طب میں خواتین
طب میں خواتین (انگریزی: Women in medicine) کا ذکر متعدد ابتدائی تہذیبوں میں ملتا ہے اور قدیم یونان میں فطری فلسفے کا مطالعہ خواتین کے لیے دستیاب تھا۔ پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں کیمیا کی ابتدائی سائنس میں خواتین نے اپنا حصّہ ڈالا۔ قرونِ وسطیٰ کے راہب خانے خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اہم مقام رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض نے خواتین کو اس کے مواقع بھی فراہم کیے کہ وہ علمی تحقیق میں اپنا حصّہ ڈالیں۔ تاہم جب 11ویں صدی میں پہلی مرتبہ یونیورسٹیوں یا جامعات کا ظہور ہوا تو زیادہ تر خواتین یونیورسٹی تعلیم سے دور رہیں۔و1و اٹلی میں طبّی شعبوں میں خواتین کو تعلیم فراہم کرنے کا رویّہ دیگر مقامات کے مقابلے میں زیادہ آزاد نظر آتا ہے۔ سائنسی شعبوں کی تعلیم میں یونیورسٹی نشست (یونیورسٹی چیئر) حاصل کرنے والی پہلی خاتون کی حیثیت سے معروف شخصیت 18ویں صدی کی اطالوی سائنس داں لارا بسّی تھیں۔
مختلف ممالک کی صورت حال
ترمیمپاکستان
ترمیماکستان کے متعدد غریب علاقوں کی خواتین کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈاکٹر بن کر پریکٹس نہ کرنے والی پچاسی ہزار خواتین کے صرف 50 فیصدکی ہی خدمات اگر بروئے کار لائی جائیں تو کم آمدنی والی کمیونیٹیز کے صحت سے متعلق 70 فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ خواتین ڈاکٹر ڈاکٹر ہونے کہ ساتھ ساتھ بیٹی، بیوی اور ماں بھی ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان پر بہت سی دیگر ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ ملک کے معاشرے کا مرد یہ چاہتا ہے کہ گھر کا نظام متاثر نہ ہو اور بچوں کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھائی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عموماﹰ شادی کے بعد ان کے کام کرنے پر سسرال اور شوہر کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے لگتے ہیں، جس کے دباؤ میں آ کر عمومًا خواتین ڈاکٹر گھر بیٹھ کر خاتون خانہ بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔[1]
سعودی عرب
ترمیمسعودی خواتین دیگر شعبہ جات حیات کی طرح طب میں کافی تعاون کر چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر حنان بلخی ہیں وزارت نیشنل گارڈ ز میں متعدی امراض کے انسداد کے ادارے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ یہ سعودی عرب ہی نہیں عالم عرب بلکہ پوری دنیا میں مشہور اور اہم ڈاکٹر مانی جاتی ہیں۔ انھوں نے متعدی امراض کے انسداد میں بڑا نام کمایا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے 2019ء میں ڈاکٹر حنان بلخی کو معاون ڈائریکٹر تعینات کیا۔ انھیں اینٹی بائیوٹک کی مزاحمت کے امور کا چارج دیا گیا۔ بلخی متعدی امراض کے انسداد میں طب و صحت کے شعبے میں کئی کارنامے انجام دے چکی ہیں۔ انھوں نے بہت سارے تحقیقی مقالے تحریر کیے ہیں۔ برڈ فلو، سوائن فلو، کرونا وائرس اور سارس پر ان کے مقالات کو انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔[2]