مظہرفریدی
پرندوں کی اداسی اورکاشف کی غزل۔مظہرفریدی
پرندوں کی اداسی اورکاشف کی غزل غزل نہ صرف ہرعصر کی روح رہی ہے بل کہ روحِ سخن بھی ہے۔اگر شاعری ایک جسم ہے تو جان غزل ہے!؟اورہماراعہداگرچہ بے چہرگی کے کرب میں مبتلاہوا۔اورانسانی جذبات واحساسات کے ساتھ تقسیم ہند والامعاملہ ہوا جسے خوب صورت انداز میں احمدراہی نے قلم بندکیا۔ جندوں اپنڑی اپنڑی پے گئی دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی اورجب ادب میں غدرپڑا تو خود نگر،خود شناس اورخوش فہمی میں مبتلا شاعروں نے ادب پر دھاوابول دیا۔اب ادب کو ئی جاگیرتونہیں کہ لٹ جاتی۔نتیجتاً غبارچھٹاتو ۔نہ کوئی زیاں تھا،نہ سودتھا۔نئے شعرا نے ادب کو پھرسے اعتبار بخشا۔اوریہ رتبۂ بلند ہرکس وناکس کونہیں ملاکرتا۔کاشف مجید ایسے ہی نوجوان شعرا میں سے ہے(ظفر اقبال نے اسے ایک اورمیٹھاخربوزہ کہاہے)۔جوتحیروتخیل کی ان دیکھی اوران سنی دنیاؤں میں محوِ سفر ہے۔ اس لیے تو وہ "نہیں "سےبھی کام چلانے کوتیارہے۔یعنی ابتدائے کلام توہو۔کہ یہ تعلقِ خاطرکی ابتداہوتی ہے۔باقی رہامعاملہ نہیں کاتو 'نہیں' نہیں رہتی۔ شروع کارِ محبت توکرکہیں سے بھی کہ میراکام چلے گاتری نہیں سے بھی جوتخلیق کار یہ حوصلہ رکھتاہو ،ہم ا س سے یااس کی نسل سے مایوس کیوں کرہوسکے ہیں۔کہ یہ لوگ تواپنے شعرکے تیشے سے کہیں سے بھی پانی نکال سکتے ہیں۔یوں اپنے لیے ایک اورراستہ تلاشتاہے۔ ع اب ان کوتیسرارستہ کوئی دیاجائے پوری غزل روحِ عصرکا آئینہ ہے۔پہلو بدل بدل کر شاعر نے جہاں تہاں ایسے آئینے نصب کردیے ہیں کہ کسی صورت اپنے آپ کونہیں بچایاجاسکتا۔ہر بہروپ میں سامنے آناہوگا۔ ابھی توصرف اتارے گئے ہومسند سے کبھی اٹھالیے جاؤ گے تم زمیں سے بھی انسان یہ سب کچھ نام ونسب کے لیے کرتاہے۔خودفریبی میں مبتلاہوکراپنے آپ کودھوکادیتاہے،سمجھتایہ کہ دنیاکوکچھ معلوم نہیں،یہیں سے وہ ایک ایسی دلدل میں گرپڑتاہے کہ پھرکوئی بھی اسے سہارانہیں دے سکتا۔مسلسل حرکت سے اس کے غرق ہونے کی رفتارمیں تو اضافہ ہوتاہے،لیکن افسوس یہ کہ جھوٹی انااورتکبراس کاپیچھانہیں چھوڑتے۔ "نام کاکیاہے بھلانام کوموت آجائے" نام کی اہمت نہیں ۔اصل توکچھ اور ہے۔"وہ"جوکچھ اورہے اگرہوجائے تونام بھی بچ جائے اور وہ کیاہے؟ "ڈرواس وقت سے جب کام کوموت آجائے" کاشف نے اس غزل میں 'وقت'کاایک اور پہلودریافت کیاہے۔کہ ہم سب وقت کی قیدمیں ہیں۔اس سنہرے پنجرے میں پھڑپھڑارہے ہیں۔