احمد یار خان نعیمی

سنی مفسر قرآن


حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی بدایونی گجراتی (ولادت: 1324ھ/1894ء، وفات: 1391ھ/1971ء) مفسرِ قرآن، شارح حدیث، مفتی، مفکر، نعت گو شاعر اور بہت سی مشہور و معروف کتب کے مصنف تھے، جن میں تفسیرِ نورُالعرفان، تفسیر نعیمی(پارہ گیارہ تک)، مرآۃ المناجیح  اور جاءالحق تو عوام و خواص میں بہت ہی  مشہور و معروف ہیں۔ بدایوں شریف کو جن ہستیوں کے مقام پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے، ا ن میں ایک ذات آپ کی بھی ہے۔ آپ کی ولادت صبح ِصادق کی پُرنور اور بابرکت ساعتوں میں شوّالُ المکرّم 1314ھ کو محلہ کھیڑہ، بستی اوجھیانی (بدایوں، یوپی ہند) میں ہوئی۔ آپ نے قراٰنِ پاک سےلے کر فارسی کی نصابی تعلیم اور درسِ نظامی کی ابتدائی کُتُب اپنے والدِگرامی مولانا محمد یار خان بدایونی سے پڑھیں، مدرسہ شمسُ العلوم میں علامہ قدیر بخش بدایونی کی نگرانی میں تین سال تک تعلیم حاصل کی، پھر مختلف درس گاہوں میں پڑھا اور آخر کار جامعہ نعیمیہ  (مُراد آباد، ہند) میں داخلہ لے کر خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرُ الافاضل مفتی سیّد محمد نعیمُ الدّین مراد آبادی اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ حافظ مشتاق احمد صدیقی کانپوری جیسے شفیق اور مہربان اَساتِذَہ کے زیرِ سایہ رہ  کرعلم و عمل کی دولت سے فیض یاب ہوئے، اور 19 برس کی عمر میں سندِ فراغت حاصل کی۔ سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعداستادِ محترم علامہ صدرُ الافاضل سیّدمحمدنعیمُ الدّین مراد آبادی کی  ہدایت پر جامعہ نعىمىہ (مراد آباد، ہند)، مدرسہ مسکینیہ (دھوراجی، کاٹھیاواڑ، ہند)، کچھوچھہ شریف اور بھکھی شریف (تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤ الدین، پنجاب، پاکستان)میں تدریس فرمائی۔ پھر آپ ضلع گجرات (پنجاب، پاکستان)تشریف لےآئے اورزندگی کے بقِیَّہ ایّام یہیں گزارے۔بارہ تیرہ سال دارالعلوم خدّامُ الصّوفیہ (گجرات) اور دس برس انجمن خُدّامُ الرَّسول میں فرائضِ تدریس انجام دیتے رہے۔وصال سے چھ سال قبل جامعہ غوثیہ نعیمیہ میں تدریس اور افتا کا سلسلہ رہا۔ آپ نے (سوائے ’’علم المیراث‘‘کے) اپنی تمام تصانیف  گجرات میں قیام  کے زمانے میں ہی تحریر فرمائیں۔ نماز سے محبت کا یہ عالم تھا کہ عرصۂ دراز  تک تکبیرِ اُولیٰ بھی فوت ہوتے ہوئے نہ دیکھی گئی۔ خاموشی سے اذان سننے کا اس قدر اہتما م فرماتے کہ بوقتِ اذان گھر میں سناٹا ہو جاتا۔ نمازِباجماعت کی ادائیگی کے لئے اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے جانا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔ بتاریخ 3رمضانُ المبارک1391ھ (24 اکتوبر 1971ء ) کو آپ کا وصال ہوا۔آپ کا مزارِ فائضُ الانوار گجرات شہر (پنجاب، پاکستان)میں ہے۔

احمد یار خان نعیمی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1904ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اوجھیانی ،  بداؤں ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 24 اکتوبر 1971ء (66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
کارہائے نمایاں تفسیر نعیمی ،  نور العرفان فی حاشیہ قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت ترمیم

