تفسیر نعیمی بیسویں صدی کے معروف عالم دین اور نابغہ روز گار شخصیت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی بدایونی (متوفی 1391ھ/1971ء) کی گیارہ پاروں کی گیارہ جِلدوں پر مشتمل اردو زبان میں ایک تفصیلی تفسیر قرآن ہے، جس کا شمار اشرف التفاسیر میں ہوتا ہے اور یہی اشرف التفاسیر(1363ھ ) اس کا تاریخی نام ہے۔ اس تفسیر کو مفتی احمد یار خان نعیمی کی تما م تصانیف میں وہ مقام حاصل ہے کہ آپ کے ہم عصر معتبر علما بھی اس عظیم کارنامے سے حیرت بدنداں ہیں۔ نیز، اس تفسیر کو یہ عظیم شرف بھی حاصل ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، نے اسے پسند فرمایا اور بعض الفاظِ مقدسات خود اللہ پاک کے آخری نبی، محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، نے مفتی احمد یار خان نعیمی کو اِرشاد فرمائے کہ یہ لکھ دو، بعض دفعہ خواب میں بعض دفعہ مراقبے میں۔[1] یہ تفسیر دیگر اہم تفاسیر کا احاطہ کیے ہوئے ہے گویا تفسیر روح البیان، تفسیر کبیر، تفسیر عزیزی، تفسیر مدارک، تفسیر ابن عربی کا خلاصہ ہے۔ تفسیر ِ نعیمی کا انداز ایسا پیارا ہے کہ اس سے ایک ہی وقت میں عوام اور کم پڑھے لکھے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور علما و فضلا و فقہا و صوفیا و خطبا و مصنفین و محققین و مبلغین اور تقابل ِادیان کا مطالعہ کرنے والے بھی اور ناجانے کون کون؛ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر آیت مبارکہ کے تحت مندرجہ ذیل گیارہ چیزیں درج ہیں، جو دوسری قرآن مجید کی تفاسیر میں اس انداز میں موجود نہیں، جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق فائدہ اٹھا سکتے ہیں:

  1. عربی آیت
  2. لفظی ترجمہ
  3. بامحاورہ ترجمہ
  4. تعلقاتِ آیات
  5. نزول و شانِ نزول
  6. تفسیر عالمانہ
  7. خلاصہ تفسیر
  8. فوائد
  9. فقہی مسائل
  10. اعتراضات و جوابات
  11. تفسیر صوفیانہ

تفسیر نعیمی اردو تفسیر کے ذخیرے میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ اس تفسیرکے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں کوئی گوشہ تشنہ نہیں معلوم ہوتا۔ مفتی صاحب کو علوم عقلیہ، نقلیہ و فروعیہ پر عبور حاصل تھا۔ آپ کی تفسیر عالمانہ بھی ہے، عاشقانہ بھی ہے، عارفانہ بھی اور صوفیانہ بھی۔ اس طرز تفسیر کی یہ وجہ ہے کہ علمی ذوق رکھنے والے مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں تو آپ نے ان کی طبائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی تفسیر کے بھی مختلف رنگ رکھتے ہیں؛ مثلاً تصوف سے شغف رکھنے والوں کے لیے تفسیر صوفیانہ، علم فقہ سے دلچسپی رکھنے والوں اور استنباط واستخراج کے شیدائیوں کے لیے فوائد واحکام اور تحقیق و تنقید کے دلدادہ حضرات کے لیے اعتراضات اور ان کے جوابات کو تحریر کیا ہے۔ بہرحال، مصنف ان گیارہ چیزوں پر مشتمل تفسیر کو گیارہویں پارے (گیارہویں جلد) تک ہی لکھ پاے تھے کہ آپ کا وصال ہو گیا۔ اس تفسیر کا ایک شماریاتی خاکہ مندرجہ ذیل ملاحظہ ہو۔

پارہ سال ہجری سال عیسوی صفحات
تفسیر نعیمی: جلد 1 1 1363[2] 1944[3] 701
تفسیر نعیمی: جلد 2 2 1364[4] 1945[3] 582
تفسیر نعیمی: جلد 3 3 1365[5] 1946[5] 630
تفسیر نعیمی: جلد 4 4 1381[6] 1961[6] 650
تفسیر نعیمی: جلد 5 5 1383 [7] 1963[7] 616
تفسیر نعیمی: جلد 6 6 1386[8] 1966[8] 646
تفسیر نعیمی: جلد 7 7 1387[9] 1967[9] 673
تفسیر نعیمی: جلد 8 8 1388[10] 1968[10] 592
تفسیر نعیمی: جلد 9 9 1390[11] 1970[11] 561
تفسیر نعیمی: جلد 10 10 1391[12] 1971[12] 568
تفسیر نعیمی: جلد 11 11 1391[13] 1971[13] 568
کُل صفحات 6,787

اسلوب و منج

تفسیر ِ نعیمی اپنے اسلوب و منہج میں منفرد نوعیت کی حامل ہے جس میں قرآنی احکام و مسائل کو جامع و مفصل اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے اور ہر قسم کے اعتراضات کا مدلّل جواب دیا گیا ہے۔ یہ تفسیر دیگر اہم تفاسیر کا احاطہ کیے ہوئے ہے گویا تفسیر روح البیان، تفسیر کبیر، تفسیر عزیزی، تفسیر مدارک، تفسیر ابن العربی کا خلاصہ ہے۔ اس تفسیر کا انداز کچھ اس طرح ہے:

  1. اولاً،عربی آیت لکھی گئی ہے۔
  2. پھر، اس آیت مبارکہ کا لفظی ترجمہ کیا گیا ہے۔
  3. پھر، اس آیت مبارکہ کا بامحاورہ ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔
  4. پھر، ہر آیت کا پہلی آیت سے نہایت عمدہ تعلق اور ربط بیان کیا گیا ہے۔
  5. پھر، آیت کا شان نزول نہایت وضاحت سے بتایا گیا ہے، اور اگر شان نزول چند مروی ہیں تو ان کی مطابقت بیان کر دی گئی ہے۔
  6. ان پانچ چیزوں کے بَعد چھٹے نمبر پر، جو کہ گیارہ کا وسط بَنتا ہے، آیت کی عالمانہ تفسیر بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔
  7. پھر، سارے گفتگو کو سمیٹتے ہوے، خلاصہِ تفسیر بیان کیا گیا ہے۔
  8. پھر، آیت سے حاصل ہونے والے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔
  9. پھر،آیت سے حاصل ہونے والے فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں۔
  10. پھر، آیت پر ہونے والے اعتراضات مع جوابات بیان کیے گئے ہیں۔
  11. آخر میں، دلکش اور ایمان افروز طریقہ سے آیت کی تفسیرِ صوفیانہ بیان کی گئی ہے۔

ان گیارہ چیزیں کے ضمن میں اور بھی بہت سی ابحاث آ گئی ہیں جیسے کہ مخصوص الفاظ سے مخصوص تعداد گنوانا مثلاً پارہ 1، سورت 2، البقرۃ، آیت 125 کے تحت بیان کیا کہ "مکہ مکرمہ میں پندرہ جگہ دعا بہت قبول ہوتی ہے"[14] ؛ تقدیم و تاخیر بیان کرنا مثلاً پارہ 1، سورت 2، البقرۃ، آیت 3 کے تحت لکھا کہ "چند وجہوں سے ایمان اعمال پر مقدم ہے"؛موقع محل کے مطابق حکایات درج کرنا؛ مسلک اہل سنت اور فقہ حنفی کو ترجیح کی وضاحت کرنا؛ حسب موقع، قرآنی معمے بیان کرنا؛ ادب و احترام کا لحاظ کرتے ہوے جگہ جگہ شانِ رسول اور ان کے پیاروں کی شان کا ذکر کرنا۔ الغرض، اس تفسیر میں ہر آیت کی مکمل علومِ متداولہ کی مدد سے تفسیر کی گئی ہے جیسے صرف، نحو، منطق، بلاغت وغیرہ، اور جہاں بھی کوئی اہم مسئلہ آیا ہے اس کی مکمل تحقیق کی گئی ہے۔ اب مندرجہ بالا گیارہ خصوصیات کی تفصیل مندرجہ ذیل بیان کی جاتی ہے۔

1۔ عربی آیت

ہر آیت مبارکہ کا عربی متن نقل کیا گیا۔

2۔ لفظی ترجمہ

ہر آیت مبارکہ کا لفظی ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ مصنف کا اپنا ہے۔

3۔ بامحاورہ ترجمہ

پھر ہر آیت مبارکہ کا بامحاورہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ اعلیٰ امام احمد رضا خان کا ترجمہ کنزالایمان کا ہے۔ اس طرح ہر آیت کے دو دو ترجمہ کیے گئے ہیں، اول ترجمہ لفظی اور دوسرا بامحاورہ۔ لفظی ترجمہ اپنا ہے اور بامحاوہ ترجمہ کنزالایمان کا ہے۔