لیکن کوئی اس سے فرارحاصل نہیں کرسکتا۔وقت کاتعلق چوں کہ صرف کرۂ ناسوت سے ہے،اس لیے جب ایک باشعورانسان پر اس کی حقیقت ظاہرہوتی ہے تو وہ اوربھی بے بس محسوس کرتاہے۔کہ بے بسی کاادراک انتہائے بے بسی ہے۔اس کے دل میں عجب خواہش کلپنے لگتی ہے۔ باعثِ گردشِ ایام فناہوپہلے اورپھرگردشِ ایام کوموت آجائے "باعثِ گردش ایام"کہیں مرے کرم فرما اس سے کوئی خطرناک مطلب اخذ کرنے کی جلدی نہ کریں کہ حرص وہوس کاچکر ہے۔حسنِ ازل کو دیکھنے کی عجب سرمستی ہے کہ شاعر' باعثِ گردشِ ایام 'کوفنا کرکے بھی ،مطمئن نہیں ہوتا،اب وہ آخری قدم اٹھانے کوتیارہے کہ یہ دن اوررات کاچکر،کہ جس نے ہر چیز کوچکرادیاہے،ختم ہوجائے۔ "نہ توتو رہا،نہ میں رہا،جورہی سوبے خبری رہی" اوراب جو گردشِ ایام عمل موت سے گزرے گی،وہ جوفاصلہ ہے درمیاں کٹ جائے گا۔اب تک اس نے اپنے آپ کو کیسے سنبھال رکھاہے؟اس کاجواب بھی شاعر نے خوددےدیاہے۔ اشک ہی اب توحوالہ ہیں مرے ہونے کا یہ نہ ہوں تودلِ ناکام کوموت آجائے شاعراپناسب کچھ داؤ پر لگاکر ،اپنے رازکی ہنڈیابیچ بازار پھوڑ چکاہے۔اوروجہ ِ زندگی بھی بیان کرچکاہے۔تواشکوں کو غم یااحساسِ غم نہیں زندگی کے ہونے اورنہ ہونے کاحوالہ سمجھاجائے۔زیست دشت کے آداب اورطرح کے ہیں۔کیوں کہ شاعر کہہ رہاہے اگر دشت میں رہنے کے آداب سے واقف ہوتا تو کہتاکہ'دروبام 'کوموت آجائے۔یہاں ایک لطیف نکتہ بھی ہے کہ جب انسان خود آسائش میں ہوتاہے تواسے دوسروں سے کوئی واسطہ نہیں رہتا۔لیکن شاعر نے حرف شرط"اگر"کااستعمال کرکے خود کوبچالیاہے۔اوراسے ایک طنزِ لطیف میں بدل دیاہے۔زندہ باد ،کاشف صاحب زندہ با! محبت میں اس مقام کی آرزوہےکہ:"اپنے جیسی تری حالت کرجاؤں"اس کے بعد شاعر کے ارادے بڑے خطرناک ہیں"اشک مٹی کوودیعت کرجاؤں"لب ولہجہ کی تازگی نے غزل کو نیاذائقہ عطاکیاہے۔اورعہدِ حاضر کاکرب اپنی تمام تر آتش فشانیوں کے ساتھ موجود ہے۔لیکن شاعر کے حوصلے بلاکے ہیں۔زندہ رہنے میں جو ایک مشکل اورکرب ہے،وہ کرب وبلاہے۔ہر عہد کاایک کربلاہوتاہے۔موجودہ دورکاکربلا'حدسے پڑھی ہوئی حساسیت اور آنے والے عہدکاشعورہے۔اوریہ شعورکسی کل بیٹھنے نہیں دیتا۔لیکن شاعرایک عہد کرچکاہے۔ زندہ رہنے کاجوپیمان کیاہے میں نے سربسراپناہی نقصان کیاہے میں نے شاعر جانتاہے کہ یہ فیصلہ کیاگل کھلائے گا۔لیکن یہ بارِ امانت توبہرحال کسی نہ کسی کوتواٹھاناہی پڑتاہے۔سو کاشف ان شاعروں میں سے ہے جن پر"اناکان ظلوماً جہولا"کے الفاظ صادق آتے ہیں۔