مقام۔ آپ کی ولادت محلہ کھیڑہ[1]، بستی اوجھیانی[1]، ضلع بدایوں[1] (اتر پردیش[2]، ہند) میں ہوئی۔ آپ یکم مارچ 1894ء کو بمطابق 1324ھ جمادی الاولیٰ کی 4 تاریخ، جمعرات کے دن، نمازِ فجر کے وقت پیدا ہوءے۔[2]تاہم، آپ کی ولادت کا سال 1324ھ/1906ء بھی مِلتا ہے، جس کے لیے مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ ہوں:[3]

خاندان ترمیم

آپ کے والد مولانا محمدیار خان ابن منور خان تھے۔ ان کا تعلق یوسف زئی پٹھان قبیلے سے تھا۔

تعلیم ترمیم

مفتی احمد یار خان نعیمی گیارہ برس کی عمر میں تحصیلِ علم کے لیے وطن سے باہر نکلے اور بیس برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو گئے۔[4] بدایوں، یوپی، مدرسہ شمس العلوم بدایوں میں مولانا قدیر بخش سے دینی تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ اسلامیہ مین ڈھو، علی گڑھ ضلع میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مراد آباد جا کر مدرسہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ لیا۔ یہاں مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے آپ کی قابلیت دیکھ کر بذات خود تعلیم دی۔ بیس سال کی عمر میں درس نظامی کی تکمیل پر اسی مدرسہ میں بطور مدرس آپ کی تعیناتی ہوئی۔

ابتدائی تعلیم۔ مفتی احمد یار خان نعیمی علمائے دین کے اس قافلے کے آخری افراد میں تھے جنھوں نے موجودہ صدی کے نصف اول بلکہ ربع اول کی اکثر عظیم المرتبت دینی ولی شخصیات کو دیکھا، قریب ہو کر ان سے فیض یاب ہوئے اور آگے اپنی پوری زندگی اس مشن کی خدمت میں سرگرم رکھی، جو عظیم اسلاف سے ان کی طرف منتقل ہوا تھا۔ مفتی احمد یار خان نعیمی کے وصال سے ہماری ملی تاریخ کا ایک خاص دور سمٹتا ہو محسوس ہو رہا ہے۔ جس دور کی خصوصیت یہ تھی کہ ابھی کچھ لوگ منصب و جاہ کے خیال سے بہت دور، پورے اخلاص اور للہیت کے ساتھ کتاب وسنت کی خدمت میں مشغول تھے اور سلف صالحین کی و ورائع وراثت کی حفاظت انہی کے طریق کار کے مطابق کئیے جارہے تھے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنے بچپن میں چودہویں صدی کے مجدد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی زیارت کی تھی اور بعد میں ان کے تلامذہ و خلفاء کی درس گاہوں میں انتہائی شوق محنت سے علم دین کی تحصیل کی۔ مفتی احمد یار خان نعیمی کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن اوجھانی (ضلع بدایون) میں اپنے والد مولانا محمد یار خان بدایونی کے پاس ہوئی، جو فارسی نصاب اور ابتدائی بنیات کی تعلیم و تربیت کے نہایت ماہر تعلیم تھے۔ انھوں نے مسلسل 45سال تک اپنی بستی کی جامع مسجد میں خطابت و امامت اور تبلیغ و تدریس کی خدمات انجام دی تھیں اور گھر پر حسابی تعلیم کے لئے ایک مکتب قائم کر رکھا تھا۔[5]

