نویداحمد اعوان بھی یوسی داتہ وچکیاہ سے نائب ناظم رہ چکےہیں جو انتہائی مخلص نڈر نوجوان سمجھ دار اور حکمت والے سیاسی نوجوان سمجھے جاتے ہیں .جہنوں نے اپنے دور سیاست میں یونین کے اندر بے مثال خدمات سرانجام دیں ہیں. آجکل ویلج کونسل چکیاہ کے ناظم پرویز اعوان ہیں. چکیاہ میں درج زیل بستیاں شامل ہیں. میرا. دوراہا. جبڑ. موہری. ملکانہ. بارہ مولہ. منوں. میدان. پینگل. دکھن. پنجو. سوکہ. شامل ہیں. چکیاہ گاؤں میں تین پرائیویٹ سکول چل رہے ہیں اور ایک گورٹمنٹ گرلز بچیوں کا مڈل سکول بھی ہے. چکیاہ میں باقی علاقوں کی نبست گاڑیوں کی سہولیات تقریباً ہروقت میسر رہتی ہے. چکیاہ کی تقریباً تمام بستیوں میں سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور سابق وزیر مملکت سردار شاہجہان یوسف کے خصوصی فنڈ سے سوئی گیس کا اور بجلی کا کام مکمل ہوا ہے. چکیاہ میں تین جامع مساجد ہیں مکی مسجد میرا. مدنی مسجد دوراہا. مرکزی جامع مسجد چکیاہ شہر. چکیاہ میں پینے کے پانی کی سکیم محکمہ پبلک ہیلتھ کی ہے جس کا ابتدائی فنڈ سابق صوبائی وزیر شجاع سالم عرف شازی خان نےدیا جبکہ اسکی مزید وسعت سابق ممبر صوبائی اسمبلی سردار ظہور احمد کے فنڈ سے مکمل ہوئی. چکیاہ میں زیادہ ترلوگ . محکمہ تعلیم.پاکستان پوسٹ آفس .واپڈا اوردیگر مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں. چکیاہ گاؤں کے لوگ زیادہ تر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں. اور مختلف قبائل جس میں اعوان. گجر. عباسی. ڈہونڈ. گولڑہ. تنولی.مغل. اور کچھ دیگر قومیں بھی آباد ہیں. محمد معروف صدیقی لیکچرار ہزارہ یونیورسٹی گاٶں چکیاہ پوسٹ آفس چکیاہ ضلع وتحصیل مانسہرہ ہزارہ پاکستان Muhammad Mahroof Lecturer Islamiyat department hazara university Mansehra
خوش آمدید!
ترمیم(?_?)
السلام علیکم! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں اور تلاش پر کلک کریں۔ آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
|
-- آپ کی مدد کے لیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 15:33, 19 اکتوبر 2016 (م ع و)
لامحدود خواہشات
ترمیملامحدود خواھشات زندگی کو عذاب بنا دیتی ہیں، جبکہ انسان کی زندگی میں صبر "شکر اور محبت تینوں کا بڑا درجہ ہے"صبر" مصیبت کوٹالتا ہے "شکر" نعمت کو بڑھاتا ہے اور محبت خوشیوں کا خرانہ ہے۔ اللہ رب العزت ان تینوں سے آپکو سدا مالامال رکہے۔ آمین
مولانا محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 05:16, 26 اکتوبر 2016 (م ع و)
ٹھیک ہے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:38, 3 جون 2017 (م ع و)
ٹھیک محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:39, 3 جون 2017 (م ع و)
بلندیوں کے بادشاہ
ترمیماےبلندیوں کے "بادشاہ" اےکائنات کے مالک اے پاک ذات میرے پیاروں کو ھمیشہ سکھی،تندرست اورآباد رکھ اور ان کو سچے ایمان کی دولت سے مالامال کر اوران کوھرمصيبت سے بچا۔ مولانا محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 05:22, 26 اکتوبر 2016 (م ع و)
ٹھیک ہے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:39, 3 جون 2017 (م ع و)
اظہار تعزیت
ترمیم^.....اظہارتعزیت .....^
آج جیپ حادثےمیں زخمی ھونےوالے
ڈرائیوراشفاق عرف کالو خان فوت ھوگئیےہیں اوربھائی نعیم زخمی ہیں ... ہم غم کی اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں.. اوردعاگوہیں کہ اللہ تعالی مرحوم اشفاق کوجنت میں اعلی مقام عطافرمائے اورپسماندہ گان کو صبرجمیل عطافرمائے اوربھائ نعیم اوردیگرزخمیوں کوجلدصحت یاب فرمائے ...آمین... منجانب¤ مولانا محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 05:24, 26 اکتوبر 2016 (م ع و)
تعارف
ترمیممحمد معروف صدیقی گاؤں چکیاہ ضلع و تحصیل مانسہرہ ہزارہ پاکستان لیکچرر اسلامیات ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ ہزارہ پاکستان ریسرچ سکالر ایم فل علوم اسلامیہ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ ماسٹر ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ فاضل درس نظامی وفاق المدارس العربیہ پاکستان ای میل ۔ Mahroof1981@gmail.com محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 08:19, 26 اکتوبر 2016 (م ع و)
ٹھیک ہے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:39, 3 جون 2017 (م ع و)
کچھ لوگ
ترمیمکچھ لوگوں سے ہمارا ساتھ چندساعتوں کا ہوتا ہے . مگر وه ہمارے قلب و اذہان میں ایسے نقش ہو جاتے ہے جسے ہمارا کل سرمایہ یہی ہے
محمد معروف صدیقی گاؤں چکیاہ ضلع و تحصیل مانسہرہ ہزارہ پاکستان محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:54, 31 اکتوبر 2016 (م ع و)
گاؤں چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان
ترمیماسلام علیکم۔ چکیاہ کا گاؤں ضلع مانسہرہ شہر سے پانچ کلو میٹر مشرق کی جانب واقع ہے چکیاہ کا گاؤں بہت زیادہ خوبصورت ہے گاؤں چکیاہ میں مختلف قبائل کے لوگ آباد ہیں جن میں اعوان برادری گولڑہ برادری۔گجر برادری ۔ آباسی برادری تنولی برادری کی مختلف اقوام آباد ہیں ۔ چکیاہ میں تین پرائیویٹ سکول ہیں کنگ عبد اللہ سکول چکیاہ ۔ مدینہ پبلک سکول چکیاہ ۔ حدیبیہ پبلک سکول چکیاہ ہیں ۔ اس کے علاوہ دو بچوں کے پرائمری سرکاری سکول بھی ہیں اور ایک سرکاری سکول بچیوں کا بھی ہے اور گرلز سکول سرکاری مڈل کلاس تک بھی ہے ۔ چکیاہ میں مذبہی اعتبار سے سب لوگ دیوبندی مکتب فکر کے ہیں ۔ اکثر لوگ ملازم پیشہ ہیں اور کچھ ذمہ داری بھی کرتے ہیں ۔ چکیاہ گاؤں میں ایک پوسٹ آفس بھی ہے اور تین جامع مسجد ہیں چکیاہ کے ساتھ خوشحالہ کا گاؤں واقع ہے اور دوسری سفیدہ کا گاؤں اور حدوبانڈی گاؤں واقع ہیں چکیاہ کا گاؤں یونین کونسل داتہ میں واقع ہے جو مانسہرہ کی ایک بڑی یونین کونسل ہے چکیاہ گاؤں میں بجلی پانی روڈ کی سہولت موجود ہے جبکہ یہاں گیس 2008 میں وفاقی وزیر مملکت جناب سردار شاہ جہان یوسف نے لگوائی
مولانا محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان
محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:21, 11 نومبر 2016 (م ع و)
ٹھیک ہے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:40, 3 جون 2017 (م ع و)
اے مسلمانوں کیا تم سنتے ہو
ترمیمضرور پڑھیں درد دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ؟*
مولانا محمد معروف صدیقی لیکچرار ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ ہزارہ پاکستان
ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ‘ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﯽﻣﺮﮐﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﯾﮏ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ھﮯ، ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ، ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﺟﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﮔتی ۔۔۔
ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ:
- اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ !*
- ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ !*
- ﺳﻨﻮ!*
- ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺒﺎﻝ* ﮐﮯ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ
- ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻋﻠﻢ* ﮐﮯ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﺳﻮﮐﮫ ﮔﺌﮯ
ﺍﻭﺭ
- ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ* ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ
ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻄﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ؟
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮباﺯﻭ ﺍﺏ ﺷﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭیں زنگ آلود
ﺍﺏ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﻗﺎ ہیں ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺳﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻡ ﮨﻮ۔
ﺩﯾﮑﮭﻮ !
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﮐﯿﺴﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﺎﻻ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﺍ لباﺱ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺮﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ بچے ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻗﻮﻣﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺷﻌﺎﺭ ﭨﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ کر ﮐﯿﺴﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ؟؟
ﮨﻢ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ تھے
ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﭼﮑﮯ تھے‘
ﺍﺏ ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮ‘
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮ‘
اﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﺏ ﺗﻢ ھﺮﺷﻌﺒﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﻮ‘
- ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ* ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ‘
- ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻏﻮﮞ* ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ‘
*ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﮑﻮﻟﻮﮞ اﻭﺭ ﮐﺎﻟﺠﻮﮞ ﻣﯿﮟ* ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﮨﮯ‘
- تمھاﺭﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ* ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ
- ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ جیبوں* ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﮑﮧ ﮨﮯ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﺗﻢ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺮﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮﻗﺮﺽﺩﺍﺭ ﮨﻮ‘
- ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻌﯿﺸﺖ* ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ‘
- تمھاﺭﯼ ﻣﻨﮉﯾﺎﮞ* ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺣﻢ ﻭﮐﺮﻡ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ *تمہارے ﺳﺎﺭﮮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ* ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ *ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ* ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ناﺯ ﺗﮭﺎ؟؟
ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ”ﺫﺭﺍ ﻧﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﭩﯽ ﺑﮍﯼ ﺯﺭﺧﯿﺰ ﮨﮯ ﺳﺎﻗﯽ“؟؟
- ﺗﻮ ﺳﻨﻮ!*
ﺍﺱ ﺯﺭ ﺧﯿﺰ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ھﯿﺮﻭﺋﻦ ﺑﮭﺮﮮ ﺳﮕﺮﯾﭧ‘ ﺷﮩﻮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﺗﺼﻮﯾﺮﻭﮞ ‘ ﮨﯿﺠﺎﻥ ﺧﯿﺰ ﺯﻧﺎ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ زﺭ ﮐﺎ ﺁﺏِ ﺷﻮﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﻨﺠﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔
تمھیں *اﭘﻨﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ* ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﺍ ﮔﮭﻤﻨﮉ ﺗﮭﺎ؟؟
ﺍﺏ ﺟﺎﺅ! ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ‘ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ تمھاﺭﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﺭﮨﻢ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ‘
ﺍﺏ ﺗﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﻓﻮﺝ ﮐﺸﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ۔
بوﺳﻨﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺣﺸﺮ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔
- ﺟﺎﺅ !*
ﺍﺏ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻃﺮﺯ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ‘ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺮﻣﻮ ﺍﻧﺤﺮﺍﻑ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ‘
- ﺧﺒﺮ ﺩﺍﺭ !*
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻼﻣﯽ ﺳﮯ نکلنے ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ھﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﮔﮯ‘
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﻣﺤﺮﮐﺎﺕ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﻌﻨﯽ اﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﺨﺘﮕﯽ ‘ ﺟﻮﺵِ ﺟﮩﺎﺩ‘ ﺑﺎﻟﻎ ﻧﻈﺮﯼ ‘ ﻏﯿﺮﺕ ﺩﯾﻦ ﻭﮦ ﺳﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ‘ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭼﻨﺪ ﺁﺳﺎﺋﺸﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮨﻢ ﻧﮯ *ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ* ﮐﻮ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﮮ ﮐﺮ‘ ﺳﻨﮕﮭﺎﺭ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ اﺗروا دی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ *ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺮﺩﻭﮞ* ﮐﻮ ﻋﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﺤﺶ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺩﺍﻧﮕﯽ ﮐﯽ ﺟﮍ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﮨﮯ۔
ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﻟﺪ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﺭﻕ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﯿﭙﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ھﻮﺳﮑﺘﺎ۔
- اﻭﺭ ﺳﻨﻮ !*
ﮨﻢ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ‘
ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ
- ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ علما کے * ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺭﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﮑﻔﯿﺮ ﮐﺮﮐﮯ، ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮍ ﻟﮍ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﻟیے ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ‘
- ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ* ﻧﮯ ترﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺤﺪ اﻭﺭ ﺯﻧﺪﯾﻖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻓﻠﺴﻔﮯ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﮐﯽ‘
- ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﻧﮯ* ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﭘﺮ ﺍﮐﺴﺎﯾﺎ‘
- تمھارے ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ* ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺀ‘ ﺑﮯﻏﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺩﯾﻦ‘ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﺍﺷﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ‘
- ھﻢ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺷﮑﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯿﮟ* ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺬﮨﺐ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﯽ ﮐﯿﺴﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯾﺎﮞ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﺭﮐﮭﯽ ﺗھیں۔ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﻭﮦ ﺣﺮﺍﻡ ‘ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻭﮦ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ‘ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ تنگ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ‘
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ رﺍﺳﺘﮧ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﺣﻼﻝ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ آﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ
- اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ !*
- ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟*
(ﻣﺄﺧﻮﺫ: ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺤﺪﺍﻧﮧ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﻘﻮﺫ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ۔۔۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ) محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:16, 3 جون 2017 (م ع و)
ٹھیک ہے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:40, 3 جون 2017 (م ع و)
اسلامی قوانین کے تحفظ پر قومی سمینار
ترمیمترتیب مولانا محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ۔ لیکچرار اسلامیات ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ ہزارہ پاکستان اسلامی قوانین کے تحفظ پر قومی سیمینار مولانا زاہد الراشدی
۲۲ مئی کو اسلام آباد کے الفلاح ہال میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیر اہتمام تحفظ قوانین اسلامی کے موضوع پر قومی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت کونسل کے صدر صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر الوری نے کی اور اس سے جناب لیاقت بلوچ، حافظ عاکف سعید، علامہ ساجد نقوی، عبد الوحید شاہ، صاحبزادہ پیر عبد الرحیم نقشبندی، مولانا محمد امین شہیدی، جناب اسد اللہ بھٹو، علامہ عارف حسین واحدی اور دیگر سرکردہ زعماء نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں درج ذیل اعلامیہ منظور کیا گیا۔ وطن عزیز پاکستان کے آئین میں موجود اسلامی شقوں کے خلاف ایک منظم منصوبہ کے تحت کام کیا جا رہا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ اس کام میں بعض ملکی اداروں اور تنظیموں سے بھی سوئے استفادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مختلف اسلامی شقوں کو بے اثر کرنے کے لیے اب تک کئی ایک اقدامات کیے جا چکے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مشال خان کے بہیمانہ قتل کے بعد سے توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کرنے اور قرارداد مقاصد کو پاکستان کے آئین سے نکالنے کے حوالے سے ملکی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے کام کیا جا رہا ہے۔ ربوٰ کی حرمت پر پاکستان شریعت کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سپریم کورٹ آف پاکستان نے سٹے آرڈر جاری کیا ہوا ہے۔ اسی طرح مرحوم جناب قاضی حسین احمد کی جانب سے عریانی اور فحاشی کے کلچر کے سدباب کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن پر تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا جا سکا۔ تعلیمی نصاب سے اسلامی اسباق کو نہایت منظم انداز سے حذف کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں نہایت ضروری ہے کہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس پر یقین رکھنے والی قوتیں میدان عمل میں اتریں اور آئین پاکستان میں موجود اسلامی قوانین کی حفاظت کی ذمہ داری انجام دیں۔ آج کا اجلاس درج ذیل اعلامیہ کے تحت حکومت پاکستان اور ذمہ دار اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی کوششوں کا نوٹس لیں اور اسلامی قوانین پر آئین پاکستان کی روشنی میں عمل درآمد کروایا جائے۔
- ملی یکجہتی کونسل پاکستان، جو ملک کی بڑی دینی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے، مطالبہ کرتا ہے کہ آئینِ پاکستان میں موجود اسلامی شقوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق آئین میں پائے جانے والے سقم کو دور کیا جائے اور ان سفارشات کے نفاذ کے لیے فی الفور اقدام کیا جائے۔
- آئینِ پاکستان، جو ایک متفقہ دستاویز ہے، میں موجود کسی بھی اسلامی شق کے خلاف کی جانے والی سازش خواہ پارلیمنٹ میں ہو یا میڈیا پر یا کسی اور ادارے میں ہو، ملک کی دینی و مذہبی جماعتیں کسی صورت برداشت نہیں کریں گی۔ حکومتِ پاکستان ان اقدامات کا نوٹس لے اور متفقہ آئینِ پاکستان کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کرے۔
- حرمتِ دین و مذہب اور حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تمام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور اس سلسلے میں کسی اندرونی یا بیرونی سازش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ اجلاس قانون توہین رسالت کے خلاف ایوان بالا یا ایوانِ زیریں میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
- یہ اجلاس توہین رسالت کی آڑ میں کسی فرد یا گروہ کی جانب سے از خود اقدام کی بھی مذمت کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مقدمات، جن میں اس قانو نکے تحت ملزم سزا کے مستحق پائے ہیں، پر فوری عملدرآمد کیا جائے تاکہ آئندہ کسی بھی شخص کو اس قبیح فعل کی جرأت نہ ہو سکے اور نہ ہی کوئی عام شخص قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے۔
- توہینِ رسالت کے اقدام پر جن مجرموں کو عدالتیں فیصلے سنا چکی ہیں ان پر فوری عمل کیا جائے اور گستاخ بلاگرز، جو بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں، کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے ملکی قانون کے مطابق ان پر مقدمہ چلایا جائے۔
