جتوئی،مظفر گڑھ
جتوئی، پاکستان کا پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کا ایک شہر ہے۔ یہاں کے زیادہ تر زراعت سے وابستہ ہیں مگر کچھ لوگ مزید کاروبار بھی کرتے ہیں۔ یہاں کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 50000 ہے۔ شہر میں صرف ایک سرکاری اسکول، ایک سرکاری کالج اور ایک ہی سرکاری ہسپتال ہے۔ یہاں کی آب و ہوا موسم سرما میں ٹھنڈی اور موسم گرما میں گرم ہوتی ہے۔ یہاں بارشیں اپنے معمول کے حساب سے ہوتی ہیں عموما جنوری سے مارچ تک اور جولائی میں یہاں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس کے مغرب میں پاکستان کا سب سے بڑا دریا (دریائے سندھ) ہے۔پنجابی اور سرائیکی زبان کے معروف شعرا یتیم جتوئی جانباز جتوئی مونس جتوئی، کہترجتوئی کوثر جتوئی، راز جتوئی اور عیسن کا تعلق اسی قصبہ سے تھا۔
ضلع مظفر گڑھ کا، قصبہ اور ایک تحصیل، علی پور سے ۱۶ کلو میٹر اور دریائے سندھ سے ۶ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ دریائے چناب یہاں سے ۱۴ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جتوئی قبیلے کے آباد کرنے کی وجہ سے اس کا نام مشہور ہوا۔ بیان کیاجاتاہے کہ اسے جتوئی قبیلے کے میر بجار خان نے کم و بیش چھ سو سال پہلے آباد کیا تھا۔ جتوئی قبیلے کا تعلق میر جلال خان کی صاحبزادی مسمات جتو کے ساتھ ہے۔ میر جلال خان نے اپنی میراث میررند خان، میراشار خان، میر کورائی خان، میر ہوت خان اور مسمات جتو کے درمیان برابر تقسیم کی۔ جتو کی شادی میرچاکر خان کے بیٹے میر مراد خان کے ساتھ ہوئی، تو اس کے چاروں بھائیوں نے اپنی جائیداد اپنی بہن کو جہیز میں دے دی ۔ اس طرح مراد بن چاکر کی اولاد جتوئی کہلائی۔ ۱۸۷۴ء میں یہاں میونسپلٹی تھی، جسے ۱۸۸۶ء میں ختم کر دیا گیا، ۱۹۲۴ء میں اسے سمال ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا۔ ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۳۹۵۳ افراد پر مشتمل تھی۔انگریزی دور میں یہاں تھانہ اور ریلوے سٹیشن قائم ہوئے۔ ۱۸۸۰ء میں سکول کی عمارت تعمیر ہوئی۔ اب یہاں تحصیل سطح کے دفاتر، طلبا و طالبات کے کالجز، ہائی سکول، دفتر بلدیہ، ہسپتال وغیرہ موجود ہیں۔ یہاں جتوئی ، سادات، غیز لانی، راجپوت، تیلی، موچی، بھٹی، کھوکھر، شیخ قریشی، جولاہے، کمہار، جوئیہ، نوتانی، خواجہ ، کمبوہ ، ہاشمی ، ارائیں اور پتافی وغیرہ قوموں کے افراد آباد ہیں۔ محلہ بلوچاں ، محلہ خواجگان، محلہ راجپوتاں، محلہ کمبوہاں، محلہ تیلیاں، محلہ شیخاں، محلہ نور فریدیہ، محلہ بھورے خان، محلہ سادات اور محلہ آرائیاں یہاں کی اہم رہائشی بستیاں ہیں۔ اندرون شہر سرکلر روڈ، جھگی والا روڈ، جتوئی روڈ، مسافر شاہ روڈ، امام بارگاہ روڈ، تھانہ روڈ، ہسپتال روڈ، جنگلات روڈ اور جام پور روڈ نام کی سڑکیں ہیں جبکہ یہ شہر سلطان روڈ، جتوئی شاہ جمال روڈ اور جام پور روڈ کے ذریعے دوسرے شہروں سے ملا ہوا ہے۔ شہر میں بیس کے قریب مساجد، دو امام بارگاہیں اور سات عید گاہیں موجود ہیں۔ درجن بھر فیکٹریاں بھی ہیں شہر میں چوک دلالاں، چوک نور یہ فریدہ ، چوک علی، چوک صدیق اکبر، چوک فاروق اعظم، چوک کوڑے خان، چوک مسافر شاہ اور چوک چادر والی سرکار بھی ہیں۔مشہور جتوئی سردار کوڑا خاں اسی شہر کے رہنے والے تھے۔