اعلیٰ تعلیم۔ مفتی احمد یار خان نعیمی ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو کر، نہایت چھوٹی عمر میں، تحصیلِ علوم کے لئے وطن سے نکل کھڑے ہوئے اور سالہا سال تک بدایوں اور مینڈھو میں درسِ نظامی کے اسباق پڑھتے رہے۔ اس دور میں اپنے کسی عزیز کی ہمراہی میں مفتی احمد یار خان نعیمی کی مراد آباد والی عظیم درس گاہ جامعہ نعیمیہ ( مراد آباد ) کے بانی، صدالا فاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ صدر الافاضل بڑے جو ہر شناس انسان تھے۔ انھوں نے ہونہار طالب علم کی اعلیٰ تعلیم کیلئے تمام سہولتیں مہیا فرمادیں اور مفتی احمد یار خان نعیمی کو مراد آباد سے واپس نہ جانے دیا۔ اس وقت کانپور کے علامہ مشتاق احمد مرحوم معقولات و ریاضیات کی تدریس میں یکتائے روزگار شمار ہوتے تھے۔ مولانا مراد آبادی نے وقیع مشاہرے پر، موصوف کو مراد آباد جامعہ نعیمیہ میں بلا لیا اور مفتی صاحب کی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد علامہ مشتاق احمد میرٹھ تشریف لے گئے تو قبلہ صاحب بھی ان کے شاگرد خاص کی حیثیت سے ان کے ساتھ ہی منتقل ہو گئے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر معلوم ہوتی ہے کہ تحریک آزادی کے ایک نامور سپاہی شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی بھی کانپور، مراد آباد اور میرٹھ میں علامہ مشتاق احمد سے پڑھتے رہے تھے۔ اس طرح علامہ ہزاروی، مفتی احمد یار خان نعیمی کے استاد بھائی تھے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی خود فرمایا کرتے تھے کہ مراد آباد کا قیام میری زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ صدر الافاضل مراد آبادی کی شفقت، توجہ خصوصی اور حکیمانہ تربیت نے مفتی احمد یار خان نعیمی کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑے تھے۔[5]

علوم و فنون۔ آپ نے 40علوم حاصل کیے جن میں سے 30 درس نظامی کے علوم اساتذہ سے اور10علوم کتب بینی سے حاصل کیے(شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگی)۔

تدریس ترمیم

بیس سال کی عمر میں درس نظامی کی تکمیل پر اسی مدرسہ میں بطور مدرس آپ کی تعیناتی ہوئی۔تدریسی فرائض کے علاوہ فتوی بھی جاری کرتے تھے۔تین سال تک کچھوچھہ شریف میں قیام رہا۔ مولانا سید ابو البرکات احمد کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے اور بارہ تیرہ سال دارالعلوم خدام الصوفیہ اور دس برس انجمن خدام الرسول میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔

دھوراجی۔ حصول علم سے فارغ ہو کر مفتی احمد یار خان نعیمی نے تدریس اور تالیف کے کام سے علمی زندگی آغاز کیا۔ تدریس کے فرائض دھوراجی ( کاٹھیاواڑ، گجرات ) میں دیتے رہے۔

کچھوچھہ۔ دھوراجی ( کاٹھیاواڑ، گجرات ) کے بَعد، مفتی احمد یار خان نعیمی کچھوچھہ شریف (اترپردیش) کی خانقاہ عالیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

