توما ایکویناس ایک مسیحی فلسفی، مقدس (سینٹ) اور عالم دین تھے۔ جزیرہ صقلیہ میں پیدا ہوئے۔ اپنے وقت کے بہترین استادوں سے فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ شہنشاہ فریڈرک ثانی کے دربار میں ملازمت کی۔ لیکن 1243ء میں درویشی اختیار کر لی۔ آپ نے اپنی مذہبی فلسفیانہ تصانیف میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فطرت پرستی اور عقل پرستی کو مسیحی عقائد سے بہ آسانی ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

مقدس توما ایکویناس
توما کی پندرہویں صدی کی مصوری
معلم کلیسیا
پیدائش1225ء
روکاسیکا، مملکت صقلیہ
وفات7 مارچ 1274ء (عمر 48–49)
فیسانوا، پاپائی ریاستیں
قداست18 جولائی 1323ء, آوینیو، پاپائی ریاستیں بدست پوپ جان بیست و دوم
مزارجاکوبنز کلیسا،
تولوز، فرانس
تہوار28 جنوری (7 مارچ، 1969ء تک)
منسوب خصوصیاتخلاصۂ الٰہیات
سرپرستیمعلمین؛ ضد طوفان؛ ضد آسمانی بجلی؛ عُذَر خُواہان؛ ایکوینو، اطالیہ؛ بیلکاسترو، اطالیہ؛ کتب فروش؛ کیتھولک درس گاہیں، اسکول اور جامعات؛ عفت؛ فالیرنا، اطالیہ؛ آموزش؛ پنسل سازان; فلسفی؛ ناشرین؛ فضلا؛ طالب علم؛ جامعہ سینٹ۔ توما؛ سانتو توماس، باتانگاس؛ الٰہیات دان۔[1]
معلم کلیسیا   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
توما ایکویناس
(لاطینی میں: Thomas Aquinos ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
توما ایکویناس کی چودہویں صدی کی مصوری۔

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1225ء [2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
روکاسیکا [3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 مارچ 1274ء (48–49 سال)[5]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فوسانوا ایبے [6]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد لینڈلفے ڈی ایکوینو   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی مونٹی کاسینو
جامعہ ناپولی
جامعہ پیرس
استاذ البرٹس میگنس   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ہینری بیٹ ،  ریمیگیو ڈئی گرولامی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان [7][8][9]،  پروفیسر ،  فلسفی [9]،  مصنف [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان لاطینی زبان [10]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ ،  الٰہیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں
مؤثر موسیٰ بن میمون ،  سائیسیرو ،  یعقوب ابن اسحاق الکندی ،  ابن رشد [11]،  البرٹس میگنس ،  ابن سینا [12]،  آگسٹین ،  افلاطون ،  ارسطو ،  پولس ،  ابو حامد غزالی ،  بطریق اعظم گریگوری اول   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک اصول متکلمین   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

متکلمین کا بادشاہ کہلانے والے اطالوی فلسفی اور ماہرِ الٰہیات مقدس توما ایکویناس کی تصنیفات نے اُسے علم الکلام میں ایک اہم ترین شخصیت بنا دیا اور رومن کاتھولک ماہرِ الٰہیات کے درمیان بلند مقام دلوایا۔ وہ ایکینو کے قریب Roccasecca کے مقام پر اعلٰی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اور مونٹ کاسینو کی بینیڈکٹی خانقاہ اور نیپلز یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ گریجوایشن کرنے سے پہلے ہی 1243ء میں ڈومینیکی سلسلے میں شامل ہو گیا۔ تھامس کے مذہبی رجحانات پر معترض ماں نے اُسے دو سال خاندانی قلعے میں بند رکھا مگر اُسے منتخب کردہ راہ سے باز رکھنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ 1245ء میں ماں کی قید سے رہائی پانے کے بعد ایکویناس اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیرس گیا وہاں جرمن متکلم فلسفی البرٹس میگنس کے پاس پڑھنے کے بعد اُس کے ساتھ ہی کولون چلا گیا (1248ء)۔ ایکویناس بھاری بھر کم اور کم سخن تھا، لہٰذا طلبہ اُسے ”گنگا بیل“ کہنے لگے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ البرٹس میگنس نے پیش گوئی کی تھی کہ ”اس بیل کے ٹکرانے کی آواز ایک دن ساری دنیا میں گونجے گی۔“