- حکومتِ وقت ربوٰ کی حرمت کے حوالے سے فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ربوٰ اور سود اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے مترادف ہے۔ حکومت پاکستان اور اس کے مقتدر ادارے اسلامی و نظریاتی ریاست میں اس جنگ کے فریق نہ بنیں اور سود کی لعنت سے وطن عزیز کو پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
- ملک میں پروان چڑھتی فحاشی اور عریانی، جو معاشروں کے لیے زہرِ قاتل ہوتی ہے، کے سد باب کے لیے فی الفور اقدام کیا جائے۔ پیمرا، جو ہر چھوٹی بڑی بات پر میڈیا چینلز کو نوٹس جاری کرتا ہے، اس اہم مسئلہ کا نوٹس لے اور فحاشی و عریانی کے رواج پاتے کلچر کو لگام ڈالے۔
- یہ اجلاس میڈیا یا چینلز سے بھی گزارش کرتا ہے کہ وہ معاشرے کی روایات، اسلامی تعلیمات کا پاس رکھتے ہوئے اپنی نشریات میں ایسی چیزوں سے اجتناب برتیں جو ہماری نسل کی بے راہ روی کا باعث بن سکتی ہیں۔
- حکومت کے ذمہ دار ادارے سوشل میڈیا کے ذریعے رواج پانے والی معاشرتی بے راہ روی اور توہین کے واقعات کا بھی نوٹس لیں۔ ایسی سائٹس، بلاگز اور سوشل میڈیا چینلز کو لگام ڈالی جائے جو ہماری نوجوان نسل کی تباہی میں ملوث ہیں اور اس کے پیچھے موجود عناصر کی سرکوبی کی جائے۔
- یہ اجلاس ملک کے میڈیا چینلز سے گزارش کرتا ہے کہ وہ رمضان المبارک کی نشریات میں ماہِ مقدس کی حرمت اور دینِ مبین کی تعلیمات کا پاس رکھتے ہوئے ایسے پروگراموں سے اجتناب برتیں جن میں رمضان المبارک کی روح کے خلاف مواد نشر کیا جاتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ میڈیا چینلز کے ذمہ داران رمضان المبارک کی حقیقی فیوض و برکات سے فیض یاب کرنے کے لیے اس ماہ کی حقیقی روح کے مطابق پروگرام نشر فرمائیں گے۔‘‘
اس موقع پر راقم الحروف نے اپنی گزارشات میں درج ذیل نکات پر زور دیا۔ اسلامی قوانین کے تحفظ کے مختلف دائرے اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔
- عالمی ماحول میں اسلامی قوانین و احکام آج کے بین الاقوامی نظام کے حوالہ سے اعتراضات کی زد میں ہیں اور ہمہ جہت فکری و تہذیبی یلغار جاری ہے۔
- پاکستان کی اسلامی شناخت اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف پروپیگنڈہ بلکہ بھرپور لابنگ کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر مہم جاری ہے۔
- ہم پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالہ سے پیش قدمی کی بجائے دفاع کی پوزیشن پر کھڑے ہیں اور وہ بھی صحیح طور پر نہیں ہو پا رہا۔
- جو قوانین اس وقت نافذ ہیں ان پر عملدرآمد کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں غیر مؤثر بنایا جا رہا ہے۔
- اسلامی احکام و قوانین اور اقدار و روایات کے بارے میں میڈیا اور تعلیم کے تمام ذرائع کو استعمال کر کے نئی نسل کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔
- ریاستی ادارے دستور کے اسلامی تقاضوں کا تحفظ کرنے کی بجائے سیکولر عناصر اور بین الاقوامی منفی مہم کو مسلسل سپورٹ کر رہے ہیں۔
- دینی حلقوں، بالخصوص علما، خطباء اور تعلیمی اداروں میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی معروضی صورت حال سے بے خبری بلکہ لاتعلقی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
ان حالات میں جہاں عوامی سطح پر بیداری کی تحریک ضروری ہے وہاں تہذیبی، علمی اور فکری کشمکش کا صحیح طور پر ادراک کر کے قوم کی مؤثر راہنمائی کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
مطبوعہ روزنامہ اسلام 25-05-2017 محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:21, 3 جون 2017 (م ع و)
چکیاہ کا گاؤں اور علاقہ
ترمیمچکیاہ کا گاؤں مانسہرہ شہر سے تقریبا 5 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے یہاں پر زیادہ تر لوگ سرکاری پیشہ سے وابستہ ہیں جسمیں خاص طور پر پوسٹ آفس۔ ایجوکیشن۔ اور کچھ دیگر شعبوں کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ مولانا محمد معروف صدیقی گاؤں چکیاہ مانسہرہ ہزارہ صوبہ خیبر پختونخوا محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:37, 3 جون 2017 (م ع و)
ٹھیک ہے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:39, 3 جون 2017 (م ع و)
ٹھیک ہے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:40, 3 جون 2017 (م ع و)
اسلامک اینڈ ریلیجیس سٹڈیز ہزارہ یونونیورسٹی
ترمیمسیرت النبی ﷺ کی عصری معنویت بروز سوموار بتاریخ 19 مارچ 2018 ء بوقت 11:00 بجے دن بمقام ملٹی پرپزہال ہزارہ یونیورسٹی مہمان خصوصی : بین الاقوامی شہرت یافتہ سیرت نگار پروفیسر ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی سابقہ صدر شعبہ علوم اسلامیہ علی گڑھ یونیورسٹی انڈیا۔--121.52.145.70 04:03، 27 مارچ 2018ء (م ع و) زیر انتظام : شعبہ اسلامک اینڈ ریلیجیس سٹڈیز ۔ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ
ہزارہ یونیورسٹی اسلامیات ڈیپارٹمنٹ میں سیمنار
ترمیممسلمانوں کے تمام مسائل کاحل سیرت النبی ﷺ کی اتباع میںہے
"پروفیسر ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی" (محمد معروف صدیقی) ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اینڈ ریلیجیس سٹڈیز کے زہر اہتمام مورخہ 19مارچ 2018 بروز سوموار کو "سیرت البنی کی عصری معنویت پر ایک سیمنار منعقد کیا گیا ۔ اس سیمنار میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین ہاشمی کے علاوہ مہمان خصوصی بین الاقوامی شہرت یافتہ ممتاز سیرت نگار سابق صدر شعبہ علوم اسلامیہ علی گڑھ یونیورسٹی انڈیا پروفیسر ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج پوری امت مسلمہ اختلاف کی شکار ہے مسلمانوں کو صبروتحمل ،برداشت،کو فروغ دینا ہوگا ۔ اس سیمنار میں ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض خان الازہری نے مہمان خصوصی کا تعارف کرواتے ہوئے مہمان کی 50 سے زائد مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتابوں اور 500 سے زائد ریسرچ پیپر کا بھی مختصر تعارف کروایا ،سیمنار کی صدارت اسلامک اینڈ ریلیجیس سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ازکیا ہاشمی صاحب نے کی ۔
محمد معروف لیکچرار ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ--121.52.145.70 04:05، 27 مارچ 2018ء (م ع و)
جامعہ اشاعت اسلام کالج دوراہا مانسہرہ ہزارہ پاکستان
ترمیمجامعہ اشاعت الاسلام جامعہ اشاعت الاسلام کالج دوراہا مانسہرہ کا قیام درحقیقت مدارس عربیہ کے اس تاریخی تسلسل کی ایک کڑی ہے جس کی ابتدا مسجد نبوی سے متصل صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت کے لیے اولین درسگاہصفہسے ہوئی ۔ امت مسلمہ کے عروج وزوال اور تاریخ اسلام کے نشیب وفراز کے باوجود مدارس عربیہ نے علوم نبوی کی اشاعت اور اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ میں اپنا کردار اداکیا چنانچہ جامعہ اشاعت اسلام صرف ایک مدرسے کا نام نہیں بلکہ یہ تو اس سوچ کا نام ہے جس کا اعلان مجدد عصر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھتے ہوئے ان الفاظ میں کیا تھا کہ "ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان پیدا کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں لیکن فکر ونظر اور طرز عمل کے اعتبار سے اسلامی ہوں " جامعہ اشاعت اسلام گزشتہ 30 سالوں سے ضلع مانسہرہ میں دین اسلام کی اشاعت کی شمع روشن کیے ہوئے ہے حاجی ایوب صاحب (مرحوم ) بھی ایک ایسے ہی انسان تھے جنہیں امتِ مسلمہ کی فکری بے راہ روی اور دین سے ناشناسائی کا شدت سے احساس تھا چنانچہ انہوں نے آئندہ نسلوں تک دین متین کی اصل شکل پہنچانے کیلئے 1985 میں اپنی ذاتی جمع پونجی سے 4کنال زمین خرید کر مدرسہ کے نام وقف کردی تھی،حاجی صاحب تعمیراتی کام کا بھی تجربہ رکھتے تھے اس لیے جامعہ کے لیے ابتدائی طور پر دوکمروں کی عمارت بھی حاجی صاحب نے بذاتِ خود تعمیر کی یوں حاجی صاحب کو جامعہ کی تاسیس اور سنگ بیناد رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ بعد ازاں حاجی صاحب کے فرزند مولانا نور محمد نے جامعہ کے پہلے مہتمم کی حثیت سے تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع کیا ،لیکن دو سال بعد مولانا نور محمد مذید دینی تعلیم کیلئے الازہر یونیورسٹی مصر چلے گئے ۔ اس کے بعد جامعہ کے اہتمام کی مکمل زمہ اری حاجی ایوب صاحب کے بڑے فرزند مولانا عبد القدوس صاحب نے سنبھالی اوردن رات صبح شام کی محنت کوشش جدوجہد سے انتہائی قلیل وقت مین جامعہ کو وادی پکھل اور مانسہرہ کے مستند دینی اداروں کی صف میں لاکھڑا کیا حاجی محمد ایوب صاحب مرحوم اس لحاظ سے خوش قسمت انسان تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دینی مدرسہ کیلئے انہیں نہ صرف مال خرچ کرنے کی توفیق دی اور انکی اولاد کوبھی اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت پر لگا دیا یقینا یہ بات انکے لیے دونوں جہاں میں کامیابی کی بہترین مثال ہے ۔ جامعہ اشاعت اسلام کا آغاز تو دو کمروں سے ہوا تھا مگر اب یہ 30 کمروں پر مشتمل دو منزل عمارت جدید سہولیات سے آراستہ جامع مسجد ،لائبریری ،دفاتر ،دارالحدیث ،دارالافتاء ،طلبہ کیلئے داراقامہ ،دارلضیوف پر مشتمل ہے ۔ جامعہ کے شعبہ جات میں شعبہ ابتدائیہ ،حفظ وتجوید،درس ِنظامی،تخصص فی الفقہ الاسلامی،،شعبہ افتاء شامل ہیں ۔ جامعہ کی سرپرستی میں وادی پکھل اور مانسہرہ شہر میں کئی دینی درسگائیں قائم ہیں جامعہ سے ہزاروں کی تعداد میں مستفید ہونے والے طلبہ اندرون و بیرون ملک اور مختلف دینی و عصری اداروں کے اندر خدمتِ دین میں مصروف ہیں جامعہ کے مدرسین اور دیگر ملازمین کی تعداد 30 کے قریب ہے جامعہ میں تین زبانوں عربی ۔ اردو ۔ اور علاقائی زبان ہندکومیں بھی تدریس ہوتی ہے ۔ مسلکی اعتبار سے جامعہ کا تعلق مسلک ِ دیوبندسے ہے جن کا مقصد اکابر علمائے دیوبند کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہر قسم کے تعصب سے پاک رہِ کر علومِ نبوی کی ترویج اور غلط معاشرتی رسوم ورواج کا خاتمہ اور توحید ِباری تعالٰی کے پرچار کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں اتحاد واتفاق کی فضاء کو قائم رکھتے ہوئے دینِ اسلام کی خدمت کرنا ہے ۔ --121.52.145.70 04:25، 27 مارچ 2018ء (م ع و)
وزیر اعظم ملاقات مولانا زاہد الراشدی کے قلم سے =محمد معروف صدیقی گاٶں چکیاہ ضلع و تحصیل مانسہرہ
ترمیم(نوائے حق) وزیر اعظم سے مجوزہ ملاقات۔ ایک ضروری وضاحت(مولانا زاہدالراشدی) وزیراعظم جناب عمران خان کے ساتھ مجوزہ ملاقات اور ہماری معذرت کے بارے میں مختلف تبصرے مسلسل سامنے آرہے ہیں، بہت سے دوست اس معذرت سے اتفاق کر رہے ہیں اور اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، جن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ دونوں طرف مخلصین ہیں جو پورے اخلاص کے ساتھ اپنی بات کہہ رہے ہیں اور دلائل و قرائن بھی کسی کے کمزور نہیں ہیں مگر چونکہ سوالات کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو صورتحال رونما ہوئی وہ قارئین کے سامنے رکھ دی جائے۔ تحریک انصاف کے راہنماو¿ں میں مولانا مفتی محمد سعید خان ہمارے محترم دوستوں میں سے ہیں، سنجیدہ اور صاحب فکر عالم دین ہیں، شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کے تلامذہ میں سے ہیں، اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے چھترپارک کے مقام پر ایک بڑی مسجد اور وسیع لائبریری کا نظام قائم کیے ہوئے ہیں جس کے ساتھ خانقاہی ماحول بھی ہے اور وہ اپنے ذوق کے مطابق دینی و علمی خدمات میں مصروف ہیں۔ ان کی کچھ باتوں سے بعض دوستوں کو اختلاف رہتا ہے، مجھے بھی ہو سکتا ہے مگر قارئین جانتے ہیں کہ میرے نزدیک کسی دوست اور بزرگ کی رائے، موقف، پالیسی، طرزعمل سے اختلاف کا مطلب بے اعتمادی نہیں ہوتا، بلکہ مفتی صاحب موصوف کی تحریک انصاف میں مو¿ثر موجودگی سے مجھے اطمینان رہتا ہے کہ ”نہی عن المنکر“ کا مورچہ بالکل خالی نہیں ہے۔ جمعرات کو مفتی محمد سعید خان نے فون پر بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کل جمعہ کے روز چار بجے کے لگ بھگ کچھ علمائے کرام سے ملنا چاہ رہے ہیں جن میں آپ کا نام بھی ہے، کیا آ سکیں گے؟ میں نے دوسرے علمائے کرام کا پوچھا تو انہوں نے مولانا اللہ وسایا کا نام بھی لیا۔ میں نے عرض کیا کہ آج شام لاہور میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی کانفرنس ہے، میں اس میں جا رہا ہوں، جہاں مولانا اللہ وسایا سے ملاقات ہوگی تو ان کے مشورے کے بعد اپنے آنے یا نہ آنے کے بارے میں کوئی حتمی بات بتا سکوں گا۔ مغرب کے وقت لاہور پہنچا تو اسلام آباد سے ایک صاحب کا فون آیا کہ وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب کے دفتر سے بول رہا ہوں، کل آپ کی ساڑھے تین بجے پی ٹی آئی ہیڈ کوارٹر میں میٹنگ ہے، آپ کس وقت پہنچ رہے ہیں؟ مجھے یہ انداز سمجھ نہیں آیا، اس لیے میں نے گول مول سی بات کر دی کہ میں جمعہ گوجرانوالہ میں پڑھاتا ہوں، اس لیے ساڑھے تین بجے اسلام آباد کی کسی میٹنگ میں شرکت میرے لیے قابل عمل نہیں ہوگی، انہوں نے بھی اسی طرح کی گول مول بات کی کہ آپ کوشش ضرور کریں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی کانفرنس میں جاتے ہوئے مجلس احرار اسلام کے دفتر کے سامنے سے گزر ہوا تو میں تھوڑی دیر کے لیے رک گیا کہ کوئی بزرگ موجود ہوں تو ان سے بھی مشورہ ہو جائے، اتفاق سے اس روز احرار کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس تھا اور سب حضرات موجود تھے۔ حضرت پیر جی سید عطاءالمہیمن شاہ بخاری سے مصافحہ، بیمار پرسی اور دعا کی درخواست کے بعد مولانا سید کفیل شاہ بخاری، حاجی عبد اللطیف چیمہ اور ڈاکٹر عمر فاروق سے مشاورت ہوئی اور پھر میں سید کفیل شاہ بخاری کے ہمراہ دفتر ختم نبوت حاضر ہوا اور مولانا اللہ وسایا کے ساتھ صورتحال پر مشورے کے بعد یہ طے ہوا کہ اس ملاقات سے سرِدست معذرت کر دی جائے جس کی اطلاع میں نے مولانا مفتی محمد سعید خان کو کر دی۔ انہوں نے فون پر اس کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا کہ ایک تو اس ملاقات کا کوئی ایجنڈا معلوم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر میاں عاطف کا مسئلہ چل رہا ہے اور اب دینی مدارس کی بات چھیڑ دی گئی ہے، اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اگر قادیانی مسئلے پر بات کرنی ہے تو جو فورم اس مسئلہ پر کام کر رہے ہیں ان سے بات کی جائے۔ ”عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت“ اس حوالہ سے سب سے بڑا فورم ہے اور ہمیشہ سے ہماری پالیسی یہ چلی آرہی ہے کہ عالمی مجلس پروگرام طے کرتی ہے اور ہم سب اس سے تعاون کرتے ہیں، اس لیے اس طرح کی گفتگو کے لیے وہی سب سے زیادہ موزوں فورم ہے، وہ جس کو ساتھ رکھنا چاہے ٹھیک ہے اور اس سے ہٹ کر ”متحدہ ختم نبوت رابطہ کمیٹی“ کا ایک فورم موجود ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے حضرات وقتاً فوقتاً جمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر ”تحریک لبیک یا رسول اللہ“ آج کل اس سلسلہ میں زیادہ متحرک ہے، جبکہ دینی مدارس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے وفاق اور ان کی مشترکہ تنظیم موجود ہے، اس حوالہ سے ان سے ہی بات ہونی چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ کسی مسئلے پر عملاً کام کرنے والے فورمز کو نظر انداز کر کے کچھ شخصیات کو الگ سے گفتگو کے لیے بلا لینا میرے خیال میں مناسب طریقہ نہیں ہے، اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے، اس لیے میں حاضری سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ ہے وہ روداد جو اس سلسلہ میں پیش آئی اور اس کے بعد کسی ٹی وی چینل میں بریکنگ نیوز کے طور پر چلنے والی خبر کے باعث مجھ سے بہت سے حضرات نے پوچھا تو میں نے یہ بات ان کو بتا دی۔ اس حوالہ سے ماضی کے بعض تجربات میں سے ایک دو کا حوالہ دینا چاہوں گا جس سے میری گزارش کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔ 1977ءکی ”تحریک نظام مصطفی“ کے دوران، جو 9سیاسی جماعتوں کے مشترکہ محاذ ”پاکستان قومی اتحاد“ نے چلائی تھی اور ملک کی بڑی پرجوش تحریکات میں شمار ہوتی ہے، جمعیت علمائے پاکستان کے چودھری محمد رفیق باجوہ پاکستان قومی اتحاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل تھے اور جماعت اسلامی کے پیر محمد اشرف قومی اتحاد پنجاب کے سیکرٹری جنرل تھے، ان دونوں حضرات نے وزیراعظم بھٹو مرحوم سے تحریکی مطالبات کے سلسلے میں الگ سے ملاقات کر لی جس پر انہیں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، وہ اپنے عہدوں سے سبکدوش کر دیے گئے اور ان کی جگہ مرکزی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد مرحوم کو اور صوبائی سیکرٹری جنرل مجھے منتخب کیا گیا۔ اسی طرح 1984ءکی تحریک ختم نبوت کے دوران جب صدر مملکت جنرل محمد ضیاءالحق مرحوم گوجرانوالہ کے دورے پر آئے تو ڈویژنل کل مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے ان سے اپنے مطالبات کے سلسلہ میں ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ ڈویژن کے صدر جے یو پی کے حاجی لطیف احمد چشتی مرحوم اور سیکرٹری جنرل بزرگ اہل حدیث راہنما مولانا حکیم عبد الرحمان آزاد تھے، جبکہ سیکرٹری اطلاعات راقم الحروف تھا۔ مجلس عمل کے وفد کو تو ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا گیا مگر صدر محمد ضیاءالحق مرحوم کے ساتھ شام کے کھانے میں مجھے ذاتی طور پر دعوت دے دی گئی اور متعلقہ حضرات کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ آپ ہی مجلس عمل کی طرف سے صدر صاحب سے جو بات کرنا چاہیں کر لیں۔ اس پر میں نے مجلس عمل کا اجلاس بلایا اور مشورہ کے بعد کھانے کی دعوت یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ مجلس عمل کے وفد کو اگر وقت دیا جائے تو اس کے ساتھ آو¿ں گا اور اگر وفد کے لیے وقت نہیں ہے تو میں اکیلا آنے کے لیے تیار نہیں ہوں، چنانچہ میں اس دعوت میں نہیں گیا، جو میرے گھر سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ جدوجہد اور تحریکوں کے کچھ اپنے تقاضے، اصول اور اخلاقیات ہوتے ہیں، جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مجھے وزیراعظم عمران خان صاحب سے ملاقات سے کوئی انکار نہیں ہے، وہ ہمارے محترم ہیں اور ہم نے ان کے اعلانات اور ایجنڈے کے حوالے سے ان سے کچھ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں لیکن ہر کام کا کوئی طریق کار ہوتا ہے اور جو کام بھی ہو ”پراپر چینل“ ہی اچھا لگتا ہے، امید ہے کہ احباب میرے موقف کو مناسب طور پر سمجھ گئے ہوں گے۔ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 05:21، 8 ستمبر 2018ء (م ع و)
ہزارہ یونیورسٹی اسلامیات ڈیپارٹمنٹ سے محمد معروف صدیقی نے ایم فل مقالے کا دفاع کیا
ترمیمھزارہ یونیورسٹی اسلامیات ڈیپارٹمنٹ کے ایم فل سکالر میں مزید اضافہ= الحمداللہ مالک کائنات کے خصوصی فضل وکرم والدین کی دعاؤں اور اساتذہ کی محنت وکوشش سے آج مورخہ 4جولائی بروز بدھ دن 12بجےبندہ عاجز محمد معروف صدیقی کا ایم فل کا فائنل سمینار اسلامیات ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین پروفیسرڈاکٹر سیدازکیا ہاشمی صاجب کی زیرصدارت ہزارہ یونیورسٹی میں منعقد ریسرچ و تحقیق پر بات اسلامیات ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور ریسرچ کوارڈینیٹر ڈاکٹرریاض خان الازہری صاحب نے کی. میرے تھیسس کاعنوان "مولاناسلیم اللہ خان اور تحریک تحفظ مدارس دینیہ تھا " میرے سپروائیزر سابقہ ڈین فیکلٹی آف آرٹس ہزارہ یونیورسٹی , چیئرمین اسلامک ڈیپارٹمنٹ پروفیسرڈاکٹر سیدازکیا ہاشمی صاحب تھے. یہ تھیسس فائنل رپورٹ کیلئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور مردان یونیورسٹی گیا.فائنل سمینار کے ممتحن عبدالولی خان یونیورسٹی اسلامیات ڈیپارٹمنٹ کےچیئرمین ڈاکٹر صالح الدین حقانی صاحب تھے سمینار میں ڈاکٹر قاری محمد فیاض صاحب کے علاوہ دیگر احباب و مہمانان گرامی نے بھی شرکت کی اس موقع پر میں اپنے والدین بہن بھائیوں. عزیزاقارب ورشتہ دار.معاونین اور اپنے تمام اساتذہ کیلئے دعاگوہ ہوں کہ اللہ تعالی ان تمام احباب کوجزائے خیرعطاء فرمائے یہ سب کچھ ان سب احباب کی دعاؤں محنت اورکوشش سے ممکن ہوامزید آگے کیلئے سب احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے منجانب# محمد معروف صدیقی لیکچرار اسلامیات ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:48، 21 ستمبر 2018ء (م ع و)
گورٹمنٹ ہائی سکول خوشحالہ مانسہرہ کے ہیڈ ماسٹر محمد مشتاق صاحب ریٹائر ہوگے