4۔ تعلق

تعلقِ آیت۔ اس تفسیر میں ہر آیت کا پچھلی آیت سے تعلق اور ربط تفصیلاً بیان کیا گیا ہے اور عام طور پر یہ تعلق ایک سے زیادہ نمبر وار بیان کیے جاتے ہیں۔ اس سے قرآن مجید کے نظم کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ آیت کے تعلق کی وضاحت مندرجہ ذیل ایک آیت مبارکہ کی تفسیر سے کی جاتی ہے۔

پچھلی آیت (قرآن، پارہ 11، سورت 10، یونس، آیت 3):

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَؕ-مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ("بے شک تمھارا ربّ اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے، پھر عرش پر اِستوا ء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے، کام کی تدبیر فرماتا ہے، کوئی سفارشی نہیں مگر اس کی اجازت کے بعد، یہ ہے اللہ تمھارا رب، تو اس کی بندگی کرو، تو کیا تم دھیان نہیں کرتے")۔[15]

اگلی آیت (قرآن، پارہ 11، سورت 10، یونس، آیت 4):

اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًاؕ-وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّاؕ-اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ ("اسی کی طرف تم سب کو پھرنا ہے اللہ کا سچا وعدہ، بے شک وہ پہلی بار بناتا ہے، پھر فنا کے بعد دوبارہ بنائیگا کہ ان کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے انصاف کا صِلہ دے اور کافروں کے لیے پینے کو کھولتا پانی اور دردناک عذاب بدلہ ان کے کفر کا")۔[16]

تعلقِ آیت (تفسیر نعیمی، جلد 11، سورت 10، یونس، آیت 4، "تعلق"، ص 175):

اس آیت کریمہ کا پچھلی آیات سے چند طرح تعلق ہے۔

پہلا تعلق۔ پچھلی آیۃ کریمہ میں رب تعالے کی الوہیت ابتداء کے لحاظ سے بیان فرمائی جارہی ہے کہ اس نے آسمان و زمین بنائے وغیرہ۔ اب اس کی الوہیت انتہا کے لحاظ سے بیان فرمائی جا رہی ہے کہ وہ تم سب کو مَرنے کے بعد جِلائے گا اور سزا جزا دے گا۔ چونکہ ابتدا پہلے ہے، انتہار بَعد میں، اس لیے پہلے ابتدا کا ذکر ہوا، بعد میں انتہا کا۔

دوسر ا تعلق۔ پچھلی آیتِ کریمہ میں رب تعالےٰ کی قدرتِ عامہ کا ذکر ہوا کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں، تمام کائنات کا پیدا فرمانے والا ہے۔ اب اس کی قدرتِ خاصہ کا ذکر ہے کہ وہ قیامت میں اُٹھا کر صِرف انسانوں کو ان کے اعمالِ نیک کا ثواب، بَد کا عذاب دینے والا ہے۔

تیسرا تعلق۔ پچھلی آیۃ کریمہ میں بندوں کو عبادت کا حُکم دیا گیا۔ اب عبادت کے فائدہ کا تذکرہ ہے کہ عبادت کا نتیجہ ثواب ہے۔

چوتھا تعلق۔ پچھلی آیت کریمہ میں شفاعت کا ذکر ہوا کہ اللہ کے ماذون (اجازت یافتہ) بندے شفاعت کریں گے۔ اور [اب]مقام ِشفاعت اور وقتِ شفاعت کا ذکر ہے کہ جب بندے اپنے رب کے پاس واپس پہنچیں گے، تب یہ شفاعت ہو گی۔ مقصد یہ ہے کہ شفاعت کرنے والوں سے تعلق قائم رکھو تا کہ یہ تعلق کَل قیامت میں کام آوے۔

پانچواں تعلق۔ پچھلی آیتہ میں ان کفار کی تردید ہوئی جو رب کی ذات وصفات کے منکر ہیں۔ اب ان کفار کی تردید ہے جو ذات و صفات کو تو مانتے ہیں مگر قیامت، جنت، دوزخ، سزا و جزا کے انکاری ہیں۔[17]

تعلقِ سورت۔ آیت کی طرح، ایک سورت کا دوسری سورت سے تعلق بھی بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورت کے تعلق کی وضاحت ایک مثال سے پیش کی جاتی ہے۔ سورت 9، توبہ، کی آیاتِ مبارکہ کی تفسیر شروع کرنے سے پہلے اس سورت کا پچھلی سورت 8، الانفال، کے ساتھ تعلق اس طرح بیان کیا گیا ہے:

سورہ انفال میں کفار پر جہاد کرنے، ان کا مال غنیمت بنانے، پھر اسی غنیمت کے تقسیم کرنے کا ذکر تھا اور ظاہر ہے کہ جہا د ا نہیں کفار پر ہو گا جن سے ہمارا معاہدہ یا صلح نہ ہو۔ سورہ براءت، یعنی تو بہ، میں ان کفار کا ذکر ہے جن سے معاہدہ ہو چکا تھا، اب معاہدہ ختم کرنا ہو۔ گویا ایک قِسم کے کفار کے ذکر کے بعد دوسرے قِسم کے کفار کا ذکر ہے۔

نیز، سورہ انفال کی آخری آیات میں مسلمانوں کو آپس میں میل محبت رکھنے، ان کی آپس کی میراث کے احکام کا ذکر ہوا۔ اب کفار سے بیزار ہونے، ان سے تعلقات توڑنے کا حُکم ہے۔ گویا جوڑ کے بعد توڑ کا تذکرہ ہے۔ دنیا جوڑ توڑ سے قائم ہے۔ کسی سے جوڑو کسی سے توڑو، زندہ رہو۔[18]

5۔ نزول و شانِ نزول

تعلق کی طرح، ہر آیت مبارکہ کے نزول کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اگر کسی آیت کا شانِ نزول موجود ہے تو اس بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورتوں کے نزول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک آیت کے چند شان نزول بیان کر دینے کے بعد پھر ان میں مطابقت کر دینا اس تفسیر کی خصوصیات میں سے ہے، جو ہر تفسیر میں نہیں پائی جاتی۔[19]

6۔ تفسیر عالمانہ

پھر آیت کی بہت ہی مفصل تفسیر کی گئی ہے۔

متعدد معانی و تفاسیر کا بیان۔ ایک جملہ کے متعدد تراجم بیان کیے گئے ہیں اور ایک جملہ کی کئی کئی تفاسیر بیان کی گئی ہیں۔ ایک جملہ کے کئی معانی بیان کرنا یا ایک آیت کی متعد تفسیریں کرنا صاحب کلام کی علمیت پر دلیل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ علمی کمال تفسیر نعیمی کے مصنف کو بھی عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ تفسیر نعیمی شریف میں جابجا ایک جملہ کی کئی کئی تفسیریں کی گئی ہیں، جس کا ذکر درج ذیل کیا جاتا ہے:

9 تفسیریں وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ ج 6 ص 465
7 تفسیریں وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُم ج 5 ص 35
10 تفسیریں یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ج 5 ص 478
5 ترجمے اور 5 تفسیریں لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْن ج 4 ص 412
3 تفسیریں وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَاۚ-فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ج 4 ص 538
6 تفسیریں وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً ج 11 ص 248

معانی میں اعتباری فرق۔ اس تفسیر شریف میں الفاظ مترادفہ کے مابین متعدد مقامات پر اعتباری فرق بیان کیا گیا ہے۔ الفاظ مترادفہ وہ الفاظ ہوتے ہیں جن کا معنی و مفہوم ایک ہو مگر ان کے مابین اعتباری فرق ہو، جسے تفسیر نعیمی شریف میں جا بجا الفاظ مترادفہ کے مابین فرق کو بیان کیا ہے۔

چنانچہ دین اور ملت کے مابین فرق کرتے ہوئے تفسیر نعیمی شریف کی جلد 5، ص 430 پر لکھا ہے:

خیال رہے کہ دین اور ملت دونوں عقائد پر بولے جاتے ہیں؛ مگر عقائد باعتبار اطاعت کے دین کہلاتے ہیں اور اس اعتبار سے کہ وہ لکھے جاتے ہیں، ان کی تبلیغ کی جاتی ہے ملت کہے جاتے ہیں۔ لہذا دین وملت میں فرق اعتباری ہے۔

فکر اور نجی و نجویٰ و مناجات و ناجی میں فرق کرتے ہوئے تفسیر نعیمی شریف کی جلد و پارہ 5، سورت 4، النساء، آیات 114تا 115 کی "تفسیر عالمانہ" میں آیت 114 کے حصہ "لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ" ("ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں") میں "نَجْوٰ" کے تحت، ص 475 ( پرانے ایڈیشن کے ص398 و 399) پر لکھا ہے:

نجویٰ نَجْیٌ سے بنا بمعنی "علیحد گی"، پھر اصطلاح میں ہر "مشورے" کو نجویٰ کہنے لگے کہ وہ علیحدگی میں کیا جاتا ہے۔ اس سے ہے مناجات،"علیحدگی میں مانگی ہوئی دعا"۔ نجویٰ مصدر بھی آتا ہے، رب فرماتا ہے، "مَا یَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ"([قرآن، پارہ 28، سورت58]مجادلہ، [آیت]7، ["جہاں کہیں تین شخصوں کی سرگوشی ہو تو چوتھا وہ موجود ہے"])۔ اور" مشورے کرنے والوں کی جماعت" کو بھی نجویٰ کہا جاتا ہے، رب فرماتا ہے، "وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى" ([قرآن، پارہ 15، سورت 17، بنی اسرائیل و]الاسراء، [آیت] 47، [" اور جب آپس میں مشورہ کرتے ہیں"]) ( تفسير كبير و خازن وغیرہ)۔ یہاں پہلے معنی میں ہے یعنی سرگوشی و مشورہ خفیہ تدبیر سوچنا۔ اور ہو سکتا ہے کہ نجویٰ ناجی کی جمع ہو بمعنی "مشورہ کرنے والے "( کبیر ) جیسے قیام مصدر بھی ہے اور قائم کی جمع بھی، رب فرماتا ہے، "فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ" [قرآن، پارہ 24، سورت 39، الزمر، آیت 68، "جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے"] بمعنی "قائمین"۔

مزید مختلف الفاظ مترادفہ کے مابین اعتباری فرق کے حوالہ جات ذیل میں ہیں، وہاں سے دیکھے جا سکتے ہیں:

مودّت، محبت اور خلّت میں فرق ج 5 ص 430
درک اور درجہ میں فرق ج 5 ص 509
کتم، اخفا اور سر میں فرق ج 5 ص 73
حرج اور ضیق میں فرق ج 5 ص 192
حاکم اور حکم میں فرق ج 5 ص 193
نجاح، خلاح اور فوز میں فرق ج 5 ص 215
ولی اور نصیر میں فرق ج 5 ص 223
فضل و رحمت میں فرق ج 5 ص 264
من اور نعمت میں فرق ج 5 ص 315
عفو اور مغفرت میں فرق ج 5 ص 332
جدال اور خصومت میں فرق ج 5 ص 370
فکر اور نجی و نجویٰ میں فرق ج 5 ص 405 (398 و 399، 475)

مذکورہ فرق تفسیر نعیمی شریف کی صرف پانچویں جلد کے بیان کیے گئے ہیں۔ اگر باقی دس جلدوں میں بیان ہونے والے فرقوں کو بھی جمع کیا جائے تو ایک مستقل رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔

امثلہ۔ اس تفسیر میں نہایت حکیمانہ امثلہ ذکر کی گئی ہیں۔ تفسیر نعیمی شریف کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت جگہ جگہ حکمت بھری امثلہ کا مذکور ہونا بھی ہے۔ بلکہ یہ خصوصیت تفسیر نعیمی ہی میں نہیں بلکہ قبلہ مفتی صاحب کے قلم سے جو جو تصنیف وجود میں آئیں، ان تمام میں یہی خوبی و کمال آپ کو دیکھنے کو ملے گا۔ کوئی کیسا ہی پیچیدہ اور دقیق مسئلہ کیوں نہ ہو، مفتی صاحب یہ اسے حکمتوں سے لبریز امثلہ کے ذریعے اس طرح سمجھاتے ہیں کہ آناً فاناً وہ بات قاری کے دل و دماغ میں اتر جاتی ہے اور اسے اطمینان و تسکین حاصل ہوتی ہے۔ امثلہ کی اس قدر کثرت دیکھ کر آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ سوائے عطیہ خداوندی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ جس قدر بھی امثلہ آپ کی کتب میں موجود ہیں، آپ نے ان کو بالالتزام نہیں نقل کیا، بلکہ جہاں ضرورت سمجھی وہاں فی البدیہہ اس کے مناسب کوئی مثال ذکر کر دی۔ جس قدر ملت اسلامیہ میں مصنفین گذرے ہیں، آپ ہی یہ اس وصف کے تعلق سے ان میں نمایاں و ممتاز نظر آتے ہیں، ایک مثال یہاں ذکر کی جاتی ہے۔[20]

چنانچہ، تفسیر نعیمی، جلد 1، سورۃ 2 البقرۃ، آیت 29، فائدہ 4، ص 216 پر ہے کہ:

آسمان دور رہ کر بھی زمین کو فیض برابر دے رہا ہے تو اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں جلوہ گر ہوکرتمام عالَم کو فیض دیں تو ہو سکتا ہے۔ زمین آسمان سے کبھی بے پروا نہیں، (اسی طرح) امتی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ آسمان دیتا، زمین لیتی ہے، ایسے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دینے آئے اور ہم لینے کے لیے آئے۔

اقسامِ الفاظ۔ اس تفسیر مبارکہ میں مختلف الفاظ کی مختلف اقسام کو نقل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر میں مصنف کا یہ بھی قلمی شاہکار ہے کہ آپ عرف و عادت میں ہونے والے افعال کی کئی کئی اقسام ذکر کر دیتے ہیں، جن کو پڑھنے کے بعد آدمی کا ذہن محو حیرت میں پڑ جاتا ہے اور زبانِ حال سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ عطیہ خداوندی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس کی ایک مثال نقل کر کے باقی کے ذیل میں حوالہ جات ذکر کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ تفسیر نعیمی شریف، جلد 1، صفحہ 154 پر ہے:

فعل کے معنی فاعل کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ جیسا فاعل، ویسا فعل کے معنی۔ دیکھو، اردو میں بولتے ہیں، "میں بیٹھ گیا"، یعنی میں کھڑے سے بیٹھ گیا۔ "فلاں سیٹھ بیٹھ گیا"، یعنی اس کا دیوالیہ ہو گیا۔ "فلاں دیوار بیٹھ گئی"، یعنی زمین میں دھنس گئی۔ "فلاں کا دِل بیٹھ گیا"، یعنی اس کی حرکت بند ہو گئی۔ "فلاں کی دکان بیٹھ گئی"، یعنی اب چلتی نہیں۔ "فلاں کی آنکھ بیٹھ گئی"، یعنی دماغ میں گھس گئی۔ "فلاں مشین کا پرزہ بیٹھ گیا"، یعنی اپنی جگہ میں فِٹ یعنی ٹھیک آ گیا۔ "تمھاری بات میرے دِل میں بیٹھ گئی"، یعنی دِل نے اسے قبول کر لیا۔ "شَکر نیچے بیٹھ گی"، یعنی تہ میں جم گئی۔ "نشانہ صحیح بیٹھ گیا"، یعنی نشانہ پر لگا۔ وغیرہ وغیرہ۔

اب مندرجہ ذیل چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

7 اقسام جدائی کی ج 6 ص 22
3 اقسام ماننے کی ج 6 ص 31
6 اقسام کلام کی ج 6 ص 104
2 اقسام عطیہ کی ج 6 ص 140
4 اقسام خوف کی ج 6 ص 197
7 اقسام بھائی کی ج 6 ص 371
6 اقسام پوچھنے کی ج 6 ص 435
6 اقسام محبت کی ج 6 ص 487
9 اقسام غم کی ج 7 ص 279
4 اقسام اندھیرے کی ج 7 ص 393
4 اقسام سمندر میں جانے کی ج 7 ص 461
4 اقسام زندگی کی ج 7 ص 469
3 اقسام موٹاپے کی ج 7 ص 570
4 اقسام ہاتھ بڑھانے کی ج 7 ص 583

مذکورہ اقسام کی تفصیل صِرف جلد 6 اور 7 سے اخذ کردہ ہے۔ اگر تمام جلدوں سے ان اقسام کو جمع کرکے تحریری صورت میں مرتب کیا جائے تو یہ بھی ایک رسالہ کی صورت اختیار کر جائے گی۔

اشعار۔ جگہ جگہ عربی، اردو اور فارسی اشعار کو نقل کیا گیا ہے۔ علامہ الحاج مفتی احمد یار خان نعیمی کو شعر و شاعری سے بہت شغف تھا اور اپنے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی مدح سرائی سے خوب عشق تھا، بلکہ یہ آپ کی روحانی غذا تھی۔ آپ بہت بلند مانہ شاعر بھی تھے۔ آپ نے بہت سی حمدیں، نعتیں منقبتیں، مناجات اور بہت سے استغاثے لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ مذکورہ تمام کلاموں پر مشتمل مصنفِ تفسیر نعیمی کا نعتیہ دیوان بنام دیوانِ سالک ہے۔ سالک آپ کا تخلص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر نعیمی شریف میں کثرت کے ساتھ عربی، فارسی اور اردو کے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ آپ کو شعر و شاعری سے کس قدر شغف تھا، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تفسیر نعیمی شریف کی چوتھی جلد میں آپ نے 361 اشعار کو نقل کیا ہے۔ یہ صرف ایک جلد کا حساب ہے۔ باقی جلد میں اس کے علاوہ ہیں۔ تفسیر نعیمی شریف کی چوتھی جلد میں جن شعرا کے اشعار کو ذکر کیا گیا ہے، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:

  • اعلیٰ امام احمد رضا خان
  • حافظ شیرازی
  • مولانا جامی
  • مولانا یار محمد بہاولپوری
  • مولانا عطار
  • شاہ بھیک
  • فرزدق
  • شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
  • مولانا حسن رضا خان
  • مولانا جلال الدین رومی
  • شیخ سعدی
  • مولانا خسرو دهلوی
  • اکبر صاحب
  • ابن مالک نحوی
  • حکیم ثنائی
  • حاجی عبد اللطیف ایوب بھورا
  • عتبہ لیثی
  • ڈاکٹر محمد اقبال
  • معبد خزائی
  • امام شافعی
  • خود اپنے اشعار

7۔ خلاصہ تفسیر

پھر اس مفصل تفسیر کی بحث کو سمیٹنے کے لیے خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔

8۔ فوائد

ہر آیت پر غور و تدبر سے جو نکات و فوائد حاصل ہوتے ہیں، ان کو نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے۔ اس تفسیر میں ایک ایک یا دو دو آیات سے حاصل ہونے والے پندرہ پندرہ سولہ سولہ فوائد کو بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل مقامات دیکھے جا سکتے ہیں۔

15 فوائد 1 آیت سے دیکھیے ج 5 ص 99 تا 101
15 فوائد 1 آیت سے دیکھیے ج 5 ص 167 تا 169
18 فوائد 2 آیت سے دیکھیے ج 5 ص 193
15 فوائد 2 آیت سے دیکھیے ج 5 ص 224
15 فوائد 2 آیت سے دیکھیے ج 5 ص 402
16 فوائد 2 آیت سے دیکھیے ج 4 ص 470
16 فوائد 3 آیت سے دیکھیے ج 1 ص 324
14 فوائد 1 آیت سے دیکھیے ج 1 ص 398
16 فوائد 1 آیت سے دیکھیے ج 10 ص 476
14 فوائد 2 آیت سے دیکھیے ج 5 ص 75
17 فوائد 3 آیت سے دیکھیے ج 6 ص 562

9۔ فقہی مسائل

تقریباً ہر آیت کے تحت فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اس تفسیر میں اعلیٰ الزامی جواب دیے گئے ہیں۔ اس تفسیر میں مشکل تر اعتراض کی اعلیٰ تاویل کر کے اس کو آسان تر کر دیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا فوائد کی مثالوں کی طرح اس کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔

10۔ اعتراضات و جوابات

تفسیر نعیمی کے اسلوب کی امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں بیک وقت متعدد فرقہ باطلہ کے خیالات و نظریات کا بیان اور قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ان کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ خود فاضل مصنف دیباچے میں فرماتے ہیں کہ تقریباً ہر آیت کے تحت آریہ، عیسائی، نیچری، چکڑالوی وغیرہم کے اعتراضات معہ جوابات بیان کیے گئے ہیں، ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کے جوابات دیے گئے ہیں لیکن یہ کتاب مجھے بعد میں ملی اس لیے اس کی باقاعدہ تردید کچھ دور جا کر ہوئی۔ ایسے مقاما ت پر مفسرجو اسلوب اپناتا ہے اس میں پہلے اعتراض کے عنوان سے متعلقہ باطل فرقہ کی رائے کو درج کیا جاتا ہے اور پھر اس سوال کے جواب کوعقلی دلائل سے حل کرتے نظر آتے ہے۔

اس کی مثال کے لیے قرآن پاک کی آیت مبارکہ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ[21] ("روزِ جزاء کا مالک") کی تفسیر نعیمی کا ایک مقام یہاں درج کیا جاتا ہے، جس میں آریوں کے اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے کہ آخرت کی بجائے اس دنیا میں مختلف جونوں کی تبدیلی سے ہی اعمال کی سزا جزا ہوتی رہتی ہے۔

اعتراض: آریوں کے عقیدے میں یہ دنیا ہی عمل اور جزا کی جگہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو انسان برے کام کرتا ہے وہ مرنے کے بعد نری جون میں آتا ہے اور اچھے کام کرنے والا اچھی جون میں۔ جس قدر جانور وغیرہ ہیں یہ پہلے انسان ہی تھے لیکن یہ اپنی بد عملی کی وجہ سے ان جونوں میں آئے تو ان کے نزدیک دنیا عمل و جزا دونوں کی جگہ ہے۔ جواب: لیکن مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا فقط عمل کی جگہ ہے یہاں جزا نہیں۔ آریوں کا یہ عقیدہ بالکل خلاف عقل ہے۔ اولاً تو اس لیے کہ جب دوسری جون میں پہنچ کر پہلی جون کا آرام یا تکلیف یاد ہی نہ رہی تو اس کو اپنے گذشتہ اعمال کا احساس ہی نہ ہو گا اور تکلیف اور غم محسوس ہی کیا ہو گا۔ مثلاً ایک شخص آج فقیربے نو اہے۔ ان کے قاعدے سے پہلے کسی اچھے حال میں زند گی گزار گیا تھا، لیکن بدعملی کے باعث اب فقیر بنا کر بھیجا گیا۔ جب اسے یاد ہی نہ رہا کہ پہلے میں کیا تھا اور اس وقت میں نے کیا کیا تھا، کس عیش میں تھا، یہ کس عمل کی سزا ہے، تو اب اس کو اس فقیری میں تکلیف ہی ہو گی، وہ تو اپنی اس فقیری میں ہی خوش اور مست ہو گا۔

11۔ تفسیر صوفیانہ

آخر میں تفسیر صوفیانہ آسان انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ہر آیت کی تفسیر صوفیانہ اتنی آسان فہم اور سبق آموز و طرز پر کرنا آپ کی اس تفسیر کی ایک خاص خوبی اور وصف ہے۔

مثلاً آیت مبارکہ، "فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ۪-وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ-وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(17)ذٰلِكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْكٰفِرِیْنَ(18)"[22]، ”تو تم نے انھیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انھیں قتل کیا اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھاانعام عطا فرمائے بے شک اللہ سنتا جانتا ہے، یہتو لو اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ اللہ کافروں کا داؤں سست کرنے والا ہے“، کی صوفیانہ تفسیر کرتے ہوئے مفتی صاحب لکھتے ہیں:

ہرچیز اللہ کی عبد ہے مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عبدہ ہیں۔ عبد اور عبدہ میں چند فرق ہیں۔

عبد وہ جو اللہ کی رضا چاہے، عبدہ وہ کہ اللہ اس کی رضا چاہے، "وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی۔"

عبد وہ جو اپنی عبدیت پر ناز کرے کہ میں اللہ کا بندہ ہیں، عبدہ وہ کہ دست قدرت اس کی عبدیت پر ناز کرے کہ رب فرمائے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رب ہوں۔

عبد وہ کہ اس کی شان رب سے ظاہر ہو اور عبدہ وہ کہ رب کی شان اس سے ظاہر ہو۔

عبد وہ جو کسی کے لیے بنے اور عبدہ وہ جس کے لیے دوسرے بنیں،"لولاک لما خلقت الفلاک"۔

عبد وہ جو رب سے ملنا چاہے اور عبدہ وہ جس سے رب ملنا چاہے، "سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْر۔"

عبد وہ جو رحمت رب کی طرف جائے، مگر عبدہ وہ کہ رحمت رب اس کو تلاش کرے۔

عبد وہ جو کچھ نہ ہو اور عبدہ وہ جو کچھ نہ ہو کر بھی سب کچھ ہو۔

عبد وہ جو کسی سے بنے اور عبدہ وہ جس سے سب کچھ بنے، "انا من نور اللہ و کل الخلائق من نوری"۔

عبد وہ جو اپنے کام کا خود ذمہ دار ہو اور عبدہ وہ کہ اس کے ہر کام کی رحمتِ خدا ذمہ دار ہو، "فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَراً زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَاءِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَراً وَکَانَ أَمْرُ اللَّہِ مَفْعُولا"۔

عبد وہ کہ کرنا بھی اس کا ہواور کام بھی اس کا ہو، جبکہ عبدہ وہ کہ کرناتو اس کا ہو مگر کام رب کا ہو یعنی مصدر اس کی ذات ہو اور حاصل مصدر رب کا کرم ہو۔ اس آیت میں رب تعا لیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عبدہ ہونے کی جھلک دکھائی ہے، صحابہ سے فرمایا تم نے بدر میں جہاد، قتال اور فتح کو کیا ہی نہیں، جو کچھ کیا درحقیقت رب نے کیا --تم سبب ہو، رب مسبب ہے اور مسبب کے مقابل سبب بے معنی ہے۔ یعنی:

  • سبب پردہ ہے، مسبب پردہ دار ہے۔
  • سبب حجاب ہے، مسبب ورون حجاب ہے۔

اس پردہ کی آڑ کو پھاڑ اور دیکھ لے جمال ِیار، لہذا وہاں فعل صحابہ کی بالکل نفی فرما دی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

  • سبب ہیں مگر مسبب سے وابستہ،
  • حجاب ہیں مگر یار کودکھانے والے حجاب، نہ کہ چھپانے والے،

جیسے ہلکا بادل حجاب بن کر سورج کو دکھا دیتا ہے، صاف و روشن سورج پر نظر نہیں ٹھہرتی۔ اس حجاب میں یار نظر آ رہا ہے، اس لیے فرمایا تم نے کنکر پھینکا، مگر تمھارے اس کام میں یار کی تجلی نظر آ رہی ہے کہ وہ ہم نے پھینکے۔ صوفیا فرماتے ہیں ما رمیت لک بل رمیت باللہ، یعنی تم نے تم بن کر نہ پھینکا بلکہ تم نے قدرتِ الٰہیہ کا مظہر بن کر پھینکا--تمھار ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیعت، اللہ کی بیعت، "إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیْہِمْ۔"

بندہ محل ِآفات ہے اور عبدہ آفات سے منزہ ہے۔۔۔۔

اپنے کاموں کو رب کی بارگا ہ کا ہدیہ بناو، قیمتی ہو جائیں گے۔ انگور کا خوشہ بازار میں چند پیسوں کا ہوتا ہے، لیکن اگر بادشاہ کریم کی بارگاہ کا ہدیہ بن جاوے اور وہ کریم سلطان قبول کر لے تو اس کی قیمت لاکھوں روپے بن جاتی ہے، اس پر بڑی بڑی جاگیریں انعام مِل جاتی ہیں۔ یہ چیز کی قیمت نہیں بلکہ سلطان کی نظر کی قیمت ہے۔ اپنے اعمال کو حضور تاجدارِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تحفہ بنا دو، لاکھوں پاو گے۔ بازار کی قیمت اور ہے، دربارِ یار کی قیمت کچھ ااور ہے۔

اساس و بنیاد

· تفسیر نعیمی معروف اور مستند تفاسیر کا نچوڑ ہے جیسے تفسیر کبیر، روح البیان و مدارک وغیرہ کا لب لباب ہے۔ اردو تفسیر خزائن العرفان شریف کی تفصیل ہے۔ نیز یہ اعلیٰ کے اعلیٰ ترجمہ کنزالایمان پر کی گئی ہے۔ تفسیر نعیمی شریف جن کتب کی مدد سے لکھی گئی ہے، ان میں سے یہ کتب بھی ہیں:

  • تفسیر ابن عربی
  • تفسیر بیضاوی
  • تفسیر جلالین
  • تفسیر جمل
  • تفسیر خازن
  • تفسیر روح البیان
  • تفسیر روح المعانی
  • تفسیر صاوی
  • تفسیر عزیزی
  • تفسیر کبیر
  • تفسیر مدارک
  • تفسیرات احمدیہ

مقبولیت و اہمیت

تفسیر نعیمی کو مصنف "کی تما م تصانیف میں وہ مقام حاصل ہے کہ آپ کے ہم عصر معتبر علما بھی اس عظیم کارنامے سے حیرت بدنداں ہیں۔"[23] آج بھی جس قدر اردو زبان میں تفسیر لکھنے والے مفسرین ہیں، وہ تفسیر نعیمی شریف سے استفادہ کرنے میں مستغنی نہیں۔[24]

تفسیر نعیمی شریف آپ کی زندہ کرامت ہے اور مقبول بارگاہ ہے کہ بعض مقامات کے متعلق خود حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں آکر ارشاد فرمایا کہ "اس جگہ یہ لکھ دو، اس جگہ وہ لکھ دو۔"

مفتی صاحب تفسیر نعیمی، جلد 9، صفحہ 270 پر لکھتے ہیں کہ بارہا کا تجربہ ہے کہ ہم کسی مسئلہ میں اٹک جائیں، مسئلہ کتابوں سے حل نہ ہو تو حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم خواب میں یا الہام سے یا ذریعوں سے بتا سمجھا دیتے ہیں؛ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی پہنچ ہر جگہ ہر وقت ہے۔

ایک بار مفتی صاحب نے خواب میں دیکھا کہ اجمیر شریف کی درگاہ میں ہیں۔ خواجہ برآمدوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ادھر سے حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے آئے۔ قبلہ مفتی صاحب کی طرف سے خواجہ نے تفسیر نعیمی کا نسخہ دربار رسالت میں پیش کیا اور سرکار رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دست مبارک میں لے لیا (حیات سالک، ص 127)۔

ایک مرتبہ مفتی صاحب طویل عرصہ تک مدینہ منورہ میں ٹھہرے اور جی یہی چاہتا تھا کہ کوئی صورت نکلے تو یہیں ہمیشہ کی سکونت ہو جائے۔ تو مسجد نبوی شریف کے قریب رہنے والے کسی صاحب کو خواب میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت ہوئی اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ"مفتی صاحب سے کہا جائے وہ گجرات جائیں اور تفسیر کا کام کریں۔" [25]

حافظ سید علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک دن قبلہ مفتی صاحب یہ فرمانے لگے، "حافظ صاحب تم کو ایک بات بتاؤں، کسی سے کہنا نہیں۔" میں نے عرض کیا، "حضور ارشاد فرمائیں۔" فرمایا، "میری تقدیری عُمر کَل گُزشتہ ختم ہو چکی ہے۔ آج سے دس دن پہلے میں نے اپنے آقا سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم، مجھے اتنی مہلت اور عطا فرمائیے کہ "اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ‎" (قرآن، پارہ 11، سورۃ 10 یونس، آیت 62،"سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم") والی آیت کی تفسیر لکھ سکوں۔ میری یہ التجاء منظور ہو گئی اور تین دین کی مزید زندگی سرکار کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے رب تعالیٰ سے دلوا دی۔ ہماری زندگی اب عطیہ سرکار ہے۔" [26]

تفسیر نعیمی لکھنے کی برکت سے آپ کو جن انعامات و اکرامات سے نوازا گیا، ان کے متعلق تفسیر نعیمی شریف، جلد 11 کے صفحہ 379 پر لکھتے ہیں:

فقیر پرتقصیر احمد یار عرض کرتا ہے کہ میری آزمائش تجربہ ہے کہ قرآن کریم کی خدمت کرنے والا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی نوکری کرنے والا ایسا غنی ہو جاتا ہے جس کا بیان ناممکن ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے دروازے سے اسے روٹی، کپڑا، روپیہ اور ساتھ ہی غنا، استغنا، قناعت اور دل کا سکون و چین عطا ہوتا ہے۔ یہ تنخواہیں کوئی بادشاہ بھی نہیں دے سکتا۔۔۔۔ میں سالہا سال سے اس طرح خانہ نشین ہوں کہ ظاہری اسباب میں کوئی آمدنی مستقل نہیں۔ نہ امامت، نہ خطابت، نہ ملازمت ہے، کہیں مجالس وغیرہ میں جانا بند کر دیا ہے۔ رب نے قرآن مجید کی خدمت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی نوکری محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما دی ہے تو اتنا خوش حال ہوں کہ زندگی میں اتنا کبھی نہ ہوا تھا، ساتھ ہی سکونِ قلب جو عطا ہوا ہے وہ تو بیان سے باہر ہے۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ "فقیر احمد یار خان کا بھی تجربہ ہے کہ میں نے بھی جب سے تفسیر لکھنا شروع کی ہے، دنیا کی برکتیں بے شمار دیکھ رہا ہوں۔ آخرت کی سعادت بھی اللہ نصیب کرے (آمین)" (تفسیر نعیمی، جلد 7، ص 573)۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی جب سورۃ الانعام کی آیت 38، "مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‎" (قرآن، پارہ 7، سورۃ 6، الانعام، آیت 38، "ہم نے اس کتاب میں کچھ نہ اٹھا رکھا") کی تفسیر لکھ کر فارغ ہوئے تو اسی رات خواب میں حضور غوث پاک کی زیارت ہوئی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں، "اس آیت کی تفسیر 22 شعبان المعظم 1387ھ، 25 نومبر 1967ء، کو دن میں ختم ہوئی۔ رات کو مجھے حضور غوث پاک کی زیارت ہوئی۔ غوث پاک نے میرے دل پر انگلی سے کلمہ طیبہ لکھا اور فرمایا: انشاء اللہ تمھارا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ یہ خواب رات کو 2 بج کر10 منٹ پر دیکھا گیا تھا" (تفسیر نعیمی، جلد 7، ص 324)۔

تاریخ

درس

آپ روزانہ بعد نماز فجر آدھا گھنٹا درسِ قرآن دیا کرتے تھے اور لوگ دور دراز سے اس میں شرکت کے لیے حاضر ہوتے۔ اس طرح مسلسل 19 سال میں آپ نے ایک بار قرآن کریم کا مکمل ختم فرمایا۔ چنانچہ 1378ھ/[1958ء] میں آپ لکھتے ہیں، "آٹھ ماہِ فاخر ربیع الآخر 1363ھ روز ایمان افروز طغیان سوز دو شنبہ مبارکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 19 سال میں پہلی بار درسِ قرآن ختم ہوا۔ پھر دوبارہ شروع کیا گیا۔ دوران درس میں بہت سے تفسیری نکات و فوائد، نئے اعتراضات و جوابات وغیرہ بیان ہوئے، وہ تمام اس میں زیادہ کر دیے گئے۔ اب بفضلہ تعالی یہ تفسیر کچھ اور ہی چیز ہو گئی، وللہ الحمد على ذالك۔[27] اس حساب سے اگر 1363ھ میں 19 سال میں درسِ قرآن ختم ہوا تو درسِ قرآن کی شروعات کی تاریخ 1344ھ/1924ء نکلتی ہے: 1363ھ - 19ھ = 1344ھ۔

تالیف

شروعات۔ سن [1358ھ] 1939ء کے لگ بھگ، مفتی احمد یار خان نعیمی گجرات منتقل ہو گئے، جہاں جماعت علی شاہ صاحب محدثِ علی پوری کی تبلیغی انجمن خدّام الصوفیہ کی گجرات شاخ کے دار العلوم میں تدریس، تبلیغ اور تصنیف کا کام مفتی احمد یار خان نعیمی نے شروع فرمایا۔ ایک طرف دار العلوم میں قابل طلبہ کی ایک جماعت تیار ہونے لگی اور دوسری طرف مفتی احمد یار خان نعیمی نے خطابتِ جمعہ اور روزانہ درسِ قرآن کی سلسلہ شروع کیا اور تیسری طرف تصنیف و تالیف کے عظیم کام کا آغاز کر دیا، دار الافتا کی خدمات اس پر مستزاد تھیں۔[28] اسی دور میں مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنی مشہور و معروف تفسیر نعیمی شریف کی تالیف شروع کی۔[28] شیخ بلال احمد صدیقی نے حالاتِ زندگی میں "تفسیر نعیمی کی ابتدا اور جاء الحق کی مکمل تصنیف 1954ء، 1365ھ"[29] لکھی ہے، جب کہ مفتی احمد یار خان نعیمی نے تفسیر نعیمی کی پہلی جلد کے آخر میں جو تاریخ خود تحریر فرمائی ہے وہ 1363ھ/[1944ء][30] ہے اور مصنف کی تحریر کردی تاریخ 1363ھ/ [1944ء] ہی قابلِ ترجیح ہے۔

جلد 1۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے تفسیر نعیمی کی پہلی جلد 1363ھ/ [1944ء] میں مکمل کی جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 1 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

27 ذیقعدۃ الحرام 1363ھ یوم چہار شنبہ۔[30]

جلد 2۔ مفتی احمد یار خان نعیمی ر نے تفسیر نعیمی کی دوسری جلد 1364ھ/[1945ء]میں مکمل کی جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 2 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

الحمد للہ کہ یہ جلد دوم ذیقعد 1363ھ یوم پنج شنبہ کو شروع ہو کر 26 جمادی الاول 1364[ھ] یوم چہار شنبہ کو ختم ہوئی ۔[31]

جلد 3۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے تفسیر نعیمی کی تیسری جلد 1365ھ/1946ء میں مکمل کی جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 3 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تفسیر نعیمی کی یہ تیسری جلد 16 شوال 1364ھ یوم دو شنبہ کو شروع ہو کر 27 جمادی الاخر 1365ھ یوم پنجشبہ کو ختم ہوئی [۔۔۔] 3 مئی 1946ء۔[32]

جلد 4۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے تفسیر نعیمی کی چوتھی جلد 1381ھ/1961ء میں مکمل کی جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 4 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

الحمد للہ کہ یہ پارہ 26 شعبان 80ھ مطابق 13 فروری 1960ء دو شنبہ کو شروع ہو کر آج 22 ربع 81ھ الاخر [یعنی 22 ربیع الآخر 1381ھ مطابق] 2 اکتوبر 61ء یوم دو شنبہ کو ختم ہوا۔[33]

جلد 5۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے 1383ھ / 1963ء تک تفسیر نعیمی کی پانچ جلدیں مکمل کر لیں جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 5 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

الحمد للہ کہ تفسیرِ نعیمی کا یہ پانچواں پارہ 15 ماہ ِرمضان 1382ھ مطابق 10 فروری 1963ء بروز یکشنبہ کو شروع ہوا اور آج بتاریخ 16 ماہِ ربیع الاول 1383ھ مطابق 7 اگست 1963ء برزو چہار شنبہ بوقت 9 بجے صبح بغیر و خوبی ختم ہوئی، چھ ماہ ایک دین میں مکمل ہوا۔ الحمد للہ کہ اسی سال ماہ رمضان کے روزے اور اعتکاف مسجد نبوی شریف میں نصیب ہوئے۔ یہ گنہگار [قرآن، پارہ 5، سورة 4، النسا، آیت 59] "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ‎"( "اے ایمان والو، حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں") کی تفسیر کا درس یہاں گجرات دے کر گیا تھا۔ پھر اس آیت کریمہ کا درس اعتکاف کے زمانہ میں دس دن مسجدِ نبوی شریف کے اندرونی باب سیدنا عمر دیا۔ پھر پانچ ماہ کے بعد اس مبارک سفر سے واپس گجرات آکر آٹھ دن اسی آیت پر درس دیا۔ ان درسوں کا خلاصہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں شامل کر دیا گیا ہے۔[34]

جلد 6۔ مفتی احمد یار خان نعیمی ر نے 1386ھ/1966ء تک تفسیر نعیمی کی چھ جلدیں مکمل کر لیں جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 6 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

الحمد للہ کہ تفسیر نعیمی کا چھٹا پارہ یکم جولائی 1965 عیسوی کو شروع ہو کر آج 21 مئی 1966ء مطابق 29 محرم الحرام 1386 ہجری بروز شنبہ ختم ہوا۔[35]

جلد 7۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے 1387ھ/ 1967ء تک تفسیر نعیمی کی سات جلدیں مکمل کر لیں جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 7 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا شکریہ ہے کہ تفسیر نعیمی کا ساتواں پارہ دو (2) صفر 1386ھ تئیس (23) مئی 1966 عیسوی بروز دو شنبہ بعد نماز ظہر شروع ہوا اور آج سترہ (17) جمادی اول 1387ھ، چوبیس (24) اگست 1967ء بروز پنجشنبہ بعد نماز ظہر بخیر و خوبی ختم ہوا، یعنی ایک سال تین ماہ میں ختم ہوا۔[36]

جلد 8۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے 1388ھ / 1968ء تک تفسیر نعیمی کی آٹھ جلدیں مکمل کر لیں جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 8 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

الحمد للہ کہ تفسیر نعیمی پارہ ولو اننا بتاریخ 25 جمادی الاول 1387ھ مطابق یکم ستمبر 1967ء کو شروع ہوا اور آج انیس (19) شعبان 1388ھ مطابق 11 نومبر 1968ء ایمان افروز، طغیان سوز دو شنبہ مبارک ختم ہوا۔[37]

جلد 9۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے 1390ھ/ 1970ء تک تفسیر نعیمی کی نو جلدیں مکمل کر لیں جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 9 کے آخری سے پہلے والے صفحہ پر لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تفسیر نعیمی، نواں پارہ، 11 شوال 1388ھ 69 / 1 - 1 بدھ کے دن شروع ہوا اور آج 8 جمادی الاول 1390ھ مطابق 13 جولائی 1970ء دو شنبہ کے دن 9 بجے صبح بخیر و خوبی ختم ہوئی۔[38]

جلد 10۔ مفتی احمد یار خان نعیمی ہ نے 20 محرم 1391ھ / 18 مارچ 1971ء تک تفسیر نعیمی کی دس جلدیں مکمل کر لیں جیسا کہ آپ تفسیر نعیمی کی جلد 10 کے آخری صفحہ پر لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے تفسیر نعیمی کی دسویں جلد، پارہ واعلموا، آٹھ جمادی الاول 1390ھ، 13 جولائی 1970ء، کو دو شنبہ کو شروع ہوئی اور آج 20 محرم الحرام 1391ھ، 18 مارچ 1971ء، پنج شنبہ کے دن سوا دس بجے دوپہر، نو مہینے بارہ دن میں، بخیر خوبی ختم ہوئی۔[39]