تقریباً 1250ء میں ایکویناس پادری بنا اور 1252ء میں پیرس یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اُس کی اولین تحریریں دو سال بعد سامنے آئیں جو لیکچرز پر مبنی تھیں۔ اُس کی پہلی اہم کتاب ”Writings on the books of Sentences“ (1256ء) کلیسیا کے ساکرامنٹوں سے متعلق ایک مؤثر تصنیف کی شرحات پر مشتمل تھی جو اطالوی ماہرِ الٰہیات پیٹر لومبارڈ نے لکھی۔

1256ء میں ایکویناس کو الٰہیات میں ڈاکٹریٹ ڈگری ملی اور پیرس یونیورسٹی میں فلسفے کا پروفیسر تعینات ہوا۔ پوپ الیگزینڈر چہارم نے 1259ء میں اُسے روم بلایا جہاں وہ پاپائی دربار میں بطور مشیر اور خطیب کام کرتا رہا۔ 1268ء میں پیرس آنے پر ایکویناس فوراً فرانسیسی فلسفی Siger de Brabant اور ابن رشد کے دیگر پیروکاروں کے ساتھ علمی جھگڑے میں پڑ گیا۔ ارسطوئی تعلیمات کی قوت، صراحت اور معتبریت نے تجربی علم کا اعتماد بحال کیا اور ابن رشد پسندوں کے فلسفیانہ مکتبہ کو جنم دیا۔ ابن رشد کے پیروکاروں نے زور دیا کہ فلسفہ مکاشفہ سے جدا ہے۔

ابن رشد کے مسلک نے رومن کاتھولک عقیدے کی بالادستی کو خطرے سے دو چار کیا اور راسخ العقیدہ مفکرین کو بھی خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں۔ ابن رشد پسندوں کی پیش کردہ ارسطو کی تفسیر کو نظر انداز کرنا ناممکن تھا۔ اُس کی تعلیمات کو ملعون قرار دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اُس سے نمٹنا ضروری تھا۔ البرٹس میگنس اور دیگر محققین نے ابن رشد ازم سے نمٹنے کی کوشش کی مگر انھیں بہت کم کامیابی ہوئی۔ ایکویناس شاندار انداز میں کامیاب رہا۔

مقدس توما ایکویناس نے بہت کچھ لکھا۔ تقریباً 80 تصنیفات اس سے منسوب کی جاتی ہیں۔ دو کتابیں Suma Contra Genitiles اور خلاصۂ الٰہیات (Suma Theologica) خاص طور پر اثر انگیز ثابت ہوئیں۔ اِن کا مقصد دانشور مسلمانوں کو مسیحی عقیدے کی سچائی پر قائل کرنا تھا۔ Suma Theologica کے تین حصے ہیں: خدا، اخلاقی زندگی اور مسیح۔ وہ آخری حصہ مکمل کیے بغیر ہی 1274ء میں دنیا سے چلا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. سینٹ توما ایکویناس – کیتھولک ویب گاہ
  2. ^ ا ب عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
  3. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118622110
  4. سی ای آر ایل - آئی ڈی: https://data.cerl.org/thesaurus/cnp01318547
  5. عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Saint-Thomas-Aquinas
  6. JSTOR article ID: https://www.jstor.org/stable/10.2307/j.ctt28522k
  7. خالق: گیٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ — تاریخ اشاعت: 12 جون 2013 — یو ایل اے این - آئی ڈی: https://www.getty.edu/vow/ULANFullDisplay?find=&role=&nation=&subjectid=500330859 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 مئی 2019
  8. BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/256/ — اخذ شدہ بتاریخ: 5 فروری 2021
  9. https://cs.isabart.org/person/60389 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  10. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/7329891
  11. https://archive.org/details/misquotingmuhamm0000brow/page/12/mode/2up
  12. https://iep.utm.edu/avicenna-ibn-sina/#H3
  13. جوناتھن اے۔سی براؤن (2014)۔ مسکوئٹنگ محمد: دی چیلنج اینڈ چوئسز آف انٹرپریٹنگ دی پروفیٹس لیگیسی۔ ون ورلڈ بپلکیش۔ صفحہ: 12۔ ISBN 978-1-78074-420-9۔ Thomas Aquinas admitted relying heavily on Averroes to understand Aristotle.