ترمیممیرے استاد مکرم ہر دلعزیز شخصیت ہیڈ ماسٹر ہائی سکول خوشحالہ جناب مشتاق صاحب اور ایس ایس ٹی جناب رفیق صاحب کے اعزاز میں آج ہائی سکول خوشحالہ میں الودائی تقریب منعقد کی گئی. یقینا ان دونوں شخصیات کی علمی میدان میں بڑی خدمات ہیں ان کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا. دعاگوہ ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو اورہمارے معاشرےکواپنے اساتذہ کی صحیح معنوں میں قدر کرنے کی توقیق عطاء فرمائے استاد کے مقام کے بارے میں سجاد علی شاکر لکھتے ہیں کہ انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر ماں اپنے جگر کا ٹکڑا استاد کے حوالے کر دیتی ہے اور استاد اس کے لئے پوری دنیا کو ایک درسگاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ باپ بچے کو زمین پر قدم قدم چلنا سکھاتا ہے ، استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنا سکھا تاہے۔ استاد کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے۔معلّمی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمۖ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے” امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ”کاش میں ایک معلم ہوتا’۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ” استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے”۔علامہ محمداقبال رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔”استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں۔ کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور انکو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگذاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگذاری ملک کے معلموں کی کارگذاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسکے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اسکی محنت ہے۔ معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے۔لیکن اس کے علم سے فائدہ و ہ نیک بخت اْٹھاتے ہیں۔جنکے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں۔کیونکہ :الادب شجر والعلم ثمر فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔”ادب ایک درخت ہے اور علم اسکا پھل۔اگر درخت ہی نہ ہوتو پھل کیسے لگے گا؟” محمد معروف صدیقی لیکچرار اسلامک سٹڈی ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ پاکستان محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:51، 21 ستمبر 2018ء (م ع و)
محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان
وادی ناران کا سفر
ترمیم@وادی ناران @ یقینا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی زمین کو جہاں قدرت نے دنیا کے سب سے بڑے برف پوش پہاڑوں سے نوازہ ہوا ہے وہیں بہترین موسم، ندیاں، نالے، آبشاریں، نہریں، دریا، سمندر، جھیلیں اور دلفریب وادیاں دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنےکی نہ صرف کشش رکھتی ہیں بلکہ یہ سلسلہ ملکی زر مبادلہ میں بے پناہ اضافے کا سبب اور لاکھوں افراد کے بہترین روزگار کا سبب بن سکتا ہے جس کے لئے حکومت کی توجہ اور نیت بہت ضروری ہے، جھیل سیف الملوک ہو، وادی کاغان، لالہ زار، شوگران، کاغان جھل کھنڈ بابو سر ٹاپ یا پہاڑوں کی بلند قامت چوٹیاں،وادی ناران میں دلکش جھیلیں، خوبصورت آبشاریں، قدرتی چشمے، سرسبز چراگاہیں، گلیشیئرز، دریا اور گھنے جنگلات سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ یہ وادی بالاکوٹ سے لے کر بابوسر ٹاپ تک 161 کلومیٹر طویل ہے۔ وادی کے درمیان میں لہراتا بل کھاتا دریائے کنہار اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔ یہاں سیر و تفریح کے لیے آنے کا بہترین موسم جون سے لے کر نومبر تک ہوتا ہے۔10 ہزار سے 17 ہزار فٹ کی بلندیوں پر موجود پہاڑوں میں موجود حسین وادیوں کے حسن کو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بدولت داد اور وہاں کے مقامی مکینوں کو روزگار نصیب ہوسکتا ہے ، جن کی جانب نہ ہی حکومت کی کوئی خاص توجہ رہی ہے اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاروں کو کوئی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ان وادیوں کے حسن کومزید دلفریب، دلکش بنانے کے لئے یہاں سرمایہ کاری کریں۔یہ بات حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے کہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد و رفت سے یہ وادیاں کیوں محروم ہیں، اور اس سوال کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا جانا چاہیئے کہ ہماری وہ کون سی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سی یہاں غیر ملکی سیاح آنے سے گھبراتے ہیں حالانکہ صرف سیاحت کو ہی فروغ دے کر ہم اپنے سالانہ قومی بجٹ سے زیادہ زر مبادلہ حاصل کرکے بیرونی قرضوں سے نجات پا سکتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں تو سیاحت کا زکر کیا امید ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس حوالے سے خاص توجہ دے کر وادی ناران میں سیاحت کے حوالے سے اہم کردار ادا کرے گی. محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:53، 21 ستمبر 2018ء (م ع و)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کیلئے غم .محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان
ترمیمﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺟﺐ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮮ ﺗﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺒﺮﺍﯾﻞ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﻮ ﻏﻤﺰﺩﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﮞ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﻞ ﺟﮩﺎﮞ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﮐﺮﮐﮧ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮑﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﻏﻢ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﮮ ﮨﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺑﺘﺎﻭ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﮯ ﮐﻞ ﺳﺎﺕ ﺩﺭﺟﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﺭﺟﮧ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﻓﻘﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﮭﭩﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻣﺸﺮﮎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺁﺗﺶ ﭘﺮﺳﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﯾﮩﻮﺩ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﺊ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﺁﭖ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻭ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺁﭘﮑﮯ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﮯ ﮔﮯ ﺟﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺟﺎﮮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺗﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺣﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﭘﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﺣﺠﺮﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﯿﮑﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺩﻥ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﺁﮮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ۔ ﺁﭖ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮮ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﻟﮩﺬﺍ ﺁﭖ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻞ ﺟﺎﮮ ﺁﭖ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻧﮯ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﺗﻨﮯ ﺍﻋﻈﯿﻢ ﺷﺤﺼﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﻣﻼ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﻧﮭﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﻧﮭﯽ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﻮﺭ ﻧﻈﺮ ﺑﯿﭩﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﯿﺠﻨﯽ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺁﭖ ﺣﺠﺮﮮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﺁﺋﯽ " ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺍﺳﻼﻡ ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ" ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎﺋﯿﻨﺎﺕ ﺍﭨﮭﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺁﭖ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺁﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ ﮨﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮮ ﮔﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﻏﻢ ﮐﮭﺎﮮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻧﮑﻮ ﻣﻌﺎ ﻑ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﻨﻢ ﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺁﭖ ﭘﮭﺮ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺭﺣﻢ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﻮ ﺟﮩﻨﻢ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺁﮔﯿﺎ " ﻭَﻟَﺴَﻮْﻑَ ﻳُﻌْﻄِﻴﻚَ ﺭَﺑُّﻚَ ﻓَﺘَﺮْﺿَﻰ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻏﻢ ﻧﮧ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﺟﺎﻭ ﮔﮯ ﺁﭖ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮐﮭﻞ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﺭﺍﺿﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺭﺍﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﻣﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭼﻼ ﺟﺎﮮ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺁﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺒﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺷﻔﯿﻖ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﺎ ؟ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:56، 20 نومبر 2018ء (م ع و)
مولانا محمد جمیل صاحب مرحوم امام وخطیب جامع مسجد رائیونڈ انتقال کرگے
ترمیم🌳🌳ایک ستارہ اور غروب ہوگیا🌳🌳
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے. زمین کی رونق چلی گئی ہے،اُفق پہ مہر مبین نہیں= تری جدائی سےمرنے والے،وہ کون ہےجو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے= کل نفس ذائقۃ الموت کے قاعدے کے تحت اس دار فانی میں جو بھی آیا ہے وہ اپنے وقت موعود پر اس دنیا سے رخصت ہوا ہے لیکن کچھ ایسے افراد بھی آئے ہیں جنہوں نے اپنے سے زیادہ دوسروں کیلئے زندہ رہنے کو ترجیح دی، جن کی شبانہ روز کی محنت سے روئے زمین پر بسنے والے افراد کیلئے ایک راہ ہموار ہوئی ہے، ایسی ہی نایاب و نادر شخصیتوں میں سے ایک تبلیغی جماعت کے امیر جناب حاجی عبدالوہاب صاحب مرحوم کی زندگی کے قریبی ساتھی کے بارے میں تمام احباب کو انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ اطلاع دیجاتی ہےکہ تبلیغی مرکز رائیونڈ کے امام وخطیب اور مدرسہ عربیہ رائیونڈ کے استاذالحدیث حضرت مولانا محمد جمیل صاحب قضاے الہی سے انتقال فرماگئےہیں (انا للہ وانا الیہ راجعون ) اللھم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ نمازجنازہ مورخہ 27 نومبر بروزمنگل بعد نماز ظہر رائیونڈ میں اداء کیا جائے گا محمد معروف صدیقی لیکچرار ہزارہ یونیورسٹی مانسیہرہ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 16:38، 26 نومبر 2018ء (م ع و)
بانیاں ڈنڈا مار ساکنہ چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان
ترمیممحمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان قوم بانیاں ڈنڈا مار ساکنہ چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 16:51، 1 دسمبر 2018ء (م ع و)
تعارف مولانا محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ
ترمیممولانا محمد معروف صدیقی 2/2/1981کو ضلع مانسہرہ تحصیل بالاکوٹ یوسی ہنگرائی کے گاؤں سیور میں ایک شریف معزز گھرانے میں پیدا ہوئے. آپ کے والد محترم کا نام غلام جیلانی تھا انہوں نے اپنی زیادہ عمر حیدرآباد ٹنڈوں محمد خان میں فوجی شوگر میں گزاری تاہم دوران نوکری انہیں فالج کا حملہ ہوا تو 25سال تک آپ بیمار رہے 2اپریل 2013 کو وفات پاگے. آپ گجر قوم میں (بانیاں ڈنڈا مار) سے تعلق رکھتے ہیں. محمد معروف صدیقی نےپرائمری کلاس تک گورٹمنٹ پرائمری سکول چکیاہ ڈھیری میں پانچویں جماعت تک حاصل کی پانچویں جماعت سے ہی اپنے اساتذہ کااعتماد حاصل کرلیا اور سکول کے پروگراموں اور دیگر معاملات میں بڑھ چڑھ حصہ لیتے .بچبن ہی سے سکول کی جب اسمبلی کرواتے تو انکے کاشن کی آواز پورےگاؤں میں پہنچتی تھی اسکے بعد آپ گورٹمنٹ ہائی سکول خوشحالہ چلے گے وہاں بھی ہائی سکول کے اساتذہ کے اعتماد ان پر قائم ہوگیا تو ہائی سکول خوشحالہ کے پروگراموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے. کلاس ہشتم میں پہلی دفعہ تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگانے کا موقع ملاتو تو زہن تبدیل ہوگیا اور کلاس نہم میں سکول کو چھوڑ کر مانسہرہ کے سب سے بڑے دینی ادارہ میں درس نظامی میں داخلہ لے لیا اور پھر ساتھ ہی تیاری کرکے میٹرک کا امتحان بھی پاس کیا. اس طرح جامعہ اشاعت اسلام کے اساتذہ کے بھی قریبی تعلق رہا آپ دو بھائی ہیں بڑے بھائی کانام حاجی محمد فاروق ہے.آپ کی شادی 24 اکتوبر 2005 کو آپ کے ماموں کی بیٹی سے ہوئی. آپکے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے جنکے نام یہ ہیں 1:عکاشہ معروف 2:ارسلان معروف 3:سدیس معروف 4:لبابہ معروف. آپکے نانا جان مولانا حمید اللہ اپنے وقت کے بڑے ممتاز جید عالم دین اور صوفی بزرگ تھے.آپکے نانا خاندان گھنیلہ کی بڑی شخصیات میاں برادری کےاستاد تھے جن میں خاص کر میاں ولی الرحمان مرحوم کے والد میاں محمد یعقوب اور ایک اور مشہور شخصیت میاں ابراہیم شامل تھے آپکے ماموں مولانا حبیب الرحمان مرحوم بھی جو آپکے سسر بھی تھے انتہائی معزز اور ممتاز عالم دین تھے.آپکے اساتذہ میں حضرت مولانا عبدالقدوس صاحب مہتمم جامعہ اشاعت اسلام. شیخ الحدیث حضرت مولانا خلیل الرحمان نعمانی صاحب.مولانا فخرالاسلام صاحب. مولانا معتبر صاحب. مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب. مولانا فضل الہادی صاحب. مولانا خورشید صاحب. مولانا رستم صاحب. شامل ہیں. آپ نے 2008 میں جامعہ اشاعت اسلام کے دورہ حدیث اور درس نظامی کو مکمل کیا آپ نے ایف اے ایبٹ آباد بورڈ سے بی اے آزاد جموں کشمیر یونیورسٹی سے اہم اے ہزارہ یونیورسٹی سے اور اہم فل بھی ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے کیا آپ کے اہم فل کا ٹاپک (مولانا سلیم اللہ خان اور تحریک تحفظ مدارس دینیہ)تھا آپکے اہم کے سپر وائیزر ڈین فیکلٹی آف آرٹس چئیرمین اسلامک اینڈ ریلیجس سٹڈیز ہزارہ یونیورسٹی پروفیسرڈاکٹر سیدازکیا ہاشمی صاحب تھے آپ نے2008ہی میں اباسین سکول اینڈکالج سےپڑھانےکاآغاز کیاکچھ ماہ یہاں پڑھانے کے بعد جناح ڈگری کالج مانسہرہ میں ایز سے لیکچرار اسلامیات سات سال تک خدمات سرانجام دیتے رہے. یکم جولائی 2014 کو ہزارہ یونیورسٹی میں لیکچرار اسلامیات BPS18میں اہڈہاک بیس پر تعینات ہوگے آجکل بھی آپ ہزارہ یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں. لکھنےپڑھنےکاشوق آپکو ابتدا ہئ سے تھا 2004 سے آپ نے مختلف اخبارات میں لکھنا شروع کیا. بعد میں آپ مختلف موضوعات پر مختلف اخبارات میں (کچھ میرے قلم سے) کالم لکھتے رہے آپکے کالم کو عام عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہے.
(تحریر محمد حسن بانیاں مانسہرہ)
کچھ میرے قلم سے (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:51، 12 دسمبر 2018ء (م ع و)
محمد معروف صدیقی لیکچرار اسلامیات ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ
ترمیممحمد معروف صدیقی آف گاؤں چکیاہ ضلع و تحصیل مانسہرہ ہزارہ پاکستان🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷 کچھ میرے قلم سے (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 17:32، 18 دسمبر 2018ء (م ع و)
چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان :محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان
ترمیمچکیاہ کا گاؤں ضلع وتحصیل مانسہرہ شیر سے پانچ کلو میٹر اور بائی پاس سے ڈھائی کلومیٹرکے فاصلے پر داتہ خوشحالہ گاؤں اور سفیدہ گاؤں کے درمیان میں واقع ہے. یہ گاؤں یونین کونسل داتہ میں آتا ہے جبکہ ویلج کونسل چکیاہ میں خوشحالہ گاؤں بھی شامل ہے. چکیاہ گاؤں میں ملک اشتیاق اعوان نائب ناظم رہ چکے ہیں ملک اشتیاق اعوان پیپلز پارٹی کےسابق صوبائی وزیر صوبہ سندھ ملک خواج محمد اعوان کے بیٹے ہیں. نویداحمد اعوان بھی یوسی داتہ وچکیاہ سے نائب ناظم رہ چکےہیں جو انتہائی مخلص نڈر نوجوان سمجھ دار اور حکمت والے سیاسی نوجوان سمجھے جاتے ہیں .جہنوں نے اپنے دور سیاست میں یونین کے اندر بے مثال خدمات سرانجام دیں ہیں. آجکل ویلج کونسل چکیاہ کے ناظم پرویز اعوان ہیں. چکیاہ میں درج زیل بستیاں شامل ہیں. میرا. دوراہا. جبڑ. موہری. ملکانہ. بارہ مولہ. منوں. میدان. پینگل. دکھن. پنجو. سوکہ. شامل ہیں. چکیاہ گاؤں میں تین پرائیویٹ سکول چل رہے ہیں اور ایک گورٹمنٹ گرلز بچیوں کا مڈل سکول بھی ہے. چکیاہ میں باقی علاقوں کی نبست گاڑیوں کی سہولیات تقریباً ہروقت میسر رہتی ہے. چکیاہ کی تقریباً تمام بستیوں میں سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور سابق وزیر مملکت سردار شاہجہان یوسف کے خصوصی فنڈ سے سوئی گیس کا اور بجلی کا کام مکمل ہوا ہے. چکیاہ میں تین جامع مساجد ہیں مکی مسجد میرا. مدنی مسجد دوراہا. مرکزی جامع مسجد چکیاہ شہر. چکیاہ میں پینے کے پانی کی سکیم محکمہ پبلک ہیلتھ کی ہے جس کا ابتدائی فنڈ سابق صوبائی وزیر شجاع سالم عرف شازی خان نےدیا جبکہ اسکی مزید وسعت سابق ممبر صوبائی اسمبلی سردار ظہور احمد کے فنڈ سے مکمل ہوئی. چکیاہ میں زیادہ ترلوگ . محکمہ تعلیم.پاکستان پوسٹ آفس .واپڈا اوردیگر مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں. چکیاہ گاؤں کے لوگ زیادہ تر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں. اور مختلف قبائل جس میں اعوان. گجر. عباسی. ڈہونڈ. گولڑہ. تنولی.مغل. اور کچھ دیگر قومیں بھی آباد ہیں.
کچھ میرے قلم سے (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 05:32، 20 دسمبر 2018ء (م ع و)
سردار محمد یوسف مانسہرہ ہزارہ پاکستان (محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ)
ترمیم(محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ) میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خدی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر. اگر چہ اس جہاں کو گلشن نہ بناسکے ہم مگر کچھ کانٹے ہٹادییے جدہر سے گزرے ہم .
سردار محمد یوسف کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ان کی پہچان ان کی عوامی خدمت اور عوامی سوچ ہے۔جنان سردار محمد یوسف کی پیدائش یکم جون 1952 کو ضلع مانسہرہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں جالگلی میں ہوئی۔آپ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے ۔جناب سردار صاحب نےاپنی ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی اور میڑک گورنمنٹ ہائی سکول بٹل سے پاس کی۔1971 میں گورنمنٹ کالج مانسہرہ سے ایف ۔اے پاس کیا۔ کریجویشن کے لیے گورنمنٹ ڈگری کالج ایبٹ آباد میں داخلہ لیا، لیکن اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیےستمبر 1975 کو انگلینڈچلے گئےجہاں سے سویڈن کالج میں ایم بی اے میں داخلہ لیا ۔کالج کے زمانے میں ہی انگلینڈ میں پاکستان مسلم ایسوسی ایشن کے پہلے سال نائب صدر جبکہ دوسرے سال متفقہ طور پر صدر بن گئے،سویڈن میں سب سے پہلے مسجد کمیٹی بنائی اور پھر نماز کی ادائیگی کے لیے مکان خریدا جس میں باجماعت نماز اداکی جاتی رہی،سردار صاحب 1979 میں پاکستان واپس آئے،ان دنوں پاکستان میں ضیاءالحق کی حکومت تھی ملک میں مارشل لا تھا ،لوکل کونسل کے انتخاب کا اعلان ہوا تو علاقہ کے بڑوں بزگوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا،جس کے بعد آپ نے عوامی خدمت کا سلسلہ شروع کیا وہ آج تک جاری و ساری ہے۔ایک بات یاد رکھنی ہے جب سردار محمد یوسف نے سیاست میں عملی طور پر شامل ہوئے اس وقت مانسہرہ کی سیاست میں خود ساختہ جاگیرداروں اور وڈیروں نے اجاداری قائم کی ہوئی تھی، ان میں سواتی خان اور سید خاندان پیش پیش تھے ،ان کا مقابلہ کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ، مانسہرہ میں سید اور خان خود کو مطلق العنان سمجھتے تھے،سرکاری مشینری کو زاتی جاگیر سمجھا جاتا تھا،حکومت کی طرف سے جو عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے دیے جاتے وہ یا تو اپنی مفاد میں استعمال کرتے یا پھر کاغذئ خانہ پوری کر دی جاتی تھی، ان حالات میں ان کا مقابلہ کرنے کےلیے میاں ولی الرحمان صاحب اکیلا کیا کر سکتا تھا ،میاں ولی الرحمٰن کو معاشرے کی پسے ہوئے طبقات کی راہنمائی کے لیے ایک پڑھے لکھے نوجوان کی اشد ضرورت تھی جو ان کو سردار محمد یوسف کی شکل میں مل گیا۔ جی بات ہو رہی تھی لوکل کونسل1979 کے الیکشن کی تو پہلی مرتبہ سردار یوسف جیت کر ضلع کونسل کے ممبر بن گئے ۔جب سیاسی میدان میں گئے تو آپ کو اندازہ ہو گیا کہ علاقہ کی غیوراور معصوم عوام کےساتھ ان جاگیرداروں اور وڈیروں نے کیا نہیں کیا۔ سردار محمد یوسف 1984 تک علاقے کے متوسط طبقے کے لیے ایک مسیح بن گئے ۔ سردار محمد یوسف کی بڑتی ہوئی عوامی مقبولیت کو دیکھ کر جاگیرداروں اور وڈیروں نے سردار صاحب کو آپنے لیے خطرہ محسوس کیا۔سردار محمد یوسف کا راستہ روکنےکےلیے انتظامیہ سے مل کر 1984 دوسرے لوکل کونسل کے الیکش سے پلے آپ کا حلقہ کاٹ کر بٹگرام کے ساتھ لگا دیاگیا، لیکن اس بار سردار محمد یوسف نے بلکوٹ کے بجائے بٹل سے الیکشن میں حصہ لیا اور جیت کر ایک بار پھر ضلع کونسل کے ممبر بن گئے۔جب 1985 میں جنرل ضیاءالحق کےدور میں جنرل الیکشن کا اعلان ہوا تو آپ نے علاقے کی عوام کے پرزور مطابےپر لوکل کونسل سے مستعفی ہوکر صوبائی اسمبلی کے حلقے (موجودہ حلقہ پی کے34) سے بھاری اکثریت سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ سردار صاحب 1989 تک وزیراعلیٰ کے ایڈوائزر بھی رہے،اس مختصر مدت میں سردار یوسف نے علاقے اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بہت کام کیا،1989 کے ضمنی انتخاب میں آپ نے حصہ لیا لیکن ایوب خان کے مقابلے میں کامیابی نہ ملی۔1990 کے جنرل الیکشن میں آپ نے این اے 20 اور پی کے 56 پر آزاد حثیت سے حصہ لیکر دونوں سیٹوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے،باہمی مشاورت سے آپ نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی،1993اور 1997 کے الیکشن میں آپ پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا اوردونوں مرتبہ جیت آپ کا مقدر بنی، 1999 میں جنرل مشرف کے مارشل لا نافذ کر کے پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔جنرل مشرف کے دور 2002 کے الیکشن میں آپ کے صاحبزادے جناب سردار شاہ جہان نے آپ کی جگہ حصہ لیا اور مدمقابل علاقے کے سب سے بڑے جاگیر دار اور پاکستان آرمی کے جنرل ریٹائر صلاح الدین ترمذی کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے،2005 میں جناب سردار صاحب نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور ضلع مانسہرہ کے ناظم منتخب ہوگئے۔2005 میں ضلع میں ایک قیامت خیز زلزلے نے ضلع کےطول و عرض میں تباہی مچادی ،اس مشکل ترین دور میں آپ اور آپ کے بیٹے نے انتہاہی سخت حالات میں عوام کے دکھوں میں برابر کے شریک رہے،اور متاثرین زلزلہ کے بحالی تک چین سے نہیں بیٹھے،آپ چار سال تک ضلع کے ناظم رہے،2007 کے جنرل الیکشن بھی آپ کے بیٹے سردار شاہ جہان نے لڑا اور ایک بار پھر جنرل ترمذی کو جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ سے مسلم لیگ (ن) بن چکی تھی کے امیدوار کو شکست دے کر ممبر قومی اسمبلی اور بعد میں کولیشن گورنمنٹ میں وزیر مملکت بنے،2013 کے الیکشن میں ایک بار پھر آپ خود مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اؑعظم سواتی کو شکست دے کر ممبر قومی اسمبلی اور بعد میں وفاقی کابینہ میں وزیر برائے مذہبی امور کی خدمات دے رہے ہیں۔،جب سے وزارت مذہبی امور کا قلمدان آپ کے ہاتھ میں آیا ہے گزشتہ پانچ سال سے آپ نے وزارت مذہبی امور کو ایسے چلایا کہ اس وقت پاکستان کی وزارت حج دنیا کے ان چار ممالک میں شامل ہے جو حجاج کرام کو بہترین سہولیات فراہم کرتے ہیں. (محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان) محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 17:23، 21 اکتوبر 2019ء (م ع و)