گجرات۔ سن [1359ھ] 1939ء کے لگ بھگ مفتی احمد یار خان نعیمی گجرات (پنجاب، پاکستان) میں منتقل ہو گئے، جہاں جماعت علی شاہ محدثِ علی پوری کی تبلیغی انجمن خدام الصوفیہ کی گجرات شاخ کے دارالعلوم میں تدریس، تبلیغ اور تصنیف کا کام مفتی احمد یار خان نعیمی نے شروع فرمایا۔ جماعت علی شاہ صاحب محدثِ علی پوری مفتی احمد یار خان نعیمی کے علم و فضل اور شوق دینی کی بنا پر ان کے بڑے قدردان تھے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی کے دور میں گجرات علم وفن کے ایک خاص معیار کا حامل تھا۔ پیر ولایت شاہ، قاضی عبدالحکیم، مولانا نیک عالم قادری اور مولا نا عمر بخش گجراتی جیسے فقیر منش اور بے لوٹ اکابرِ دِین و صوفیاء کا بابرکت گروہ موجود تھا۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے خود اس عظیم دور میں خوب شوق و محنت سے تعلیم دین کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ ایک طرف دار العلوم میں قابل طلباء کی ایک جماعت تیار ہونے لگی، اور دوسری طرف قبلہ صاحب نے خطابت جمعہ اور روزانہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا، اور تیسری طرف تصنیف و تالیف کے عظیم کام کا آغاز کر دیا، دار الافتاء کی خدمات اس پر مستزاد تھیں۔ اسی دور میں قبلہ صاحب نے اپنی مشہور و معروف تفسیر نعیمی کی تالیف شروع کی۔[5]آپ نے (سوائے ’’علم المیراث‘‘کے) اپنی تمام تصانیف  گجرات میں قیام  کے زمانے میں ہی تحریر فرمائیں۔[6][7]

تبلیغ ترمیم

حصولِ علم سے فارغ ہوکر مفتی احمد یار خان نعیمی جب سنہ [1359ھ] 1939ءکے لگ بھگ گجرات (پنجاب، پاکستان) میں منتقل ہو گئے تو وہاں تدریس و تصنیف کے ساتھ تبلیغ کا کام بھی شروع کر دیا جیسا کہ آپ کی تدریس کے ضمن میں بیان کیا گیا کہ ایک دار العلوم میں قابل طلباء کی ایک جماعت تیار ہونے لگی اور دوسری طرف آپ نے وہاں خطابتِ جمعہ اور روزانہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا۔نیز، مفتی احمد یار خان نعیمی نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے لیے بھی اپنی خدمات پیش کیں۔

تصانیف ترمیم

حصولِ علم سے فارغ ہوکر مفتی احمد یار خان نعیمی جب سنہ [1359ھ] 1939ءکے لگ بھگ گجرات (پنجاب، پاکستان) میں منتقل ہو گئے تو وہاں تدریس و تبلیغ کے ساتھ تصنیف کا کام بھی شروع کر دیا جیسا کہ آپ کی تدریس کے ضمن میں بیان کیا گیا کہ ایک طرف دار العلوم میں قابل طلباء کی ایک جماعت تیار ہونے لگی، دوسری طرف مفتی احمد یار خان نعیمی نے خطابتِ جمعہ اور روزانہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور تیسری طرف تصنیف و تالیف کے عظیم کام کا آغاز کر دیا اور دار الافتاء کی خدمات اس پر مستزاد تھیں۔ ان کی پہلی تالیف قانونِ وراثت پر علم المیراث کے نام سے منظرِ عام پر آئی، اور سوائے اس علم المیراث کے آپ نے اپنی تمام تصانیف  گجرات میں قیام  کے زمانے میں ہی تحریر فرمائیں۔[6][7]

مفتی احمد یار خان نعیمی نے [1377ھ] 1957ء میں حاشیہ قرآن مجید نور العرفان لکھ کر حکیم الامت کا لقب پایا۔

گجرات کے دور قیام میں مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنی مشہور و معروف تفسیر نعیمی شریف کی تالیف شروع کی[8]، جس کی پہلی جلد 1363ھ/ [1943ء] میں مکمل کی[9]، جس میں ہر آیت مبارکہ کے تحت 11 چیزیں بیان کیں، اور مندرجہ ذیل آیت مبارکہ تک تفسیر لکھی تھی کہ 1391ھ/1971ء میں وصال ہو گیا: پارہ 11، (سورت 11 سے پہلے والی) سورت 10 یعنی یونس، (رکوع 11 کے بَعد والے) رکوع یعنی 12 کی دوسری آیت یعنی 62 نمبر، جو 11 الفاظ پر مشتمل ہے، "[1]اَلَاۤ [2]اِنَّ [3]اَوْلِیَآءَ [4]اللّٰهِ [5]لَا [6]خَوْفٌ [7]عَلَیْهِمْ [8]وَ [9]لَا [10]هُمْ [11]یَحْزَنُوْنَ" ["سن لو، بےشک، اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے"]۔

