جلال الدین احمد بنارسی
سید جلال الدین احمد بنارسی (پیدائش: 1804ء– وفات:1861ء)تیرہویں صدی ہجری کے نامور عالم، محدث اور فقیہ تھے جن کا تعلق سرزمینِ بنارس سے تھا۔
جلال الدین احمد بنارسی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1804ء بنارس |
وفات | سنہ 1861ء (56–57 سال) بنارس |
شہریت | مغلیہ سلطنت (1804–1857) برطانوی ہند (1857–1861) |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، محدث ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی ، اردو |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمنام و نسب اور پیدائش
ترمیممولانا کا نام سید جلال الدین احمد اور بنارس سے تعلق کی نسبت سے ’’بنارسی‘‘ کہلائے۔ نسب یوں ہے: جلال الدین بن عبد الاعلیٰ بن کریم اللہ بن ظہور محمد الہاشمی الجعفری بنارسی۔مولانا کی پیدائش 1804ء میں بنارس میں ہوئی۔[1]
تحصیل علم
ترمیممولانا جلال الدین نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا عبد الاعلیٰ بنارسی (متوفی 1274ھ) سے اور پھر مولانا احمد اللہ اَنامی بنارسی اور شاہ اسماعیل شہید دہلوی سے علم کی تحصیل کی۔ اُس زمانے میں درسِ حدیث میں مولانا عبد الحق نیوتنی بنارسی (متوفی 27 جون 1860ء) کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ مولانا جلال الدین اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن کے حضور زانوئے تلمذ اِختیار کیا اور سندِ حدیث حاصل کی۔ مولانا اپنے استاد سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ ترکِ تقلید اور نصوصِ کتاب و سنت پر عمل کرتے ہوئے استاد کے نقشِ قدم پر چلنا شروع ہو گئے۔[1]
درس و تدریس
ترمیممولانا پہلے غازی پور میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے اور قناعت کی زندگی بسر کرتے رہے۔ اِس کے بعد غازی پور سے بنارس کالج میں فرائضِ تدریس اداء کرنے پر مامور ہوئے۔ عمر بھر وہیں رہے اور تمام زندگی شائقین علم کو مختلف علوم و فنون سے بہرہ ور کرتے رہے۔ بنارس کالج کے زمانہ مُعَلَّمی میں بہت سے انگریزوں نے اُن کی شاگردی اختیار کی۔[2]
وفات
ترمیممولانا جلال الدین کی وفات تقریباً 58 سال کی عمر میں 1861ء میں بنارس میں ہوئی۔[3]
شخصیت
ترمیممولانا جلال الدین علومِ متداولہ اور فنونِ متعارفہ پر عمیق نگاہ رکھتے تھے۔اپنے دور کے جلیل القدر عالم اور رفیع المرتبت فقیہ تھے۔ حاملِ حدیث اور متبع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ نہایت قانع اور متقی تھے۔ قوتِ حافظہ اِس قدر تیز تھی کہ رمضان المبارک میں قرآن مجید کا ایک پارہ اُسی دِن یاد کرکے رات کو نمازِ تراویح میں سنا دیا کرتے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے خوبصورت الفاظ میں مولانا کے اوصافِ بُوقَلمُوں کا ذِکر کیا ہے۔نصوصِ کتاب و سنت پر خود بھی عمل پیراء تھے اور لوگوں کو بھی اِسی کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اسلوبِ تبلیغ انتہائی مؤثر اور دھیما تھا۔ تواضع، انکسار اور نرمیٔ گفتار آپ کے خاص اوصاف تھے۔ سختی اور شدت سے ہمیشہ گریزاں رہے۔وائسرائے ہند آپ کے علم و فضل کی وجہ سے آپ کا بہت احترام کرتا تھا۔[4]