تیمار داری میں خواتین
نرسوں یا تیمار داروں کا عالمی دن انٹر نیشنل کونسل آف نرسیز کے زیر اہتمام 1965ء سے لے کر اب تک ہر سال 12 مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس دن جدید تیماری کی بانی برطانوی نرس فلورنس نائٹ انگیل کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ جنھوں نے 1854ء کی جنگ میں صرف 38 نرسوں کی مدد سے 1500 زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیمار داری کرکے صرف 4 ماہ کی مدت میں شرح اموات کو 42 فی صد سے کم کرکے 2 فی صد تک کر دیا تھا۔[1] اس طرح سے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ تیمار داری میں خواتین (انگریزی: Women in nursing) کی حصے داری مردوں کے مقابلے زیادہ شہرت رکھتی ہے۔ انگریزی لفظ نرس کا اطلاق عام طور سے خواتین کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اس پیشے میں شامل مردوں کو انگریزی میں وارڈ بوائے یا میڈیکل ایٹینٹنٹ کہا جاتا ہے۔ ایک اور لفظ ہیلتھ ورکر بھی رائج ہے، مگر وہ صنی طور پر غیر جانب دار ہے اور تیمار داری کے علاوہ بھی دیگر صحت کی دیکھ ریکھ جڑے دیگر لوگوں کے لیے بھی مستعمل ہو سکتا ہے، جیسے کہ امراض اور حفظان صحت کے موضوع پر عوام میں بے داری پیدا کرنے والے سماجی کار کن یا کسی ہسپتال میں عام انتظامی عہدے پر فائز شخص بھی اس زمرے میں آ سکتا ہے۔
تیمار داری کا پیشہ مکمل توجہ، چاق و چوبند اور حرکیاتی رویے اور صبر کا طلب گار ہوتا ہے۔ عورتیں چونکہ مردوں کے مقابلے نسبتًا زیادہ صابر ہوتی ہیں، اس وجہ سے یہ پیشہ ان کے لیے کچھ تربیت کے بعد موزوں ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عورتیں بیمار، زخمی اور کئی مریضانہ مراحل سے دو چار عورتوں کے علاج اور ان کی دیکھ ریکھ پر توجہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان
ترمیمپاکستان میں تیمار داری کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ 1949ء میں سنٹرل نرسنگ ایسوسی ایشن اور 1951ء میں نرسیز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم پاکستان کی نرسیں جدید دور میں مشاہروں اور دیگر کئی مسائل کاشکار ہیں۔اس وقت نامساعد حالات کی وجہ سے سالانہ 30 ہزار سے زائد نرسیں دوسرے ممالک کا رخ کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے تعداد کم ہونے کی وجہ سے موجودہ اندرون ملک نرسوں پر کام کا بے پناہ دباﺅ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی اکثریت میں ڈپریشن، کمر درد، کی بیماریاں عام ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ گوشوں سے یہ بھی شکایت ہے کہ میڈیا نے اکثر نرس کو منفی کردار میں دکھایا ہے۔[1]