جلد 11۔ مفتی احمد یار خان نعیمی تفسیر نعیمی گیارہ پاروں (یعنی گیارہ جِلدوں) "تک" لکھ پاے تھے کہ آپ کا وصال ہو گیا۔ تحقیق طلب امر یہ ہے کہ مفتی احمد یار خان نعیمی نے گیارہویں پارے کی کون سی آیت تک تفسیر لکھی۔ مفتی عبد الحمید نعیمی نے حیاتِ حکیم الامت میں گیارہویں پارے کے "آخری پاو" کی نشان دہی کی ہے:

آپ نے گیارہ پارے کے آخری پاؤ تک[تفسیر] لکھی تھی، پھر آپ کا وصال ہو گیا تھا۔[40]

شیخ بلال احمد صدیقی نے حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی میں اس "آخری پاو" میں سورت یونس کی آیت 62 کی نشان دہی کی ہے:

[ مفتی احمد یار خان نعیمی ]گیارہویں پارے کی [سورت 10، یونس، کی] آیت [62] "اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ" ["سن لو، بے شک، اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے"] کی تفسیر لکھ کر اٹھے اور لاہور علاج کے لیے تشریف لائے۔[41]

قاضی عبدالنبی کوکب حیات سالک میں لکھتے ہیں:

سوموار 4 [چار] اکتوبر 1971ء میو ہسپتال داخل کر لیے گئے۔[42]

شیخ بلال احمد صدیقی نے حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی میں مزید فرماتے ہیں:

اس کے بعد اس عظیم مفسر کا قلم ہمیشہ کے لیے رک گیا۔[41]

بیس دن بعد، مفتی احمد یار خان نعیمی نے 3رمضان المبارک 1391ھ بمطابق 24 اکتوبر 1971ء کو وصال فرمایا۔[43] تاہم، مفتی احمد یار خان کے بیٹے مفتی اقتدار احمد خان نے جنھوں نے تفسیر نعیمی کی گیارہویں جلد کی تکمیل کی اور پھر بارہویں جلد سے انیسویں جلد تک تفسیر نعیمی لکھی تفسیر نعیمی کی جلد 15 کے "دیباچہ" میں آخری پاو سے "کچھ زیادہ" کی نشان دہی کی ہے، اور اسی طرح مولانا محمد نوید کمال مدنی نے تفسیر نعیمی سے حکمت بھری مثالیں میں سورت یونس کی آیت 62 سے "کچھ آگے" کی راہنمائی کی ہے۔ چنانچہ مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں:

اس سے قبل پاکستان، گجرات، میں اپنے ذاتی کتب خانیکے تعاون سے گیارہویں سیپارے کی ایک چوتھائی اور کچھ زیادہ آیات کی تفسیر کے علاوہ بارہویں سیپارے کی مکمل تفسیر لکھی۔[44]

اس کی وضاحت مولانا محمد نوید کمال مدنی نے اس طرح کی ہے:

مفتی صاحب گیارہویں پارہ کی [سورت 10، یونس، کی] آیت [62] اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ۔۔۔الخ["سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم"] سے کچھ آگے ہی لکھ پاے تھے کہ آپ کی مبارک زندگی پوری ہو گئی اور آپ کا انتقال ہو گیا۔"[24]

اس "کچھ آگے" کی وضاحت مفتی عبد الحمید نعیمی نے حیاتِ حکیم الامت میں سورت یونس کی آیات 62 تا 64 سے کی ہے:

آخری آیت مبارکہ [ پارہ 11، سورت 10، یونس، کی آیات 62 تا 64] اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ۔۔۔ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ [ "سن لو، بے شک، اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے، نہ کچھ غم، وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں انھیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں، یہی بڑی کامیابی ہے"] تھی۔"[40]

اس گفتگو کا حاصل یہ نکلا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی نے تفسیر نعیمی جس میں ہر آیت مبارکہ کے تحت 11 چیزیں بیان کیں کی پہلی جلد 1363ھ/ [1944ء][30] میں لکھی اور پھر گیارہویں جلد کی مندرجہ ذیل آیت مبارکہ تک تفسیر لکھی تھی کہ 28 سال کی محنتِ شاقہ کے بَعد 1391ھ/1971ء میں آپ کا وصال ہو گیا:[24][40][41][42] [43] پارہ 11، (سورت 11 سے پہلے والی) سورت 10 یعنی یونس، (رکوع 11 کے بَعد والے) رکوع یعنی 12 کی دوسری تا چوتھی آیات یعنی 62 تا 64 آیات، جس میں آیت 62 مشتمل ہے 11 الفاظ پر: "[1]اَلَاۤ [2]اِنَّ [3]اَوْلِیَآءَ [4]اللّٰهِ [5]لَا [6]خَوْفٌ [7]عَلَیْهِمْ [8]وَ [9]لَا [10]هُمْ [11]یَحْزَنُوْنَ(62)الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ(63) لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(64)" ["سن لو، بےشک، اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے، نہ کچھ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں، انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے"] ۔ گیارہ جلدوں کی مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ تک تصنیف مفتی احمد یار خان نعیمی کی ہے، اور اس کے بعد بیسویں پارے تک تفسیر آپ کے صاحبزادے مفتی اقتدار احمد خان نے لکھی اور پھر ان کا بھی وصال ہو گیا[40] اور اس طرح گیارہویں پارے کی مندرجہ بالا آیت کے بَعد کی تصنیف مفتی احمد یار خان نعیمی کی نہیں بلکہ مفتی اقتدار احمد خان کی ہے۔ یہ بات خیال میں رہے۔

خاتمۃ البحث

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی کی یہ تفسیر عصر حاضر کے حوالے سے موثر و نمایاں ہے جو علمی مباحث و موضوعا ت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی نایاب تفسیر کو پڑھا جائے اور متلاشیان ِ علم و دین تک پہنچایا جائے جو عصری مسائل کا حل اور عصری الحادی فتنوں کے رد میں بہترین قرآنی جواب فراہم کرتی ہے۔ خوف ِ طوالت کے پیش ِ نظر بہت سے موضوعات کو ابھی بیان نہیں کیا گیا، بالخصوص محکم و متشابہات اور ناسخ و منسوخ اور وراثت کے مسائل۔ تفسیر نعیمی کتابِ ہدایت سے نورِ ہدایت کی طلب رکھنے والوں کو اپنے اندر غور و خوض کرنے کی دعوت دیتی ہے اور فہمِ قرآن کو عام کرنے کے لیے گراں بہا سرمایہ ہے۔ اللہ کریم مفتی احمد یار خان نعیمی بہ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کے فیوض و برکات سے امت مسلمہ کو مستفیض فرمائے، آمین۔

