تخت بائی
تخت بائی ، پشاور سے تقریباًً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جو اندازہً ایک صدی قبلِ مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔[1] یہ مردان سے تقریباًَ 15 پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔[1] اس مقام کو 1980ء میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔[1] تخت اس کو اس لیے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی اس لیے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی تحصیل مردان کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کئی طرح کی فصلیں اُگتی ہیں، جن میں پٹ سن، گندم اور گنا وغیرہ شامل ہیں اس زمین کی زرخیزی کے پیشِ نظر ایشیا کا پہلا شکر خانہ یا شوگرمل برطانوی راج میں یہاں بدھا صومعہ (monastery) کے نزدیک بنائی گئی تھی۔
تخت بائی | |
---|---|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان |
تقسیم اعلیٰ | تحصیل تخت بھائی |
متناسقات | 34°19′15″N 71°56′45″E / 34.320833333333°N 71.945833333333°E |
قابل ذکر | |
درستی - ترمیم |
تاریخ
ترمیمیہ مقام بدھ مت کی یہاں قدیم تہذیب و تمدن، طرزِ رہائش کے بارے میں نہایت مفصل معلومات و شواہد فراہم کرتاہے۔ اس گاؤں کی بنیاد ایک قدیم قصبے کی باقیات پر رکھی گئیں تھیں، وہ باقیات آج بھی عمدہ حالت میں دیکھنے والوں کے لیے علم و آگاہی کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ یہاں پائے جانے والے قدیم زمانے کے سکوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں بدھ مت اورہندو نسل کے لوگ آباد تھے۔ یہاں تعمیر کی گئی عمارتیں جو راہبوں کے لیے بنوائیں گئیں تھیں، ہر لحاظ سے تمام تر ضروریات ِ زندگی سے آراستہ تھیں۔ پہاڑی کے اوپر رہنے والوں کے لیے بھی فراہیٔ آب کا انتظام تھا۔ عمارتوں کی دیواروں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیے روشندان اور رات میں تیل کے چراغ روشن کرنے کے لیے طاقیں بھی بنائی گئیں تھیں۔ کھدائی کے دوران یہاں جو چیزیں دریافت کی گئی ہیں، اُن میں بدھ مت کی عبادت گاہیں، صومعہ، عبادتگاہوں کے کھلے صحن، جلسہ گاہیں، بڑے بڑے ایستادہ مجسمے اورمجسموں کے نقش و نگار سے مزین بلند و بالا دیواریں شامل ہیں۔ پہلی مرتبہ تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کی طرف توجہ 1836ء میں فرانسیسی آفیسر جنرل کورٹ نے مبذول کرائی تھی۔[1] جبکہ تحقیق اور کھدائی کے کام کا آغاز 1852ء میں شروع کیا گیا۔[1]
قریبی بستیاں
ترمیملُوند خوڑ ، شیر گڑھ، چارسدہ، سیری بہلول، تخت بھائی کے اطراف و مضافات میں واقع ہیں۔ سری بہلول بھی تاریخی حوالوں سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تخت بھائی کی حدود میں آتا ہے۔ یہاں بھی بدھا تہذیب کی باقیات ملی ہیں تاہم تحقیق و کھدائی کا کام ہنوز مکمل نہیں کیا جاسکا۔ لفظ سیھری بہلول کی کئی لوگوں نے مختلف انداز میں تعریف کی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہندی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں “سر بہلول“ جو علاقے کے ایک سیاسی و مذہبی شخصیت تھے۔ تاہم یہ نام اتنا پرانا نہیں کہ جتنا پرانا یہ گاؤں ہے۔ اطراف کا علاقہ نہایت سرسبز و شاداب ہے، جہاں گاؤں والے اب بھی کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ معاشرتی طور پر یہاں کے لوگ پسماندہ اور غریب ہیں۔ تعلیم کا تناسب بھی نہایت کم ہے۔ مقامی لوگ غیر قانونی طور پر ان تاریخی مقامات پر کھدائی کرتے رہتے ہیں، جس سے ان تاریخی نوادرات کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ کچھ نوادرات کے شوقین اور سوداگر بھی مقامی لوگوں کو غیر قانونی کھدائی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہاں موجود نادر و نایاب تاریخی ورثہ کو تحفظ کے لیے ملکی اور بین الاقوامی توجہ کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ تاکہ تاریخ کی ایک اہم تہذیب کی باقیات کو محفوظ کیا جاسکے۔[2]
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر تخت بائی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |