تبت لداخ مغل جنگ
تبت لداخ مغل جنگ 1679 تا 1984 لڑی گئی جس میں غیلوگ اور لداخ نے حصہ لیا اور مغلیہ سطنت نے لداخ کا ساتھ دیا۔ 17 ویں صدی میں لداخ اور تبت جنگ میں بھوٹان نے لداخ کا ساتھ دیا۔ تبت نے بھوٹان کے ساتھ اس کے تعلقات خراب کرنے کے جرم میں لداخ کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔
لداخ تبت مغل جنگ | |||||
---|---|---|---|---|---|
| |||||
مُحارِب | |||||
کوشوت خانیت • غاندین ذونگار خانیت |
1679ء میں دلائی لاما پنجم نے تشیل ہونپو آشرم کے لاما کوشوت کو لداخ پر مغل تبت حملہ کا کمانڈر بنایا۔و1و غالدان چیوانگ نے باش ہار کے راجا کھیری سنگھ سے صلح کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔[1] پہلے ہی حملہ میں لداخ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگلے سال پھر اس نے لداخ کو شکست دی۔ 1965ء میں لداخ مغلیہ سلطنت کے حلقہ اثر میں لے لیا گیا۔ کشمیری مورخین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لداخ کے بادشاہ کو مسلمان بنا لیا گیا لیکن لداخی وثائق سے کوئی صریح حوالہ نہیں ملتا ہے۔ البتہ بادشاہ نے مدد کے بدلے مغل کو عزت دینے کا وعدہ کیا اور دونوں کی اس پر باہمی رضامندی ہوئی۔ [2][3] دلائی لاما پنجم نے تبت پر حکومت کر کے لیے خوب جدوجہد کی۔ اور دہشت گردی کا دراز سلسلہ اس نے چلایا۔ خوب قتل و غارت گری کا مظاہرہ کیا۔[4] 1684ء میں سلطنت زونگار کے غالدان بوغشوغتو خان کی مدد سے پھر تبت پر حملہ کیا۔ تبت کو فتح ملی۔ اس کے بعد لداخ سے ایک معاہدہ کیا گیا اور دسمبر 1684ٗ کو لہاسا اسے واپس مل گیا۔ یہ معاہدہ گرچہ دونوں کی باہمی رضامندی پر ہوا تھا مگر اس سے لداخ کی آزادی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ لاہری کے مقام پر لداخ اور تبت سے درمیان میں ایک سرحد بنادی گئی ۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارت نے ایک نئی راہ لی اور از سر نو تجارت کا آغاز کیا گیا۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب
- ↑ M. L. Sali (20 اپریل 1998)۔ "India-China Border Dispute: A Case Study of the Eastern Sector"۔ APH Publishing۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2018 – Google Books سے
- ↑ H. N. Kaul (20 اپریل 1998)۔ "Rediscovery of Ladakh"۔ Indus Publishing۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2018 – Google Books سے
- ↑ Johan Elverskog (6 جون 2011)۔ Buddhism and Islam on the Silk Road۔ University of Pennsylvania Press۔ صفحہ: 222–۔ ISBN 0-8122-0531-6