علم المیراث، نور العرفان اور تفسیر نعیمی کے علاوہ، مفتی احمد یار خان نعیمی نے متعدد دیگر کتب تالیف فرمائیں، جن میں مواعظِ نعیمیہ، شانِ حبیب الرحمٰن، اسرار الاحکام، سلطنتِ مصطفے اور اسلامی زندگی کے نام بہت نمایاں ہیں[8] ۔ مندرجہ ذیل چند تصانیف ترتیب الف بائی سے ملاحظہ ہوں:

نام موضوع
اجمال ترجمہ اکمال اسماء الرجال
اسلام کی چار اصولی اصطلاحیں عقائد
اسلامی زندگی متفرق
امیر معاویہ پر ایک نظر سیرت
تفسیر نعیمی تفسیر
جاء الحق وزہق الباطل کلام
درسِ قرآن تفسیر
دیوان سالک نعت
رحمت خدا بوسیلہ اولیاء اللہ سیرت
رسالہ نور سیرت
سلطنت مصطفے در مملکت کبریاء سیرت
شان حبیب الرحمن من آیات القرآن سیرت
علم القرآن لترجمۃ الفرقان اصول تفسیر
علم المیراث میراث
فتاویٰ نعیمیہ فقہ
الکلام المقبول فی شرافۃ نسب الرسول سیرت
مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح شرح حدیث
معلم تقریر متفرق
مواعظ نعمیہ متفرق
نعیم الباری فی انشراح بخاری شرح حدیث
نور العرفان تفسیر

القابات ترمیم

مفتی احمد یار خان نعیمی کو مفسر شہیر، حکیم الامت وغیرہ القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ سن [1377ھ] 1957ء میں، حاشیہ قرآن مجید نور العرفان میں، حاشیہ قرآن مجید نور العرفان لکھنے پر مُلک کے نامور علماے کرام اور تحریک پاکستان کے حامی جید علماء کی تنظیم مفتی احمد یار خان نعیمی کو حکیم الامت کا لقب عطا فرمایا۔ چنانچہ شیخ بلال احمد صدیقی لکھتے ہیں:

حکیم الامت کو 1957ء میں حاشیہ قرآن مجید لکھنے پر پیرسید معصوم شاہ صاحب نوشاہی قادری، مالکِ نوری کتب خانہ، لاہور، کی تحریک پر پاکستان کے جید علماءکرام نے متفقا تجویز فرمایا، اور ہندوستان کے علماء اہلسنت نے اس لقب کو تسلیم کیا، اور پہلی بار [یہ لقب] آپ کے حاشیہ القرآن مسمیٰ نور العرفان [کے] سرورق پر طبع ہوا۔ ان علما کرام کے اسماء گرامی جنھوں نے حکیم الامت کے لقب سے نوازا [مندرجہ ذیل ہیں]:

  • پیر سید معصوم شاہ نوشاہی
  • سید ابو الکمال برق نوشاہی
  • شیخ الحدیث عبد الغفور ہزاروی
  • شیخ الحدیث مولا نا سردار احمد
  • غزالی زماں مولانا سید احمد سعید کاظمی شاہ
  • پیر سید محمد حسین شاہ ابن سید امیر ملت پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری ( حیدر آباد، دکن، پاکستان )
  • بابو جی، گولڑہ شریف
  • قاری احمد حسین رہتکی خطیبِ اعظم عیدگاه، گجرات
  • صاحبزادگانِ صدر الافاضل سید نعیم الدین صاحب مراد آبادی[10]