شاعر کسی بھی لمحے روح سے بے خبرنہیں ہوتا،احساس لطیف پیکر بن بن کر کسی طور ظاہر ہوجاتے ہیں۔ شعرکہتے ہوئے اک اشک نکل آیاتھا جسم کے برداشت کی ایک حد ہے۔احساس ایک حد تک آپ کے صبروبرداشت کاساتھ دیتاہے۔روح ایک حد تک ہجروفراق کو سہتی ہے۔آخر چشم بہہ پڑتی ہے۔غالباً خمار بارہ بنکوی کاشعرہے۔ اک قطرہ کہہ گیاسب حال دل کا میں یہ سمجھاتھاکہ ظالم بے زباں ہے لیکن کاشف ،ایک اور مقام سے کہہ رہاہے۔ شعرکہتے ہوئے اک اشک نکل آیاتھا اس کوبھی داخلِ دیوان کیاہے میں نے جو کچھ دامن میں تھا وہ لٹادیاہے۔ایک اشک کہ متاعِ عشق تھا۔وہ بھی دے دیاہے۔انفرادیت پسندی،فردیت،موجودیت کے طوفان نے ہر ذی فہم کو ایک ایسے چوراہے پر لاکھڑاکیاہے،جہاں سے راستے تو نکلتے ہیں ،منزل کا کچھ پتانہیں ملتا۔لاحاصل کی جستجو،اور لایعنی کی لگن نے قیدِ ذات میں مقید کر دیاہے۔تنہائی کازہر رگ وپے کودیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔ایسے میں اگر کوئی ایسا حرف زباں پرآجائے : مجھ کودکھ ہےمرے معبود!ترے ہوتے ہوئے اپنی تنہائی کااعلان کیاہے میں نے خوابوں کاتعلق رات سے ہوتاہے۔لیکن کاشف نے دن میں رنگ رنگ کے خواب بننے شروع کیے ہیں۔اوروہ مطمئن ہے کہ وہ رائیگاں جانے والے نہیں ہیں۔لیکن رات،اندھیرا جوکبھی خواب لاتاتھا اب انھیں مسمار کرنے کے درپےہے۔یہ انتہائی خبردارکرنے والی صورتِ حال ہے۔کہ شاعرکوکس بات نے دن میں خواب دیکھنے پرمجبورکیاہے۔وہ کون حالات ہیں۔ میں دن میں خواب بناتاہوں رنگ رنگ کے خواب مگریہ رات انھیں مسمار کرنے آتی ہے اندھیراجاتاہے جب بھی الٹ پلٹ کے مجھے تو ر و شنی مجھے ہم وا ر کر نے آ تی ہے نتیجہ سامنے ہے کہ اندھیرا اسے توڑ پھوڑ کر چلاجاتاہے،نہ صرف اسے اس کے وجودکو،اس کے جذبات کوبل کہ خوابوں کوبھی، اورپھرروشنی ہی آکراسی زیست کے دھارے میں پھر سے شامل ہونے میں مدددیتی ہے۔یہاں شاعرنے "خواہش ِ دنیا"کوایک الگ انداز سے چتاؤنی دی ہے۔کہ تیراکام فقط لالچِ دنیاپیداکرناہی ہے۔اورتوانسانی روح کوبیمارکرنے کاسبب بنتی ہے۔ شاعراپنے آپ سے ایک عہدکرتاہے"اب خود سے بچنے کی میں تدبیرکروں گا"کیوں کہ لالچ سے بچنا ناممکن ہے۔اس لیے شاعر خود سے بھی بچناچاہتاہے۔لیکن اسے یہ خوف بھی ہے کہ "ڈریہ ہے کہ اس باربھی تاخیرکروں گا"۔ لیکن حالات کاجبر اسے ایک ایسے مقام پرلے آیاہے کہ : خودکوبھی یاد میں اب ایک زمانے سے نہیں تم گریباں سے پکڑومجھے شانے سے نہیں بات ادھم کہہ دی،یہ پوری غزل ان تمام غزلوں سے الگ اورایک نیئےراستے کاپتادیتی ہے۔