سردار محمد یوسف مانسہرہ ہزارہ. محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ
ترمیم- مانسہرہ_کا_عظیم سپوت قاہد حریت" سردار محمد یوسف
یوں تو پاکستان 14اگست1947ء کو آزاد ہوگیا تھا مگر اس پاکستان کا ایک ٹکڑا ایسا بھی تھا جس کے باشندے ہندؤں سکھوں اور انگریز سامراج سے تو آزادی حاصل کرچکے تھے مگر ایک اور غلامی کی دَل دَل میں پھنس چکے تھے ہر طرف اندھیرا تھا ظلم وستم کا ڈیرا تھا دور دور تک مکمل جہالت تھی غریب کسان مزدور ہاری اور مزارعین کی کوئی وقعت نہ تھی جاگیردار طبقے کا خوب تر عروج تھا ہر جانب انکا طوطی بولتا تھا اور راج کرتے پھرتے تھے ریاست کے اندر انکی ریاست تھی انکا اپنا ہی قانون تھا اپنی ہی عدالت لگتی تھی اپنا سزا وجزا کا نظام قائم تھا انکی اجازت کے بغیر ایک شاخ کا پتہ تک نہیں ہِل سکتاتھا غریب مزدور کسان ہاری اور مزارعین کا بچہ اچھا سفید رنگ کا لباس زیب تن نہیں کرسکتا تھا سر میں کنگا تک نہیں کرسکتا تھا ایک زور دار آواز لگتی تھی اور پورا گاؤں تھر تھرکانپ اٹھتا تھا "آج فلاں جاگیردار نے بگار کیلئے بلایاہے" اکثر نئی نسل تو اب اس لفظ سے بھی ناواقف ہے میں زرا اس لفظ کا مفہوم اور معنی بھی بتاتا چلوں کہ یہ بَگار تھی کیا چیز؟ پگار اور بگار دو الگ الفاظ ہیں ("پگار"سندھی زبان کا لفظ ہے جسے کے معنی اجرت یا تنخواہ کے ہیں اور "بَگار" ہندکو اور گوجری زبان کا مشترکہ لفظ ہے جسکے معنی ہیں زبردستی کام کاج جو غلامانہ طرز پر زبردستی کروایا جاتا ہو اور اسکے عوض کوئی مزدوری تنخواہ یا اجرت نا ہو) اس بگار میں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اسکے گھر پہنچانا بھینسوں کا چارا کاٹ کر لانا گھوبر(مال مویشیوں کا فضلہ) ہاتھوں سے بھر کر کھیتوں میں پھینکنا مال مویشیوں کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کیساتھ ساتھ اس جاگیردار کو کندھے پر اٹھا کر کھیتوں کی سیر کروانا اور پھر واپس گھر لاکر اسی طرح کندھے کی سواری کی زریعے چھوڑنا بھی شامل تھا انکا رعب و دبدبہ تھا کہ کسی کی کیا مجال جو انکے سامنے بات تک کرسکے یا کوئی کسی بات کی تردید وانکار کر سکے ختیٰ کہ ان جاگیرداروں کے بچے بھی اسی زہنیت کے حامل تھے اکثر اسکول میں یہ جاگیرداروں کے اوباش اور سر پھرے بچے ان مزارعین کے بچوں پر ظالمانہ چڑھائی کردیتے ان پر بھی اپنے آباء واجداد کی طرح ظلم ڈھاتے اور ستم کرتے تعلیمی میدان میں انھیں ہراساں کیا جاتا زہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا بازار میں کوئی شخص بن تن کے چل نہیں سکتا تھا سفید لباس پہننا جرم تھا (سوائے منیجر محمد ایوب مرحوم کے وہ بھی اس وجہ سے کیوں کہ وہ کسی کا مزارع نہیں تھا وہ ان جاگیرداروں سے زہانت اور تعلیم میں کئی گنا آگے تھا حتیٰ کہ اسکی شخصیت کا وضح قطح میں کوئی ثانی موجود نہیں تھا ایک بڑے رئیس باپ بادشاہ بابا کا بیٹا تھا جو اس زمانے میں ممبئ کی ایک اعلیٰ کمپنی میں افسر تھا اور خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا)باقی یہ جاگیردار طبقہ سمجھتا تھا اچھا اور سفید لباس صرف انکا حق ہے غریب مزارعین پھٹے پرانے کپڑے ہی پہننے کا حقدار ہے سفید لباس اعلیٰ زرق و برق صرف ہمارے لئے ہے ترقی خوشحالی تعلیم صحت پر صرف ہمارا حق ہے مزارعین سدا ہمارے زیرِ سائے رہیں گے ہماری غلامی کریں گے ہم سدا ان پر یہوں ہی راج کریں گے۔ مگر 73ء کے آئین کے بعد ظلم وستم کی سرحدوں پر لگی باڑ اب ٹوٹنے لگی تھی ایسے میں اس ظلم و ستم کی چکی میں پسے ہوئے مزارعین طبقے کو اللّٰہ نے ایک جزبہ عطا کیا اور اس مظلوم طبقے کے نوجوانوں بچوں اور بوڑھوں کی رگوں میں آزادی کا لہو گردش کرنے لگا ایک طویل جدوجہد اور بزرگوں کی مشاورت کے بعد 80ء کی دہائی میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان سردار محمد یوسف ( جس نے 1952ءکو ضلع مانسہرہ کے شہر بٹل کے نواحئ گاؤں جالگی میں مرحوم شاہ زمان صاحب کے گھر آنکھ کھولی)کو اس وقت اپنا سیاسی قائد منتخب کرتے ہوئے ضلع کونسل کے عام انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا خاص کر ایسے نوجوان کیلئے جو زیرِ تعلیم ہو اور انگلستان جیسے ملک کی آرام دہ زندگی گزار کر آیا ہو اور یہ بھی سخت مرحلہ تھا کہ اسے وقت کے ظالموں جاگیرداروں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر مقابلے کیلئے میدان میں اتارا جارہا ہو وہ بھی بغیر کسی سیاسی تجربہ کے بہرحال اس نوجوان کو انگلستان(لندن)کو خیر آباد کہنا پڑا تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی مال و دولت اونچے محلات عیش وعشرت سمیت سب کچھ اپنی عوام پر قربان کرنا پڑا۔ بہرکیفِ قربانی کا ثمر ملنے کی ابتداء شروع ہوگئی کامیابی کی کنجی ہتھے چڑھ گئی اور ضلع کونسل کی نشت پر ہیوی ویٹ جاگیردار کو پہلے ہی مقابلے میں شکستِ فاش دیکر بابِ ایوان سے اندر جا داخل ہوئے بس پھر کیا تھا مزدور کسان غریب مزارعین کی کایا ہی پلٹ گئی بُرے دن ڈھلنے لگے ہر مقابلے کے بعد بڑے بڑے برج الٹنے لگے ظلم کا سورج ڈھوبنے لگا انقلاب کا آفتاب آسمان پر موسمِ بہار کی صبح کی مانند چمکنے لگا گویا یہ نوجوان سردار محمد یوسف خاموش لبوں کیساتھ اپنی عوام کو یہ پیغام دے رہاتھا ! "دکھ کی کالی لمبی راتیں جبر کی دھوپ پہ وار نا دینا ظلم کا سورج ڈھل کے رہے گا لوگو بس ہمت ہار نا دینا" بس پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے غریب آہستہ آہستہ خود بخود سر اٹھاتے ہوئے طاقتور ہونے لگا جاگیرداروں کا زور ٹوٹنے لگا ظلم کے ستون گرنے لگے خوف کے بادل ہٹنے لگے غنڈہ گردی کا دور دوراں ختم ہونے لگا بدمعاشی کا جنازہ دھوم دھام سے نکلنے لگا کیوں کہ ان مظلوموں کو جو سردار محمد یوسف کی شکل میں مسیحا جو مل گیا تھا عوام کے اتحاد واتفاق کا پنجہ اتنا مظبوط ہوا کہ اسکے سامنے بڑے بڑے بُت گر پڑے جاگیردار طبقہ ریت کی دیوار ثابت ہوا سردار محمد یوسف آگے بڑھتا گیا اسکی کامیابی کا سورج آسمانوں پر چڑھتا گیا اسکی سیاست کا سکّہ مانسہرہ کی سرزمین پر تیزی سے چلتا گیا اور پھر طویل الّمدت کیلئےرائج الوقت ہوگیا جاگیردار بس صرف اسکو دیکھ کر آہیں بھرتا گیا اور اندر ہی اندر گلتا سڑتا گیا کامیابی کیلئے اپنے منہ میں صرف پانی ہی بھرتا گیااور سردار محمد یوسف اپنی محبوب ماں کی دعاؤں کے سہارے چلتا گیا عوام کی بھر پورقوت وطاقت سے بڑھتا گیاMPA.MNA وزیر اعلیٰ کا مشیر اور پھر اس وطنِ عزیز کا سب سے بڑا اہم وزیر بنتا گیا کامیابی کی ایسی دوڑ لگائی کہ قدموں نے رکنے کا نام نا لیا قدموں کے چلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اسکا مخالف اس کے قدموں کی اڑنے ابھرنے والی خاک میں ہی کہیں دور گم ہوگیا۔ سردار محمد یوسف مانسہرہ کی سیاست کا بے تاج بادشاہ بن گیا اور عوام نے پھر 2009ءمیں تحریکِ صوبہ ہزارہ کی قیادت کرنے پر "قائدِ حریت"کے خطاب سے بھی نوازا۔
قاسم شاہ مفتی خان مزمل شاہ اعظم خان سواتی سمیت دیگر کئی درجن بھر ہیوی ویٹ سیاستدان اس "سیاسی گرو" نے ہنستے مسکراتے ہوئے ہی قصہِ پارینہ بنادئے اور پھر وقت نے ایسی کروٹ بھی بدلی کہ ان سب مغرور سیاستدانوں کو اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کی خاطر اس عظیم سیاسی لیڈر سردار محمد یوسف کی مریدی بھی کرنا پڑی اور خانقاہِ ودربارِ عالیہ یوسفیہ شریف کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑا مگر پیرو مرشد نے ٹھیک سے فیضاب نا کیا کیوں کہ مرشدِ پاک بخوبی جانتے تھے میرے مرید ابن الوقت ہیں انکے دلوں میں فطور ہے یہ اپنے مرشدِ پاک سے مخلص نہیں بلکہ یہ گدی کے خواہش مند ہیں وقت کی گھڑی کی سویاں گھومتی گئیں اور مریدین دربارِ عالیہ یوسفیہ شریف سے باغی ہوتے گئے علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے آمنے سامنے آتے گئے مقابلے کرتے گئے قصہ پارینہ بنتے گئے اور گمنام وادیوں میں چلتے گئے اس حد تک کہ راقم الحرف اس بات کا چشم دید گواہ ہیکہ گزشتہ سال ایک بڑی سیاسی شخصیت کے جنازہ کے موقع پر لوگ سر گوشیاں کرتے نظر آئے کہ یہ ہر شخص سے زبردستی مصافحہ کرنے والے صاحب آخر ہیں کون؟
مجبوراً ساتھ موجود ایک صاحب کوپھر ایک ایک شخص کو تعارف کروانا پڑا کہ یہ "سید قاسم شاہ صاحب"ہیں جو کبھی وفاقی وزیر وزیراعظم کے مشیر دیگر کٸی عہدوں پر براجمان رہے مگر آج نام تک کوٸی نہیں جانتا۔
سردار محمد یوسف اب تک ناقابلِ شکست ہیں تمام برادریوں میں تعصب ختم کرکے ایک کلمہِ طیبہ کی بنیاد پر اکٹھا کرنا انکا عظیم کارنامہ ہے اس وقت مانسہرہ میں تمام براردیوں میں اتفاق اتحاد پیار و محبت کا بلا شک و شبعہ سہرا سردار محمد یوسف کے سر سجتا ہے۔
دور دراز دیہی پہاڑی علاقوں تک سٹرکیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں تک بجلی پہنچانا کئی علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کرنے پانی کی سہولت فراہم کرنےہزارہ موٹروے میں مانسہرہ شنکیاری بٹل بٹگرام تھاکوٹ وغیرہ روٹ کو شامل کروانا مانسہرہ سے بیدادی تک سوئی گیس پہنچانا ہزارہ کی عظیم تعلیمی درسگاہ ہزارہ یونیورسٹی کی تعمیر و حالیہ توسیع انکے عظیم میگا پراجیکٹس کی عکاسی کرتے ہیں۔مانسہرہ میں سردار محمد یوسف ایک ناقابلِ تسخیر قوت ہے اسے مانسہرہ کے "پدھان منتری" یعنی مانسہرہ کے وزیراعظم کہا جائے تو غلط نا ہوگا آج 30سال بعد بھی عوام کے دلوں پر اس شخص کا راج ہے آج بھی مانسہرہ کی سیاسی ہواؤں کا رخ اسکے اشاروں کا محتاج ہے جب چاہئے جس جانب چاہئے موڑ دے عوام اسکو اپنا مربی و محسن سمجھتے ہیں لوگ دیوانگی کی حد تک لگاؤ اور جنون کی حد تک عشق رکھتے ہیں حتیٰ کے لوگ سردار ممحمد یوسف کو اپنی عزت اور غیرت سمجھتے ہیں اور اس لیڈر پر مر مٹنے کو تیار ہیں کئی اب تک اپنی جانوں کا نظرانہ بھی پیش کرچکے ہیں۔
باوجود تمام تر مشکلات اور رکاٹوں کے مانسہرہ سے مسلم لیگ ن کی 3صوبائی اور ایک قومی کی سیٹیں نکالنا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے واضح رہے مانسہرہ میں ضلعی حکومت بھی مسلم لیگ ن کی ہی ہے اور اسکا کریڈٹ جہاں بہادر عوام کو جاتا ہے وہیں اس عظیم لیڈر سردار محمد یوسف کو بھی جاتاہے کیوں کہ سب کچھ اللّٰہ تعالیٰ کی زات کے بعد اسی کی ہی مرہونِ منت ہے
آج کل اس کا شمار ایٹمی پاکستان کے خالق میاں محمد نواز شریف کے دیرینہ دوستوں اور سینئر پارٹی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آخر میں میری دعا ہے: خدا کرے اتنا عروج ملے تجھے زمانے زمانےمیں کہ آسمان بھی تیری رفعتوں پہ ناز کرے۔ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 15:43، 28 دسمبر 2019ء (م ع و)
مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق بالاکوٹی صاحب
ترمیم(محمدشفیق سےڈاکٹرمحمد شفیق تک ) -تحریرمحمدمعروف صدیقی ) یہ انسانی کمالات ابن آدم کی انتھک محنت کا نتیجہ ہیں، شعورکی آنکھ کھولنے کے بعد ریسرچ اور تحقیق کے نئےانکشاف سے بھر پور انسان کی ایک پوری قابل رشک تاریخ ھے یہ انسان کے ہمت، عزم، حوصلے اور ارادے کی عظیم داستان ہے، اس داستان کے اصل ہیرو وہ جوہرِ قابل ہیں جنھوں نے تحقیق و انکشافات کے میدان میں اپنی زندگیاں کھپادیں، غوروفکر کے میدان میں دن رات ایک کردیئے وقت کی قدرکی اور قیمتی وقت کا خیال اور فضول کاموں کو گناہ سمجھا، دنیاکو گل وگلزار بنایا اور خود گوہر نایاب قرار پائے، بالخصوص مسلم مفکرین کی مختلف موضوعات پر ریسرچ کرنے والے دانشوروں اور مفکرین کی ایک طویل فہرست ہے۔ جہنوں نے اس مادر ارض پر اﷲ کا خلیفہ ہونے کا بجا طور پر حق ادا کیا، کائنات کو مسخرکرنے کی عظیم جُِہد مسلسل کی اور اپنی ایجادات کے ثمرات سے دنیا کو مستفید ہونے کا شرف بخشا،ان عظیم انسانوں کی زندگیاں ہمیشہ عام انسانوں سے مختلف رہیں، ان کی سوچیں دنیا کی سوچوں سے قطعی ہٹ کر تھیں ان کے انداز غوروفکر کا میدان اور رفتار زماں و مکاں کی قید سے آزاد تھا، ان کی عادتیں اور ارادے بھی دوسرے عام انسانوں کی نسبت الگ منفرد وممتاز تھے۔ راقم انھی سوچوں میں غرق ان عظیم شخصیات کی فہرست میں شامل ہونے والے ایک ایسے نوجوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جسکی محنت رنگ لائی اور حدیث پر کام کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری لیکر ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوگیا. جس کا نام والدین نے محمد شفیق رکھاجبکہ اب زمانہ انہیں ڈاکٹر محمد شفیق کہہ کر پکارتا ہے ڈاکٹر محمد شفیق صاحب کی شخصیت دینی وعلمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہےیہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ظاہری اور باطنی کئی خوبیوں سے نوازا ہوا ھے ایک طرف آپ قرآن پاک کے پختہ حافظ , بہترین قاری, بہترین عالم اور خطیب ہیں اور دوسری طرف عمدہ ریسرچر بھی ہیں.آپ میں نرمی و ملائمت کے ساتھ ٹھہراؤ اعتماد آپ کی گفتگو کی خاص خوبیاں ہیں آپ سے ملنے والا کوئی آدمی آپ کے اخلاق و عادات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مزاج میں سنجیدگی متانت کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی آپ کی طبعیت کا حصہ ہوتا ہے. اللہ تعالی نے دینی و دنیاوی دونوں تعلیموں سے مالا مال کیا ہے اس لئے دونوں طبقات میں آپ کا اثر رسوخ اور تعلقات مثالی ہونے کی وجہ سے آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے عوام میں بھی آپ کی عزت و احترام ماشاءاللہ قابل رشک ھے. مولانا ڈاکٹر میاں محمدشفیق صاحب کا شجرہ نصب میاں خاندان کے عظیم چشم چراغ عظیم روحانی شخصیت جناب میاں جمال ولی رحمتہ اللہ سےجاملتاھے آپ مانسہرہ بالاکوٹ گاؤں سنگڑ کے رھنے والے ہیں گوجر قوم میں کھٹانہ گوت سے تعلق رکھتے ہیں. آپ نے 22 نومبر 1985 کو میاں نورعالم صاحب کےگھرمیں آنکھ کھولی . ابتدائی تعلیم قاعدہ ناظرہ قاری محمد صدیق صاحب سے مسجد چھپراں صوبٹریاں سے حاصل کی پریپ اور نرسری تا کلاس چہارم مکتب مسجد سکول چھپراں گلی صوبٹریاں سے حاصل کی کلاس پنجم گورنمنٹ پرائمری سکول صوبٹریاں میں پڑھائ جماعت ششم تا دہم 2002میں گورنمنٹ ہائی سکول حصہ بالاکوٹ سے حاصل کی ایف اے ایبٹ آباد بورڈ سےجبکہ گریجویشن اورماسٹر کی ڈگری ہزارہ یونیورسٹی سے حاصل کی شہادت العالمیہ وفاق المدارس سے 2010 میں جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی سے مکمل کی ڈپلومہ تفسیر القرآن جامعہ محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ گجرانولہ سے کیا. ایم فل علوم اسلامیہ تفسیر القرآن میں جامعہ ہزارہ 2014 سے کیا. پی ایچ ڈی 2019 میں جامعہ ہزارہ سے مکمل کی. پی ایچ ڈی میں آپ کا موضوع الحدیث جرح و تعدیل تھا آپ ابتداء ہی سے تعلیمی میدان میں محنت کرکے مختلف اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رھے مثلا آپ گورنمنٹ ہائی سکول حصہ بالاکوٹ میں 2000 سے لے کر 2002 تک صدرِ بزم تھے. 2000 میں تقریری مقابلہ مابین ہائی سکولزضلع مانسہرہ میں دوسری پوزیشن حاصل کی 2002ء میں بزم شاہین مانسہرہ کے زیراہتمام ضلعی تقریری مقابلہ میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی .2004 میں ہزارہ اٹک کے مدارس دینیہ کے تقریری مقابلہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی آپ دارالعلوم تعلیم القرآن مانسہرہ میں تین سال تک درس نظامی کی تدریس کرتےرہے جامعہ تعلیم القرآن للبنات مانسہرہ میں تفسیر کےاستاد تقریبا دس سال تک رہے مسلم ایجوکیشن سسٹم مانسہرہ میں گذشتہ پانچ سال سے بہترین انداز میں لیکچرار اسلامیات کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. سہ مائی رسالہ جلوہ خورشید میں تقریبا دو سال تک مدیر بھی رھے. گزشتہ پانچ سال سے آپ جامع مسجد حسنین مانسہرہ میں خطابت کےفرائض سرانجام دے رہے ہیں. آپ کے پاس نماز جمعہ پڑھنے کے لئے دور دراز سے لوگ سفر کرکے آتے ہیں. آپ کا جمعہ کا بیان انتہائی سادہ عام فہم اور تحقیقی ہوتا ہے. موجودہ عصری مسائل اور ان کاحل قرآن وحدیث کی روشنی میں جیسے موضوعات اور وقت کی ضرورت کے مطابق جدید اسلوب میں آپ کے خطاب کی وجہ سے عوام میں آپکی محبت بہت زیادہ دیکھنے میں ملتی ہے. آپکی .تصانیف محاضرات زیر طبع ھے. مقالات زیر طبع ھے. قاضی سلطان محمود زیر طبع ھے دورہ حدیث کے سال شیخ الحدیث مولانا عون الخالق صاحب نے تہجد کے وقت خواب میں دیکھا کہ جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں عظیم الشان جلسہ ھے اور اسٹیج پر مولاناشفیق بیٹھے ہوئے ہیں اور تقریر کر رہے ہیں پھریہ خواب کلاس میں سنائیں اور تفسیر یہ بتائیں کہ اس طالب علم محمد شفیق سے اللہ تعالی دین کا کام لے گا اور ہمارے ساتھ اس کا تعلق بھی اچھا رہے گا جبکہ ایم فل کی کلاس میں ڈاکٹر محمد ریاض خان الازہری صاحب نے خواب سنائی کہ آج رات خواب میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے ہیں اور یہ سکالر محمد شفیق رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کوایک برتن میں جمع کر رہا ہے اور پھر اس جمع شدہ پانی میں سرید ملا کر کھا رہا ہے پھر خود ہی تفسیر فرمائی کا اس سکالر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا دونوں خوابوں کی تعمیر کے کچھ ایسے پورے ہوچکے ہیں اور انشاللہ باقی ماندہ حصے بھی پورے ہوں گے 2010 میں تعلیم القرآن راولپنڈی کی تقریب ختم بخاری میں خطیب العصر سید عبدالمجید ندیم شاہ صاحب کی تقریر کے بعد شیخ الحدیث مولانا حمید اللہ خان صاحب کے درس حدیث سے پہلے ڈاکٹر میاں محمد شفیق نے طلبہ دورہ حدیث کی نمائندگی کرتے ہوئے 20 منٹ پر مشتمل خطاب کیا جس میں شیخ الحدیث مولانا امان اللہ خالدصاحب سٹیج پر موجود تھے اس موقع پر استاد الحدیث مولانا ظہور الحق صاحب نے مولانا میاں شفیق صاحب کو خطیب الاسلام کا لقب بھی دیا اور ڈاکٹر ریاض خان الازہری کا خواب اس طرح پورا ہوا کہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام کے لئے صحاح ستہ میں شامل کتاب سنن ابن ماجہ کی زوائد احادیث کا انتخاب ہوا یعنی مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ میں موثوق اور مجروع روایات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پرکام کیا . مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب معتدل مزاج صلح جو داعی اتحاد امت کی نفسیات پر مشتمل ایک شخصیت ھے جسے فرقہ واریت سے سخت نفرت ہے. آپ کی اس کامیابی میں آپ کے والدین کی دعائیں آپ کی محنت اور آپ کے اساتذہ کی تعلیم وتربیت کا اہم کردار ہے .آج راقم محمد معروف صدیقی جہاں مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہے تو وہاں ڈاکٹر میاں شفیق صاحب کے والدین اور ان کے تمام اساتذہ چائیے وہ عصری اداروں کے ہیں یا دینی اداروں کے ہیں تمام کو مبارک باد پیش کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اِن اساتذہ کی محنت کوشش تعلیم وتربیت کا اثر ھے. یقیناً کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ استاد ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اللہ تعالی میرے اساتذہ سمیت ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب اور سب کے اساتذہ کو دونوں جہاں کی خوشیاں نصیب فرمائے اور اللہ تعالی مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب کو مزید دونوں کی بلندیاں عظمتیں ترقیاں نصیب فرمائے اور اللہ تعالی ان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرماکر ان کو ملک ملت مذھب کی خدمات کےلئے مزید توفیق عطاء فرمائے.
- تحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ: محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 17:48، 28 جنوری 2020ء (م ع و)
ٹھیک محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:18، 20 فروری 2020ء (م ع و)
مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق بالاکوٹی صاحب.
ترمیم(محمدشفیق سےڈاکٹرمحمد شفیق تک ) -تحریرمحمدمعروف صدیقی ) یہ انسانی کمالات ابن آدم کی انتھک محنت کا نتیجہ ہیں، شعورکی آنکھ کھولنے کے بعد ریسرچ اور تحقیق کے نئےانکشاف سے بھر پور انسان کی ایک پوری قابل رشک تاریخ ھے یہ انسان کے ہمت، عزم، حوصلے اور ارادے کی عظیم داستان ہے، اس داستان کے اصل ہیرو وہ جوہرِ قابل ہیں جنھوں نے تحقیق و انکشافات کے میدان میں اپنی زندگیاں کھپادیں، غوروفکر کے میدان میں دن رات ایک کردیئے وقت کی قدرکی اور قیمتی وقت کا خیال اور فضول کاموں کو گناہ سمجھا، دنیاکو گل وگلزار بنایا اور خود گوہر نایاب قرار پائے، بالخصوص مسلم مفکرین کی مختلف موضوعات پر ریسرچ کرنے والے دانشوروں اور مفکرین کی ایک طویل فہرست ہے۔ جہنوں نے اس مادر ارض پر اﷲ کا خلیفہ ہونے کا بجا طور پر حق ادا کیا، کائنات کو مسخرکرنے کی عظیم جُِہد مسلسل کی اور اپنی ایجادات کے ثمرات سے دنیا کو مستفید ہونے کا شرف بخشا،ان عظیم انسانوں کی زندگیاں ہمیشہ عام انسانوں سے مختلف رہیں، ان کی سوچیں دنیا کی سوچوں سے قطعی ہٹ کر تھیں ان کے انداز غوروفکر کا میدان اور رفتار زماں و مکاں کی قید سے آزاد تھا، ان کی عادتیں اور ارادے بھی دوسرے عام انسانوں کی نسبت الگ منفرد وممتاز تھے۔ راقم انھی سوچوں میں غرق ان عظیم شخصیات کی فہرست میں شامل ہونے والے ایک ایسے نوجوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جسکی محنت رنگ لائی اور حدیث پر کام کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری لیکر ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوگیا. جس کا نام والدین نے محمد شفیق رکھاجبکہ اب زمانہ انہیں ڈاکٹر محمد شفیق کہہ کر پکارتا ہے ڈاکٹر محمد شفیق صاحب کی شخصیت دینی وعلمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہےیہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ظاہری اور باطنی کئی خوبیوں سے نوازا ہوا ھے ایک طرف آپ قرآن پاک کے پختہ حافظ , بہترین قاری, بہترین عالم اور خطیب ہیں اور دوسری طرف عمدہ ریسرچر بھی ہیں.آپ میں نرمی و ملائمت کے ساتھ ٹھہراؤ اعتماد آپ کی گفتگو کی خاص خوبیاں ہیں آپ سے ملنے والا کوئی آدمی آپ کے اخلاق و عادات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مزاج میں سنجیدگی متانت کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی آپ کی طبعیت کا حصہ ہوتا ہے. اللہ تعالی نے دینی و دنیاوی دونوں تعلیموں سے مالا مال کیا ہے اس لئے دونوں طبقات میں آپ کا اثر رسوخ اور تعلقات مثالی ہونے کی وجہ سے آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے عوام میں بھی آپ کی عزت و احترام ماشاءاللہ قابل رشک ھے. مولانا ڈاکٹر میاں محمدشفیق صاحب کا شجرہ نصب میاں خاندان کے عظیم چشم چراغ عظیم روحانی شخصیت جناب میاں جمال ولی رحمتہ اللہ سےجاملتاھے آپ مانسہرہ بالاکوٹ گاؤں سنگڑ کے رھنے والے ہیں گوجر قوم میں کھٹانہ گوت سے تعلق رکھتے ہیں. آپ نے 22 نومبر 1985 کو میاں نورعالم صاحب کےگھرمیں آنکھ کھولی . ابتدائی تعلیم قاعدہ ناظرہ قاری محمد صدیق صاحب سے مسجد چھپراں صوبٹریاں سے حاصل کی پریپ اور نرسری تا کلاس چہارم مکتب مسجد سکول چھپراں گلی صوبٹریاں سے حاصل کی کلاس پنجم گورنمنٹ پرائمری سکول صوبٹریاں میں پڑھائ جماعت ششم تا دہم 2002میں گورنمنٹ ہائی سکول حصہ بالاکوٹ سے حاصل کی ایف اے ایبٹ آباد بورڈ سےجبکہ گریجویشن اورماسٹر کی ڈگری ہزارہ یونیورسٹی سے حاصل کی شہادت العالمیہ وفاق المدارس سے 2010 میں جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی سے مکمل کی ڈپلومہ تفسیر القرآن جامعہ محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ گجرانولہ سے کیا. ایم فل علوم اسلامیہ تفسیر القرآن میں جامعہ ہزارہ 2014 سے کیا. پی ایچ ڈی 2019 میں جامعہ ہزارہ سے مکمل کی. پی ایچ ڈی میں آپ کا موضوع الحدیث جرح و تعدیل تھا آپ ابتداء ہی سے تعلیمی میدان میں محنت کرکے مختلف اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رھے مثلا آپ گورنمنٹ ہائی سکول حصہ بالاکوٹ میں 2000 سے لے کر 2002 تک صدرِ بزم تھے. 2000 میں تقریری مقابلہ مابین ہائی سکولزضلع مانسہرہ میں دوسری پوزیشن حاصل کی 2002ء میں بزم شاہین مانسہرہ کے زیراہتمام ضلعی تقریری مقابلہ میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی .2004 میں ہزارہ اٹک کے مدارس دینیہ کے تقریری مقابلہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی آپ دارالعلوم تعلیم القرآن مانسہرہ میں تین سال تک درس نظامی کی تدریس کرتےرہے جامعہ تعلیم القرآن للبنات مانسہرہ میں تفسیر کےاستاد تقریبا دس سال تک رہے مسلم ایجوکیشن سسٹم مانسہرہ میں گذشتہ پانچ سال سے بہترین انداز میں لیکچرار اسلامیات کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. سہ مائی رسالہ جلوہ خورشید میں تقریبا دو سال تک مدیر بھی رھے. گزشتہ پانچ سال سے آپ جامع مسجد حسنین مانسہرہ میں خطابت کےفرائض سرانجام دے رہے ہیں. آپ کے پاس نماز جمعہ پڑھنے کے لئے دور دراز سے لوگ سفر کرکے آتے ہیں. آپ کا جمعہ کا بیان انتہائی سادہ عام فہم اور تحقیقی ہوتا ہے. موجودہ عصری مسائل اور ان کاحل قرآن وحدیث کی روشنی میں جیسے موضوعات اور وقت کی ضرورت کے مطابق جدید اسلوب میں آپ کے خطاب کی وجہ سے عوام میں آپکی محبت بہت زیادہ دیکھنے میں ملتی ہے. آپکی .تصانیف محاضرات زیر طبع ھے. مقالات زیر طبع ھے. قاضی سلطان محمود زیر طبع ھے دورہ حدیث کے سال شیخ الحدیث مولانا عون الخالق صاحب نے تہجد کے وقت خواب میں دیکھا کہ جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں عظیم الشان جلسہ ھے اور اسٹیج پر مولاناشفیق بیٹھے ہوئے ہیں اور تقریر کر رہے ہیں پھریہ خواب کلاس میں سنائیں اور تفسیر یہ بتائیں کہ اس طالب علم محمد شفیق سے اللہ تعالی دین کا کام لے گا اور ہمارے ساتھ اس کا تعلق بھی اچھا رہے گا جبکہ ایم فل کی کلاس میں ڈاکٹر محمد ریاض خان الازہری صاحب نے خواب سنائی کہ آج رات خواب میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے ہیں اور یہ سکالر محمد شفیق رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کوایک برتن میں جمع کر رہا ہے اور پھر اس جمع شدہ پانی میں سرید ملا کر کھا رہا ہے پھر خود ہی تفسیر فرمائی کا اس سکالر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا دونوں خوابوں کی تعمیر کے کچھ ایسے پورے ہوچکے ہیں اور انشاللہ باقی ماندہ حصے بھی پورے ہوں گے 2010 میں تعلیم القرآن راولپنڈی کی تقریب ختم بخاری میں خطیب العصر سید عبدالمجید ندیم شاہ صاحب کی تقریر کے بعد شیخ الحدیث مولانا حمید اللہ خان صاحب کے درس حدیث سے پہلے ڈاکٹر میاں محمد شفیق نے طلبہ دورہ حدیث کی نمائندگی کرتے ہوئے 20 منٹ پر مشتمل خطاب کیا جس میں شیخ الحدیث مولانا امان اللہ خالدصاحب سٹیج پر موجود تھے اس موقع پر استاد الحدیث مولانا ظہور الحق صاحب نے مولانا میاں شفیق صاحب کو خطیب الاسلام کا لقب بھی دیا اور ڈاکٹر ریاض خان الازہری کا خواب اس طرح پورا ہوا کہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام کے لئے صحاح ستہ میں شامل کتاب سنن ابن ماجہ کی زوائد احادیث کا انتخاب ہوا یعنی مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ میں موثوق اور مجروع روایات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پرکام کیا . مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب معتدل مزاج صلح جو داعی اتحاد امت کی نفسیات پر مشتمل ایک شخصیت ھے جسے فرقہ واریت سے سخت نفرت ہے. آپ کی اس کامیابی میں آپ کے والدین کی دعائیں آپ کی محنت اور آپ کے اساتذہ کی تعلیم وتربیت کا اہم کردار ہے .آج راقم محمد معروف صدیقی جہاں مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہے تو وہاں ڈاکٹر میاں شفیق صاحب کے والدین اور ان کے تمام اساتذہ چائیے وہ عصری اداروں کے ہیں یا دینی اداروں کے ہیں تمام کو مبارک باد پیش کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اِن اساتذہ کی محنت کوشش تعلیم وتربیت کا اثر ھے. یقیناً کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ استاد ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اللہ تعالی میرے اساتذہ سمیت ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب اور سب کے اساتذہ کو دونوں جہاں کی خوشیاں نصیب فرمائے اور اللہ تعالی مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب کو مزید دونوں کی بلندیاں عظمتیں ترقیاں نصیب فرمائے اور اللہ تعالی ان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرماکر ان کو ملک ملت مذھب کی خدمات کےلئے مزید توفیق عطاء فرمائے.
- تحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ: محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 17:50، 28 جنوری 2020ء (م ع و)
محمدشفیق سےمولانا ڈاکٹرمیاں محمد شفیق تک
ترمیم(محمدشفیق سےمولانا ڈاکٹرمیاں محمد شفیق تک ) -تحریرمحمدمعروف صدیقی ) یہ انسانی کمالات ابن آدم کی انتھک محنت کا نتیجہ ہیں، شعورکی آنکھ کھولنے کے بعد ریسرچ اور تحقیق کے نئےانکشاف سے بھر پور انسان کی ایک پوری قابل رشک تاریخ ھے یہ انسان کے ہمت، عزم، حوصلے اور ارادے کی عظیم داستان ہے، اس داستان کے اصل ہیرو وہ جوہرِ قابل ہیں جنھوں نے تحقیق و انکشافات کے میدان میں اپنی زندگیاں کھپادیں، غوروفکر کے میدان میں دن رات ایک کردیئے وقت کی قدرکی اور قیمتی وقت کا خیال اور فضول کاموں کو گناہ سمجھا، دنیاکو گل وگلزار بنایا اور خود گوہر نایاب قرار پائے، بالخصوص مسلم مفکرین کی مختلف موضوعات پر ریسرچ کرنے والے دانشوروں اور مفکرین کی ایک طویل فہرست ہے۔ جہنوں نے اس مادر ارض پر اﷲ کا خلیفہ ہونے کا بجا طور پر حق ادا کیا، کائنات کو مسخرکرنے کی عظیم جُِہد مسلسل کی اور اپنی ایجادات کے ثمرات سے دنیا کو مستفید ہونے کا شرف بخشا،ان عظیم انسانوں کی زندگیاں ہمیشہ عام انسانوں سے مختلف رہیں، ان کی سوچیں دنیا کی سوچوں سے قطعی ہٹ کر تھیں ان کے انداز غوروفکر کا میدان اور رفتار زماں و مکاں کی قید سے آزاد تھا، ان کی عادتیں اور ارادے بھی دوسرے عام انسانوں کی نسبت الگ منفرد وممتاز تھے۔ راقم انھی سوچوں میں غرق ان عظیم شخصیات کی فہرست میں شامل ہونے والے ایک ایسے نوجوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جسکی محنت رنگ لائی اور حدیث پر کام کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری لیکر ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوگیا. جس کا نام والدین نے محمد شفیق رکھاجبکہ اب زمانہ انہیں ڈاکٹر محمد شفیق کہہ کر پکارتا ہے ڈاکٹر محمد شفیق صاحب کی شخصیت دینی وعلمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہےیہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ظاہری اور باطنی کئی خوبیوں سے نوازا ہوا ھے ایک طرف آپ قرآن پاک کے پختہ حافظ , بہترین قاری, بہترین عالم اور خطیب ہیں اور دوسری طرف عمدہ ریسرچر بھی ہیں.آپ میں نرمی و ملائمت کے ساتھ ٹھہراؤ اعتماد آپ کی گفتگو کی خاص خوبیاں ہیں آپ سے ملنے والا کوئی آدمی آپ کے اخلاق و عادات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مزاج میں سنجیدگی متانت کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی آپ کی طبعیت کا حصہ ہوتا ہے. اللہ تعالی نے دینی و دنیاوی دونوں تعلیموں سے مالا مال کیا ہے اس لئے دونوں طبقات میں آپ کا اثر رسوخ اور تعلقات مثالی ہونے کی وجہ سے آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے عوام میں بھی آپ کی عزت و احترام ماشاءاللہ قابل رشک ھے. مولانا ڈاکٹر میاں محمدشفیق صاحب کا شجرہ نصب میاں خاندان کے عظیم چشم چراغ عظیم روحانی شخصیت جناب میاں جمال ولی رحمتہ اللہ سےجاملتاھے آپ مانسہرہ بالاکوٹ گاؤں سنگڑ کے رھنے والے ہیں گوجر قوم میں کھٹانہ گوت سے تعلق رکھتے ہیں. آپ نے 22 نومبر 1985 کو میاں نورعالم صاحب کےگھرمیں آنکھ کھولی . ابتدائی تعلیم قاعدہ ناظرہ قاری محمد صدیق صاحب سے مسجد چھپراں صوبٹریاں سے حاصل کی پریپ اور نرسری تا کلاس چہارم مکتب مسجد سکول چھپراں گلی صوبٹریاں سے حاصل کی کلاس پنجم گورنمنٹ پرائمری سکول صوبٹریاں میں پڑھائ جماعت ششم تا دہم 2002میں گورنمنٹ ہائی سکول حصہ بالاکوٹ سے حاصل کی ایف اے ایبٹ آباد بورڈ سےجبکہ گریجویشن اورماسٹر کی ڈگری ہزارہ یونیورسٹی سے حاصل کی شہادت العالمیہ وفاق المدارس سے 2010 میں جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی سے مکمل کی ڈپلومہ تفسیر القرآن جامعہ محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ گجرانولہ سے کیا. ایم فل علوم اسلامیہ تفسیر القرآن میں جامعہ ہزارہ 2014 سے کیا. پی ایچ ڈی 2019 میں جامعہ ہزارہ سے مکمل کی. پی ایچ ڈی میں آپ کا موضوع الحدیث جرح و تعدیل تھا آپ ابتداء ہی سے تعلیمی میدان میں محنت کرکے مختلف اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رھے مثلا آپ گورنمنٹ ہائی سکول حصہ بالاکوٹ میں 2000 سے لے کر 2002 تک صدرِ بزم تھے. 2000 میں تقریری مقابلہ مابین ہائی سکولزضلع مانسہرہ میں دوسری پوزیشن حاصل کی 2002ء میں بزم شاہین مانسہرہ کے زیراہتمام ضلعی تقریری مقابلہ میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی .2004 میں ہزارہ اٹک کے مدارس دینیہ کے تقریری مقابلہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی آپ دارالعلوم تعلیم القرآن مانسہرہ میں تین سال تک درس نظامی کی تدریس کرتےرہے جامعہ تعلیم القرآن للبنات مانسہرہ میں تفسیر کےاستاد تقریبا دس سال تک رہے مسلم ایجوکیشن سسٹم مانسہرہ میں گذشتہ پانچ سال سے بہترین انداز میں لیکچرار اسلامیات کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. سہ مائی رسالہ جلوہ خورشید میں تقریبا دو سال تک مدیر بھی رھے. گزشتہ پانچ سال سے آپ جامع مسجد حسنین مانسہرہ میں خطابت کےفرائض سرانجام دے رہے ہیں. آپ کے پاس نماز جمعہ پڑھنے کے لئے دور دراز سے لوگ سفر کرکے آتے ہیں. آپ کا جمعہ کا بیان انتہائی سادہ عام فہم اور تحقیقی ہوتا ہے. موجودہ عصری مسائل اور ان کاحل قرآن وحدیث کی روشنی میں جیسے موضوعات اور وقت کی ضرورت کے مطابق جدید اسلوب میں آپ کے خطاب کی وجہ سے عوام میں آپکی محبت بہت زیادہ دیکھنے میں ملتی ہے. آپکی .تصانیف محاضرات زیر طبع ھے. مقالات زیر طبع ھے. قاضی سلطان محمود زیر طبع ھے دورہ حدیث کے سال شیخ الحدیث مولانا عون الخالق صاحب نے تہجد کے وقت خواب میں دیکھا کہ جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں عظیم الشان جلسہ ھے اور اسٹیج پر مولاناشفیق بیٹھے ہوئے ہیں اور تقریر کر رہے ہیں پھریہ خواب کلاس میں سنائیں اور تفسیر یہ بتائیں کہ اس طالب علم محمد شفیق سے اللہ تعالی دین کا کام لے گا اور ہمارے ساتھ اس کا تعلق بھی اچھا رہے گا جبکہ ایم فل کی کلاس میں ڈاکٹر محمد ریاض خان الازہری صاحب نے خواب سنائی کہ آج رات خواب میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے ہیں اور یہ سکالر محمد شفیق رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کوایک برتن میں جمع کر رہا ہے اور پھر اس جمع شدہ پانی میں سرید ملا کر کھا رہا ہے پھر خود ہی تفسیر فرمائی کا اس سکالر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا دونوں خوابوں کی تعمیر کے کچھ ایسے پورے ہوچکے ہیں اور انشاللہ باقی ماندہ حصے بھی پورے ہوں گے 2010 میں تعلیم القرآن راولپنڈی کی تقریب ختم بخاری میں خطیب العصر سید عبدالمجید ندیم شاہ صاحب کی تقریر کے بعد شیخ الحدیث مولانا حمید اللہ خان صاحب کے درس حدیث سے پہلے ڈاکٹر میاں محمد شفیق نے طلبہ دورہ حدیث کی نمائندگی کرتے ہوئے 20 منٹ پر مشتمل خطاب کیا جس میں شیخ الحدیث مولانا امان اللہ خالدصاحب سٹیج پر موجود تھے اس موقع پر استاد الحدیث مولانا ظہور الحق صاحب نے مولانا میاں شفیق صاحب کو خطیب الاسلام کا لقب بھی دیا اور ڈاکٹر ریاض خان الازہری کا خواب اس طرح پورا ہوا کہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام کے لئے صحاح ستہ میں شامل کتاب سنن ابن ماجہ کی زوائد احادیث کا انتخاب ہوا یعنی مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ میں موثوق اور مجروع روایات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پرکام کیا . مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب معتدل مزاج صلح جو داعی اتحاد امت کی نفسیات پر مشتمل ایک شخصیت ھے جسے فرقہ واریت سے سخت نفرت ہے. آپ کی اس کامیابی میں آپ کے والدین کی دعائیں آپ کی محنت اور آپ کے اساتذہ کی تعلیم وتربیت کا اہم کردار ہے .آج راقم محمد معروف صدیقی جہاں مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہے تو وہاں ڈاکٹر میاں شفیق صاحب کے والدین اور ان کے تمام اساتذہ چائیے وہ عصری اداروں کے ہیں یا دینی اداروں کے ہیں تمام کو مبارک باد پیش کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اِن اساتذہ کی محنت کوشش تعلیم وتربیت کا اثر ھے. یقیناً کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ استاد ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اللہ تعالی میرے اساتذہ سمیت ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب اور سب کے اساتذہ کو دونوں جہاں کی خوشیاں نصیب فرمائے اور اللہ تعالی مولانا ڈاکٹر میاں محمد شفیق صاحب کو مزید دونوں کی بلندیاں عظمتیں ترقیاں نصیب فرمائے اور اللہ تعالی ان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرماکر ان کو ملک ملت مذھب کی خدمات کےلئے مزید توفیق عطاء فرمائے.
- تحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ: محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:02، 28 جنوری 2020ء (م ع و)
تبصرہ کتاب لشکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم. مؤلف مفتی ادریس ولی صاحب
ترمیمتبصرہ (کتاب.لشکار محمد ﷺ ) (تحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ) اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے ساتھ اس کی رشد و ہدایت کا انتظام فرمایا تاکہ انسان اللہ تبارک وتعالی کی اطاعت کر کے ابدی راستہ کا انتخاب کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالی نے ہر قوم کے لیے ہادی روانہ کیے. ہادیوں کا یہ سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی ذات اقدس پر ختم ہوگیا۔ آپ ﷺ نوع انسانیت کے لیے آخری رہبر و رہنما ہیں ۔آپ ﷺ ہی کے ہاتھوں دین کی تکمیل ہوئی ۔ اللہ کے رسول ﷺسے پہلے جو انبیا ء کرام مبعوث ہو ئے تھے وہ کسی خاص قوم اور زمانہ کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے آتے تھے۔ حضرت محمدمصطفیٰﷺ کسی خاص قوم، گروہ، نسل ,قبیلے یا خطے کی رہنمائی کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ پوری انسانیت تمام اقوام وقبائل کے لیے مبعوث ہو ئے۔
آپ ﷺ کی سیرت اور آپ کا مشن بین الاقوامی ہے اور یہ مشن قرآن کے دائمی اصولوں کی تعبیر و تفسیر ہے۔ آپ ﷺ نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا جو خیالی نہیں بلکہ عملی، آفاقی اور ہر لحاظ سے جامع اور کامل ہے۔ آپ ﷺکی تعلیمات ہمہ گیر، عالمگیر اور کامل نمو نہ ہیں ۔ آپ ﷺکی تعلیمات پرعمل پیرا ہو نے میں ہی عالم انسانیت کی حقیقی فلاح و کامرانی اور نجات مضمرہے۔ آپ ﷺ کی سیرت کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کی ایک ایک کرن کو سیرت نگاروں نے مدون و محفوظ کیا ہے۔ یہ سلسلہ عہد نبوی ﷺکے دور ہی سے شروع ہوا اور روایات کے ذریعہ سے دوسری نسل تک پہنچانے کا کام صحابہ کے دور میں شروع ہوا تب سے لے کر آج تک سیرت پر لکھنے کا کام بلاناغہ جاری ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور مالک کائنات کاحکم بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔معاملات ،اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو نبی علیہ السلام کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں، بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع و اعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ و کردار کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ہر دور میں حالات کے رجحانات کے مطابق نئے نئے اسالیب اور مناہج کے مطابق سیرت پر کتابیں لکھی گئیں۔ سیرت رسول ﷺ پر اصحاب علم و فن نے قلم اٹھایا اور ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آج تک اسلامی علوم و فنون پر جتنا لکھا گیا ہے اس میں غالب حصہ سیرت رسول پر مشتمل ہے۔ ہر زبان میں سیرت کی قابل تحسین اور محقق کتابیں لکھی گئی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مؤلفین کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے اسی طرح ہمارے برادر عزیز مفتی ادریس ولی صاحب کی کتاب لشکارے محمد ﷺ مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے جسے پڑھ کر اور دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ آپ کی کوششیں رنگ لائیں اور آپ اپنی بساط کے مطابق اس موضوع پر گوجری زبان میں کام کرکے اسے منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ مفتی ادریس ولی صاحب خصوصی مبارک باد کےمستحق ہیں مفتی ادریس ولی صاحب جن کا تعلق پاکستان کےخوبصورت علاقے ہزارہ میں ضلع مانسہرہ کی وادی چوٹا پنجول کے ساتھ ہے۔ گجر قوم کی گوت پسوال کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ گجر قوم پر لکھی گئی مختلف تاریخی کتابوں کے مطابق گجر قوم کی گوت پسوال میں اولیاء،علماء، شعراء اور دانش ور بڑی تعداد میں گزرے ہیں. خاص طور پر مشہور صوفی بزرگ اور شاعر جناب میاں محمد بخش رحمتہ اللہ بھی گجر قوم میں پسوال گوت سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ مفتی ادریس ولی کے دادا جان جناب نورمحمد مقدم پنجاب سے ہجرت کرکے پہلےبلڈھیڑ آئےاور بعدمیں پنجول چلےگے ۔
مؤلف نے ابتدائی تعلیم اورحفظ قرآن مجید کاآغاز جامعہ حسنیہ شنکیاری سے کیا اور حفظ کی تکمیل جامعہ اسلامیہ صدر راولپنڈی سے کی۔گردان جامعہ سراج العلوم جبوڑی سےمکمل کی۔ درس نظامی کا آغاز بنوری ٹاؤن سے کیا۔ درجہ ثانیہ عامہ سے عالمیہ تک جامعہ فرقانیہ راولپنڈی میں زیر تعلیم رہے، بعدازاں سکالر شپ پر کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں داخلہ لیاعربی تعلیم حاصل کرنےکےبعد 1992میں وطن واپسی کی اور دورہ حدیث جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی سے مکمل کیا آپ نےہزارہ یونیورسٹی سے MA کیا ہے اور ایم فل بھی ہزارہ یونیورسٹی سے گوجری زبان اور دینی ادب پر کر رہے ہیں۔ یقینا مفتی ادریس ولی کی شخصیت دینی وعلمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہے ۔اللہ تعالی نے آپ کو ظاہری اور باطنی خوبیوں سے نوازا ہوا ہے۔ ایک طرف آپ قرآن پاک کے پختہ حافظ ,،بہترین قاری، بہترین عالم اور مقرر ہیں اور دوسری طرف عمدہ لکھاری بھی ہیں۔ مفتی ادریس ولی نرمی و ملائمت کے ساتھ ٹھہراؤ اہتماد آپ کی گفتگو کی خاص خوبیاں ہیں۔ آپ سے ملنے والا کوئی آدمی آپ کے اخلاق و عادات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مزاج میں سنجیدگی متانت کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی موقع محل کی مناسبت سے دیکھنے میں آتا رہتا ہے ۔اللہ تعالی نے دینی و دنیاوی دونوں تعلیموں سے مالا مال کیا ہے اس لئے دونوں طبقات میں آپ کا اثر رسوخ اور تعلقات مثالی ہونے کی وجہ سے آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بالخصوص اہل علم میں آپ کی عزت و احترام ماشاءاللہ قابل رشک ہے ۔یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اس موضوع پر جتنا کام اللہ تعالی نے آپ سے گوجری زبان میں لیا اس دور میں بہت ہی شاذ ہے۔ گوجری زبان کے بہت اچھے ترجمان اور ماہر بھی ہیں ان کی کتاب لشکار محمد ﷺ گوجری زبان کی پہلی کتاب ہے سیرت النبی ﷺ پر سب سے پہلی کتاب سیرت ابن اسحاق ہے اور گوجری زبان میں سب سے پہلی کتاب لشکار محمد ﷺ ہے ۔یہ کتاب قاسم پرنٹر لاہور نےشائع کی ہے۔ طباعت اور جلد عمدہ ہونے کے ساتھ اچھا کاغز استعمال ہوا ہے۔ اس کتاب کے کل صفحات 376 ہیں اور کتاب کی جلد سازی اور اوراق کی نسبت قیمت 450 بڑی مناسب رکھی گئی ہے تاکہ ہر ایک شخص جو گوجری زبان میں سیرت النبی ﷺ کو پڑھنا چائیے تو اسکے لئے مشکل نہ ہو۔
کتاب کے آغاز میں مؤلف کا تعارف ڈاکٹرمیاں محمد شفیق بالاکوٹی صاحب کےقلم سے مختصر لیکن بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔اسکے علاوہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور جناب سردار محمد یوسف صاحب کا ایک جامع پیغام بھی کتاب کے شروع میں موجود ہے۔کتاب لشکار محمد ﷺ کی زبان وبیان (یعنی گوجری زبان ) کااعجاز پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل گوھر صاحب نےبڑے اچھے انداز میں تاریخی پہلویوں سے روشنی ڈالی ہے ۔اسکے بعدڈاکٹرمخلص وجدانی صاحب نےگوجری زبان اور سیرت پربہت عمدہ تبصرہ کیا ہے ۔ اور مشہور عالم دین میاں محمد نقشبندی صاحب کا پیغام بھی اہل نظر کے لئے ایک سبق ہے ۔
چوہدری عبدالرشید صاحب کے تبصرے کے بعد مقدمہ میں جناب مولانا سلطان محمود ضیاء نے تفصیلی انداز میں سیرت اور گوجری زبان پر تبصرہ کرکے حق ادا کردیا ہے ۔عرض مؤلف میں مؤلف نے اپنی بات واضع کرتے ہوئے ساتھ گوجری زبان میں ایک دوسری کتاب ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دن رات) پر کام کرنے کا جو اشارہ دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً مؤلف کو نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ و مقدسہ کے ساتھ بہت محبت اور عشق ہے۔ جسکا منہ بولتا ثبوت یہ کتاب جو منظر عام پر آچکی ہے اور دوسری کتاب کی کوشش جاری ہے۔ کتاب دو ابواب اور آٹھ فصلوں پر مشتمل ہے باب اول مکی دورپر مشتمل ہے اس باب میں چار فصلیں ہیں ۔فصل اول میں (آپ ﷺ کا نسب ) ہے جس میں عرب کی تاریخ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام،اعجاز کی حکومت، حضرت عبدالمطلب ،دین حنیف، شرک کی ابتدا شامل ہیں۔فصل دوم (آمنہ کے لال ﷺ کے بارے میں ہے) آپ ﷺ کا نسب ،پیدائش، بچپن، جوانی کے واقعات شامل ہیں ۔فصل سوئم ( نبوت کے بارے میں ہے) وحی کی ابتداء، خفیہ دعوت، اعلانیہ دعوت، مشرکین کی مخالفت، مسلمانوں پر ظلم و ستم ،ہجرت حبشہ اولی و ثانیہ مختصر مگر اصل مصادر کے حوالہ سے لکھے گے ہیں ۔چوتھی فصل (آزمائشی دور) ا س میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام قبول کرنا، ابوطالب کی جدائی ،حضرت خدیجہ کی جدائی ،نبی اکرم ﷺ کا طائف کا سفر، معراج کا واقعہ، انصار مدینہ کا اسلام لانا، بیعت عقبہ اولیٰ، بیعت عقبہ ثانیہ ،صحابہ کرام کی مدینہ ہجرت اور مشکلات مستند روایات کے ساتھ بحوالہ لکھی گئی ہیں ۔ باب دوم (مدنی دور) س باب میں چار فصلیں ہیں ۔فصل اول میں (ہجرت مدینہ) اس میں ہجرت ،غزوہ بدر، غزوہ احد، دیگر مختلف جنگوں پراچھے اندازمیں تبصرہ کیا گیا ہے ۔فصل دوئم (عروج السلام) اس میں مختلف سریا کا ذکر کرتے ہوئے صلح حدیبیہ، بادشاہوں کو دعوت اسلام دینا ، غزوہ خیبر پراچھی بحث کی گئی ہے ۔ فصل (سوم شان اسلام) اس میں فتح مکہ ،غزوہ حنین ، غزوہ طائف ،غزوہ تبوک، آپ ﷺ کا حجۃ الوداع ، آپ ﷺ کا سفر آخرت اور تدفین پر مستند راوایات کے حوالے سے تبصرہ کیا گیا ہے۔فصل چہارم (آل محمد ﷺ ) اس فصل میں ازواج مطہرات اور نبی اکرم ﷺ کی اولاد کا ذکر ہے۔ اس کتاب کی یہ بھی خوبی ہے کہ اکثر حوالے عربی کتب اور مصادر کے دئیے گے ہیں۔کتاب میں سیرت طیبہ کے سارے پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔زبان بڑی سادہ ہے اور محاوروں میں سارے لعجے گوجری کے موجود ہیں۔ سب سے اہم بات جو اس کتاب میں کیلنڈر استعمال ہوا ہے وہ تین کیلنڈر ہیں اس میں عیسوی کلینڈر بھی ہے۔،قمری کلنڈر بھی ہے، بکرمی کیلنڈر بھی ہے۔ جو سیرت کی کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں ہے۔کتاب کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں جدید تحقیقی پہلو استعمال کیا گیا ہے جو عام طور پر یونیورسٹیوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ کتاب کے آخر میں سارے مصادر و مراجع پیش کیے ہیں تقریبا 50 کتب کے حوالے پیش کئے گے ہیں اس اعتبار سے مؤلف کی محنت نہایت ہی قابل قدر اور قابل تحسین ہے ۔
کتاب کے آخر میں گوجری زبان کی گرائمر بھی پیش کی گئی ہے یہ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ کتاب تو گوجری پر نہیں تھی لیکن زبان گوجری کی استعمال کی گئی ہے تاکہ کہ دوسری زبانوں کے پڑھنے والے لوگ اس کتاب کے الفاظ اور جملوں کو سمجھ سکیں اور اس سے فاہدہ لے سکیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب تمام دینی اور عصری اداروں کی لائبریریوں کی زینت بنے گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور سنجیدگی سے اس کتاب کا مطالعہ کرکے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی جائیں گی ۔ برادر مکرم جناب مفتی ادریس ولی صاحب کو اس کتاب کی اشاعت پر اور کتاب کی تیاری میں مشکلات کی جو سنگلاخ اور پُرخار وادیاں عبور کی ہیں اور جس عرق ریزی اور جانفشانی سے یہ کام کیا ہے اس پر دل سے ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔یقینا ان کی محنت قابل قدر اور قابل تحسین ہے ۔اللہ تعالیٰ مفتی ادریس ولی صاحب کو مزید مخلصانہ علمی خدمات کی توفیق بخشے اور اس کتاب کو شہرت عام اور بقائے دوام نصیب کرے آمین۔ تحریر (مولانا ) محمد معروف صدیقی۔ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:27، 28 جنوری 2020ء (م ع و)
کتاب لشکار محمد
ترمیمتبصرہ (کتاب.لشکار محمد ﷺ ) اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے ساتھ اس کی رشد و ہدایت کا انتظام فرمایا تاکہ انسان اللہ تبارک وتعالی کی اطاعت کر کے ابدی راستہ کا انتخاب کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالی نے ہر قوم کے لیے ہادی روانہ کیے. ہادیوں کا یہ سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی ذات اقدس پر ختم ہوگیا۔ آپ ﷺ نوع انسانیت کے لیے آخری رہبر و رہنما ہیں ۔آپ ﷺ ہی کے ہاتھوں دین کی تکمیل ہوئی ۔ اللہ کے رسول ﷺسے پہلے جو انبیا ء کرام مبعوث ہو ئے تھے وہ کسی خاص قوم اور زمانہ کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے آتے تھے۔ حضرت محمدمصطفیٰﷺ کسی خاص قوم، گروہ، نسل ,قبیلے یا خطے کی رہنمائی کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ پوری انسانیت تمام اقوام وقبائل کے لیے مبعوث ہو ئے۔
آپ ﷺ کی سیرت اور آپ کا مشن بین الاقوامی ہے اور یہ مشن قرآن کے دائمی اصولوں کی تعبیر و تفسیر ہے۔ آپ ﷺ نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا جو خیالی نہیں بلکہ عملی، آفاقی اور ہر لحاظ سے جامع اور کامل ہے۔ آپ ﷺکی تعلیمات ہمہ گیر، عالمگیر اور کامل نمو نہ ہیں ۔ آپ ﷺکی تعلیمات پرعمل پیرا ہو نے میں ہی عالم انسانیت کی حقیقی فلاح و کامرانی اور نجات مضمرہے۔ آپ ﷺ کی سیرت کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کی ایک ایک کرن کو سیرت نگاروں نے مدون و محفوظ کیا ہے۔ یہ سلسلہ عہد نبوی ﷺکے دور ہی سے شروع ہوا اور روایات کے ذریعہ سے دوسری نسل تک پہنچانے کا کام صحابہ کے دور میں شروع ہوا تب سے لے کر آج تک سیرت پر لکھنے کا کام بلاناغہ جاری ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور مالک کائنات کاحکم بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔معاملات ،اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو نبی علیہ السلام کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں، بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع و اعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ و کردار کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ہر دور میں حالات کے رجحانات کے مطابق نئے نئے اسالیب اور مناہج کے مطابق سیرت پر کتابیں لکھی گئیں۔ سیرت رسول ﷺ پر اصحاب علم و فن نے قلم اٹھایا اور ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آج تک اسلامی علوم و فنون پر جتنا لکھا گیا ہے اس میں غالب حصہ سیرت رسول پر مشتمل ہے۔ ہر زبان میں سیرت کی قابل تحسین اور محقق کتابیں لکھی گئی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مؤلفین کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے اسی طرح ہمارے برادر عزیز مفتی ادریس ولی صاحب کی کتاب لشکارے محمد ﷺ مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے جسے پڑھ کر اور دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ آپ کی کوششیں رنگ لائیں اور آپ اپنی بساط کے مطابق اس موضوع پر گوجری زبان میں کام کرکے اسے منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ مفتی ادریس ولی صاحب خصوصی مبارک باد کےمستحق ہیں مفتی ادریس ولی صاحب جن کا تعلق پاکستان کےخوبصورت علاقے ہزارہ میں ضلع مانسہرہ کی وادی چوٹا پنجول کے ساتھ ہے۔ گجر قوم کی گوت پسوال کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ گجر قوم پر لکھی گئی مختلف تاریخی کتابوں کے مطابق گجر قوم کی گوت پسوال میں اولیاء،علماء، شعراء اور دانش ور بڑی تعداد میں گزرے ہیں. خاص طور پر مشہور صوفی بزرگ اور شاعر جناب میاں محمد بخش رحمتہ اللہ بھی گجر قوم میں پسوال گوت سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ مفتی ادریس ولی کے دادا جان جناب نورمحمد مقدم پنجاب سے ہجرت کرکے پہلےبلڈھیڑ آئےاور بعدمیں پنجول چلےگے ۔
مؤلف نے ابتدائی تعلیم اورحفظ قرآن مجید کاآغاز جامعہ حسنیہ شنکیاری سے کیا اور حفظ کی تکمیل جامعہ اسلامیہ صدر راولپنڈی سے کی۔گردان جامعہ سراج العلوم جبوڑی سےمکمل کی۔ درس نظامی کا آغاز بنوری ٹاؤن سے کیا۔ درجہ ثانیہ عامہ سے عالمیہ تک جامعہ فرقانیہ راولپنڈی میں زیر تعلیم رہے، بعدازاں سکالر شپ پر کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں داخلہ لیاعربی تعلیم حاصل کرنےکےبعد 1992میں وطن واپسی کی اور دورہ حدیث جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی سے مکمل کیا آپ نےہزارہ یونیورسٹی سے MA کیا ہے اور ایم فل بھی ہزارہ یونیورسٹی سے گوجری زبان اور دینی ادب پر کر رہے ہیں۔ یقینا مفتی ادریس ولی کی شخصیت دینی وعلمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہے ۔اللہ تعالی نے آپ کو ظاہری اور باطنی خوبیوں سے نوازا ہوا ہے۔ ایک طرف آپ قرآن پاک کے پختہ حافظ ,،بہترین قاری، بہترین عالم اور مقرر ہیں اور دوسری طرف عمدہ لکھاری بھی ہیں۔ مفتی ادریس ولی نرمی و ملائمت کے ساتھ ٹھہراؤ اہتماد آپ کی گفتگو کی خاص خوبیاں ہیں۔ آپ سے ملنے والا کوئی آدمی آپ کے اخلاق و عادات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مزاج میں سنجیدگی متانت کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی موقع محل کی مناسبت سے دیکھنے میں آتا رہتا ہے ۔اللہ تعالی نے دینی و دنیاوی دونوں تعلیموں سے مالا مال کیا ہے اس لئے دونوں طبقات میں آپ کا اثر رسوخ اور تعلقات مثالی ہونے کی وجہ سے آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بالخصوص اہل علم میں آپ کی عزت و احترام ماشاءاللہ قابل رشک ہے ۔یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اس موضوع پر جتنا کام اللہ تعالی نے آپ سے گوجری زبان میں لیا اس دور میں بہت ہی شاذ ہے۔ گوجری زبان کے بہت اچھے ترجمان اور ماہر بھی ہیں ان کی کتاب لشکار محمد ﷺ گوجری زبان کی پہلی کتاب ہے سیرت النبی ﷺ پر سب سے پہلی کتاب سیرت ابن اسحاق ہے اور گوجری زبان میں سب سے پہلی کتاب لشکار محمد ﷺ ہے ۔یہ کتاب قاسم پرنٹر لاہور نےشائع کی ہے۔ طباعت اور جلد عمدہ ہونے کے ساتھ اچھا کاغز استعمال ہوا ہے۔ اس کتاب کے کل صفحات 376 ہیں اور کتاب کی جلد سازی اور اوراق کی نسبت قیمت 450 بڑی مناسب رکھی گئی ہے تاکہ ہر ایک شخص جو گوجری زبان میں سیرت النبی ﷺ کو پڑھنا چائیے تو اسکے لئے مشکل نہ ہو۔
کتاب کے آغاز میں مؤلف کا تعارف ڈاکٹرمیاں محمد شفیق بالاکوٹی صاحب کےقلم سے مختصر لیکن بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔اسکے علاوہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور جناب سردار محمد یوسف صاحب کا ایک جامع پیغام بھی کتاب کے شروع میں موجود ہے۔کتاب لشکار محمد ﷺ کی زبان وبیان (یعنی گوجری زبان ) کااعجاز پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل گوھر صاحب نےبڑے اچھے انداز میں تاریخی پہلویوں سے روشنی ڈالی ہے ۔اسکے بعدڈاکٹرمخلص وجدانی صاحب نےگوجری زبان اور سیرت پربہت عمدہ تبصرہ کیا ہے ۔ اور مشہور عالم دین میاں محمد نقشبندی صاحب کا پیغام بھی اہل نظر کے لئے ایک سبق ہے ۔