وفات ترمیم

مفتی احمد یار خان نعیمی نے 3رمضان المبارک 1391ھ بمطابق 24 اکتوبر 1971ء کو وصال فرمایا۔ نماز جنازہ مولانا سید ابو البرکات احمد نے پڑھائی۔ آپ کا مزار ضلع گجرات (پاکستان) میں ہے۔[11]

جامعاتی تحقیق ترمیم

  • انصر محمود، مفتی احمد یار خان نعیمی کی حیات و خدمات، منہاج یونیورسٹی: لاہور۔
  • دلاور حسین، تخریج جاء الحق: حصہ دوم، منہاج یونیورسٹی:  لاہور۔
  • ساجد محمود عابد، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اور ان کی تفسیری خدمات، بہا الدین یونیورسٹی: ملتان۔
  • فیصل منیر، مفتی احمد یار خان نعیمی کی تصنیفی خدمات، امپیرئیل کالج آف بزنس سڈڈیز: لاہور۔
  • محمد افضل قادری، تخریج جاء الحق: حصہ اوّل، منہاج یونیورسٹی:لاہور۔
  • محمد عرفان، مفتی احمد یار خان نعیمی کا منہجِ تفسیر بحوالہ تصوف، بہا الدین یونیورسٹی: ملتان۔

ماخذ و مراجع ترمیم

بنیادی ترمیم

  • مولانا مہر علی شاہ، الیواقیت المھریہ فی شرح الثورۃ الھدیہ، مکتبۃ المہریہ: چشتیاں، بہاول نگر [تاریخ درج نہیں، تاہم "مقدمہ" میں مصنف نے یہ تاریخ درج کی ہے] 1384ھ/1964ء۔
  • قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء۔
  • شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء۔

ثانوی ترمیم

  • مولانا مفتی عبدالحمید نعیمی، حیات حکیم الامت، "ولادت شریف"، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء۔
  • المدینۃ العلمیہ، فیضان مفتی احمد یار خان نعیمی ، مکتبہ المدینہ: کراچی، [2016ء]۔
  • مولانا محمد نوید کمال مدنی، تفسیر نعیمی سے حکمت بھری مثالیں: تفسیر نعیمی میں آیات قرآنیہ کی تفسیر میں بیان کردہ 1409 ایمان افروز عقلی مثالوں کا مجموعہ، مکتبہ اعلیٰ حضرت: لاہور، 1439ھ/2018ء۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 13۔
  2. ^ ا ب مولانا مفتی عبدالحمید نعیمی، حیات حکیم الامت، "ولادت شریف"، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء، ص 26۔
    • قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، ص 13
    • مولانا مہر علی شاہ الیواقیت المہریہ، ص 39 مولانا مہر علی شاہ، الیواقیت المھریہ فی شرح الثورۃ الھدیہ، مکتبۃ المہریہ: چشتیاں، بہاول نگر [تاریخ درج نہیں، تاہم "مقدمہ" میں مصنف نے یہ تاریخ درج کی ہے] 1384ھ/1964ء، ص39۔
    • شرفِ ملّت محمد عبدالحکیم شرف قادری تذکرہ اکابر اہلِ سنت: پاکستان، ص54 محمد عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلِ سنت: پاکستان، "الف: 8۔ حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ"، شبیر برادرز پبلشرز: لاہور، 1396ھ/1976ء، ص54۔
  3. قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 23۔
  4. ^ ا ب پ شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 60 تا 62۔
  5. ^ ا ب قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص83 تا 87ملخصاً۔
  6. ^ ا ب محمد عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلِ سنت: پاکستان، "الف: 8۔ حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ"، شبیر برادرز پبلشرز: لاہور، 1396ھ/1976ء، ص 55 ملخصاً۔
  7. ^ ا ب شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص62۔
  8. مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ، تفسیر نعیمی، جلد1، ص 701۔
  9. شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 186۔
  10. المدینۃ العلمیہ، فیضان مفتی احمد یار خان نعیمی ، مکتبہ المدینہ: کراچی، [2016ء]، ص 64تا 65۔