ان کی وفات ۱۸۷۸ء میں ہوئی اور مزار یہیں پر ہے۔ انہوں نے ۱۸ہزار ایکڑ زمین ڈسٹرکٹ بورڈ کے نام وقف کی تھی اور اس جائیداد کی آمدنی سے غریب طلباء کو وظائف دئیے جاتے تھے۔ کوڑے خان سرائیکی زبان کے بڑے شاعر بھی تھے۔ سردار نذر محمد خاں جتوئی بھی اس قبیلے کے سردار رہے اور سیاسی قدوقامت رکھتے تھے۔ سردار زادہ عبد القیوم خاں جتوئی ممبر قومی اسمبلی رہے۔ یہاں پیر مسافر شاہ اور پیر مگل شاہ کے مزرات بھی ہیں۔ پیرمسافر شاہ کا ہر سال عرس میلہ دھوم دھام سے ہوتا ہے۔ پنجابی اور سرائیکی زبان کے معروف شعراء یتیم جتوئی جانباز جتوئی مونس، کہتر ، راز جتوئی اور عیسن کا تعلق اسی قصبہ سے تھا۔ یتیم جتوئی کا اصل نام غلام حیدر خاں جتوئی تھا۔ ۱۸۹۴ء میں قصبہ جتوئی میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں یتیم تخلص کرتے تھے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔، انہیں سرائیکی کا شاعرِ انقلاب کہا جاتا ہے جبکہ انہیں فردوسی ملتان کا خطاب بھی دیا گیا۔ دُرِّیتیم کے نام سے آپ کا کلام ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا تھا جبکہ جانباز جتوئی کا اصل نام غلام رسول خاں جتوئی ہے۔ ۱۹۱۸ء میں پیدا ہوئے۔ کئی ادبی تنظیموں کے رکن رہے اور اعزازات حاصل کئے۔ آپ کی تصانیف میں ارداساں اور فضائل محمد شامل ہیں۔ ممتاز عالم، ادیب، سفر نامہ نگار اور نقاد ڈاکٹر اے جی اشرف کا تعلق بھی قصبہ جتوئی سے ہے۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے صدر رہے۔ اس کے بعد انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہوئے ۔آپ کی تصانیف میں آغا حشر اور ان کا فن ، اقبال اور قائد اعظم، لیکچرز آن اقبال اور ڈاکٹر این میری شمل،ادب اور سماجی عمل، منٹو کی بیس کہانیاں، اُردو سٹیج ڈرامہ، غالب اور اقبال، مسائل ادب، ذوق دشت نوردی (سفرنامہ)وغیرہ شامل ہیں۔ قصبہ جتوئی کے دیگر شعراء میں سے کہتر جن کا پورا نام مولانا نور محمد تھا ۱۸۷۱ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۴۱ء میں انتقال کیا۔ وڈا مجموعہ مولود شریف، اصل مجموعہ کلاں وغیرہ آپ کی تصانیف ہیں۔ غلام حیدر مونس ۱۸۹۶ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۵۶ء کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ مختلف اصناف پر مشتمل دیوان کے علاوہ ’’سسّی‘‘ جو قریباً ۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ،اپنی مثال آپ ہے۔ رازجتوئی جن کا اصل نام مرید حسین خان ہے۔ ۱۹۱۷ء میں قصبہ جتوئی میں پیدا ہوئے۔ آپ سرائیکی زبان کے مشہور شاعر اور نثرنگارہیں۔ آپ کی کئی تحریریں شائع ہوئیں۔ محمد اقبال جو شاعری میں تحسین تخلص کرتے ہیں۱۹۴۳ء میںپیدا ہوئے۔ آپ نے ایک شعری مجموعہ ’’ڈکھ دا بار‘‘ ترتیب دیا۔ کوثر جتوئی بھی سرائیکی کے شاعر ہیں۔ کوثر جتوئی دے دوہڑے اور ہجری دوہڑے ان کی تصانیف ہیں۔ منیر طائر اور ڈاکٹر خالد پرویز بھی شعری شناخت رکھتے ہیں۔ جتوئی کی آبادی ۱۹۸۱ء میں ۲۱۴۲۲ اور ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۳۸۹۸۶ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی ۵۵ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ (اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