چوہدری عبدالرشید صاحب کے تبصرے کے بعد مقدمہ میں جناب مولانا سلطان محمود ضیاء نے تفصیلی انداز میں سیرت اور گوجری زبان پر تبصرہ کرکے حق ادا کردیا ہے ۔عرض مؤلف میں مؤلف نے اپنی بات واضع کرتے ہوئے ساتھ گوجری زبان میں ایک دوسری کتاب ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دن رات) پر کام کرنے کا جو اشارہ دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً مؤلف کو نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ و مقدسہ کے ساتھ بہت محبت اور عشق ہے۔ جسکا منہ بولتا ثبوت یہ کتاب جو منظر عام پر آچکی ہے اور دوسری کتاب کی کوشش جاری ہے۔ کتاب دو ابواب اور آٹھ فصلوں پر مشتمل ہے باب اول مکی دورپر مشتمل ہے اس باب میں چار فصلیں ہیں ۔فصل اول میں (آپ ﷺ کا نسب ) ہے جس میں عرب کی تاریخ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام،اعجاز کی حکومت، حضرت عبدالمطلب ،دین حنیف، شرک کی ابتدا شامل ہیں۔فصل دوم (آمنہ کے لال ﷺ کے بارے میں ہے) آپ ﷺ کا نسب ،پیدائش، بچپن، جوانی کے واقعات شامل ہیں ۔فصل سوئم ( نبوت کے بارے میں ہے) وحی کی ابتداء، خفیہ دعوت، اعلانیہ دعوت، مشرکین کی مخالفت، مسلمانوں پر ظلم و ستم ،ہجرت حبشہ اولی و ثانیہ مختصر مگر اصل مصادر کے حوالہ سے لکھے گے ہیں ۔چوتھی فصل (آزمائشی دور) ا س میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام قبول کرنا، ابوطالب کی جدائی ،حضرت خدیجہ کی جدائی ،نبی اکرم ﷺ کا طائف کا سفر، معراج کا واقعہ، انصار مدینہ کا اسلام لانا، بیعت عقبہ اولیٰ، بیعت عقبہ ثانیہ ،صحابہ کرام کی مدینہ ہجرت اور مشکلات مستند روایات کے ساتھ بحوالہ لکھی گئی ہیں ۔ باب دوم (مدنی دور) س باب میں چار فصلیں ہیں ۔فصل اول میں (ہجرت مدینہ) اس میں ہجرت ،غزوہ بدر، غزوہ احد، دیگر مختلف جنگوں پراچھے اندازمیں تبصرہ کیا گیا ہے ۔فصل دوئم (عروج السلام) اس میں مختلف سریا کا ذکر کرتے ہوئے صلح حدیبیہ، بادشاہوں کو دعوت اسلام دینا ، غزوہ خیبر پراچھی بحث کی گئی ہے ۔ فصل (سوم شان اسلام) اس میں فتح مکہ ،غزوہ حنین ، غزوہ طائف ،غزوہ تبوک، آپ ﷺ کا حجۃ الوداع ، آپ ﷺ کا سفر آخرت اور تدفین پر مستند راوایات کے حوالے سے تبصرہ کیا گیا ہے۔فصل چہارم (آل محمد ﷺ ) اس فصل میں ازواج مطہرات اور نبی اکرم ﷺ کی اولاد کا ذکر ہے۔ اس کتاب کی یہ بھی خوبی ہے کہ اکثر حوالے عربی کتب اور مصادر کے دئیے گے ہیں۔کتاب میں سیرت طیبہ کے سارے پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔زبان بڑی سادہ ہے اور محاوروں میں سارے لعجے گوجری کے موجود ہیں۔ سب سے اہم بات جو اس کتاب میں کیلنڈر استعمال ہوا ہے وہ تین کیلنڈر ہیں اس میں عیسوی کلینڈر بھی ہے۔،قمری کلنڈر بھی ہے، بکرمی کیلنڈر بھی ہے۔ جو سیرت کی کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں ہے۔کتاب کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں جدید تحقیقی پہلو استعمال کیا گیا ہے جو عام طور پر یونیورسٹیوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ کتاب کے آخر میں سارے مصادر و مراجع پیش کیے ہیں تقریبا 50 کتب کے حوالے پیش کئے گے ہیں اس اعتبار سے مؤلف کی محنت نہایت ہی قابل قدر اور قابل تحسین ہے ۔
کتاب کے آخر میں گوجری زبان کی گرائمر بھی پیش کی گئی ہے یہ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ کتاب تو گوجری پر نہیں تھی لیکن زبان گوجری کی استعمال کی گئی ہے تاکہ کہ دوسری زبانوں کے پڑھنے والے لوگ اس کتاب کے الفاظ اور جملوں کو سمجھ سکیں اور اس سے فاہدہ لے سکیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب تمام دینی اور عصری اداروں کی لائبریریوں کی زینت بنے گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور سنجیدگی سے اس کتاب کا مطالعہ کرکے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی جائیں گی ۔ برادر مکرم جناب مفتی ادریس ولی صاحب کو اس کتاب کی اشاعت پر اور کتاب کی تیاری میں مشکلات کی جو سنگلاخ اور پُرخار وادیاں عبور کی ہیں اور جس عرق ریزی اور جانفشانی سے یہ کام کیا ہے اس پر دل سے ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔یقینا ان کی محنت قابل قدر اور قابل تحسین ہے ۔اللہ تعالیٰ مفتی ادریس ولی صاحب کو مزید مخلصانہ علمی خدمات کی توفیق بخشے اور اس کتاب کو شہرت عام اور بقائے دوام نصیب کرے آمین۔ تحریر (مولانا ) محمد معروف صدیقی۔ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:28، 28 جنوری 2020ء (م ع و)
نوید احمد اعوان ممتاز سماجی شخصیت چکیاہ مانسہرہ
ترمیمتحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہر
میں آج آپ کا تعارف ایک ایسی نوجوان شخصیت سے کرواتا ہوں جہنوں نے 1971 کو ضلع مانسہرہ کےگاؤں چکیاہ میں جناب محمد بشیر صاحب کے گھر میں آنکھ کھولی والدین نے نام نویداحمد رکھا جبکہ آج زمانہ انہیں ناظم نویداحمداعوان کے نام سے جانتا ہے آپ نےابتدائی تعلیم اسلامیہ پبلک سکول مانسہرہ سے حاصل کی 8 کلاس میں پورے سکول کو ٹاپ کیا .میٹرک مسلم پبلک سکول سے کی ایف اے ریگولر آباد بورڈ سے کیا
بی اے پشاور یونیورسٹی سے ریگولر کیا اور ماسٹر پاک سٹڈی میں پشاور یونیورسٹی سے کیا 1995 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور 1995 ہی میں مانسہرہ اپر چنئی کے مقام پر انصاف موٹرز کے نام سے گاڑیوں کے کاروبار کا آغاز کیا 1997 میں پہلی بار بلدیاتی الیکشن میں بلامقابلہ امیدوار کے طور سامنے آئے مگر وہ الیکشن نہ ہوسکے 2001 میں بلدیاتی الیکشن میں یونین کونسل داتہ کے نائب ناظم کی حثیت سے حصہ لیا گاؤں چکیاہ سے بھاری اکثریت سے الیکشن جیتے لیکن باقی یونین کونسل سے کامیاب نہ ہوسکے 2005 میں پھر بلدیاتی الیکشن میں یونین کونسل داتہ کے نائب ناظم کی حثیت سے حصہ لیا اور یونین کونسل داتا کہ نائب ناظم بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے الیکشن کے بعد زلزلہ ہوگیا علاقہ کے اندر کئی جگہوں پر نقصان ہوئے آپ نے اس زلزلہ کےبعد بڑھ چڑھ کر خدمات سرانجام دیں آپ کے کے والد محترم جناب بشیرصاحب صوبہ پنجاب میں پیٹران کمپنی سے ایریا منیجر ریٹائر ہوئے آپ کے والد محترم بھی انتہائی عظیم شخصیت کے مالک اور بااخلاق انسان ہیں اور آپ کے چھوٹے بھائی تنویر صاحب سکول ٹیچر ہیں بہت اچھے اخلاق کے مالک محبت کرنے والے عزت دینے والے انسان ہیں آپ کے تیسرے بھائی یاسر صاحب اکوڑہ میں پیٹران کمپنی میں بطورایریا منیجر خدمات سرانجام دےرہےہیں اور ہرایک کی قدر کرنےوالے نوجوان ہیں آپ کے تیسرے بھائی عامرصاحب بھی ایک قابل بااخلاق نوجوان ہیں جو بطورتحصیل آفیسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ناظم صاحب کے چاروں بچے زیر تعلیم ہیں آپ کے بڑے بیٹے احسن نے یو ای ٹی پشاور سے بی ایس انجینرنگ کی ہے محسن ایف ایس سی کررہے ہیں آپکی بڑی بچی میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے اور چھوٹی بچی 8کلاس میں زیر تعلیم ہے ناظم نویداحمد صاحب بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک انسان ہیں بہت کم ایسے عظیم لوگ ہوتے ہیں جو ذاتی کام یا کاروبار کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لئے فلاحی کام بھی کریں ۔اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے تو سبھی بہت کچھ کرتے ہیں لیکن خلق خدا کے کاموں کے لئے وقت نکالنا کسی کسی کے نصیب میں آتا ہے۔ یقیناً کسی کے لئے وقت نکالنا اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنا اور لوگوں کے کام آنا بہت بڑی بات ہے۔ علاقہ میں روڈ پانی بجلی گیس جیسی سہولیات ہوں یا دیگر رفاحی کام یہ سب کچھ آپ ہی کی کوشش سے ممکن ہوا آپ خلق خدا کی بھلائی کے لئے ہروقت مصروف رہتے ہیں دنیا میں بہت سارے لوگ آئے اور چلے گئے ، جن کے پاس بیش بہا دولت کے خزانے بھی تھے اور بڑے عہدوے بھی تھے پر دنیا میں نام ان کا زندہ رہا جو مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہ کر زندگی بسرکرگے ، اس دنیا میں بہت سارےلوگ جناب نویداحمد صاحب کی طرح اب بھی موجود ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ، آج کے دور میں ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ بڑا عہدہ ، دولت ، شہرت ، مل جائے لوگوں میں تکبر آ جاتا ہے ، لیکن آج ہمارے درمیان نویداحمداعوان کی صورت میں ایک ایسے انسان موجودہ ہیں جو سب کچھ پا لینے باوجود اپنے اندر عاجزی تواضع اور انسانیت کی بھلائی کا جذبہ رکھتے ہیں. انسانیت سے محبت رکھتے ہوئے اپنے جیب سے خرچ کرکے بغیرکسی لالچ طمع کے بے لوس عوامی خدمت کوعبادت سمجھ کر مصروف رہتے ہیں یقیناً انسا نوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مددکرنے کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا ہے لیکن دین اسلام نے خدمت ِ انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔ رب کو اپنے بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالا نکہ اس زات کو کسی کنبے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں لئے زیادہ نفع بخش ہوں.اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرنا ایک ماہ مسجد میں اعتکاف بیٹھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ احباب جو عوامی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اسلام انکی سماجی خدمات کو بڑی اہمیت دیتا ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے سے پہلے بھی ایک بہترین سماجی شخصیت تھے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ پر جب غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ؐ نے گھر آ کر زوجہ محترمہ کو غارِ حرا کا یہ واقعہ سنایا اور ساتھ ہی پریشانی کا اظہار فرمایا جو کہ ایک طبعی اور فطری بات تھی، حضرت خدیجہؓ بڑی سمجھ دار خاتون تھیں، اس پر ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے پہلا ردِ عمل یہ ظاہر کیا، خدا کی قسم! آپ تسلی رکھیے اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اس واقعے میں آپ کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر حضرت خدیجہؓ نے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس لیے ضائع نہیں ہونے دے گا کہ معاشرے میں آپ کی خدمات اور کارکردگی قابلِ تعریف و ستائش ہیں، آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں، رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ملانے والے ہیں، بیواؤں اور لاوارث لوگوں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں، محتاجوں کو کما کر دینے والے ہیں، مہمانوں کی مہمانداری کرنے والے ہیں اور لوگوں پر آنے والی مشکلات میں ان کی مدد کرنے والے ہیں۔ یعنی جو آدمی سوسائٹی کے حقوق ادا کرتا ہو اور معاشرے کے نادار لوگوں کا سہارا بنتا ہو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ضائع نہیں کرتے بلکہ اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایک نبی کے طور پر جناب نبی کریمؐ کا پہلا تعارف ہی اس بات سے ہوا کہ آپؐ بیواؤں، یتیموں، مسکینوں اور غریبوں کے کام آتے ہیں۔ چنانچہ سماجی خدمت سوسائٹی کا حق ہے، معاشرے کا یہ حق جناب نبی کریمؐ نے خود بھی ادا کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی۔ اور ایک روایت کے مطابق محبوب خداﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جو شخص اپنے بھائی کے کام کےلئے چلے اور اس کام میں کامیاب بھی ہو جائے تو اس کےلئے یہ کوشش دس سال کے اعتکاف سے زیادہ افضل ہے جناب نوید احمد صاحب انتہائی بااخلاق اور باکمال انسان ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو انتہائی شاندار شخصیت کا مالک بنایا ھے ۔ مالک نے آپ کو بے انتہا خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہوا ھے ۔ آپ کسی بھی قسم کی مشکل سے یا دن رات محنت کرنے سے نہیں گھبراتے ۔ آ پ نہایت ایماندار اور پر عزم اور ارادے کے پکے اور اعلی ظرف کے مالک ہیں۔ آپ دوسروں کا خیال رکھنے والے اور اپنی زمہ داریاں نہایت ایمانداری کے ساتھ بجا لارہے ہیں آپ سے ایک بار ملنے کے بعد لوگ آپ سے دوبارہ ملنا پسند کرتے ہیں۔ آپ جس محفل میں بھی جائیں وہاں لوگ آپ کو بہت زیادہ عزت دیتے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کو بھی بے پناہ عزت دیتے ہیں۔ اگریہ کہاجائے توبالکل ٹھیک ہوگا کہ یہ معاشرہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی اتنا خوشحال اور ترقی یافتہ ہے۔یقیناً ناظم نوید صاحب جیسے لوگ قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں اور انکی سماجی خدمات قابل تقلید ہیں۔ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:23، 20 فروری 2020ء (م ع و)
مولانا قاضی محمد یوسف صاحب عظیم شخصیت بے مثال کردار گاؤں سیور ہنگرائی حال کراچی
ترمیمتحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان ناظرین آج کا ہمارا موضوع ہے عظیم شخصیت اور بے مثال کردار
آج میں جس عظیم شخصیت کا تعارف آپ کے سامنے لارہا ہوں وہ ایک باہمت با کردار با حیا اور اپنی مثال آپ ہیں. ایک عظیم شخصیت جو آج کل کے بےحس معاشرے میں ہمارے خاندان و علاقے میں اپنی اعلی صفات کی وجہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتے، میری مراد مولانا قاضی محمد یوسف صاحب ہیں مولانا قاضی محمد یوسف صاحب جہنوں نے ضلع مانسہرہ تحصیل بالاکوٹ کی یونین کونسل ہنگرائی کے زرخیز علاقہ سیور میں 1950کوحاجی ولی الرحمن صاحب مرحوم کے گھر میں آنکھ کھولی والدین نے نام محمد یوسف رکھا جبکہ زمانہ انہیں مولانا قاضی محمد یوسف کے نام سے جانتا ھے. موصوف کا خاندان اور آباء و اجداد اپنے وقت کے نامور دینی مذہبی لگاؤ رکھنے والے عظیم لوگ تھے مولانا محمد یوسف صاحب کے دادا جان عبداللہ مقدم کے نام سے مشہور تھے جو برصغیر کئ تقسیم سےقبل انگریز کے زمانہ میں علاقہ کے مقدم رھے . مشہور جانی پہچانی شخصیت کے مالک تھے انگریز دور کی تاریخ اور مختلف حوالوں کے ساتھ ان کا ذکر کاغذات میں بطور مقدم موجود ہے آپ کے دادا جان لوگوں کے مسائل حل کروانے اور علاقہ کے لیے خدمات سرانجام دینے میں اہم کردار ادا کرتے رہے موصوف کے دادا جان کے دوسرے بھائی اور راقم کے نانا اس وقت کی مشہور علمی وروحانی شخصیت تھے جو مولانا محمد حمید اللہ کے نام سے مشہور تھے جنہوں نے ابتدائی تعلیم برصغیر پاک وہند کے بڑے اداروں سے حاصل کی اور تعلیم کے بعد وادی کشمیر کی عوام کے اصرار پر وہاں پڑھانے چلے گئے یہ اس زمانے کی بات ہےجب علم حاصل کرنا بہت مشکل تھا بلکہ علماء جن علاقوں میں ہوتے تھے ان علاقوں کو غنیمت سمجھا جاتا تھا اس زمانے میں ہنگرائی سیوراور دیگر دائیں بائیں علاقوں میں کوئی علمی شخصیت موجود نہیں تھی سوائے ہنگرائی میں مولاناعبداللہ شاہ صاحب کے . اہل علاقہ نے مشورہ کرنے کے بعد ایک وفد وقت کشمیر بھیج کر انہیں وطن واپس کیا وہ پھر اپنے علاقے میں مختلف جگہوں پر دینی خدمات سرانجام دیتے رہے عام لوگوں کے علاوہ خاندان گھنیلا کی مایہ ناز شخصیات نے اس سے علم حاصل کیا خاندان گھنیلا میں ان کے عقیدت مند کثیر تعداد میں تھے. مولانا قاضی محمد یوسف صاحب کے والد صاحب بھی ایک نیک سیرت انسان تھے لمبا قد خوبصورت چہرہ اور رعب دار انسان تھے زہدوتقوی میں اپنی مثال آپ تھے مولانا یوسف صاحب پانچ بہن بھائی ہیں. مولانا قاضی یوسف صاحب کے بڑے بھائی حاجی سلیمان صاحب بھی ایک نیک صفت انسان تھےجہنوں 2013 میں وفات پائی ان سے چھوٹے مولانا قاضی محمد یوسف صاحب ہیں اور ان سے چھوٹی ہمیشرہ ہیں جن کو اللہ تعالی نے بڑی صفات سےنوازہ ہواہے علاقہ کے اندر بڑی عزت پانے عزت دینے والی ہمدردی رکھنے والی عظیم شخصیت کی مالک خاتون ہیں.ان سے چھوٹے بھائی جناب حاجی عزیز رحمان صاحب جو نیک سیرت انسان ہیں اور تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں. اور اس کے بعد تیسرے بھائئ جناب حاجی محمد قاسم صاحب جو زہد و تقوی میں اپنی مثال آپ ہیں ان سے چھوٹے حاجی میر افضل صاحب ہیں جنکو اللہ تعالی نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہوا ہے یہ دونوں بھائی حاجی محمد قاسم صاحب اور حاجی میرافضل صاحب الحمداللہ کنسٹریکشن کمپنیاں چلا رہے ہیں اور ہزاروں لوگ ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں ہزاروں لوگوں کے چوہلے ان کی وجہ جل رہے کئی یتیموں غریبوں مسکینوں اور کے سروں دست شفقت رکھے ہوئے ہیں مولانا قاضی محمد یوسف صاحب کو ابتدا ہی سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا.آپ نے ابتدائی تعلیم پاکستان کے مختلف دینی اداروں سے حاصل کی وقت کے بڑے شیوخ سے علم حاصل کیا جس میں مولانا غلام اللہ خان صاحب پنجاب اور سندھ کے مایہ ناز علماء شامل ہیں آپ نے فراغت کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور پھر کراچی ہی کے ہو کر رہ گئے مختلف جگہوں پر دینی خدمات سرانجام دینے کے بعد کراچی کے مشہور اور خوبصورت مقام گلشن اقبال بلاک نمبر 17 میں ایک مسجد خود بنوائی اور اس مسجد میں دین کی خدمات سر انجام دینے لگے ساتھ ہی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں سرکاری خطیب مقرر ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ دینی علمی خدمات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور جامع مسجد ستار بھی ایک عظیم دینی مرکز بن گی.آپ سرکاری سطح پر بھی خدمات سرانجام دیتے ہوئے آفیسر گریڈ میں ریٹاہرڈ ہوئے ہیں. اللہ تعالی نے آپ کو نو بچیاں اور ایک بچہ عطا کیا بچیوں کی تعلیم اور تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور دینی اور عصری علوم سے آراستہ کرنے کے بعد ان کی رخصتیاں کیں. الحمداللہ آپ کو جتنے بھی داماد ملے وہ مفتی عالم قاری اور دین سے محبت کرنے والے ہیں آپ کے بڑے داماد مولانا رفیق جامی اچھے متقی عالم اور جامعہ سعیدیہ کراچی میں سینئرمدرس ہیں اور کے ڈی اے میں امام بھی ہیں آپ کے دوسرے داماد مولانا قاری محمد صابر صاحب جو آپکے بھانجے بھی ہیں اور داماد بھی ہیں اچھے قاری بہترین عالم اور متقی انسان ہیں اور جامعہ نعمان اسلام میں بحثیت ناظم تعلیمات ہیں ساتھ ایک بڑی جامع مسجد کے خطیب اور صفہ ادارہ میں اسلامک بلاک کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ خدمات سرانجام دے رہے ہیں آپ کے تیسرے داماد مولانا طیب صاحب اچھے عالم ہیں اور جامعۃ الرشید کے زیراہتمام خدمات سر انجام دے رہے ہیں آپ کے چوتھے داماد مولانا اورنگزیب صاحب بہترین عالم متقی انسان ہیں اور لاہور میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں آپ کے پانچویں داماد سہیل صاحب پاکستان آرمی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور دین سے محبت کرنے والے انسان ہیں آپ کے چھٹے داماد مولانا مفتی رفیق صاحب ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں ملک پاکستان کے بڑے دینی ادارہ جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں شعبہ تخصص فی الفقہ کے نگران اور سینئر اساتذہ میں شامل ہیں. آپ کے ساتویں داماد جناب سردار عبدالرحمان صاحب ہیں جو آپ کے بھتیجے بھی ہیں اور اے آر کنسٹرکشن کمپنی کے ایم ڈی ہیں انتہائی با اخلاق اور دین سے محبت کرنے والے انسان ہیں اہل علم کے قدر دان ہیں آپ کی دو بچیاں زیرتعلیم ہیں آپ کے بیٹے مولانا عتیق الرحمان صاحب ملک کے بڑے ادارے جامعہ علوم السلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فارغ التحصیل ہیں . ماشاءاللہ بہترین قاری اچھے عالم اور بہترین حافظ ہیں علماء کی خدمت دین کی اشاعت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں مولانا محمد قاضی محمد یوسف صاحب کی سرپرستی میں آپ کے صاحبزادے ماشاءاللہ ایک بہترین مدرسہ چلایا رہے ہیں جس میں دینی عصری علوم کے ماہر طلباء تیار ہورہے ہیں اس میں پڑھنے والے طلباء وفاق المدارس میں پوزیشن بھی لیتے ہیں ناظریں مولاناقاضی محمدیوسف صاحب کی زندگی مزید بات دوسرے پروگرام میں کریں گے ہماری اگلی ویڈیو کو بھی لازمی دیکھیۓ تب تک کے لئے اجازت دی جیئے اللہ حافظ
2- السلام علیکم ناظرین میں ہوں آپ کا میزبان محمد معروف صدیقی اور دیکھ رہے ہیں ایم ایس میڈیا ہاؤس ناظرین ہم نے گزشتہ پروگرام میں مولانا قاضی محمد قاضی یوسف صاحب کی ابتدائی زندگی پر بات کی تھی اب دوسرے حصہ میں ہم انکی زندگی پر مزید بات کریں گے
ناظرین مولانا قاضی محمدیوسف صاحب انتہائی مہمان نواز اور مخلص شخصیت کے مالک انسان ہیں ہے جو ہر انسان سے محبت کرتے ہیں ہرایک کے ساتھ انکی محبت بے مثال ہے. مولانا محمد یوسف صاحب کئی غریب لوگوں. یتیم بچوں بیوہ خواتین.مساجد اور مدارس کے ساتھ تعاون کرنے والے انسان ہیں .
دنیا میں بہت سارے لوگ آئے اور چلے گئے ، جن کے پاس بیش بہا دولت کے خزانے بھی تھے اور بڑے عہدوے بھی تھے پر دنیا میں نام ان کا زندہ رہا جو مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہ کر زندگی بسرکرگے ، اس دنیا میں بہت سارےلوگ جناب مولاناقاضی محمد یوسف صاحب کی طرح اب بھی موجود ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ، آج کے دور میں ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ بڑا عہدہ ، دولت ، شہرت ، مل جائے لوگوں میں تکبر آ جاتا ہے ، لیکن آج ہمارے درمیان مولانا قاضی محمد یوسف صاحب کی صورت میں ایک ایسے انسان موجودہ ہیں جو سب کچھ پا لینے کے باوجود اپنے اندر عاجزی تواضع اور انسانیت کی بھلائی کا جذبہ رکھتے ہیں. انسانیت سے محبت رکھتے ہوئے اپنے جیب سے خرچ کرکے بغیرکسی لالچ طمع کے بے لوس عوامی خدمت کوعبادت سمجھ کر مصروف رہتے ہیں اللہ تعالی نے بڑی صفات سے نوازا ہوا ہے . مشہور روحانی وسیاسی شخصیت جناب میاں ولی الرحمان مرحوم صاحب کے ساتھ آپ صف اول میں رہے اور سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف صاحب کے قریبی ساتھیوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے . مولانا محمد یوسف صاحب کا معمول ہے کہ روزانہ نماز فجر سے قبل پانچ کلو میٹر واک کرتے ہیں ہیں انتہائی نفیس انتہائی ذہین اور باکمال انسان ہیں
یقیناً ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو انتہائی شاندار شخصیت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ آپ کو بے انتہا خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ آپ کسی بھی قسم کی مشکل سے یا دن رات محنت کرنے سے نہیں گھبراتے ۔ آ پ نہایت ایماندار,عزم اور ارادے کے پکے ہیں۔ آپ حوصلہ مند اور بہادر ہیں۔آپ ایک بلند پایہ عالم ہیں خالق کائنات کی طرف سے آپ کو قلب سلیم اور دل دردمند سے وافر حصہ عطا کیا ھے نہایت صائب الرائے، ہر دلعزیز اور باوقار شخصیت کے مالک ہیں ، آپ نےزندگی کا زیادہ حصہ کراچی جیسے بڑے شیر میں گزاراہ جہاں سے علم وفن کے ہیرے وموتی ماہرِ فن رجالِ کار، دعوت وارشاد اور تزکیہٴ قلوب کے شیوخ پیدا ہوئے ان شخصیات کی صحبت نے قاضی صاحب کی زندگی کو چار چاند لگادئیے صحبت ہمیشہ انسان کو متاثر کرتی ہے کامیاب انسان بننے کے لیے کامیاب لوگوں کی صحبت اختیارکرنا لازمی ہے، اچھی عادتیں انسان کو اچھا اور بری عادتیں انسان کو برا بنادیتی ہیں۔ آپ ایک
ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان ہیں یقینا دنیا میں ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں جن کے سامنے کوئی بلند مقصد ہو اور وہ اس کو پانے کے لیے جانیں تک کھپا دیں، ایسے ہی عظیم افراد سے قوم کو نئی زندگی ملتی، جنکی بدولت لوگوں کی زندگی کے چراغ روشن رہتے ہیں اور آنے والی نسلیں ان پر فخر کرتی ہیں، کچھ احباب کے بقول مولاناقاضی محمد یوسف صاحب کی زندگی شروع ہئ سے مختلف تھی اور اگریہ کہا جائے تو بالکل ٹھیک ہوگا کہ آپ بھی ان لوگوں میں بھی شامل ہیں جو لوگ دنیا میں جو عزت و شہرت حاصل کرتے ہیں ان کی زندگی شروع ہی سے عام آدمیوں سے مختلف ہوتی ہے، کچھ حاصل کرنے کے لیے اپنی صحت داؤپر لگانا پڑتی ہے۔ یقیناً لوگ بڑے پیدا نہیں ہوتے بلکہ اپنی محنت، جدوجہد اور بے پناہ ایثار و قربانی کے بعد آخرکار دنیا سے اپنی شخصیت کا لوہا منوالیتے ہیں ایسے لوگوں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرتی، ہمت بلند ہو اور یقین کامل کہ جس مقصد کو لے اٹھے ہیں وہ ہر لحاظ سے درست ہے تو معمولی سامان سے بھی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں.آپ اپنے زیر سایہ خاندان کے افراد کی موقع محل کی مناسبت سے تربیت کرتے رہتے ہیں جو مشکلات خود برداشت کرکے یہ مقام حاصل کیا ان مسائل سے چاہنے والوں کو بچنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں اپنے خاندان کے لوگوں کا بہتر انداز میں آڈٹ بھی کرتے ہیں یقیناً جو قومیں خود اپنی زندگی کا آڈٹ کرتی ہیں اور ان کے افراد خود اپنا احتساب کرتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتیں بلکہ کامیابی کی ایسی عظیم منازل طے کرتی ہیں کہ تمام دنیا والوں کے لیے مشعل راہ و مینارۂ نور کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں، فرد سے افراد، افراد سے معاشرہ اور معاشرے سے اقوام تشکیل پاتی ہیں۔ آپ وقت کے پابند ہیں حق پرست اور حق گوہ انسان ہیں یوں ہر شخص ہی زندگی گزارتا ہے لیکن زندہ رہنے اور جینے میں بڑا فرق ہے اور پھر کامیابی کے ساتھ جینے میں تو بہت ہی فرق ہے، آپکی زندگی میں ایک کامیاب شخص کے اوصاف جاتےہیں جس میں خاص کر وقت کا بہتر استعمال، تضیع اوقات اور کاہلی سے بچنا ہے ، آپکی شخصیت میں بہتر منصوبہ بندی، شخصیت سازی، حق گفتگو، افراد کار سے تعلقات. اور کئی انفرادی و اجتماعی صلاحیتوں کے معاملات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں آپ کے بقول زندگی میں کامیابی کے لیے زندگی گزارنے کے عظیم اصولوں کے صحیح ترین استعمال کا زریں لائحہ عمل اختیار کرنا نہایت ضروری ہے جن کی مثال ہمیں کامیاب شخصیات کی زندگی میں بخوبی اور بدرجہ اتم نظر آتی ہے اور منظم متوازن، موثر، مستعد اور با مقصد زندگی کے حامل شخصیات کو کامیابی خود تلاش کرتی ہے.
آپ انتہائی بااخلاق اور باکمال انسان ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو انتہائی شاندار شخصیت کا مالک بنایا ھے ۔ مالک نے آپ کو بے انتہا خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہوا ھے ۔ آپ کسی بھی قسم کی مشکل سے یا دن رات محنت کرنے سے نہیں گھبراتے ۔ آ پ نہایت ایماندار اور پر عزم اور ارادے کے پکے اور اعلی ظرف کے مالک ہیں۔ آپ دوسروں کا خیال رکھنے والے اور اپنی زمہ داریاں نہایت ایمانداری کے ساتھ بجا لارہے ہیں آپ سے ایک بار ملنے کے بعد لوگ آپ سے دوبارہ ملنا پسند کرتے ہیں۔ آپ جس محفل میں بھی جائیں وہاں لوگ آپ کو بہت زیادہ عزت دیتے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کو بھی بے پناہ عزت دیتے ہیں۔ اگریہ کہاجائے توبالکل ٹھیک ہوگا کہ یہ معاشرہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی اتنا خوشحال اور ترقی یافتہ ہے۔
محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:26، 20 فروری 2020ء (م ع و)
حاجی فرید صاحب مرحوم چکیاہ مانسہرہ تحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ
ترمیمتحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی. اس دنیا میں کچھ لوگ بہت عظیم ہوتے ہیں اور دِل چاہتا ہے ہم بھی اسی طرح عظیم بنیں ، اور یہ لوگ صرف زندگی میں ہی عظیم نہیں ہوتے بلکہ موت کے بعد بھی ان کی عظمت کا چرچارہتا ہے، چنانچہ جب یہ عظیم لوگ ہمارے درمیان بھی نہیں رہتے تو بھی اپنی محبتیں، اپنی یادیں، اپنا خلوص چھوڑجاتے ہیں، اور صدیوں تک لوگوں کے دِلوں میں نقش رہ جاتے ہیں۔ وہ اپنے کام اور سچے جذبوں سے ہمارے لئے بہت کارآمد باتیں چھوڑجاتے ہیں۔ انمول لوگ ہوتے ہیں جو بسا اوقات گمنام ضرور ہوتے ہیں مگر ایسی شمع روشن کر جاتے ہیں کہ برسوں لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ہم ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کو جب پڑھتے ہیں تو ہمیں ایک احساس ملتا ہے، دوسروں کو سمجھنے کا، دوسروں کے غم پڑھنے کا، دوسروں کو خوشی دینے کا۔ یقیناً دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرزحیات رکھتی ہیں جن کارہن سہن ملنا جلنا اٹھنا بیٹھنا بات چیت لب ُ لعجا الغرض زندگی کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے ایسی ہی چند شخصیات میں ہمارے علاقہ کی ایک عظیم شخصیت جناب بابو غفران صاحب ہیڈماسٹر ریٹائرڈ جناب اقبال صاحب جناب صدیق صاحب جناب رفیق صاحب جناب چیئرمین شفیق صاحب کے بڑے بھائی اور بھائی خورشید صاحب ماسٹر حنیف صاحب ماسٹر ثاقب صاحب کے والد محترم جناب حاجی بابو فرید صاحب بھی تھے جو 7 جنوری 2020 بروز بدھ کو اس دار فانی کو چھوڑ کر دار بقاء کی طرف چل بسے جناب حاجی فرید صاحب مرحوم اپنے پیچھے ایک ایسی زندگی چھوڑ گئے جو قدم قدم پر بحثیت علاقہ ہمارا سر فخر سے بلند کرتی ہے صرف ہم ہی نہیں بلکہ زمانہ بھی ان کی مثال دیتا ہے کوئی کہتا ہے کہ اگر حاجی صاحب نہ ہوتے تو آج میں اس مقام پر نہ ہوتا کوئی کہتا ہے کہ یہ حاجی صاحب کی ذات تھی جنہوں نے زندگی کے ہر موقع پر بلا غرض وغایت مدد کی غریب کیا امیر کیا آپنے کیا پرائےکیا ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آتا ھےیقینا حاجی صاحب تھے بھی ایسے ہی اخلاص ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا تحمل بردباری دور اندیشی اور دانائی ان سب خوبیوں سے مرقع تھے وہ ایک علاقہ کی مثالی شخصیت مثالی باب مثالی بیٹا مثالی بھائی مثالی خاوند مثالی دادا مثالی نانا مثالی سسر مثالی پروسی مثالی سرپرست غرض ہر سطح پر اپنی مثال آپ تھے انہوں نے تمام زندگی اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق گزاری حاجی فرید صاحب کا مرحوم ایک نیک دل نیک ذات نیک صفات والے انسان تھے نرم جوئی اور نرم روی ان کی عادت ثانیہ تھی مرحوم حاجی فرید صاحب نے 1943 کو گاؤں چکیاں میں جناب عمران صاحب کے گھر میں آنکھ کھولی آپ والد اوردادا محمد یعقوب بھی اپنے وقت کے بڑے ہی معزز شخصیت بقول جناب ہیڈ ماسٹر اقبال صاحب کے بقول جب ھم رات کو سونے کے لئے چارپائی پر چلے جاتے تھے تو دادا جان اس وقت تک ہم بھائیوں کو سونے نہیں دیتے تھے جب تک انکے سامنے اونچی آواز میں سورۃ یاسین نہ پڑھ لیتے آپ کے والد محترم اس زمانے میں محکمہ مال میں سرکاری افسر بھرتی ہوئے جب تعلیم کا فقدان تھا لیکن آپ کے والد محترم انتہائی متقی انسان تھے اس وجہ سے محکمہ مال کو چھوڑ دیا کہ یہاں رشوت زیادہ ھے اسکے بعد پوسٹ آفس میں بھرتی ہوئے. بابو فرید صاحب نے مانسہرہ ہائی سکول سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پوسٹ آفس میں بحثیت بابو تعینات ہوئے ترقی کرتے ہوئے انسپکٹر بنے اور مزید ترقی کرتے ہوئے ریجنل سپریٹنڈنٹ پی ایس 18 میں پہنچے اپنے علاقہ کے لئے اور عام لوگوں کے لیے خدمات سرانجام دیتے ہوئے 2003 میں ریٹائر ہوئے آپ کے قلم سے تین سو کے قریب لوگ مختلف سرکاری پوسٹوں پر تعینات ہوئے آپ کے قلم اور آپ کی شکست سے آج سینکڑوں لوگوں کے چوہلے جل رہے ہیں جوآپ کےلیےعظیم صدقہ جاریہ ہوں گے کئی مساجد کی مدارس کی تعمیر میں حصہ لیا کئی یتیم بچوں بیوہ خواتین کی مدد کرتے رہے آپ کے در پر جو بھی جو مسئلہ لے کر آیا کبھی مایوس واپس نہیں گیا جس کا بھی کام کیا ایک کہ چائے پینا بھی گوارہ نہیں سمجھا جو کام کیا معض اللہ کی رضا کے لئے کیا آپ کی کتاب زندگی میں نمود و نمائش اور خواہش شہرت اور ناموری کا باب گویا تھا ہی نہیں آپ کے پیش نظر محض رضائے الہی کے لئے اللہ کے بندوں کی خدمت تھی ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ کیے بغیر اسی میں انہوں نے اپنی پوری حیات صرف کردی اور اس احتیاط کے ساتھ کے کسی دل کو ان کے کسی عمل سے تکلیف اور ٹھیس نہ پہنچے آپ انتہائی ذہین اور باکمال انسان تھے اللہ تعالی نے آپ کو انتہائی شاندار شخصیت کے ساتھ پیدا کیا کئی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا آپ نہایت ہی امانتدار اور اصول پسند انسان تھے آپ ہمیشہ دوسروں کے اچھے اقدام کو تحسین و تعریف کی نظر سے دیکھتے تھے آپ نے اپنی نوکری نیاہتہی امانت داری کے ساتھ سرانجام دی آپ سے ایک بار ملنے کے بعد لوگ آپ سے دوبارہ ملنا پسند کرتے تھے اگر یہ کہا جائے تو یقینا ٹھیک ہو گا کہ یہ معاشرہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے اتنا خوشحال اور ترقی یافتہ ہے قدرت الٰہی جب کسی بندہ سے کوئی خدمت لینا چاہتی ہے تو اسی انداز میں اس کی نشونما اور تربیت کی تدبیر کرتی ہے اللہ تعالی نے حاجی صاحب کو بڑی مقبولیت سے نوازا ہوا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موسم کی سخت ناسازگاری اور سخت سردی کے باوجود ان کی نماز جنازہ میں سینکڑوں کا مجمع تھا اور ہر شخص حاجی صاحب کی جدائی پر غم زدہ تھا ہر ایک آنکھ اشک بار تھی ہر ایک اس غم کو اپنا غم اس دکھ کو اپنا دکھ سمجھ رہا تھا ان کے نماز جنازہ میں سیاسی سماجی مذہبی شخصیات بھی کثیر تعداد میں شریک تھیں حاجی صاحب کا نماز جنازہ ساڑھے چار بجے چکیاہ دوراہا کے مقام پر ادا کیا گیا مرحوم حاجی صاحب بندہ ناچیز کے ساتھ بھی بڑی محبت و شفقت فرماتے تھے جب بھی ملاقات ہوتی ہے ہمیشہ مسکراتے چہرہ کے ساتھ محبت بھری نگاہوں سے ملتے غم کی اس گھڑی میں ہم اپنے بھائیوں جناب خورشید صاحب ماسٹر حنیف صاحب ماسٹر ثاقب صاحب ملک بلال کے ساتھ برابر کے شریک ہیں حاجی صاحب کے جنازہ میں خاص بات دیکھنے کو جو ملی اور مجھے بہت سارے احباب نے بھی بتایا حاجی صاحب کا نماز جنازہ اور چہرہ دیکھ کر مجھے اور دوسرے احباب کو میرے والد محترم یاد آ گئے میرے والد محترم 2013 کو ہم سے جدا ہوئے ان کا چہرہ بھی اسی طرح چمک رہا تھا جس طرح حاجی صاحب مرحوم کا چہرہ چمک رہا تھا آخر میں دعا گو ہوں اللہ تعالی میرے والد صاحب سمیت حاجی فرید صاحب مرحوم کی قبر اور آخرت کی تمام منازل آسان فرمائے دونوں شخصیات کو کروٹ بہ کروٹ جنت کی نعمتیں نصیب فرمائے اور بھائی خرشید صاحب ماسٹر حنیف صاحب ماسٹر صاحب ماسٹر ریٹائرڈ اقبال صاحب صدیق صاحب رفیق صاحب شفیق صاحب سمیت تمام خاندان والوں کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور اللہ تعالی ہم سب کو قبر اور آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق نصیب فرمائے محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:30، 20 فروری 2020ء (م ع و)
میرے ابو میری کائنات محمد معروف صدیقی
ترمیمتحریر محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ ہزارہ پاکستان مرحوم والد محترم کی یاد میں
لمحات کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں، جو زندگی میں آنا ضروری ہوتے ہیں۔اور وہی لمحات انسانی ذہین پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔اگر قدرت نے اس جہان میں ، امید ،صبر کی نعمت اور خوشیوں کی جھلک نہ رکھی ہوتی تو شاید دنیا کا نام جہنم پڑجاتا اگر چہ جہنم تو نہیں کہلاتی ، مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ دنیا بہت ظالم ہے، یہی دنیا کی گردش دوراں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہے، انسان کے خون کا آخری قطرہ اس کی امیدوں کا واحد محور اور اس کا آخری سہارا ، سب کچھ اسی ستم ظریف کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ نظام قدرت ہے کہ انسان کو درد اسی وقت ہوتی ہے جب اسے چوٹ لگ جاتی ہے، اور درد اسی کو ہوتی ہے ، جس کو چوٹ لگتی ہے، اور پھر یہ درد اس وقت تک باقی رہتی ہے، جب تک انسان زندہ رہتا ہے۔ کچھ لمحات اور مخصوص مواقع ایسے بھی آتے ہیں، جب زندگی کے زخموں پر پڑی ہوئی گرد کو جھاڑ کر زخموں کو پھر تازہ کر دیتے ہیں۔ 2اپریل 2013کا دن بھی ایک ایسا ہی دن ہے ،جب راقم سے دنیا نے متاعِ گراں قیمت چھین لی۔ اوروالد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ 2اپریل 2013 کو میرے والد گرامی کو ہم سے بچھڑگے مگر ان کی یادیں اور ان کی جدائی کا درد آج بھی تازہ ہے۔ آج بھی میرا دل نوحہ کناں ہے، آج بھی اشک اور آہیں تنہائی کے لمحوں میں صبرو استقامت کے بندھ توڑ کر بہ نکلتے ہیں۔آج بھی ان کی نصیحتیں میرے کانوں میں گونج اٹھتی ہیں۔آج بھی ان کا عکس میر ی تر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔اور آج بھی مجھے ان کی یاد خوب خوب رلاتی ہے۔ والد گرامی نے ایک عام غریب آدمی کی زندگی گزاری۔ بظاہر وہ جتنے عام تھے در حقیقت وہ اتنے ہی خاص تھے۔ بلامبالغہ وہ پوری پوری رات جاگ کر ذکر بالجہر کیا کرتے ہوئے گزارتے تھے۔ان کے معمولات میں شامل تھا کہ نماز عشاء کے بعد اپنے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ پر درود شریف کا ہدیہ بھیجتے ان کے اذکار میں درود پاک کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔مجھے بھی بے حساب درود وسلام پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ گن گن کر اذکار کرنے کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔رات کے آخری حصے میں رو رو کر دعائیں فرماتے تھے۔ بالآخر2اپریل 2013 صبح پانچ بجےکے قریب وہ اس دار فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ آخری لمحات میں انہوں نے آب زم زم نوش فرمایا۔اور دلچسب بات یہ ہے کہ آخری وقت تک ان کی زبان پر ذکر خداوندی جاری رہا.اللہ تعالٰی میرے والد محترم کی مغفرت فرمائیں ، ان کی بشری لغزشیں معاف فرمائیں۔ اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور اللہ تعالی ہمیں والدمحترم کے لئے صدقہ جاریہ کے طور پر قبول فرمائیں ۔آمین یا رب العالمین محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:33، 20 فروری 2020ء (م ع و)