جامعاتی تحقیق

  • ڈاکڑ حافظ محمد مدثر شفیق، در نایاب حیدر اور مریم بی بی، "سورہ آل عمران میں قصہ مریم و زکریا کے صوفیانہ اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ (تفسیر نعیمی کا اختصاصی مطالعہ)"، جہانِ تحقیق، جلد 7، شمارہ 1، مارچ 2024 (https://doi.org/10.61866/jt.v7i1.1150
  • ڈاکٹر محمود احمد، ڈاکٹر محمد ضیاءاللہ اور محمد امجد رضوی، "قرآنی اسرار و رموز اور روحانی تفہیم میں بصیرت تفسیر نعیمی کی روشنی میں (جلد 9 کا خصوصی مطالعہ)"، المہدی ریسرچ جرنل، جلد 5، شمارہ 2، اکتوبر تا دسمبر 2023، صفحہ 507 تا صفحہ 524 (https://ojs.mrj.com.pk/index.php/MRJ/article/view/303/371
  • ساجد محمود عابد، "حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اور ان کی تفسیری خدمات"، بہا الدین یونیورسٹی: ملتان۔
  •   شفقت علی، "تفسیرِ نعیمی کے اُسلوب و منہج کا تحقیقی مطالعہ"، مراآۃ العارفین انٹرنیشنل،  مئی 2020ء (https://www.mirrat.com/article/38/882
  • علی محمد، ڈاکٹر محمد نوید اور ڈاکٹر محمد انصار، "مفتی احمد یار خان نعیمی کا مباحثِ تصوف میں درایتی اسلوب"، الحمید اسلامی اسٹڈیز ریسرچ جرنل، جلد 3، شمار 1، 2024ء، لاہور ، ISSN: 2959-1767, ISSN: 259-1759۔
  • فیصل منیر، "مفتی احمد یار خان نعیمی کی تصنیفی خدمات"، امپیرئیل کالج آف بزنس سڈڈیز: لاہور
  • محمد شعیب، ڈاکٹر حافظ محمد مدثر شفیق اور حافظ محمد انس، "سورہ آل عمران کے منتخب واقعات کے صوفیانہ اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ(تفسیر نعیمی کی روشنی میں)"، الاضاءات ریسرچ جرنل، جلد 4، شمارہ 1، جنوری تا مارچ 2024 (https://alasr.com.pk/ojs3308/index.php/alidaat/article/view/264.[مردہ ربط]
  • محمد شعیب عطاری، "تفسیرِ نعیمی (جلد اول) کی چند تفسیری خصوصیات"، التفسیر، کراچی، جلد 8، شمارہ 23، جنوری تا جون 2014ء، صفحات 169 تا 192۔
  • محمد عرفان، "مفتی احمد یار خان نعیمی کا منہجِ تفسیر بحوالہ تصوف"، بہا الدین یونیورسٹی: ملتان۔
  • مفتی عبد الحمید نعیمی، حیاتِ حکیم الامت: مقالہ برائے تنظیم المدارس الشہادۃ العالمیہ ایم اے، باب 4، حکیم الامت بطور مفسر، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء۔
  • مفتی عطاء الرحمان، ڈاکڑ حافظ محمد مدثر شفیق اور ڈاکٹر شاہ نواز، "قصہ موسیٰ و بنی اسرائیل کے صوفیانہ اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ (تفسیر نعیمی کا اختصاصی مطالعہ)"، الحمید (علمی و تحقیقی مجلہ)، جلد 3، شمارہ 1، مارچ 2024 (https://jsakbar.edu.pk/index.php/ahrj/article/view/60
  • مفتی عطاء الرحمان، ڈاکڑ حافظ محمد مدثر شفیق اور ڈاکٹر فرحان اختر، "سورہ بقرہ میں بیان کردہ حضرت ابراہیم کے واقعات کی صوفیانہ تفسیر کا تجزیاتی مطالعہ (تفسیر نعیمی کا اختصاصی مطالعہ)"، المنھل ریسرچ جرنل، جلد 4، شمارہ 1، جنوری تا مارچ 2024 (https://almanhal.org.pk/ojs3303/index.php/journal/article/view/110
  • مفتی عطاء الرحمان، ڈاکڑ حافظ محمد مدثر شفیق اور ڈاکٹر فرحان اختر، "سورہ بقرہ میں بیان کردہ قصہ آدم و ابلیس کے صوفیانہ اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ (تفسیر نعیمی کی روشنی میں)"، المہدی ریسرچ جرنل، جلد 5، شمارہ 2، جنور ی تا مارچ 2024، صفحہ 178 تا صفحہ 190 (https://ojs.mrj.com.pk/index.php/MRJ/article/view/204/238
  • مفتی عطاء الرحمان، ڈاکڑ حافظ محمد مدثر شفیق اور عصمہ اصغر، "سورہ بقرہ کے منتخب واقعات کے صوفیانہ اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ (تفسیر نعیمی کی روشنی میں)"، جہانِ تحقیق، جلد 6، شمارہ 4، مارچ 2023 (https://jahan-e-tahqeeq.com/index.php/jahan-e-tahqeeq/article/view/1092

کتابیات

  • شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء۔
  • قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء۔
  • مفتی اقتدار احمد خان، تفسیر نعیمی: جلد 15، "دیباچہ"، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2012ء۔
  • مولانا محمد نوید کمال مدنی، تفسیر نعیمی سے حکمت بھری مثالیں: تفسیر نعیمی میں آیات قرآنیہ کی تفسیر میں بیان کردہ 1409 ایمان افروز عقلی مثالوں کا مجموعہ،مکتبہ اعلیٰ: لاہور، 1439ھ/2018ء۔

حوالہ جات

  1. شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 22۔
  2. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد1، ص 701۔
  3. ^ ا ب مندرجہ ذیل جنتری کی مدد سے ہجری سال سے عیسوی سال تخمیناْ نکالا گیا: J. Thomann, Islamic Philosophy Online: Philosophia Islamica, "Conversion of Hijri A.H. (Islamic) and A. D. Christian (Gregorian) dates", Institute of Oriental Studies, Zurich University, 1996, https://muslimphilosophy.com/calconv/hijri.htm, Monday 22 March 2024.
  4. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی:جلد 2، ص 528۔
  5. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 3، ص 596۔
  6. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 4، ص581۔
  7. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 5، ص 519۔
  8. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 6، ص 647۔
  9. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 7، ص 673۔
  10. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 8، ص 592۔
  11. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 9، ص 560۔
  12. ^ ا ب مفتی احمد یار خان نعیمی تفسیر نعیمی: جلد 10، ص 509۔
  13. ^ ا ب قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک،"ہسپتال کی ڈائری"، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، ص 99؛ مفتی عبد الحمید نعیمی، حیاتِ حکیم الامت: مقالہ برائے تنظیم المدارس الشہادۃ العالمیہ ایم اے، باب 4، حکیم الامت بطور مفسر، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء، ص 105؛ شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 62 تا 63۔
  14. محمد شعیب عطاری، "تفسیرِ نعیمی (جلد اول) کی چند تفسیری خصوصیات"، التفسیر، کراچی، جلد 8، شمارہ 23، جنوری تا جون 2014ء (169 تا 192)، ص184۔
  15. قرآن مجید، پارہ 11، سورت 10، یونس، آیت 3۔
  16. قرآن مجید، پارہ 11، سورت 10، یونس، آیت4۔
  17. مفتی احمد یار خان نعیمی،تفسیر نعیمی: جلد 11، سورت 10، یونس، آیت، 4، "تعلق"، ص 175۔
  18. مفتی احمد یار خان نعیمی، تفسیر نعیمی: جلد10، سورت 9، توبہ، "تعلق"، ص 140 تا 141۔
  19. محمد شعیب عطاری، "تفسیرِ نعیمی (جلد اول) کی چند تفسیری خصوصیات"، التفسیر، کراچی، جلد 8، شمارہ 23، جنوری تا جون 2014ء (169 تا 192)، ص180۔
  20. مولانا محمد نوید کمال مدنی، تفسیر نعیمی سے حکمت بھری مثالیں: تفسیر نعیمی میں آیات قرآنیہ کی تفسیر میں بیان کردہ 1409 ایمان افروز عقلی مثالوں کا مجموعہ، مکتبہ اعلیٰ: لاہور، 1439ھ/2018ء، ص 80 تا 81۔
  21. قرآن مجید، پارہ 1، سورت 1، آیت 3۔
  22. قرآن مجید، پارہ 9، سورت 8، آیت 17۔
  23.   شفقت علی، "تفسیرِ نعیمی کے اُسلوب و منہج کا تحقیقی مطالعہ"، مراآۃ العارفین انٹرنیشنل،  مئی 2020ء (https://www.mirrat.com/article/38/882
  24. ^ ا ب پ مولانا محمد نوید کمال مدنی، تفسیر نعیمی سے حکمت بھری مثالیں: تفسیر نعیمی میں آیات قرآنیہ کی تفسیر میں بیان کردہ 1409 ایمان افروز عقلی مثالوں کا مجموعہ، "حالاتِ مفسرِ شہیر: افسوس کی بات"، مکتبہ اعلی : لاہور، 1439ھ/2018ء، ص73۔
  25. قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 127؛ اسی مضمون کی تحریر مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے خود تفسیر نعیمی، جلد 1، ص 32 پرلکھی ہے۔
  26. شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص35۔
  27. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 1، نعیمی کتب خانہ: گجرات اور مکتبہ اسلامیہ: لاہور مکتبہ قادریہ: لاہور، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مہتممِ مکتبہ اسلامیہ مفتی افتخار احمد خان نے "عرضِ ناشر" نے یہ درج کی ہے] 1983ء، ص 4۔
  28. ^ ا ب شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص62۔
  29. غلطی سے مندرجہ ذیل حوالہ میں "1954ء" لکھا ہوا ہے، جب کہ درست "1945ء" ہے اور درست یہاں درج کر دیا گیا ہے: شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 13۔
  30. ^ ا ب پ مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد1، ص 701۔
  31. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 2، ص 528۔
  32. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 3، ص 596۔
  33. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 4، ص581۔
  34. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 5، ص 519۔
  35. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 6، ص 647۔
  36. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 7، ص 673۔
  37. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 8، ص 592۔
  38. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی: جلد 9، ص 560۔
  39. مفتی احمد یار خان نعیمی، تفسیر نعیمی: جلد 10، ص 509۔
  40. ^ ا ب پ ت مفتی عبد الحمید نعیمی، حیاتِ حکیم الامت: مقالہ برائے تنظیم المدارس الشہادۃ العالمیہ ایم اے، باب 4، حکیم الامت بطور مفسر، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء، ص 105۔
  41. ^ ا ب پ شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 62 تا 63۔
  42. ^ ا ب قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک،"ہسپتال کی ڈائری"، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، ص 99۔
  43. ^ ا ب المدینۃ العلمیہ، فیضان مفتی احمد یار خان نعیمی ،مکتبہ المدینہ: کراچی، [2016ء]، ص 64تا 65۔
  44. مفتی اقتدار احمد خان، تفسیر نعیمی: جلد 15، "دیباچہ"، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2012ء، ص 26۔