آنس معین نے کہاتھا: مرے اندربسی ہوئی ہے اک اوردنیا مگرتونے کبھی اتنالمباسفرکیاہے کاشف صرف چاہتایہ ہے کہ کسی طرح پرندوں کی اداسی نہ رہے۔اگرپیڑ کٹ گئے تو پرندے کہاں جائیں گے۔ورنہ پیڑ کاٹناہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ہم توبس یہ چاہتے ہیں کہ پرندے بےگھرنہ ہوں۔ اس کے لیے اس نے یہاں تک کہہ دیاہے کہ میں خودفریبی اوربے بسی کی اس منزل پر ہوں کہ شانے ہلانے سے شاید میں ہوش میں نہ آسکوں۔لہٰذا میرا'گریباں'پکڑو کہہ مجھے ہوش آئے۔یہاں اک لطیف نکتہ ہے کہ شانے ہلانے سے جوہوش میں نہیں آتا،وہ گریباں پکڑنے سے کیوں کرہوش میں آئے گا۔بات بالکل سامنے کی ہے کہ گریباں پر ہاتھ پڑنا 'عزت'پر ہاتھ پڑنے کے مترادف ہے۔یعنی واقعاتِ دہرنے اس قدر گنگ اورساکت کردیاہے کہ یہ سکوت ہلانے سے نہیں ،اب عزت سے ہاتھ پڑنے پر ٹوٹے توٹوٹے ورنہ اس کاکوئی امکان نہیں ہے۔حالات حاضرہ پر اس سے زیادہ بہتر طنر(طنزِملیح)اورکیاہوگا؟ یہاں تک کہ وہ مروجہ روایات واقدار سے ہٹ کر اک عجب طورسے یار کومنانے کاڈھنگ کرچکاہے۔ یارکومیں نے منایاہے اداکاری سے رقص کرنے سے نہیں،اشک بہانے سے نہیں کاشف شعری روایت سے مکمل طورپرآگاہ ہے۔وہ صوفیانہ روایت کابھی اسی طرح امیں ہے ،جیسے اردوکی شعری روایت کاپاس دار ہے۔ کنجری بنڑیاں میڈی عزت نیں گھٹدی مینوں نچ کے یار مناون ڈے لیکن کاشف نے نہ اشک بہائے ،نہ رقص کیا۔اوریارکواداکاری سے منایا۔یہ وہ تہذیبی انحطاط ہے، جس کاامین آج کاشاعر ہے۔ہم اخلاقی اور تہذیبی طورپر اس قدر تہی دست ہوچکے ہیں کہ دکھاوا،اداکاری ،ہمارامعیاربن گئی ہے۔ آخر شاعر یہ سمجھنے پرمجبور ہے کہ دنیامیں رہناہے تودنیاکے طوراطوار سیکھنے ہوں گے،اپنانے ہوں گے ۔ورنہ اسے یہ نوشتۂ دیوار دکھائی دے رہاہے کہ وہ دنیامیں نہیں رہ سکتا یاکام یاب نہیں ہوسکتا۔عبرت کدۂ دہرہے اورہم ہیں دوستو!۔ دنیاداری کاسبق سیکھنے آیاہوں یہاں میری نسبت کسی درویش گھرانے سے نہیں اور یہ سب کام وہ اس لیے کررہاہے کہ اسے کونجوں کے کوچ کرجانے کاخوف ہے۔اگرپرندے کوچ کرگئے تو حیرت پرواز نہیں رہے گی۔اور حیرت زندگی کی بے شمارنعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اب ایک دوباتیں کاشف کی شاعری میں "آگ"کی مناسبت سے،آگ ابھی کچی ہے،کچی آگ کیسی ہوتی ہے،اس کے شعلے میں کیاکمی ہوتی ہے،اورکتنادھواں اٹھاتی ہے۔آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ابھی کاشف نے "تھلے بال ہڈاں دی اگ"والامرحلہ طے نہیں کیا۔ آخر میں ،وہ نعتیہ اشعارجوکاشف کی غزل میں درآئے ہیں۔ایک صحرائے کرب وہجرمیں نخلستان کاسااثر رکھتے ہیں۔کاشف کادل بہرحال ایک عاشق کادل ہے۔اورعشق کی منزل 'درِ یار'کے سواکوئی اورنہیں ہوتی۔ آخر میں ایک جملہ معترضہ،کاشف نے کہاہے: وہ یاسمیں ہے جومیری ہے صرف میری مگر میں جھوٹ بولتارہتاہوں یاسمیں سے بھی یہ اس کاسچ بھی ہے،اوراعتراف بھی،لیکن میرامشورہ یہ ہے کہ "ناں مری جان!،محبت کرنے والوں سے جھوٹ نہیں بولاکرتے"۔
توقیر حسین توقیر اپنے طالب علمی کےدورسےیہ شعرسنتےچلےآئےہیں: فر ا زِ کو ہ سے پتھر ا چھا لنے وا لا بڑےسکون سےشیشےکےگھرمیں رہتاہے یہ گماں تک نہیں تھاکہ اس شعرکاخالق صادق آباد جیسےدوردرازکےعلاقےمیں رہتاہوگا۔یہاں آکران کی کتاب"خواہشوں سے نمونہ چھن جائے" دیکھنے کااتفاق ہوا۔کلام دیکھ کرلہجےکی جدت کااندازہ ہوتاہے۔آپ بھی دیکھیے۔ نبی کی ذات توخودمعجزہ ہے کہاں امکاں نرالےمانگتاہوں جیت جاؤں توفکررہتی ہے مجھ سےمیراعدونہ چھن جائے موت سےپہلےنہ مرجاؤں کہیں خواہشوں سےنمونہ چھن جائے
خوش آمدید!
(?_?)
جناب مظہرفریدی کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔ آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
|
--محمد شعیب (تبادلۂ خیال) 10:03, 19 ستمبر 2012 (UTC)
آنس معین(نامکمل نظم )
آج میری آنکھوں نے تم کوگرتے دیکھا میں نے چاہا تم کوبڑھ کے تھام لوں۔۔۔لیکن میرے دونوں ہاتھ کسی نے کاٹ دیے تھے یہ کربِ ذات کی وہ منزل ہے کہ انسان کچھ کرنابھی چاہےلیکن مجبوراوربے بس ہو۔ ایک ایسی ہستی جو آپ کے لیے زندگی سے بڑھ کر ہو،اوروہ خاک بسر ہونے والی ہو۔آپ اسے تھامناچاہیں۔اورتھام نہ سکیں۔ خواجہ فریدرحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں"گل لاون کوں پھتکن باہیں"کی منزل پر ہوں لیکن ایک نادیدہ ہاتھ،آپ کے ہاتھ نہ رہنے دے۔اس سے زیادہ بے بسی اورکیاہوسکتی ہے؟ آنس معین جدیدادب کا ایک روشن ستارہ ہے جو کہیں آسمان کی وسعتوں میں گم ہے۔لیکن آسمانِ ادب پروہ آج بھی جگ مگارہاہے۔کہیں یادکے بے نشاں جزیروں سے اس کی آوازکی روشنی آرہی ہے۔اس کی شاعری روحِ عصر کے ایسے مخفی گوشے ،بااندازِ دگرواکرتی ہے،کہ حیرت ہوتی ہے۔آنس نے خودہی کہاتھا:
حیرت سے جوتم میری طرف دیکھ رہے ہو لگتاہے کبھی تم نے سمندرنہیں دیکھا